خواتین کا عالمی دن
تحریر: جناب پروفیسر محمد عاصم حفیظ
عالمی یوم خواتین کے حوالے سے اسلام آباد میں نکالی جانیوالی
ایک ریلی میں لہرائے گئے مختلف پلے کارڈز نے سوشل میڈیا پر خوب دھوم مچائی ہے۔ ’’کھانا
خود گرم کر لو‘‘ اور ایسے ہی دیگر جملوں پر ہر طبقے کے افراد طرح طرح کے تبصرے کر رہے
ہیں ۔ کچھ حلقوں کو یہ جملہ معاشرتی نظام سے بغاوت لگا تو کسی نے اسے حقوق نسواں کی
آواز قرار دیا ۔ مجھے یہ بحث کچھ انجان سی لگی ۔ایسے جملے لہرانے والی خواتین کو شاید
ہمارے معاشرے کے بارے کچھ بھول ہوئی ہے ۔ انہیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ دین اور روایات
کے بندھن سے جڑے رشتے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔
عورت سے تقابل ، مرد کی برتری کی باتیں یہ سب انجان سی لگتی
ہیں ۔ بھلا جو زندگی کا حصہ ہو اس سے مقابلہ کیسا؟؟ جی ہاں! اسلامی طرز معاشرت میں
تو عورت کو کہیں مقابل سمجھا ہی نہیں جاتا تو برتری، کمتری کا سوال کیسا؟؟ایک ایسے
معاشرے میں جہاں مرد کو سرتاج کہا جائے وہاں کی عورت بھی تو گھر کی ملکہ ہی کہلاتی
ہے۔دراصل دونوں کے درمیان مقابلے کی غلط فہمی پھیلانے والے خود کسی فریب کا شکار ہیں۔
کتنا خوبصورت رشتہ ہے جو نکاح سے جڑ تا ہے۔ جو مرد اپنے نصف ایمان کے لئے عورت کا محتاج
ہو وہ برتری کا دعوی کیسے کر سکتا ہے۔ ایک خاوند کے طور پر کیا کوئی اللہ تعالی کی
طرف سے عنائیت کردہ اپنی بیوی کے قدموں تلے اولاد کی جنت کا اعزاز چھین سکتا ہے ۔ کیسا
مقابلہ؟ نبی اکرمe نے
تین بار ماں کا حق کہا اور چوتھی بار باپ کا۔ کیا کوئی خاوند اس ترتیب کو بدل سکتا
ہے؟ اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوگا۔ کیا ایک خاوند کو شکر گزار نہیں ہونا چاہیے کہ
اس کی بیوی اسے خاندان جیسی نعمت سے نوازتی ہے ۔ جی ہاں اولاد کی وہ نعمت کہ جو زندگی
کا سہارا بنتی ہے ۔ جو خونی رشتوں کو بھلا کر کسی انجان کے گھر میں زندگی گذارنے آجاتی
ہے ۔ اس گھر کو پھر اپنے ہاتھوں سنوارتی بناتی ہے۔ جس میں آپ کے لئے خوشیاں ہوتی ہیں
۔جو بڑھاپے میں ڈھلتے آپ کے ماں باپ کی خدمت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔یہ سب اس
پر سختی سے فرض تو نہیں لیکن وہ رشتوں کی مٹھاس کی خاطر کرتی ہے۔ کیا خاوند کو شکریہ
ادا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ جیسے اور جس حال میں رکھا جائے خوشی سے رہتی ہے ، کم سہولیات
اور محدودآمدن میں بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گزارہ کرتی ہے ۔ آپ کی گھر سے دوری ،
اولاد اور گھریلو کام کاج کو وقت نہ دینے کے باوجود اپنی سلطنت کو خوشحال رکھتی ہے۔
یہ اچھی اور سمجھدار بیوی ہی ہوتی ہے کہ جو خاوند کے بھائی بہن
اور قریبی رشتہ داروں سے تعلقات کو قائم اور مضبوط بناتی ہے۔ ہر تہوار ، خوشی غمی کو
نبھانے کا ہنر جانتی ہے ، مردوں پر ہوتو وہ اپنے کام کاج میں قریبی رشتہ داروں سے ہی
ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ایک بیوی کے لئے کتنا اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے خاوند کی ہر جگہ عزت
کی جائے۔ وہ ماں کے گھر جانے سے پہلے کتنی ہی ہدایات دیتی ہے کہ وہ بھی آ رہے ہیں۔
جو اتنی عزت دے کیا اس سے مقابلہ کیا جاتا ہے؟ کتنا عجیب لگتا ہے جب کچھ لوگ دین پر
عمل پیرا ہونے سے خواتین کے حقوق صلب کرنے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کیا آپ کو پتہ ہے
کہ سیرت النبیe کی
روشنی میں خاوند کیسا ہوتا ہے۔ جی اسے بیوی کے کھیل کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ
بیوی کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر اس کے ساتھ دوڑ نہیں لگاسکا تو اسے معذرت کرنی چاہیے
اور پہلی فرصت میں اس سنت نبویe پر
عمل کرے ۔ جی کبھی کبھی اپنے ہاتھوں سے نوالے منہ میں بھی ڈالا کرے کیونکہ نبی اکرمe تو
بخوشی ایسا کرتے اور صحابہ کرام کو تلقین بھی کرتے۔ اگر آپ بیوی کے لئے مناسب سہولیات
فراہم نہیں کر پائے یا کمائی کا بڑا حصہ گھر پر خرچ نہیں کرتے تو اپنی اصلاح کر لیں
کیونکہ بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو باعث ثواب قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرمe کی
حیات طیبہ کی روشنی میں بہترین مومن وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے لئے بہترین ہے ۔خاوند
کو بیوی کے لئے سجاوٹ کا حکم ہے۔ کئی احادیث میں عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں
غفلت پرسخت وعید سنائی گئی ہے۔ یہ تعلیمات نبویe گواہ ہیں کہ محسن انسانیت کسی خاوند کی جانب سے اپنی
بیوی کے لئے ذرا سی بھی سختی گوارا نہیں کرتے تھے۔ حقوق نسواں کے نعرے لگاتی چند خواتین
پتہ نہیں کن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ ہمارے پاس تو عائلی زندگی کی شاندار روایات ہیں
اور رشتوں کی مضبوطی اور توازن قائم رکھنے کے لئے سنہری تعلیمات۔ یہ بیوی کا اپنائیت
کا احساس ہی ہوتا ہے کہ جو دن بھر کے تھکے ہارے خاوند کے چہرے پر خوشی و مسرت کا احساس
بکھیر دیتی ہے۔ جو پریشانیوں میں غمخوار بنتی ہے ، حوصلہ ٹوٹے تو صبر و ہمت کی چٹان
بن جاتی ہے ، مشکل وقت آئے تو قدم ساتھ ملا کر چلتی ہے ، کچھ چھن جائے ، محرومی کا
سامنا ہو تو دکھ بانٹ لیتی ہے ۔ جی ہاں یہ سب ایک عورت ہی کرتی ہے کیونکہ وہ گھر میں
کمتر یا برتر نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہے ۔ یہ رشتہ دونوں کو شامل کرکے ہی تکمیل پاتا
ہے ۔ جب کسی کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں تو اس سے مقابلہ کیسا؟؟ کونسی برتری اور کمتری
کا سوال ؟؟ہم کیوں اپنے ہاں ’’کھانا خود گرم کر لو والی‘‘ اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘
والی غلط فہمیوں کا شکار خواتین کی باتوں پر بحث کرکے وقت ضائع کریں۔ جہاں خاوند اپنی
خواہشات، آرام، سکون حتی کہ صحت تک کی قربانی دیکر بیوی کی خوشیوں کا سامان کرتا ہو،
اس کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر ہر مشکل و مصیبت کو جھیل جائے تو اس گھرانے کی ملکہ
اپنے سرتاج کے لئے کھانا شوق سے پکاتی بھی ہے اور گرم بھی کر دیتی ہے۔ اگر کبھی تھکن
، بیماری یا کسی بھی اور وجہ سے نہ بھی کر سکے توخاوند کے خود کھانا گرم کرنے میں حرج
ہی کیا ہے‘ جب بیوی بھی ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہو تو اتنا سا کام تو کر ہی لینا
چاہیے ۔ دراصل یہ بحث تو ہماری ہے ہی نہیں کسی نے ایسے ہی کسی بھولی خاتون کو مغالطے
میں ڈال دیا ہے۔ جو زندگی کا حصہ ہو ، خوشی کا باعث ہو ، دکھ سکھ کی ساتھی ہو اسکے
ساتھ ایسے مقابلے نہیں کئے جاتے ۔ وہ کھانا گرم کر کے دے یا کبھی خود کرنا پڑ جائے
۔ یہ بھی زندگی کاایک دلکش پہلو ہی ہوتا ہے جو انمول یادیں جنم دیتا ہے۔
ویمن ڈے کے حوالے سے لاہور اسلام آباد اور کراچی میں ہونیوالے
مظاہروں کی تصاویر سوشل میڈیا کا ہاٹ ایشو بن چکی ہیں ۔ سنجیدہ حلقے انتہائی پریشان
دکھائی دیتے ہیں اور نصیحت آموز تحریریں لکھی جا رہی ہیں ۔ میری ذاتی رائے میں اس سارے
ہنگامے کا ایک مثبت زاویہ بھی ہے جس پر کچھ زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ۔ ان مظاہروں
نے تو ایک بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے‘ ایک خفیہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا ہے۔ دراصل مغربی
فنڈ یافتہ این جی اوز وقفے وقفے سے ایسے ہنگامے برپا کرتی رہتی ہیں ۔ میرا جسم میری
مرضی ۔ کھانا خود گرم کرو ۔ کم عمری کی شادی کیخلاف مہم اور اسی طرح کچھ زینب کیس
, قندیل بلوچ اور اس جیسے معاشرتی واقعات کو لیکر عورت کی مظلومیت اور آزادی و حقوق
کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ اسلام پسند اور مشرقی روایات کے پیروکار دفاعی پوزیشن پر
ہوتے ہیں ۔ لمبی لمبی نصیحت آموز تحریریں اور قرآن و حدیث کے حوالے دیکر لکھنا پڑتا
ہے کہ عورت کی آزادی کا جو مغربی تصور یہ این جی اوز زدہ لبرل طبقہ پیش کر رہا ہے اس
کے اصل مقاصد کیا ہیں ۔ یہ دراصل مغربی طرز معاشرت چاہتے ہیں جس کیلئے خاندان کی تباہی
اور عورت کو آزادی کے نام پر اپنی عیاشی کیلئے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہے ۔ لیکن
یقین مانیں یہ ساری تحریریں اتنا اثر نہیں ڈالتیں اور مغربیت و ماڈرن ازم سے متاثرہ
طبقے کو اتنا متاثر نہیں کرتیں جتنا ان حیا باختہ پوسٹرز نے کیا ہے ۔ خواتین کی آزادی
اور حقوق کے موضوع پر لکھتے ہوئے ’’تنگ نظری‘‘ ’’مردانہ سوچ‘‘ جیسے طعنوں کا سامنا
کرنا پڑتا ہے ۔ بعض روایتی گھرانوں کی نوجوان لڑکیاں بھی فیشن کے طور پر ان نعروں سے
متاثر دکھائی دیتی تھیں لیکن اس بار این جی اوز کے اصل ایجنڈے کی نقاب کشائی نے سارا
مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔ دین بیزار ماڈرن ازم کی طرف راغب اور محض فیشن کے طور پر عورت
کی آزادی کے مغربی تصورات کی حمایت کرنیوالے طبقے اس بار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ان
کے پاس ان فحش اور بیہودہ پوسٹرز اور نعروں کا کوئی جواب نہیں۔ اس بار کسی نصیحت آموز
تحریر کی ضرورت نہیں۔ عاجزی و انکساری اور قرآن و حدیث سے اسلامی دلائل دینے کی بھی
ضرورت نہیں۔ مسئلہ خود بخود حل ہو گیا ہے ۔ ایجنڈا واضح ہے کہ لبرل آنٹیاں ماضی میں
جو مطالبے گھما پھرا کر کرتیں تھیں اب سرعام اعلان کر دیا گیا ہے ۔ یہ واضح ہو گیا
ہے کہ مساوات ۔ حقوق‘ شادی کی عمر بڑھانا‘ ملازمتوں کے مطالبے اور بڑے بڑے ہوٹلوں کے
سیمینارز کے اصل مقاصد کیا ہیں ۔ جو نوجوان لڑکیاں اس طبقے سے جانے انجانے میں متاثر
ہو رہی تھیں انہیں بھی خوب پتہ چل گیا ہے کہ لبرل آنٹیاں دراصل انہیں کہاں لے جانا
چاہتی ہیں۔ آپ کو ان کے اصل مقاصد بتانے کیلئے کسی قسم کے دلائل کی ضرورت نہیں بس ان
نعروں اور پوسٹرز کی وضاحت پوچھ لیں ۔ ان کو کوئی الزام نہ دیں اور نہ بحث کریں ۔ ان
سے ضرور پوچھیں:
’’میں آوارہ میں بدچلن‘‘ … ’’ہم بے شرم ہی صحیح‘‘ … ’’میں اکیلی آوارہ
آزاد‘‘ … ’’چادر اور چار دیواری ذہنی بیماری ذہنی بیماری‘‘ … ’’شادی کے علاوہ بھی اور
بہت کام ہیں‘‘ … ’’رشتے نہیں‘ حقوق چاہیں ۔‘‘ … ’’اپنا بستر خود گرم کر لو‘‘ … ’’ناچ
میری بلبل ناچ ۔ تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا‘‘ … ’’میری شادی کی نہیں آزادی کی فکر کرو‘‘
… ’’اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو ‘‘ … ’’میری شرٹ نہیں تمہاری سوچ
چھوٹی ہے‘‘ … ’’مرد میرے سر کا تاج نہیں۔‘‘
یہ چند نعرے تھے ۔ اس کے علاوہ تصاویر سے فحش ترین پورٹریٹ بھی
بنائے گئے ۔ ’’کھانا خود گرم کر لو‘‘ کیساتھ ہی عاصمہ جہانگیر کی بہن حنا جیلانی کیساتھ
کھڑی ایک لبرل آنٹی نے ’’مجھے ٹائر بدلنا آتا ہے‘‘ کا پوسٹر بھی پکڑ رکھا تھا۔ ’’اپنا
ٹائم آگیا‘‘ کے پوسٹر پر بنے ہاتھوں میں سگریٹ بھی تھی اور فحش اشارے بھی۔ ’’بستر گرم‘‘
کرنے سے لیکر ماہواری تک کی تشہیر بھی کی گئی۔ ٹائر بدلنے کا ہنر جاننے والی آنٹی موزہ
ڈھونڈنے سے انکار کرتی دکھائی دی ۔ خیر ان پوسٹرز میں اور بھی بہت کچھ تھا جو کہ ان
تمام عزائم کا اظہار تھا کہ این جی اوز اور لبرلز وماڈرن بنتے اس طبقے کے نزدیک آزادی
نسواں اور عورت کے حقوق سے مراد کیا ہے ۔ یقینا یہ چھوٹا سا طبقہ پورے معاشرے کا عکاس
نہیں ہاں البتہ یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ خواتین کے بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کرنیوالے
سنجیدہ حلقے یہ کہتے پائے گئے کہ ان بے لگام اور آوارہ گرد و بے شرم ہونے کی دعویدار
این جی اوز والی آنٹیاں خواتین کی اصل نمائندہ نہیں ہیں ۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ
ان کے مقاصد کچھ اور ہیں لیکن کچھ حلقوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ شکر ہے اب انہیں
بھی احساس ہو جائے گا۔ کوئی بھی معاشرہ خواتین کے حقیقی کردار کے بغیر ترقی نہیں کر
سکتا اور کوئی بھی ان سے انکار نہیں کر سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سب کا تعین
معاشرتی و دینی روایات کے دائرے میں ہی ممکن ہے۔ بے لگام آزادی اور آوارہ ذہن انتشار
کا باعث ہے جبکہ عورت کے حقوق کا مغربی تصور ہماری معاشرتی روایات کا عکاس نہیں۔ یہ
سب خواتین کے حقوق کے کھوکھلے نعرے کا اظہار تھا جس کی نمائش سڑکوں پر کر دی گئی۔ حکومتی
اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ یہ سرگرمیاں معاشرتی انتشار کا باعث بنتی ہیں۔
جس طرح نیشنل ایکشن پلان کے تحت نفرت آمیز مواد کو کنٹرول کیا گیا بالکل اسی طرح انتشار
اور فحاشی و بے راہ روی کے ان مظاہروں کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سبق مغربیت
و ماڈرن ازم سے متاثر ہونیوالی نوجوان نسل کیلئے بھی ہے کہ اس مغربی طرز معاشرت کی
معراج یہی وہ سب کچھ ہے جس کے نعرے یہ لبرل آنٹیاں لگاتی رہی ہیں۔ انہیں خوب سوچ لینا
چاہیے کہ کس طرز زندگی کے ساتھ چلنا ہے۔ خود کو فخریہ علی الاعلان بدچلن‘ آوارہ اور
بے شرم قرار دینے والوں کیساتھ یا ایک باوقار۔ باعزت خاندانی نظام کے زیر سعادت بھری
زندگی ۔ یقین مانیں انتہائی درد بھرے لہجے میں صرف درخواست ہی ہے اور ان کی ہدایت و
اصلاح کے لئے صدق دل سے دعا بھی ۔ آئیے ایک باعزت‘ باوقار اور محفوظ زندگی کی طرف
۔ آپ کو حقوق بھی ملیں گے اور آزادی بھی ۔
No comments:
Post a Comment