Sunday, July 14, 2019

مولانا محمد خان نجیب شہید 13-2019


حضرت مولانا محمد خان نجیب شہید

تحریر: جناب مولانا لیاقت علی باجوہ
اہل حدیث یوتھ فورس کے پہلے قائد محمد خان نجیب شہیدa کا گاؤں گڑھی گوندل ہمارے نزدیک ہی ہے۔ اکثر ان کے والد محترم سے ملاقات ہوتی رہتی ہے اور وہ محمد خان نجیب کے بچپن کی باتیں سناتے رہتے ہیں۔
محمد خان نجیب شہیدa جون ۱۹۶۰ء کو گڑھی گوندل ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘ آپ کا تعلق گوجروں کے قبیلہ پسوال سے تھا۔ آپ کے والدین ۱۹۴۷ء میں تحریک آزادی کشمیر کی وجہ سے کشمیر سے ہجرت کر کے گڑھی گوندل سیالکوٹ میں آ کر آباد ہو گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں ان کی رہائش جموں کشمیر سے دس میل کے فاصلے پر مشہور بستی مال پور تھی جو کہ پوری کی پوری بستی اہل حدیث تھی۔ محمد خان نجیبa کے والد محترم کا نام چوہدری محمد شفیع ولد چوہدری عبدالرحمن پسوال تھا۔
محمد خان نجیبa چار بھائی محمد سلیمان‘ محمد لقمان‘ محمد خان نجیب‘ محمد عثمان اور دو بہنیں تھیں۔ محمد خان نجیب کی منگنی جہلم میں ہوئی تھی‘ ابھی شادی کو صرف ۱۵ دن باقی تھے کہ شہادت کا پیغام آگیا۔ آپ نے گڑھی کی مقامی مسجد سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد محترم بتاتے تھے کہ جس وقت محمد خان نجیب سکول جانے لگا تو اس وقت ایک روپیہ داخلہ ہوتا تھا اور ہمارے ہاں غربت اتنی تھی کہ ایک سال تک ایک روپیہ بھی نہ ملا۔ جب پانچ سال کا ہوا تو ایک روپیہ دے کر سکول داخل کروایا۔ ابتدائی تعلیم مڈل تک گوندل سے حاصل کی‘ نجیب شہید کو علم حاصل کرنے کا اتنا شوق تھا کہ دن کو سکول پڑھنے جاتے اور آتے ہی والد محترم کے ساتھ کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاتے۔ مغرب کے بعد اپنے استاد سے پڑھنے کے لیے پھر گوندل جاتے اور رات کو پڑھ کر واپس آتے۔ مڈل کے بعد میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول مراکیوال ضلع سیالکوٹ سے ۱۹۷۷ء میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔
دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قریبی مسجد کے خطیب مولانا ابراہیم صاحب نے نجیب شہید کے والد محترم کو مشورہ دیا کہ آپ کا بیٹا ذہین ہے اس کو جامعہ سلفیہ میں داخل کروا دو۔ چنانچہ ۹ اپریل ۱۹۷۷ء میں نجیب شہید نے اپنے چچا زاد بھائی رفیق یورش کے ساتھ جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا اور پہلے سال کی تکمیل تک وہیں رہے۔ وہاں آپ کو مولانا عمر فاروق سعیدی‘ مولانا حبیب اللہ خان‘ مولانا سیدی حسن اور مولانا محمد جیسے اساتذہ میسر آئے۔ پہلے سال علامہ شہیدa نے آپ کا امتحان لیا تو اول نمبر پر رہے۔
علامہ صاحب نے اس بچے کی ذہانت کو دیکھا تو اپنے زیر سایہ تربیت کرنے کا فیصلہ کر لیا لہٰذا محمد خان نجیب جامعہ سلفیہ چھوڑ کر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa کی زیر نگرانی دینی ادارے دار الحدیث چینیانوالی لاہور چلے آئے۔ ۱۹۸۱ء میں شیخ الحدیث مولانا مفتی عبیداللہ خان عفیفd سے بخاری شریف پڑھی۔ اس کے علاوہ تفسیر‘ اصول تفسیر‘ حدیث واصول حدیث‘ فقہ‘ تاریخ‘ تقابل ادیان‘ عربی لغت‘ صرف ونحو اور علم الکلام کی تعلیم مکمل کی‘ آپa کے اساتذہ میں مولانا محمد اسماعیل علوی‘ مولانا حفیظ الرحمن لکھوی‘ مولانا عبداللہ بھٹوی‘ مولانا زکریا اور مولانا عتیق اللہ شامل ہیں۔
درس نظامی کے ساتھ آپ نے ۱۹۷۹ء میں ایف اے اور ۱۹۸۴ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا اور لاہور میں قاضی کلاس میں داخلہ لیا۔ آپ نے یہ امتحان بھی پاس کیا اور اسی سال وفاق المدارس سلفیہ کا امتحان بھی پاس کیا۔ شہادت سے قبل ۱۹۸۶ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے فاضل اردو کا امتحان پاس کیا اور کچھ ماہ بعد بی اے میں اضافی مضمون کا امتحان دے رکھا تھا جس کا رزلٹ آپ کی شہادت کے بعد آیا اور آپ امتیازی حیثیت سے پاس ہوئے۔
محمد خان نجیب نے تحریکی زندگی کا آغاز جمعیۃ طلبہ اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے کیا۔ نومبر ۱۹۸۲ء میں جمعیۃ کے جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے اور ۱۷ نومبر ۱۹۸۳ء میں آپ کو جمعیۃ طلبہ اہل حدیث کا صدر منتخب کر لیا گیا۔
۱۰ فروری ۱۹۸۴ء کو حکومت نے طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کی تو آپ نے کابینہ کا اجلاس بلا کر غور وخوض کیا اور کابینہ کے اگلے اجلاس میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa بھی شریک ہوئے۔ آپ نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی‘ اجلاس میں طے پایا کہ کتاب وسنت کا کام کسی نئے نام سے ہونا چاہیے۔ ارکان شوریٰ نے بہت سے نام پیش کیے۔ بالآخر اہل حدیث یوتھ فورس پاکستان کے نام پر اتفاق رائے ہوا۔ چنانچہ ۱۴ اگست ۱۹۸۴ء کو کامونکی میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہیدa پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے تحت اہل حدیث یوتھ فورس کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی اور اس میں باقاعدہ تنظیم کا اعلان کر دیا گیا کہ محمد خان نجیب شہید اس کے پہلے صدر ہوں گے۔
تعلیمی مصروفیات کے باوجود آپ نے جماعتی سرگرمیوں میں کمی نہیں آنے دی بلکہ اپنے محبوب قائد علامہ شہید a کے ساتھ دن رات جماعتی اور قومی جلسوں سے خطاب کرتے اور آپ کے بیانات اکثر قومی اخبارات میں آتے رہتے تھے جس کی تفصیل ابھی بھی آپ کے بھائیوں کے پاس موجود ہے۔ شہادت سے قبل آپ ایک دن اور ایک رات اپنے والدین کے پاس گزار کر گئے اور ۲۳ مارچ ۱۹۸۷ء کو لاہور قلعہ لچھمن سنگھ میں سیرت النبیe کے جلسہ پر آپ نے بھی خطاب کیا۔ کچھ عاقبت نا اندیش لوگوں نے اس جلسہ گاہ میں بم دھماکہ کر دیا جس میں خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر‘ مولانا حبیب الرحمن یزدانی اور مولانا عبدالخالق قدوسیS کے ساتھ آپ نے بھی جام شہادت نوش فرمایا۔ گھر میں خبر پہنچی کہ محمد خان نجیب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے مگر بھائی جس وقت گوجرانوالہ پہنچے تو اس وقت ان کو ان کی شہادت کا پتہ چلا کیونکہ گوجرانوالہ میں جنازے کے اعلان ہو رہے تھے۔
۲۴ مارچ ۱۹۸۷ء کو مینار پاکستان میں ان شہداء کی نماز جنازہ ادا کی گئی‘ اسی رات محمد خان نجیب شہیدa کی میت ان کے آبائی گاؤں گڑھی گوندل سیالکوٹ میں لائی گئی اور وہیں آپ کو دفن کر دیا گیا۔ اللہم اغفر لہ وادخلہ الجنۃ الفردوس



No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)