امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت
تحریر: جناب مولانا محمد طیب محمدی
امام بخاریa کو
امت کے محدثین نے مجتہداور فقیہ کہا ہے ، اس عنوان پر بےشمار مضامین بھی لکھے گئے ہیں لیکن
بہت کم لوگوں نے اس بات کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ دعوے سبھی کرتے ہیں اور کئی
لوگوں نے دلائل کے لیے مکمل صحیح بخاری کو ہی پیش کردیا ہے ، جبکہ دعوے کو دلیل
کے ساتھ ثابت بہت کم لوگوں نے اور بہت کم دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ راقم نے یہ ارادہ
کیا ہے کہ امام بخاریa کے
اجتہاد ات کو دلائل کے ساتھ بیان کروں۔ اس بات کو بھی دلائل کے ساتھ بیان کروں کہ
امام بخاریa کسی
مسلک اور تقلیدی مذہب کے مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے ہر مسلک کی اس بات کا رد کیا جو کتاب
و سنت کے خلاف ہے ۔اس مضمون میں آئمہ اربعہ کے خلاف جو ابواب انہوں نے منعقد
کیے ہیں ان کا ذکر کیا جائے گا ۔
صحیح بخاری کا مکمل نام:
[الجامع المسند الصحيح
المختصر من أمور رسول الله ﷺ وسننه وأيامہ.]
امام بخاریa کو
امام المحدثین والمجتہدین کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی سولہ سال کی محنت شاقہ سے
الجامع الصحیح لکھ کر امت مسلمہ پر ایک احسان عظیم کیا۔جزاہ اللہ عنا وعن المسلمین
خیر الجزاء۔
صحیح بخاری محض احادیث کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ فنی اعتبار سے
فقاہت واجتہاد کے میدان میں اعلیٰ درجے کی تصنیف ہے ۔فقاہت یا فقہ کے لغوی معنی سمجھ
بوجھ کے ہیں۔ اصطلاح میں اس کا مطلب ہے دین حق کی باتوں کی پوری سمجھ بوجھ رکھنا اور
وقت کے لحاظ سے در پیش مسائل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں تلاش کرکے امت کے سامنے
پیش کرنا۔
امام بخاریa نے
صرف احادیث اکٹھی نہیں کیں بلکہ نہایت محنت اور عرق ریزی سے احادیث سےمسائل کا استنباط
کیا ہے۔ صحیح بخاری کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام بخاریa بہت
بڑے فقیہ ومجتہد تھے۔
امام بخاریa کی
فقاہت کا سرسری سا اندازہ ان کی صحیح بخاری میں قائم کردہ ابواب‘ کتابوں کی تعداد اور
احادیث کی تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس انداز سے بھی آپ امام بخاریa کی
فقاہت کو دیکھیں۔
فقہ کی معروف کتابوں میں زیادہ سے زیادہ 61عنوانات قائم کئے
گئے ہیں، فتاویٰ عالمگیری میں 61،قدوری میں 60اور ہدایۃ میں 56عنوانات قائم کئے گئے ہیں جبکہ امام بخاریa کی
فقاہت کی شان یہ ہے کہ صحیح بخاری میں 97مرکزی عنوانات اور لاتعداد ذیلی عنوانات قائم کرکے مسائل اخذ
کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ صحیح بخاری میں امام
بخاریa کے
5333 اجتہادات ہیں۔
محمد فؤاد عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق صحیح بخاری کی کل احادیث
7563 ہیں اور امام
زین الدین احمد بن عبداللطیف زبیدیa کی
التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح میں تکرار کے بغیر 2230 ہیں ،جب
میں نے دیکھا کہ صحیح بخاری میں احادیث 7563 ہیں تو میں نے سوچا اگر 7563 سے
2230 نفی کریں تو جواب 5333 آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صحیح بخاری میں امام
بخاریa کے
5333 اجتہادات ہیں۔
حافظ ابن حجرa کی
تحقیق کے مطابق صحیح بخاری کی کل روایات بمع مکررات 7397 ہیں اور مکررات کے بغیر 2602 احادیث ہیں۔ اس ترقیم کے مطابق اگر 7397 سے 2602 نفی کریں تو جواب 4795 آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صحیح بخاری میں امام
بخاریa کے
4795 اجتہادات ہیں۔
محمد فؤاد عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق صحیح بخاری کے کل ابواب
کی تعداد تین ہزار آٹھ سو ستاون (3857) ہے۔ یہاں اجتہادات کی تعداد 4795 آرہی ہے ؟
اس سوال کے جواب کے لیے آپ صحیح بخاری میں کل کتابیں اور کل ابواب
کےمتعلق حافظ عبدالمنان نور پوریa کی عبارت بھی ملاحظہ فرمالیں جو مراٰۃ البخاری
میں درج ہے‘ اس سے کئی اشکالات بھی حل ہوجائیں گے۔ (مراٰۃ البخاری لحافظ عبد
المنان نور پوریa کے
وہ نوٹس ہیں جو صحیح بخاری پڑھانے سے پہلے حافظ صاحب لکھوایا کرتے تھے
،میں نے وہ نوٹس شائع کیے ہیںاور اس کانام میں نے مراٰۃ البخاری رکھا ہے۔ راقم)
حافظ عبد المنان نور پوریa فرماتے ہیں :
حافظ ابن حجرa نے
فتح الباری میں ہر باب اور ہر کتاب کی الگ الگ احادیث شمار کی ہیں ، مسندات مکررات
سمیت کل احادیث کی تعداد سات ہزار تین سو ستانوے (7397) ہے۔
حافظ ابن حجرa نے
احادیث کی تعداد شمار کرنے میں بڑی احتیاط کی ہے، مگر جو تعداد بیان کی اس سے یہ تعداد
حقیقت اور واقع میں زیادہ ہے۔ موجودہ وقت میں محمد فؤاد مصری نے بخاری کی مسند احادیث
پر نمبر لگائے ہیں۔ آخری حدیث کا نمبر سات ہزار پانچ سو تریسٹھ (7563) ہے۔ حافظ ابن حجرa کی
تعداد اس سے کم ہے۔ محمد فؤاد والی تعداد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ مسلسل
نمبر لگا رہے ہیں۔ تکرار سمیت مسندات کی تعداد سات ہزار پانچ سو تریسٹھ (7563) ہے۔ اگر مسندات
، معلقات ، تنبیہات اور موقوفات کی تعداد شمار کی جائے تو مجموعہ دس ہزار آٹھ سو چھپن(10856) بنتا ہے۔ انتہائی
کوشش کے بعد یہ تعداد معلوم ہوئی ہے۔
بخاری میں کل ابواب کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ محمد فؤاد
عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق ابواب کی تعداد تین ہزار آٹھ سو ستاون (3857)ہے۔ یہ تعداد بھی
تقریباً ہے کیونکہ کتاب التفسیر میں امام بخاریa سورۃ کے عنوان سے ترجمہ شروع کردیتے ہیں ، آگے باب
کے لفظ نہیں ہوتے۔ اگر ان تراجم کو باب کے عنوان سے شمار کیا جائے تو ابواب کی تعداد
تین ہزار آٹھ سو ستاون سے بڑھ جائے گی۔
اس طرح امام بخاریa نے ان تین ہزار آٹھ سو ستاون ابواب میں احادیث سے مسائل
کا استنباط کیا ہے۔ اگر ہر باب میں ایک مسئلہ بھی ثابت کریں تو تین ہزار آٹھ سو ستاون
مسائل ہیں، حالانکہ عام طور پر ہر باب میں دو تین مسئلے ہوتے ہیں۔ ہاں کئی ابواب میں
ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے اور کچھ ابواب بلا ترجمہ ومسئلہ بھی ہیں۔ ایک شخص تین ہزار آٹھ
سو ستاون مسائل کو قرآن وحدیث سے ثابت کررہا ہے ، پھر بھی کوئی ان کی فقاہت میں شک
کرے تو یہ اس کے دل کی بیماری ہے۔ اسی لیے بہت سے علماء کرام امام بخاریa کو
مجتہد مطلق کہتے ہیں۔ یہ کتاب امام بخاریa کی فقاہت پر زبردست دلیل ہے۔
مشہور ہے: فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘۔ ہمارے شیخ مکرم امام العصر
محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
’’صحیح بخاری مجتہد گر ہے۔‘‘ مرآۃ البخاری از حافظ عبدالمنان نور پوریa ص:
150 تا 153)
دوستوں نے فقاہت کا معیار
300آیات
اور 5000 حدیثیں رکھا ہوا ہے لیکن تعصب میں آکر امام بخاری کی فقاہت کو مشکوک بناتے ہیں۔ جنہیں ایک
لاکھ سے زائد حدیثیں حفظ تھیں۔
اب میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ امام بخاریa ایک
مجتہد تھے‘ مقلد نہیں تھے۔
صحیح بخاری اور آئمہ اربعہ
امام بخاریa مجتہد
مطلق تھے‘ وہ کسی ایک گروہ کے مقلد نہیں تھے‘ انہوں نے ہمیشہ کتاب اللہ اور سنت رسول
کا ہی پرچار کیا اور اسی کا دفاع کیا۔ اسی لئے امام بخاریa کی
صحیح بخاری میں ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کتاب و سنت سے استدلال کیے ہیں۔ کسی امام
کی تقلید میں انہوں نے حدیث کی تحریف یا تأویل نہیں کی بلکہ اگر حدیث کے خلاف کسی
امام کی بات آئی تو انہوں نے اس کا رد ضرور کیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح انہوں
نے آئمہ کار د اپنی کتاب صحیح بخاری میں کیا ہے:
۱۔ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کا رد:
امام ابو حنیفہa اور
امام ابو یوسف کا مسلک یہ ہے کہ جو پانی وضو کے لئے استعمال کیا جائے وہ نجس ہوجاتا
ہے یعنی ماء مستعمل نجس ہے۔ امام بخاریa نے ان لوگوں کا رد کیا اور یہ باب قائم کیا ہے :
[بَابُ اسْتِعْمَالِ
فَضْلِ وَضُوءِ النَّاسِ وَأَمَرَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَهْلَهُ أَنْ يَتَوَضَّئُوا
بِفَضْلِ سِوَاكِهِ.]
’’لوگوں کے وضو کے
بچے ہوئے پانی کے استعمال کرنے کا بیان، جریر بن عبداللہt نے اپنے گھر والوں سے کہا تھا کہ ان کے وضو سے بچے ہوئے
پانی سے وضو کریں۔‘‘
پھر اس باب کے تحت تین احادیث کے ساتھ ان کا رد پیش کیا ہے:
[حَدَّثَنَا آدَمُ،
قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الحَكَمُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ،
يَقُولُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِﷺ بِالهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ،
فَجَعَلَ النَّاسُ يَأْخُذُونَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ فَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ، فَصَلَّى
النَّبِيُّ ﷺ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَالعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ
عَنَزَةٌ.] (البخاری :۱۸۷)
[وَقَالَ أَبُو
مُوسَى: دَعَا النَّبِيُّ ﷺ بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ
فِيهِ، وَمَجَّ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: اشْرَبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا
عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا.] (صحیح بخاری :۱۸۸)
سیدنا ابوحجیفہ t فرماتے
ہیں :(ایک دن) رسول اللہe ہمارے
پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے تو آپe کے لیے وضو کا پانی حاضر کیا گیا جس سے آپe نے
وضو فرمایا۔ لوگ آپe کے
وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اسے (اپنے بدن پر) پھیرنے لگے۔ آپe نے
ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں اور آپe کے
سامنے (آڑ کے لیے) ایک نیزہ تھا۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری t کہتے ہیں کہ نبی اکرمe نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس سے آپe نے
اپنے ہاتھ دھوئے اور اسی پیالہ میں منہ دھویا اور اس میں کلی فرمائی، پھر فرمایا کہ
تو تم لوگ اس کو پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔
[عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،
قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ وَهُوَ الَّذِي مَجَّ رَسُولُ
اللَّهِ ﷺ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ غُلاَمٌ مِنْ بِئْرِهِمْ وَقَالَ عُرْوَةُ، عَنِ المِسْوَرِ،
وَغَيْرِهِ يُصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ
ﷺ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ.] (البخاری :۱۸۹)
ابن شہاب کہتے ہیں مجھے کہ محمود بن الربیع نے خبر دی، (ابن شہاب کہتے ہیں
کہ) محمود وہی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو رسول اللہe نے ان ہی کے کنویں (کے پانی) سے ان کے منہ میں کلی ڈالی
تھی اور عروہ نے اسی حدیث کو مسور وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے اور ہر ایک (راوی) ان
دونوں میں سے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب رسول اللہe وضو
فرماتے تو آپe کے
بچے ہوئے وضو کے پانی پر صحابہ] جھگڑنے کے قریب ہوجاتے تھے۔
۲۔ حنفیوں کوفیوں ،اور امام سفیان ثوری کا رد:
سفیان ثوری اور حنفیوں کا مسلک ہے کہ عورتیں نماز خسوف کے لئے
مسجد میں نہیں آسکتیں، امام بخاریa نے
ان کا رد کیا اور یہ باب منعقد کیا ہے :
[بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ
مَعَ الرِّجَالِ فِي الكُسُوفِ]
’’سورج گرہن میں
مردوں کے ساتھ عورتوں کے نماز پڑھنے کا بیان۔‘‘
پھر اس باب کے تحت یہ حدیث لے کر آئے ہیں :
[عَنْ أَسْمَاءَ
بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ
زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ يُصَلُّونَ
وَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا لِلنَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا
إِلَى السَّمَاءِ، وَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ؟ فَأَشَارَتْ:
أَيْ نَعَمْ، قَالَتْ: فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الغَشْيُ، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ
فَوْقَ رَأْسِي المَاءَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِﷺ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى
عَلَيْهِ.] (البخاری 1053)
سیدہ اسماء بنت ابی بکرr فرماتی
ہیں : جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی کریمe کی بیوی عائشہ صدیقہr کے گھر آئی۔ اچانک لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے
اور عائشہr بھی
نماز میں شریک تھیں میں نے پوچھا کہ لوگوں کو کیا بات پیش آئی؟ اس پر آپ نے آسمان
کی طرف اشارہ کر کے سبحان اللہ کہا۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشانی ہے ؟ اس کا
آپ نے اشارہ سے ہاں میں جواب دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی کھڑی ہوگئی۔ لیکن
مجھے چکر آگیا اس لیے میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہe نماز
سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ۔
۳۔ امام احمد بن
حنبل کا رد:
امام احمد بن
حنبلa خطبہ
جمعہ قبل از زوال جائز قرار دیتے ہیں ، امام بخاریa نے ان کا رد کیا اور یہ باب منعقد کیا ہے:
[بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ
إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَذَلِكَ يُرْوَى عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَالنُّعْمَانِ
بْنِ بَشِيرٍ، وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.]
’’جمعہ کا وقت آفتاب
ڈھل جانے پر ہوتا ہے، عمر، علی، نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث] سے اسی طرح منقول
ہے:
[حَدَّثَنَا عَبْدَانُ،
قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: أَنَّهُ
سَأَلَ عَمْرَةَ عَنِ الغُسْلِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَقَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهَا: كَانَ النَّاسُ مَهَنَةَ أَنْفُسِهِمْ، وَكَانُوا إِذَا رَاحُوا
إِلَى الجُمُعَةِ، رَاحُوا فِي هَيْئَتِهِمْ فَقِيلَ لَهُمْ: لَوِ اغْتَسَلْتُمْ.](البخاری:
903)
’’یحییٰ بن سعید
نے عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ
عائشہr فرماتی
تھیں کہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور جمعہ کے لیے اسی حالت (میل کچیل) میں چلے
آتے، اس لیے ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ غسل کرلیا کرتے۔‘‘
اس حدیث سے امام بخاریa کا استدلال ان الفاظ سے ہے: إِذَا رَاحُوا إِلَى
الجُمُعَةِ، ظاہر بات ہے کام کاج کرکے خطبہ جمعہ کے لیے آنا زوال کے بعد ہی ہے:
[عَنْ أَنَسِ بْنِ
مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي الجُمُعَةَ حِينَ
تَمِيلُ الشَّمْسُ]
سیدنا انس بن مالک t سے
روایت ہے کہ رسول اللہe جمعہ
کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔‘‘ (البخاری :۹۰۴)
۴۔ امام شافعی کا رد:
امام شافعیa کا
موقف ہے کہ انسانی بال جسم سے الگ ہونے کے بعد نجس ہو جاتے ہیں، امام بخاریa نے
ان کا رد کیا اور یہ باب منعقد کیا ہے:
[بَابُ المَاءِ الَّذِي
يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الإِنْسَانِ.]
’’اس پانی کا بیان
جس سے انسان کے بال دھوئے جائیں۔‘‘
امام بخاریa اس
باب کے تحت یہ حدیث لے کر آئے ہیں :
[عَنِ ابْنِ سِيرِينَ،
قَالَ: قُلْتُ لِعَبِيدَةَ عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّﷺ أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ
أَنَسٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ عِنْدِي شَعَرَةٌ
مِنْهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.]
ابن سیرین فرماتے ہیں : میں نے عبیدہ t سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہe کے
کچھ بال (مبارک) ہیں، جو ہمیں انس t سے یا انس t کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔ (یہ سن کر) عبیدہ نے
کہا کہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال بھی ہو تو وہ میرے لیے ساری دنیا اور
اس کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ (البخاری:
170)
۵۔ امام مجاہد کا رد:
مشہور تابعی امام مجاہدa کا قول ہے کہ حج کرنے والا شخص پہلے احرام باندھے پھر
قربانی کے جانور کو شعار کرے گا اور قلادہ پہنائے گا۔ امام بخاریa نے
ان کا رد کیا اور یہ باب منعقد کیا ہے:
[بَابُ مَنْ أَشْعَرَ
وَقَلَّدَ بِذِي الحُلَيْفَةِ، ثُمَّ أَحْرَمَ وَقَالَ نَافِعٌ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِذَا أَهْدَى مِنَ المَدِينَةِ قَلَّدَهُ وَأَشْعَرَهُ
بِذِي الحُلَيْفَةِ، يَطْعُنُ فِي شِقِّ سَنَامِهِ الأَيْمَنِ بِالشَّفْرَةِ، وَوَجْهُهَا
قِبَلَ القِبْلَةِ بَارِكَةً.]
’’اس شخص کا بیان
جس نے ذی الحلیفہ میں اشعار (نشانی) اور تقلید (قلادہ) کی پھر احرام باندھا، نافع کا
بیان ہے کہ ابن عمر t جب
مدینہ سے قربانی کا جانور لے جاتے تو ذی الحلیفہ میں اسکی تقلید اور اشعار کرتے‘ اس
کے دائیں کوہان میں چھری سے مارتے‘ اس حال میں کہ وہ جانور قبلہ رو لیٹا ہوتا۔‘‘
عَنِ المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ قَالاَ: خَرَجَ النَّبِيُّﷺ زَمَنَ
الحُدَيْبِيَةِ مِنَ المَدِينَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى
إِذَا كَانُوا بِذِي الحُلَيْفَةِ، قَلَّدَ النَّبِيُّﷺ الهَدْيَ، وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ
بِالعُمْرَةِ.] (البخاری: 1694)
مسور بن مخرمہ t اور
مروان نے بیان کیا کہ نبی کریمe مدینہ
سے تقریباً اپنے ایک ہزار ساتھیوں کے ساتھ (حج کے لیے نکلے) جب ذی الحلیفہ پہنچے تو
نبی کریمe نے
ہدی کو ہار پہنایا اور اشعار کیا پھر عمرہ کا احرام باندھا۔ ……(جاری)
No comments:
Post a Comment