Sunday, July 14, 2019

ریاست مدینہ کا شہری نظام 13-2019


ریاست مدینہ کا شہری نظام

تحریر: جناب اسد اللہ خاں
مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی‘ جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضرموت تک اور مغرب میں بحر قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس وسلطنت ایران تک وسیع ہو گئیں۔ علمی اور قانونی طور سے پورے جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ اگرچہ شروع میں اسلامی ریاست کا نظم ونسق عرب قبائل روایات پر قائم واستوار تھا تا ہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی‘ سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے۔ یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں جو ایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں تسلسل سیاسی چپقلش‘ فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں۔ عربوں میں نہ صرف مرکزیت کا فقدان تھا بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے۔ اس لیے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے‘ وہ کسی غیر کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ یہ رسول اکرمe کا سیاسی معجزہ ہے کہ آپe نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم اور امت میں تبدیل کر دیا۔ ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرما دی جس کی اطاعت بدوی اور شہری تمام عرب باشندے کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب قبیلہ یا خون کی بجائے عقیدۂ توحید اور ختم نبوت‘ معاشرہ وحکومت کی اساس تھا‘ اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا۔ جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے یہ ریاستی بالا دستی تسلیم کرنا ضروری تھی۔
اللہ کے رسولe نے جب راہ ہجرت میں قدم رکھا تو آپe کی زبان مبارک پر سورۂ اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے جاری تھی:
{وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا٭} (بنی اسرائیل: ۸۰)
’’اور دعا کیجیے کہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور نکال مجھے سچائی کے ساتھ نکالنا اور مجھے اپنی طرف سے غلبہ اور مدد عطا فرما۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آپe کی دعا قبول فرمائی‘ اسلامی مملکت کے قیام کے لیے آپe کو غلبہ عطا فرمایا۔ ابھی آپe سیدنا ابوایوب انصاریtکے مکان میں قیام فرما تھے کہ آپe نے میثاق مدینہ کا اہتمام کیا۔ اس مقصد کے لیے آپe نے مہاجرین‘ انصار‘ یہود‘ عیسائی اور دیگر قبائل کو جمع کیا۔ آپe نے اس اجلاس کی غرض وغایت بیان فرمائی۔ اس کے بعد آپe نے ایک تحریر لکھوائی‘ ابتدائی مؤرخین نے اسی کو صحیفہ کا نام دیا۔ گویا کہ یہ حکمران وقت کا ایک فرمان تھا۔ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا جس پر ان لوگوں کے دستخط تھے‘ اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے۔ ڈاکٹر حمید اللہa نے اسے پہلا تحریری دستور قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مدینہ میں ابھی نراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا‘ عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنو قریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے۔ ان میں باہم کئی کئی نسلوںسے لڑائی جھگڑے چلے آ رہے تھے اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف بن کر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے۔ وہ مسلسل جنگوں سے اب تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے‘ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کو غلبہ ہو رہا تھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کر رہی تھی کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کو بادشاہ بنا دیں۔ بخاری اور ابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاج کی تیاری بھی کاریگروں کے سپرد ہو چکی تھی۔ بلاشبہ نبی کریمe نے بیعت عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کر کے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کا الگ راج تھا اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتا تھا۔ کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا‘ تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا۔ اس کی سیاسی حیثیت کچھ نہ تھی اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے۔ ان حالات میں نبی کریمeمدینہ آتے ہیں‘ جہاں اس وقت اور متعدد فوری ضرورتیں تھیں:
b اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق وفرائض کا تعین۔ b مہاجرین مکہ کے قیام اور گزر بسرکا انتظام۔ b شہر کے غیر مسلم عربوں اور خاص کر یہودیوں سے سمجھوتہ۔ b شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا اہتمام۔ b قریش مکہ سے مہاجرین کو پہنچے ہوئے جانی ومالی نقصانات کا مداوا۔
ان ہی اغراض کے مد نظر نبی کریمe نے ہجرت کر کے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی‘ جسے اسی دستاویز میں کتاب وصحیفہ کے نام سے یادکیا گیا جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں۔ اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے:
b امن وامان قائم کیا جائے۔ b مذہب اور معاش کی آزادی ہو گی۔ b فتنہ وفساد کو پوری طاقت سے ختم کیا جائے گا۔ b بیرونی حملوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا۔ b نبی کریمe کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا۔ bمیثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسولe کا فیصلہ آخری ہو گا۔
اس معاہدے میں مسلمانوں‘ یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے الگ الگ دفعات مرقوم ہیں۔ یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم ونسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا‘ یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ نبی اکرمe یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدودریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ آپe نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ کئی کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی۔اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسولe دنیا سے رخصت ہوئے۔
اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابوبکر صدیقt اور سیدنا عمر بن الخطابt نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین بر اعظموں میں پھیل گئی۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں:
قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اللہ کا کنبہ ہیں‘ انسان فطرتاً مل جل کر رہنا چاہتا ہے اور دنیا کے تمام وسائل ہمارے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین کا سیلاب امڈ پڑا تھا اور آخر کار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلے میں مہاجرین کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ (بخاری) ان نو واردوں کی آبادکاری کے متعلق نبی کریمe نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیا تھا‘ اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہe نے نو آبادی (کالونائزیشن) اور شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا۔ نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کو اتنے محدود وسائل میں سکونت اور کام کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا‘ پھر مختلف نسلوں‘ طبقوں‘ علاقوں اور مختلف معاشرتی وتمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آ آ کر جمع ہو رہے تھے‘ ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کر لینا کہ نہ ان میں غریب الدیار اور بیگانی کا احساس ابھرے نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیدا ہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں۔ جیسا کہ عام طور پر ایسے حالات میں ہوتا ہے۔ رسول کریمe کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے جو ماہرین عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کا مستحق ہے۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآبe نے اس راز سے آگاہ کیا کہ محض سنگ وحشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ وبازار بنا دینے کا نام شہری منصوبہ بندی نہیں بلکہ ایسا ہم آہنگ اور صحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی‘ روحانی بالیدگی‘ دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کر کے اعلیٰ انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیب انسانی کے نشود نما کا سبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الحکومت کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کر لیا گیا تھا‘ مسجد اور ازواج مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الحکومت کی تعمیر کا پہلا مرحلہ تکمیل کو پہنچا‘ دوسرے مرحلہ کا آغاز نو وارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا۔
مدینۃ الرسول ایک لحاظ سے مہاجر بستی تھی‘ گو سارے مہاجر وہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد) ہو سکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہو تو مکانات اور تعمیرات کا سلسلہ پھیل کر عہد رسالت ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ‘ بنی النجار وغیرہ سے مل گیا ہو۔ ریاست کی نو آبادی اسکیم کا یہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے‘ بے سر وسامان اور بے یار ومدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے قیام سرکاری طور پر فراہم کی جائے‘ بلکہ ان نو واردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایا جاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظام بھی سرکاری طور پر کیا جاتا‘ بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یا مکان مہیا کرنا بھی حکومت کا فرض تھا‘ گویا مہاجرین کے لیے روٹی‘ کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کا انتظام مسجد کے اندر کیمپ لگا کر یا صفہ میں کیا جاتا‘ اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پر مشتمل ہوتا تو انہیں عموما شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایا جاتا تاکہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہو جاتا۔ آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے۔ اولاً تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیا جاتا کہ وہ مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کر لیں مگر خیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایسا کیا گیا جبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی منظم تھی۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموما بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے‘ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے‘ ایک کمرہ ایک خاندان کو دیا جاتا‘ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا‘ اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریمe نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علیحدہ رہائش کے لیے جو مکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے۔ (ماخوذ از الادب المفرد‘ امام بخاری)
توسیع شہر: تعمیرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک تواتر کے ساتھ جاری رہا‘ یہاں تک کہ بنی قینقاع کے اخراج کے بعد مکانات کی خاصی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ آ جانے کے سبب رہائشی قلت بہت حد تک دور ہو گئی مگر یہ مسئلہ ختم نہ ہوا کیونکہ رہائش لینے والوں کے مقابلہ میں نو واردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لیے بنو قریضہ کی فتح تک یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا‘ اس کے بعد اسلامی حکومت کی آمدن کے وسائل بھی پیدا ہو گئے‘ مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی کسی قدر سنبھل گئی‘ یہودیوں کے بہت سے مکانات بھی مل گئے‘ لہٰذا معاملے کی سنگینی بڑی حد تک کم ہو گئی تا ہم آبادکاری کا کام فتح مکہ اور اس کے بعد بھی جاری رہا۔ فتح مکہ کے ساتھ ہی چونکہ ہجرت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا‘ اس لیے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ تا ہم کئی لوگ فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ میں آکر آباد ہوئے اور حصول تعلیم وغیرہ کے لیے آنے والوں کا بھی تانتا بندھا رہا۔ (عہدنبوی کا نظام تعلیم: ڈاکٹر حمید اللہa)
عہد نبوی کے اواخر میں مدینہ کا شہر مغرب میں بطحا تک‘ مشرق میں بقیع الغرقد اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانات تک پھیل چکا تھا۔ اللہ کے رسولe نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا‘ شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں نبی کریمe کا یہ اقدام زبردست اہمیت کا حامل ہے‘ اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہو۔
موجودہ دور میں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں:
\          شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کا بندوبست‘ مارکیٹوں کی تعمیر‘ رہائشی انتظامات۔
\          پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم۔
\          تعلیم‘ علاج دیگر فلاحی اداروں‘ کھیل کے میدانوں کا قیام
\          چمن بندی اور شہر کی خوبصورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام
نبی کریمe کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں‘ جہاں تک محکمہ احتساب کا تعلق ہے ما وردی نے محکمہ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمہ انصاف اور محکمہ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے‘ محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور برے کاموں کو روکے۔
قرآنی اصطلاح میں ’’معروف‘‘ کی تین اقسام ہیں: حقوق اللہ‘ حقوق العباد‘ وہ اعمال جن کا تعلق دونوں سے ہو۔
مدینۃ النبی میں یہ کام اللہ کے رسولe خود انجام دیتے تھے۔ سرور کائناتe مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو رک کر‘ ناپ تول کا پیمانہ دیکھتے‘ چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے‘ عیب دار مال کی چھان بین کرتے‘ گراں فروشی سے روکتے‘ استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے‘ اس ضمن میں سیدنا عمرt‘ سیدنا عبیدہ بن رفاعہt‘ سیدنا ابوسعید خدریt‘ سیدنا عبداللہ بن عباسw‘ سیدنا عبداللہ بن مسعودt‘ سیدہ عائشہr‘ سیدنا علیt اور دیگر صحابہ کرام] کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کا تعین کرتی ہیں۔
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں‘ پلوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتا ہے۔ بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں‘ بعض مستقل طور پر دیواریں کھڑی کر لیتے ہیں‘ فقہ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں‘ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہt کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے ارشاد فرمایا: ’’جب راستے کے بارے میں اختلاف ہو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہو گی۔ اس سے کم نہیں ہو سکتی۔‘‘ (مسلم)
نبی کریمe نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے‘ آپe نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیزوں کو ہٹا دینے کوصدقہ قرار دیا ہے‘ راستوں پر سایہ دار درخت لگانے کا حکم ہے۔
موجودہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹریفک کا ہے‘ اس کے بارے میں تعلیمات نبویe سے احکام ملتے ہیں‘ سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپe نے منع کیا ہے‘ آپe نے جانوروں تک کے لیے راستے کی آزادی برقرار رکھی ہے۔ مدینہ کی شہری مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنویں خرید کر کیا گیا‘ قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا اور نہ ہی بیت الخلاء کا اس زمانہ میں رواج تھا لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا۔ شہر میں آب رسانی کا سرکاری طور پر انتظام کیا‘ مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنویں اور چشمے بہت تھوڑے تھے۔ سیدنا عثمانt نے جو خود بھی مدینہ کی نو آبادی میں رہتے تھے‘ نبی کریمe کے حکم کے مطابق اہل مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئر روما خرید کر وقف کیا۔ (بخاری)
اسلام جسم وجان کی پاکیزگی اور ظاہر وباطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ وضوء‘ طہارت‘غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آپe نے مسجدیں بنا کر وہاں طہارت خانہ تعمیر کرنے کی ہدات جاری کی‘ اسلام کے عمومی مزاج اور آپe کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے۔ (ابن ماجہ)
ہمسایہ کے حقوق کے بارے میں رسول اکرمe کے جو ارشادات ملتے ہیں ان پر عمل در آمد سے انسانی معاشرے کے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالکt کی روایت ہے کہ ’’کوئی مسلمان‘ مسلمان نہیں جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔‘‘
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے‘ رسول اکرمe نے اسے سختی سے منع فرما دیا‘ گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہو جانے کی صورت میں سات ہاتھ مقرر کی گئی۔ (مسلم) پرانے مدینہ کی گلیاں اور مکانات تنگ تھے۔ باوجودیکہ آپe کے مکانات مختصر تھے‘مگر آپe نے کشادہ مکانات کو پسند کیا اور فرمایا: ’’خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسعت والی اور پڑوسی نیک ہو۔‘‘ (بخاری)
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے‘ صفائی اور پاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیا ہے۔ جسم‘ اپنے کپڑوں کی پاکی کا حکم بار بار آیا ہے‘ مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بدوی مسجد نبوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تو اللہ کے رسولe اپنے ہاتھ سے اس جگہ کو صاف کر دیتے تھے‘ وضو اور غسل کا نظام‘ غلاظت سے صفائی کے احکام‘ چوپال‘ کھلیانوں کی جگہ‘ دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظان صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی۔
حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص ہونے پر زور دیا گیا ہے‘ ملاوٹ کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے۔ پینے کے پانی کو صاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں۔ اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولیات بھی ہیں۔ ان میں وباؤں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے۔ ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتا تھا اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے۔ رسول اللہe نے شہر اور مسجد نبوی کی تعمیر اور جنگ کے دوران یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے۔ مسجد النبی کے دروازے کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے‘ جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا۔ مسجد النبیe کے دروازہ کے بالمقابل سیدنا ابوطلحہ انصاریt کا وسیع شاداب باغ بیئرحاء تھا۔ جہاں نبی اکرمe اکثر تشریف لے جاتے تھے۔ (بخاری)
مدینہ میں نکاسی آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں کیونکہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا‘ اکثر کہیں سے کوئی پہاڑی ندی‘ نالہ گزرتا تھا تو وہاں بند کے ذریعے عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنا دیا گیا تھا‘ ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید وفروخت کی سہولت کے لیے علیحدہ منڈی یا بازار بنا دیا گیا۔ خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج کے بعد قائم ہوئی ہو گی۔ کیونکہ اس سے پیشتر عبدالرحمن بن عوفt اور دوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے۔ (مسلم) مدینے کا بازار مسجد النبیe سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہ تھا۔ بازار خاصہ وسیع وعریض تھا۔ (فتوحالبلدان)
زمانہ جاہلیت میں خفا رہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چونگی کی وجہ سے تجارت میں بڑی رکاوٹیں تھیں۔ آپe نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کا سبب ثابت ہوا۔ دراصل اس طرح آپ نے چونگی کی لعنت ہی ختم نہ کی بلکہ جزیرۃ العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں مدینہ کی طرح آزادانہ در آمدات اور برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ جدید تحقیقات نے اس بات کا نا قابل تردید ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صرف اقوام وملل کے لیے بلکہ پوری نوع بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ جس کے ذریعے بین الاقوامی طور پر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں۔
تعلیمی اداروں کا قیام:
نبی اکرمe نے منجملہ اور باتوں کے تعلیم پر بڑا زور دای ہے‘ تاریخ اسلام میں پہلا نصاب تعلیم رسول اللہe نے ہی ترتیب دیا‘ اللہ کے رسولe نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بنا کر اسلام کی پہلی اقامتی درسگاہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ جہاں آپ خود تعلیم دیا کرتے تھے‘ اپنے دورِ خلافت میں سیدنا عمرt نے مسجد میں مکتب قائم کر کے اس کی نگہداشت واخراجات کا ذمہ دار حکومت کو بنایا۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)