پرندوں اور جانوروں کے حقوق
تحریر: جناب مولانا محمد عظیم حاصل
پوری
20مارچ کو پاکستان اوردنیا بھر میں پرندوں کے حقوق کا عالمی دن منایا
جاتا ہے۔جس میں پرندوں کے حقوق سے آگاہی اور ان کی نسلوں کی بقاپر بات کی جاتی ہے۔
ان تمام چیزوں پر بحث ہوتی ہے جو ان کے لیے نقصان دہ ہیں مثلا بڑھتی ہوئی آلودگی،
درختوں کی کمی، موبائل فونز کے ٹاورز سے نکلتی زہریلی لہریں، کچے گھروں کی بجائے پکے
گھروں کی کثرت اور فصلوں پر چھڑکی جانے والی زہریلی ادویات وغیرہ شامل ہیں۔
پرندے کائنات کا حسن ہیں‘ ان کی چہکار ماحول کو خوشنما بنانے
میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اسلام پرندوں کے حقوق کے حوالہ سے ہماری کیا راہنمائی کرتا
ہے آج ہم اس پر بات کریں گے۔
اسلام میں پرندوں اور دوسرے جانوروں کے بہت سے حقوق ہیںجن کی
پاسداری ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو یقینا بہت سی ختم ہونے
والی نسلیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔پرندوں کے چند ایک حقوق:
پرندوں کو بے جا پریشان نہ کیا جائے!
سیدنا عبداللہ بن مسعودt فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہeکے ساتھ تھے۔ آپ
قضائے حاجت کے لیے ایک طرف گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے۔
ہم نے اس کے بچے اٹھا لیے اور وہ چڑیا اپنے بچوں کے قریب ہو کر پھڑپھڑانے لگی‘ نبی
رحمت تشریف لائے تو فرمایا:
[مَنْ فَجَعَ ھٰذِہِ
بِوَلَدِھَا رُدُّوْا وَلَدَھَا إلَیْھَا]
’’کس نے اس کے بچے
اٹھا کر اس کو مضطرب کیا ہے‘ اس کے بچے اس کے پاس واپس رکھ آؤ۔‘‘
پھر آپ نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے آگ لگا دی تھی‘
آپ نے فرمایا: اسے کس نے آگ لگائی ہے؟ ہم نے کہا : ہم نے توآپ نے فرمایا:
[إنَّہُ لَا یَنْبَغِی
أَن یُّعَذِّبَ بِالنَّارِ إلَّا رَبُّ النَّارِ.] (أبوداود، الأدب، باب فی قتل
الذر: 5286، صحیح]
’’یہ درست نہیں ہے
کہ آگ کے ذریعے آگ کے رب کے سوا کوئی اور عذاب دے ۔‘‘
مسند احمد کی روایت میں (چڑیا کے بچوں کے علاوہ) انڈوں کا ذکر
ہے۔ رسول اللہeنے سوال کیا کہ اسے کس نے تکلیف پہنچائی ہے تو ایک شخص نے کہا:
[أنَا أَصَبْتُ
لَھَا بَیْضًا.] (مسنداحمد: ۳۸۳۵، الأدب المفرد: ۳۸۲، صحیح)
’’میں نے اس کے انڈے
اٹھائے ہیں۔‘‘
تو رسول اللہeنے فرمایا: واپس رکھ دے۔
جانوروں اور پرندوں پر رحم کرو
صرف انسانوں ہی پر نہیں بلکہ اﷲ کی دیگر مخلوقات، جیسے جانوروں
اور پرندوں پر بھی رحم کرنے کی احادیث میں تاکید کی گئی ہے۔
قرہ بن معاویہt کا
بیان ہے کہ ایک آدمی نبیe سے
عرض کرنے لگا کہ میں بکری ذبح کروں گا اور (ذبح کرتے وقت) میں اس پر رحم کروں گا۔
آپe نے
فرمایا:
[وَالشَّاۃَ اِنْ
رَحِمْتَھَا رَحِمَکَ اﷲُ.]
’’اگر تو بکری پر
رحم کرے گا تو اﷲ تجھ پر رحم کرے گا۔‘‘ (مسند
احمد: ۵/۳۴)
پرندوں پر شفقت کرو
اسی طرح ابو امامہt کی بیان کردہ حدیث میں ہے کہ رسول اﷲe نے
فرمایا:
[مَنْ رَحِمَ وَلَوْ
ذَبِیْحَۃَ عُصْفُوْرٍ رَحِمَہُ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.]
’’جو رحم کرتا ہے
اگرچہ پرندے کے ذبیحے پر ہی کرے، اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائیں گے۔‘‘ (سلسلۃ
احادیث الصحیحۃ:۲۷)
بغیر ضرورت چڑیا کو قتل نہ کیا جائے
بعض لوگ زہریلی ادویات کے ذریعے ان کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں
اور کچھ شکار کے لیے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ جن سے بہت سے پرندے مارے تو جاتے
ہیں لیکن وہ کسی کام نہیں آسکتے۔ رسول اللہ eارشاد فرماتے ہیں:
[مَا مِنْ إِنْسَانٍ
قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَہَا بِغَیْرِ حَقِّہَا إِلاَّ سَأَلَہُ اللَّہُ عَزَّ
وَجَلَّ عَنْہَا.] (النسائی، الصید والذبائح، باب إباحۃ أکل العصافیر: ۴۳۵۴، حسن عند
زبیر علی زئی رحمہ اللہ)
’’جوشخص چڑیا یا
اس سے چھو ٹے جانور کو ناحق قتل کرے تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس سے اس کے بارے
میں پوچھے گا۔‘‘
پوچھا گیا اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا : اسے ذبح کر کے کھائے‘ اس
کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے ۔
ذبح کرتے وقت چھری تیز کر لینا چاہئے
ذبح کرتے وقت کوئی تیز دھار آلہ استعمال کیا جائے تاکہ مذبوح
کو تکلیف کم ہو سیدنا شداد بن اوسtکہتے ہیں‘ میں نے دو چیزیں رسول اللہeسے حفظ کی ہیں‘ آپe نے فرمایا:
[إِنَّ اللَّہَ کَتَبَ
الإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ وَإِذَا
ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْیُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ فَلْیُرِحْ
ذَبِیحَتَہُ.] (مسلم، الصید والذبائح وما یؤکل من الحیوان، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل:۱۹۵۵، والنسائی: ۴۴۱۱)
’’اللہ نے ہر چیز
پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو (یعنی
فورا قتل کردو تڑپاؤ نہیں) اور جب کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو ،اس کے
لیے اپنی چھری تیز کر لو اور ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچاؤ۔‘‘
باندھ کر نشانہ بازی نہ کی جائے
اسلام نے جانوروں کے حقوق رکھے ہیں‘ ان کو حق آزادی دیا ہے‘
اگر کسی کو نشانہ لگانا ہے آزاد کو لگاؤ تاکہ اسے جان بچانے کا موقع میسر ہو‘ اس
کے لیے ممکن ہو تو اڑ جائے یابھاگ جائے۔
حضرت ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں سیدنا انس بن مالکt کے
ساتھ حکم بن ایوب کے پاس آیا، دیکھا کہ کچھ لڑکے مرغی باندھ کر اسے تیر مار رہے ہیں۔
سیدنا انسt فرمانے
لگے:
[نَھَی النَّبِیُّﷺ
أَنْ تُصْبَرَ الْبَہَائِمُ.] (البخاری، الذبائح والصید، باب ما یکرہ من المثلۃ والمصبورۃ
والمجثمۃ: ۵۵۱۳)
’’نبیe نے
جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
جانور کا مثلہ نہ کیا جائے
سیدنا عبداللہ بن عمرwبیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہeکو یہ فرماتے ہوئے سنا:
[لَعَنَ اللّٰہُ
مَنْ مَثَّلَ بِالْحَیَوَانِ.]
’’ا للہ تعالیٰ اس
پر لعنت فرمائے جس نے جانور کا مثلہ کیا۔‘‘ (نسائی: ۴۴۴۲)
جانوروں کے چہرے کو نہ داغا جائے
سیدنا جابرtکہتے ہیں کہ رسول اللہe ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے چہرے پر داغ لگایا گیا
تھا تو رسول اللہeنے فرمایا:
[لَعَنَ اللّٰہُ
الَّذِی وَسَمَہُ.] (مسلم، اللباس والزینۃ، باب النھی عن ضرب الحیوان فی وجھہ ووسمہ
فیہ: ۲۱۱۷)
’’اللہ اس پر لعنت
فرمائے جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘
ابوداود کی روایت میں چہرے پر مارنے کی ممانعت بھی موجود ہے۔
آپeفرماتے ہیں:
[أَمَا بَلَغَکُمْ
أَنِّی قَدْ لَعَنْتُ مَنْ وَسَمَ الْبَہِیمَۃَ فِی وَجْہِہَا أَوْ ضَرَبَہَا فِی
وَجْہِہَا.] (أبوداود، الجہاد، باب النھی عن الو سم فی الوجہ والضرب فی الوجہ:
۲۵۶۴، صحیح)
’’تمھیں معلوم نہیں
کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانور کے چہرے کو داغے یا اس کے چہرے پر مارے۔‘‘
دوران سفر جانور کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے
دوران سفر جانور کی ضروریات کا اور اس کی تھکاوٹ کا بھی احساس
کرنا چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہt کہتے
ہیں کہ رسول اللہeنے فرمایا:
[إِذَا سَافَرْتُمْ
فِی الْخِصْبِ فَأَعْطُوا الإِبِلَ حَقَّہَا وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِی الْجَدْبِ فَأَسْرِعُوا
السَّیْرَ فَإِذَا أَرَدْتُمُ التَّعْرِیسَ فَتَنَکَّبُوا عَنِ الطَّرِیقِ.] (أبوداود،
الجہاد، باب فی سرعۃ السیر والنہی عن التعریس فی الطریق: ۲۵۶۹، صحیح)
’’جب تم ہریالی میں
سفر کرو تو اونٹ کو اس کا حق دو(یعنی اسے اچھا چارہ دو) اور جب تم قحط سالی میں سفر
کرو تو جلدی جلدی سفر طے کر لو(تاکہ بھوک سے لاغر نہ ہوجائے) ۔‘‘
پرندوں اورجانوروں سے حسن سلوک پر اجر
کچھ جانور پالتو ہوتے ہیں ان کا خیال تو انسان رکھتا ہے اور
اگر غیر پالتو جانوروں سے شفقت کی جائے تو اللہ تعالیٰ بندے کے عمل ضائع نہیں کرتے۔
اگر جانور موذی ہیں تو ان کو مارڈالنے کا حکم ہے اس لیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے
جہاں نقصان کا اندیشہ نہیں وہاں جانوروں سے اچھا سلوک کیا جائے تو یقینا اللہ تعالیٰ
اس پر اجروثواب عطا فرمائیں گے۔
سیدناابوہریرہt کہتے
ہیں کہ ایک آدمی کو دوران سفر بہت پیاس لگی‘ اسے ایک کنواں نظر آیا‘ وہ اس میں اترا
پانی پیا اور پھر باہر نکل آیا ۔ باہر دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا ہے
اور گیلی مٹی چاٹ رہا ہے‘ اس نے سوچا کہ پیاس کی شدت سے اس کا بھی وہی حال ہے جو میرا
تھا‘ وہ کنویں میں اترا اور پنے موزے میں پانی لیا اسے منہ سے پکڑا اور باہر آکر کتے
کو پانی پلایا۔
[فَشَکَرَ اللّٰہُ
لَہُ فَغَفَرَلَہُ.]
’’اللہ تعالی نے
اس کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔‘‘
صحابہ کرامy نے
سوال کیا کیا جانوروں سے حسن سلوک میں بھی ہمیںاجر ملے گا؟ تو رسول اللہeنے فرمایا:
[فِی کُلِّ کَبِدٍ
رَطْبَۃٍ أَجْرٌ.] (مسلم، الآداب، باب فضل ساقی البہائم المحترمۃ…: ۲۲۴۴)
’’ ہر زندہ چیز میں
(حسن سلوک کی وجہ سے ) اجر ہے۔‘‘
روتے اونٹ کے آنسو تھم گئے
سیدنا عبداللہ بن جعفرtکہتے ہیں کہ رسول اللہeنے مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا اور ایک انصاری کے باغ میں
گئے۔ ایک اونٹ نے نبی کریمeکو دیکھا تو رونے لگ گیا۔ نبی eاس کے پاس تشریف لے گئے‘ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا وہ خاموش ہو
گیا۔آپ نے پوچھا اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری جوان حاضر ہوا اور عرض کی اے اللہ
کے رسول! یہ اونٹ میرا ہے تو آپ e نے
فرمایا:
[أَفَلاَ تَتَّقِی
اللہَ فِی ھٰذِہِ الْبَہِیمَۃِ الَّتِی مَلَّکَکَ اللَّہُ إِیَّاھَا فَإِنَّہُ شَکَی
إِلَیَّ أَنَّکَ تُجِیعُہُ وَتُدْئِبُہُ.] (أبوداود، الجہاد، باب ما یؤمر بہ من
القیام علی الدواب والبہائم: ۲۵۴۹، صحیح)
’’اس جانور کے معاملے
میں تواللہ سے ڈرتا نہیں کہ اللہ نے تجھے اس کا مالک بنایا ہے اس اونٹ نے تیری مجھے
شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور کام زیادہ لیتا ہے۔‘‘
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر
جانوروں کے حقوق ادا کرو
سیدنا ابوہریرہt کے
پاس سے قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص گزرا۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت! یہ اپنے قبیلہ میں سب
سے بڑا مال دار ہے۔ آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا‘ کیا واقعی تم سب سے زیادہ مال دار
ہو؟ اس نے کہا‘ ہاں میرے پاس رنگ برنگ کے سینکڑوں اونٹ‘ قسم قسم کے غلام‘ اعلیٰ اعلیٰ
درجے کے گھوڑے وغیرہ ہیں۔ سیدنا ابوہریرہt نے فرمایا‘ دیکھو خبردار ایسا نہ ہو کہ یہ جانور اپنے
پائوں سے تمہیں روندیں اور اپنے سینگوں سے تمہیں ماریں‘ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں
تک کہ عامری کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور اس نے کہا حضرت! یہ کیوں؟ آپ نے فرمایا سنو!
میں نے رسول اللہe سے
سنا ہے کہ جو اپنے اونٹوں کا حق ادا نہ کرے ان کی سختی میں اور ان کی آسانی میں تو
اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک چٹیل لمبے چوڑے صاف میدان میں چت لٹائے گا اور ان
تمام جانوروں کو موٹا تازہ کر کے حکم دے گا کہ اسے روندتے ہوئے چلو۔ چنانچہ ایک ایک
کر کے اسے کچلتے ہوئے گزریں گے جب آخر والا گزر جائے گا تو اوّل والا لوٹ کر آ جائے
گا۔ یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا۔ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے یہاں تک
کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے۔ پھر وہ اپنا راستہ دیکھ لے گا۔ اسی طرح گائے‘ گھوڑے‘
بکری وغیرہ بھی سینگدار جانور اپنے سینگوں سے بھی اسے مارتے جائیں گے‘ کوئی ان میں
بے سینگ کا یا ٹوٹے ہوئے سینگ والا نہ ہو گا۔ عامری نے پوچھا اے ابو ہریرہ! فرمایئے‘
اونٹوں میں اللہ تعالیٰ کا حق کیا ہے؟ فرمایا کہ مسکینوں کو سواری کے لئے تحفتہً دینا‘
غربا کے ساتھ سلوک کرنا‘ دودھ پینے کے لئے جانور دینا‘ ان کے نروں کی ضرورت جنہیں مادہ
کے لئے ہو انہیں مانگا ہوا بے قیمت دینا۔‘‘
وغیرہ!
ہمیں چاہیے کہ پرندے یا جانور پالتو ہوں یا غیر پالتو ان کے
ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کریں۔ انہیں بلاوجہ تکلیف نہ پہنچائیں‘ ان کی خوراک وآرام کا
لحاظ رکھیں۔ بے زبان مخلوق کے ساتھ ہمیشہ رحم وشفقت والا برتاؤ کریں۔
No comments:
Post a Comment