تکبّر وغرور کا مفہوم اور اس کے
اثرات
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود الشریم d
حمد و ثناء کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ سے یوں ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ دین
اسلام کی مضبوط رسی کو سختی سے تھام لو۔ یہی وہ ہمیشہ رہنے والی نصیحت ہے جو اللہ تعالیٰ
نے اگلوں اور پچھلوں کو فرمائی ہے۔
’’جن کو ہم نے کتاب
دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ اللہ سے
ڈرتے ہوئے کام کرو۔‘‘ (النساء: ۱۳۱)
اللہ کے بندو! لوگوں کے اخلاق اور تصرفات، چاہے اچھے ہوں یا
برے، بہر حال وہ ان کے دلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے نفس برتنوں کی مانند ہیں اور
برتن کی حیثیت اس میں ڈالی جانے والی چیز کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں پر غفلت یوں
چھا گئی ہے کہ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ان
کا گمان ہے کہ وقت کی چکی انہیں کبھی نہیں پیسے گی، بلکہ ان کے ارد گرد رہنے والوں
کو بھی معاف کر دے گی۔ اس غفلت کا نتیجہ کینہ سے بھرے دلوں، عزتیں اچھالنے والی زبانوں
اور ہر شے ملیامیٹ کرنے والے تکبر وغرور کی شکل میں سامنے آیا۔ جس سے اخلاقِ عالیہ
یوں مٹ گئے جیسے کشیدہ لباس کی کشیدہ کاری مٹتی ہے۔ کسی کو معلوم نہ رہا کہ رحمت کیا
ہے، سادگی کیا ہے‘ نرمی کسے کہتے ہیں؟ عہدوں، جائیدادوں اور عزتوں کی کثرت ہی اہل دنیا
کا پیمانہ بن گیا۔ لوگ بھول گئے کہ یہ چیزیں تو عارضی ہیں اور جلد ہی ان کی واضح تصویر
مٹ جانے والی ہے۔ ان کا دلوں پر کوئی خاص اثر نہیں رہنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جو جھاگ ہے وہ
اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘‘ (الرعد:
۱۷)
وہب بن مُنَبّہ a نے
مکحول a کو
جو خط لکھا تھا اس میں انہوں سے سچ لکھا تھا:
’’تم نے اپنے ظاہری
اعمال سے لوگوں کے یہاں ایک مقام اور مرتبہ حاصل کر لیا ہے، اب اپنے چھپے اعمال سے
اللہ کے یہاں اپنا مقام ومرتبہ بنانے کی کوشش کر۔ یاد رکھ کہ یہ دونوں قسم کے مقام
ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں، یہاں تکبر وغرور سے خبردار کیا گیا ہے۔
یہ جس کا ساتھی بنتا ہے، اس کا دین ودنیا تباہ کر دیتا ہے۔ جی ہاں! یہ غرور ہی ہے جو
نیکیوں کو چاٹ جاتا ہے، جو عجز وانکساری کو قتل کر ڈالتا ہے، جو دشمنوں اور بد خواہوں
میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اگر تکبر کرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ جس چیز سے وہ اپنے
گھر کی ترمیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس سے اصل میں اس کا اپنا گھر تباہ ہو رہا ہے،
تو وہ لمحہ بھر کے لیے بھی لباس تکبر زیب تن نہ کرے۔‘‘
جو اپنے نفس کی حیثیت جان لیتا ہے، وہ اسے وہیں رکھتا ہے جہاں
اسے رکھنا چاہیے۔ وہ اس کی صحیح انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اس کی لگام بن جاتا
ہے۔ ارد گرد رہنے والوں میں سے ہر صاحب حق کا حق ادا کرتا ہے۔ جبکہ تکبر وغرور جس چیز
میں شامل ہوتا ہے، وہ اسے گندا کر دیتا ہے، کسی قوم میں پھیلتا ہے، تو انہیں رسوا کر
دیتا ہے۔ اللہ کے بندو! یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ کیونکہ تکبر کا ایک قطرہ انکساری کے
ایک چشمے کو گندا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ قاعدہ تو طے شدہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار
سے نشہ ہوتا ہے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہی ہے۔
اللہ کے بندو! تکبر وغرور کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ بندہ اپنی
حیثیت کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کے پاس اپنے نفس کو جانچنے کے
لیے صحیح پیمانہ نہیں ہوتا۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کا مالک ہے جو حقیقت میں
اس میں نہیں ہوتیں، یا پھر اللہ نے اسے کچھ صلاحیتیں دی ہوتی ہیں، مگر وہ ان کا شکر
کرنے کی بجائے تکبر اور غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ ناقابل قبول تصرفات کرنے
لگتا ہے کہ جن کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہوتی۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ ایسے تصرفات کی
بنیاد خود اعتمادی ہے، تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ تکبر اور خود اعتمادی میں بڑا واضح
فرق ہے۔ خود اعتمادی کی وجہ صلاحیت کی موجودگی ہوتی ہے جبکہ تکبر کی وجہ صلاحیت کی
کمی یا غیر موجودگی ہوتی ہے۔ غرور یہ ہے کہ انسان غیر حقیقی عظمت اور کمال کا دعویٰ
کرے۔ خود اعتمادی ایک فطری چیز ہوتی ہے جس میں کوئی تکلف نہیں ہوتا، جبکہ تکبر وغرور
مصنوعی اور خودساختہ ہوتا ہے۔ خود اعتمادی سے انکساری پیدا ہوتی ہے جبکہ غرور اس کے
برعکس ہے، یہ انسان کو تکبر کی طرف دھکیلتا ہے۔
اللہ کے بندو! خلاصہ یہ ہے کہ خود اعتمادی بلندی کی طرف جانے
والے زینے ہیں۔ تکبر رسوائی کی طرف لے جانی والی گھاٹی ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’خود اعتمادی
اور غرور میں بس ایک بال ہی کا فرق ہے۔‘‘
خود اعتمادی تو ایک زندہ مقصد اور محبوب اخلاق ہے۔ خود اعتمادی
رکھنے والا اپنے اندر کسی اچھی صفت کی موجودگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ اس میں انکساری ہوتی
ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس سے بہتر صفات کے حاملین بھی موجود ہیں اور وہ خود بہت
سے لوگوں سے بہتر ہے۔ اگر اس کا یہ حال نہ ہو تو وہ اپنی حقیقی صلاحیتوں یا خوش فہمی
کی بنیاد پر تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہی تو تکبر کی حقیقت ہے۔ تکبر اور خود اعتمادی کے درمیان جو
ایک بال کا فاصلہ موجود ہے، وہ یہی ہے کہ خود اعتمادی رکھنے والا خود پسندی کا شکار
نہ ہو جائے۔ یہ وہ بال ہے کہ جس کے ٹوٹنے کی صورت میں انسان پر تکبر یوں چھا جاتا ہے
کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس پر کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ اپنی حیثیت سے اندھا ہو جاتا
ہے اور اپنے عیبوں سے بہرا ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے عیب تو کسی نے دیکھے
ہی نہیں۔
اللہ کے بندو! تکبر وغرور کا حال ایسی متحرک ریت جیسا ہے کہ
جس پر ننگے پاؤں چلنا غیر ممکن ہوتا ہے۔ جب انسان اس میں سے ایک قدم نکالتا ہے تو دوسرا
اس میں دھنس جاتا ہے۔ جس کا یہ حال ہو، اسے سخت زمین کس طرح دستیاب ہو سکتی ہے جس پر
چل کر وہ اپنے مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ امام بیہقیa کی
حسن درجے کی سند کے ساتھ روایت کردہ حدیث میں ہے کہ
’’تین چیزیں ہلاکت
میں ڈلانے والی ہیں: 1 وہ
کنجوسی جس کی انسان پیروی کرنے لگے۔ 2ایسی خواہشات جن کے پیچھے انسان بھاگنے لگے اور 3انسان کی خود پسندی۔‘‘
اللہ کے بندو! تکبر ایسا نشہ ہے جو خود پسندی کی اضافی خوراک
کی وجہ سے انسان پر حملہ کرتا ہے۔ اس کی عقل کو اپنے پروردگار کے حق سے اور دوسروں
کے حقوق سے اندھا کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کی تعظیم کرنے لگتا ہے، اس کے
کمال اور پسندیدگی کے بارے میں الفاظ بارش برسانے لگتا ہے، پھر وہ اس قابل بھی نہیں
رہتا کہ چیزوں کو ارد گرد رہنے والوں کی نگاہ سے دیکھ لے۔ وہ صرف اپنے آپ کو دیکھ پاتا
ہے، وہ کسی کی نصیحت قبول نہیں کرتا، کسی یاد دہانی پر دھیان نہیں دیتا، بلکہ وہ تکبر
کو خود اعتمادی اور اپنی عزت کا نام دیتا ہے، جبکہ دوسروں کی نصیحتوں اور یاد دہانیوں
کو حسد اور دل کی بھڑاس کہتا ہے۔ وہ اپنی ہر غلطی اور کوتاہی کی کوئی نہ کوئی تاویل
کر لیتا ہے اور دوسروں کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ وہ دوسروں
کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے محبوب ترین لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس کی باتوں
کی گونج بن جائیں۔ اس طرح اس کی صفات مجموعی طور پر لوگوں کو قریب کرنے والی نہیں بلکہ
انہیں دور بھگانے والی بن جاتی ہیں۔ اللہ کی قسم! غرور کرنے والے کی یہی ہلاکت اور
اس کی فلاح کی یہی قبر ہے، کیونکہ وہ اپنے حق میں بھی کوتاہیاں کرتا ہے اور دوسروں
کے ساتھ بھی زیادتی کرتا ہے۔ اپنے نفس کے حق میں وہ یہ کوتاہی کرتا ہے کہ اسے ضرورت
سے زیادہ بڑا سمجھنے لگتا ہے، اسے اس کے جسم سے بڑی پوشاک پہناتا ہے۔ دوسروں پر زیادتی
یوں کرتا ہے کہ انہیں واجب اہمیت سے کم توجہ دیتا ہے، اس طرح وہ دوہرے پیمانوں کا حامل
بن جاتا ہے اور اخلاقی گراؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
مغرور شخص اپنے غرور سے کبھی چھٹکارا نہیں پا سکتا، الّا یہ
کہ وہ اپنے نفس کو، دوسروں کو اور اس دنیا کو منصفانہ نظر سے دیکھنے لگے۔ اپنے نفس
کی طرف دیکھتے ہوئے وہ یہ جانے کہ وہ چکنی مٹی سے بنا ہے، اپنے رنگ، نسب، عزت یا نوکری
کی وجہ سے فضیلت نہیں کمائی۔ دوسروں کو دیکھتے ہوئے یہ جان لے کہ وہ سب آدم کی اولاد
ہیں اور آدمu مٹی
سے بنے تھے۔ اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے بہتر بنایا ہے اور ان کے درجے ایک دوسرے سے
بلند رکھے ہیں تاکہ ان میں سے کچھ لوگ دوسروں کے تابع رہیں۔ حقیقی معیار جو ان سب پر
غالب ہے، وہ اللہ کا تقویٰ ہے۔
’’در حقیقت اللہ
کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار
ہے۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
امام مسلم a نے
روایت کیا ہے کہ عُسْفَان میں نافع بن حارث
t کی
ملاقات سیدنا عمر t سے
ہوئی۔ سیدنا عمر t نے
انہیں مکہ کا والی بنایا تھا۔ سیدنا عمر t نے پوچھا: پیچھے کس کو ذمہ داری دے کر آئے ہو؟ کہتے،
ابن اَبْزَیٰ کو۔ کہا: یہ ابن اَبْزَیٰ کون ہے؟ کہتے: آزاد کردہ غلام ہے۔ سیدنا عمر
t نے
کہا: تم نے اہل مکہ پر ایک آزاد کردہ غلام کو ذمہ دار بنا دیا؟ انہوں نے کہا: وہ کتاب
اللہ کا بہترین قاری ہے۔ وراثت کے علم کو خوب جانتا ہے۔ سیدنا عمرt نے
فرمایا: آپ کے نبی e نے
فرمایا تھا: اس کتاب سے اللہ بہت سے لوگوں کو عزت اور بہت سے لوگوں کو ذلت دیتا ہے۔
اسی طرح وہ دنیا کو دیکھتے ہوئے یاد رکھے کہ یہ ایک گزر گاہ
ہے۔ اس کا حال کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ اللہ کے یہاں اس کی حیثیت ایک مچھر کے پر سے
بھی کم ہے۔ اس میں تو بس اس کا بچپن گزرنا ہے جس کے بعد بڑھاپے اور ندامت نے آنا ہے۔
اے مغرور انسان! یہ کیسا شوق ہے! اگر تو اپنے نفس کو اس سے روکے،
تو وہ رک جاتا ہے۔ کیا تو دھوکے میں آ کر موت کو اور فنا ہو جانے کو بھی بھول گئے؟
کیا تیرا نفس اس سے بھی مصروف ہو گیا اور فضولیات میں لگا رہا؟
جو تکبر وغرور اور خود پسندی سے سعادت کا طالب ہوتا ہے، وہ یقینی
طور پر رسوا ہوتا ہے اور ایسی چیزوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو اس کی خواہشات کی عین
ضد ہوتی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ حقیقت میں مغرور لوگ سعادت سے محروم ہوتے ہیں، بلکہ
وہ اپنے غرور کی وجہ سے دوہری بدبختی کا شکار ہوتے ہیں۔ مغروروں کے لیے غرور نمکین
پانی کی طرح ہے۔ جس سے انسان ایک گھونٹ پیتا ہے تو اس کی پیاس اور بڑھ جاتی ہے۔ اس
طرح وہ ایسے بیمار بن جاتے ہیں جو اپنا علاج بھی اسی بیماری سے کر رہے ہوتے ہیں جس
کا وہ پہلے سے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو شفا کیوں کر نصیب ہو؟ جی ہاں! اس کا غرور
اسے غبارے کی طرح پھیلا ضرور دیتا ہے، مگر وہ اس سے بلندی کی طرف نہیں جاتا۔ بلکہ کھائیوں
کی طرف گرتا جاتا ہے۔ وہ اپنا سینا جتنا بھی اُبھار لے، بہرحال! اس میں ہوا کے سوا
اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس سے وہ ہوا میں اڑنے کے قابل کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ وہ پہاڑوں
کی چوٹیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
’’زمین میں اکڑ کر
نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو اِن امور
میں سے ہر ایک کا برا پہلو تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔‘‘ (الاسراء: ۳۷)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
یاد رکھو تکبر کبھی قوت کو ظاہر نہیں کرتا اور انکساری کمزوری
کو ظاہر نہیں کرتی۔ مغرور شخص اپنی خواہشات کے سامنے ذلیل اور انتہائی ضعیف ہوتا ہے،
جبکہ منکسر المزاج انسان خواہشات، تکبر اور خود پسندی جیسی بیماریوں کا مقابلہ بڑی
سختی کے ساتھ کرتا ہے۔
پھر یہ بھی یاد رکھو کہ غرور کی بد ترین شکل اللہ کے انکار اور
کفر کی ہے، جبکہ اس کی ہلکی ترین شکل حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ جو
غرور الحاد اور کفر کی طرف لیجاتا ہے، اللہ نے اس کے بارے میں یہ فرمایا ہے:
’’بعض اور لوگ ایسے
ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے خدا
کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں۔‘‘ (الحج: ۸-۹)
یعنی: تکبر اور غرور کی وجہ سے منہ موڑے رکھتا ہے۔ ابن الجوزیa معروف
ملحد ابن راوندی کے بارے میں فرماتے ہیں، جو اپنی ذہانت کی وجہ سے بڑا معروف تھا، کہ
ایک دن راستے میں اسے سخت بھوک لگی تو وہ پُل پر بیٹھ گیا۔ بھوک نے اسے ستا چھوڑا تھا۔
اسی دوران اس کے سامنے کچھ گھوڑے گزرے جس پر موٹا اور پتلا ریشم لدا ہوا تھا۔ اس نے
کہا: یہ کس کے ہیں؟ لوگوں نے کہا: فلاں کے ہیں۔ پھر اس کے سامنے سے کچھ خوبصورت لونڈیاں
گزریں تو اس نے کہا: یہ کس کی ہیں؟ کہا گیا: فلاں کی ہیں۔ پھر ایک شخص نے اس کا حال
دیکھا تو اسے رحم آ گیا اور اس نے اسے روٹی کے دو ٹکڑے دیے، مگر اس نے انہیں دور پھینکتے
ہوئے اپنے مالک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: یہ ساری چیزیں فلاں کی اور روٹی کے یہ ٹکڑے
میرے؟! یعنی وہ تکبر اور غرور کے ساتھ اپنے رب پر اعتراض کر رہا تھا۔ اس مغرور انسان
کو اپنی ذہانت سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اپنے اسی رویے کی وجہ سے اس بھوک کا مستحق
بنا ہے۔
حافظ ذہبی a نے
ایسے ہی ایک واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ایمان سے خالی ذہانت پر لعنت ہو اور
تقویٰ کے ساتھ کند ذہنی کا بھلا ہو‘ اسی طرح جو غرور تکبر اور دوسروں کو حقیر سمجھنے
کی طرف لیجاتا ہے تو اس کے متعلق رسول اللہ e نے فرمایا: تکبر یہ ہے کہ تو حق کو دھتکارے اور دوسروں
کو حقیر سمجھے۔ (مسلم)
امام نووی a فرماتے
ہیں: حق کو دھتکارنے کا مطلب یہ ہے کہ خود کو بڑا سمجھتے ہوئے اور زیادتی کرتے ہوئے
اسے رد کیا جائے اور اس کا انکار کر دیا جائے۔ لوگوں کو حقیر سمجھنا اور انہیں اپنے
سے کم تر سمجھنا ہے۔
اللہ کے بندو! جامع اور مختصر بات یہ ہے کہ تکبر وغرور کی آگ
بجھانے میں کوئی چیز قرآنی آیات اور سنت رسول کو دلوں میں ہمہ وقت تازہ رکھنے جیسی
کار گر نہیں۔ قرآن وحدیث میں لوگوں کی تخلیق کی ابتدا کے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ واضح
کیا گیا ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ سب آدم اور حواء کی اولاد ہیں۔ اگر ان کا کوئی قابل
فخر نسب ہے تو وہ مٹی اور پانی ہے۔ اللہ کے یہاں لوگوں کی برتری مال، معاشرتی مقام،
نسب، ذہانت یا کسی عہدے کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ ان ساری چیزوں کی وجہ سے کوئی دوسرے
سے بہتر نہیں بنتا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’در حقیقت تم بھی
ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان اللہ نے پیدا کیے ہیں۔‘‘ (المائدہ: ۱۸)
اے اللہ! اے پروردگار عالم! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما!
ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما! اے پروردگار عالم! ہماری حکمرانی ان لوگوں کے ہاتھ میں
دے جو تجھ سے ڈرنے والے، تیری خوش نودی کے طالب اور پرہیز گار ہوں۔ آمین!
No comments:
Post a Comment