Sunday, July 14, 2019

احکام ومسائل 13-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

لڑکی اور لڑکے کا خود بخود ایجاب وقبول کرنا
O مجھے درج ذیل میسج وصول ہوا ہے‘ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ’’اگر لڑکا لڑکی‘ گواہان اور مولوی کی غیر موجودگی میں خود زبانی ایجاب وقبول کر لیں تو بے قاعدہ نکاح تصور ہو گا مگر باطل نہیں اور نہ ہی ان کا جنسی تعلق زنا کے زمرہ میں آئے گا۔‘‘
P پچھلے دنوں آزاد منش خواتین نے اپنے حقوق طلبی کے لیے ریلی نکالی‘ اس میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ نکاح کی پابندی ختم کی جائے‘ مذکورہ میسج بھی اسی کی صدائے بازگشت ہے۔ ہمارے نزدیک اس طرح کے مطالبات ’’نئے پاکستان‘‘ کے برگ وبار ہیں‘ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ دین اسلام میں نکاح کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے لڑکی کے سرپرست کی اجازت اور اس کی مرضی سے انجام دیا جائے اور اس کے لیے لڑکی کی رضا مندی بھی لازمی ہے۔ پھر اسے علانیہ کیا جائے‘ محلہ میں اس کا خوب چرچا ہونا چاہیے۔ مذکورہ میسج میں لڑکی کی رضا مندی تو ہے لیکن سرپرست کی اجازت سے نہیں کیا گیا‘ جو نکاح کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوموسیٰ اشعریt نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘ (ابوداؤد‘ النکاح: ۲۰۸۵)
امام بخاریa نے اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے تین آیات کا حوالہ دیا ہے‘ جن میں نکاح کی نسبت مردوں کی طرف کی گئی ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے نکاح کا حق ان کے سرپرستوں کو ہے۔ عورت کو خود اپنا نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ دیگر احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ سیدہ عائشہr سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا‘ اس کا نکاح باطل ہے۔ (آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دھرائے۔)‘‘ (ابوداؤد‘ النکاح: ۲۰۸۳)
ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’کوئی عورت‘ کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ ہی وہ اپنا نکاح خود ہی کرے‘ بلاشبہ وہ عورت بدکار ہے جو اپنا نکاح خود کر لیتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ‘ النکاح: ۱۸۸۲)
پھر اپنے گھروں سے بھاگ کر جو لڑکیاں اپنا عدالتی نکاح چھپ کر کر لیتی ہیں‘ یہ بھی شریعت کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ نکاح اور بدکاری میں فرق یہ ہے کہ نکاح علانیہ ہوتا ہے اور بدکاری چھپ کر کی جاتی ہے۔ چنانچہ سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’اس نکاح کو علانیہ کیا کرو۔‘‘ (ابن ماجہ: النکاح: ۱۸۹۵)
نکاح کے اعلان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایجاب وقبول مسلمانوں کی مجلس میں کیا جائے اور برسر عام ولیمہ کی دعوت کی جائے تا کہ عام لوگوں کو اس کا علم ہو جائے کہ فلاںشخص کا نکاح فلاں خاتون سے ہوا ہے۔ اس طرح ناجائز تعلقات کا راستہ بند ہو جائے گا۔
لہٰذا سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور نہ ہی خفیہ طور پر چوری چھپے ہونا چاہیے‘ اس قسم کا نکاح شرعا منعقد نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم!
خاوند کی اجازت کے بغیر عورت کا والدین سے تعاون
O میرے والدین انتہائی غریب ہیں‘ انہوں نے بڑی مشکل سے میرا نکاح کیا ہے۔ میرے خاوند صاحب حیثیت ہیں‘ کیا میں اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین سے مالی تعاون کر سکتی ہوں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
P اللہ تعالیٰ نے نیک خواتین کے اوصاف ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ’’نیک عورتیں وہ ہیں جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار ہوں اور ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں رہتے ہوئے ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والی ہوں۔‘‘ (النساء: ۳۴)
اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی‘ خاوند کی عدم موجودگی میں گھر‘ اولاد اور اس کے مال ومتاع کی ذمہ دار ہے۔ یعنی وہ کسی غیر مرد کو اپنے گھر میں داخل نہ ہونے دے اور نہ خود کسی غیر سے آزادانہ میل ملاپ یا خوش طبعی کرے۔ نیز وہ اپنے شوہر کے مال کی امین ہو۔ اسے فضول کاموں میں خرچ نہ کرے۔ اسے اجازت کے بغیر نہ تو اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور نہ ہی کسی دوسرے کو دے۔
عورت کا اپنے غریب والدین سے شوہر کی اجازت کے بغیر مالی تعاون کرنا بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو اعتماد میں لے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہ کرے۔ نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگرانی میں ہے۔‘‘ (بخاری‘ النکاح: ۵۲۰۰)
اس حدیث کے مطابق بھی بیوی سے شوہر کے گھر کے متعلق سوال ہو گا کہ اس نے اپنے شوہر کے گھر کی نگرانی کس حد تک کی ہے۔ صورت مسئولہ میں بیوی کو چاہیے کہ وہ اگر اپنے غریب والدین کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اپنے خاوند کو اعتماد میں لے۔ امید ہے کہ اس کا خاوند بخل سے کام نہیں لے گا بلکہ خوشی سے ان کا تعاون کرے گا۔ چوری چھپے والدین کو اپنے شوہر کا مال دینا ایک خیانت ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔ واللہ اعلم!
متعدی بیماری کی حقیقت
O ڈاکٹر اور طبیب حضرات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کچھ بیماریاں متعدی ہوتی ہیں جیسا کہ ہیضہ اور مرض طاعون ہے۔ جبکہ احادیث میں متعدی بیماری کی نفی کی گئی ہے۔ اس کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت درکار ہے۔
P کوئی بیماری بھی بذات خود متعدی نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی دوسرے کو خود بخود منتقل ہو جائے۔ حدیث میں اس کی نفی آئی ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’چھوت لگ جانے کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘ (بخاری‘ الطب: ۵۷۷۳)
جب رسول اللہe نے یہ حدیث بیان کی تو ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: ’’آپ نے دیکھا ہو گا کہ ریگستان میں اونٹ ہرن کی طرح دوڑتے ہیں پھر جب ان میں ایک خارشی اونٹ آجاتا ہے تو باقی اونٹوں کو بھی خارش لگ جاتی ہے۔‘‘
رسول اللہe نے یہ سن کر دیہاتی سے فرمایا: ’’لیکن پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟‘‘ (بخاری‘ الطب: ۵۷۷۴)
رسول اللہe نے اس دیہاتی کو یہ بات سمجھائی کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے کیونکہ مؤثر حقیقی وہی ہے۔ یہ بات سرے سے غلط ہے کہ ایک خارش زدہ اونٹ نے باقی اونٹوں کو خارشی بنا دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام اونٹ خارش زدہ ہو جاتے حالانکہ گلے میں کتنے ہی اونٹ ہوتے ہیں جو اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔ البتہ بیماری کے اسباب سے پرہیز کرنا چاہیے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہe نے فرمایا ہے: ’’کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔‘‘ (بخاری‘ الطب: ۵۷۷۱)
اس حدیث سے یہ بھی مقصود ہے کہ لوگوں کو بدعقیدگی سے بچایا جائے‘ ایسا کرنے سے کم علم لوگ اس فضول وہم میں مبتلا ہو جائیں گے کہ صحت مند اونٹ‘ بیمار اونٹ کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں۔ اس طرح وہ متعدی بیماری کے قائل ہو جائیں گے۔ حالانکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔ اب جو دیکھنے میں آتا ہے کہ طاعون اور ہیضے جیسی بیماریاں ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیلتی ہیں یا ایک شخص سے دوسرے کو لگ جاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری بذات خود متعدی ہے اور دوسرے کو منتقل ہوئی ہے بلکہ اللہ کے حکم سے دوسرے شہر یا دوسرے شخص میں بھی پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک گھر میں کچھ لوگ طاعون یا ہیضے کی بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور کچھ محفوظ رہتے ہیں اور ایک ہی ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان طاعون اور ہیضے کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں‘ انہیں کچھ نہیں ہوتا؟ اگر بیماری بذات خود متعدی ہوتی تو سب اس سے متاثر ہوتے لہٰذا وہی حق ہے جس کی رسول اللہe نے خبر دی ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی۔ البتہ ایسے ذرائع اور اسباب سے ضرور پرہیز کرنا چاہیے جو اس بیماری کا باعث ہوں۔ واللہ اعلم!
زندگی میں اپنا کفن تیار کرنا
O کچھ لوگ اپنی احرام کی چادروں کو کفن کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں‘ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ یعنی کوئی آدمی اپنی زندگی میں کفن تیار کر کے رکھ سکتا ہے؟ اس میں کوئی حرج تو نہیں؟
P اگر کوئی آدمی زندگی میں اپنا کفن تیار کر کے رکھ لیتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ اس کے ساتھ کسی عقیدت کو وابستہ نہ کرے۔ مثلاً احرام کی چادریں اس لیے کفن کے طور پر محفوظ کر لیتا ہے کہ قبر میں اس کے لیے سہولت کا باعث ہوں گی۔ یہ عقیدہ رکھ کر کفن تیار کرنا اور اسے رکھ لینا درست نہیں۔ لیکن اس عقیدت کے بغیر اگر کوئی اپنی زندگی میں کفن تیار کر کے رکھ لیتا ہے تو ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں۔ چنانچہ امام بخاریa نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’زمانہ نبوت میں جس نے اپنا کفن تیار کیا اور اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔‘‘ (بخاری‘ الجنائز: باب نمبر ۲۸)
سیدنا عبدالرحمن بن عوفt نے رسول اللہe سے ایک چادر مانگی تھی تا کہ وہ ان کا کفن بنے۔ چنانچہ وہ بطور کفن استعمال ہوئی۔ (بخاری‘ الجنائز: ۱۲۷۷)
بہرحال احرام کی چادروں کو بطور کفن محفوظ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی عقیدہ وابستہ نہ کیا جائے


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)