اسلام کا پیغام اَقوامِ عالَم کے نام
تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
(سیالکوٹ)
دُشمنان دین نے اِسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا ہے کہ اسلام
تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ جہاد کی وجہ سے دُنیا میں دہشت کا ماحول بن چکا ہے۔ امن
وسکون فوت ہوچکا ہے۔ اِسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ قتل وخونریزی کا حکم دیتا
ہے۔ مسلمانوں کا وجود دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ العیاذ باللہ! یہ اِسلام کے خلاف
گہری منصوبہ بند سازش ہے۔
اِسلام اور دہشت گردی کے تعلق کی بات کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
یہ بات دروغ گوئی اور بہتان ہے۔ اِسلام کے معنی اطاعت وفرمانبرداری کے ہیں جو دہشت
گردی کے خلاف ہے۔ لغوی، اصطلاحی اور حقیقی، کسی بھی اِعتبار سے اِسلام کا دہشت گردی
سے کوئی تعلق نہیں۔ عملی طورپر دیکھا جائے تو اِسلامی احکام میں ایثار وقربانی اور
فرمانبرداری کا، کامل مفہوم موجود ہے جو دہشت گردی کے مغائر اور اس سے کوسوں دور ہے۔کیا
وہ دین دہشت گردی کی تعلیم دے سکتا ہے جو دوسری قوموں کو کسی مطالبہ اور اصرار کے بغیر
مساویانہ حقوق دیتا ہے؟کیا وہ مذہب دہشت گردی سکھاتا ہے جو عصبیت وعلاقائیت، نسل پرستی
وخود غرضی سے روکتا ہے؟ کیا وہ قانون امن کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے جو دشمنوں کے مفتوحہ
علاقہ میں ایک پھل دار درخت کاٹنے کو روا نہیں رکھتا؟کیا وہ اہل اِیمان بقائے امن کے
لیے خطرہ ہوسکتے ہیں جن سے دنیا نے امن وسلامتی کا درس حاصل کیا؟ ہرگزنہیں، اِسلام
صلح وامن کا دین ہے، محبت وسلامتی کا مذہب ہے، اس کا ہر حکم بقائے امنِ عالم کا ضامن
اورسلامتی کا موجب ہے۔ جہاد کاحکم،اِسلام کی تبلیغ کے لیے نہیں دیا گیا بلکہ جہاد کی
وجہ باغیوں کی جنگجویانہ کارروائیاں اور خانماں سوز سرگرمیاں ہیں۔جہاد کی غرض وغایت
یہ ہے کہ فتنہ ختم کیا جائے، امن کو قائم کیا جائے۔ جہاد، خواہ دفاعی ہویا اقدامی،یہ
ظلم وبربریت اوراِنسان دشمنی کے خلاف ایک تحریک ہے۔ اگر جہاد کی وجہ اور علت کفر ہوتی
تو اِسلام جنگ کے موقع پرغیر مسلم عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور راہبوں کوقتل
کرنے سے منع نہ کرتا۔ اگر جہاد کا مقصد غیر مسلموں کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنا ہوتا تو صدیوں حکومت کرنے والے شاہان
ہند کسی غیر مسلم فرد کو سرزمین ہندوستان پر سانس لینے کاحق نہ دیتے، ان کے عباد ت
خانوں کو منہدم اور زمین دوز کردیتے جب کہ مسلم حکمرانوں کے دور میں علمائے کرام کے
حسن سلوک کی برکت سے تمام برادران وطن چین وسکون‘ راحت وآشتی سے پر امن ماحول وخوشگوار
فضا میں زندگی بسرکرتے رہے۔ مسلمانوں نے پرخطر حالات میں بھی غیرمسلموں کے ساتھ جس
خوش اسلوبی اور عمدگی سے ایفائے عہد کی تاریخ مرتب کردی ہے کہ دنیا اس کی مثال پیش
کرنے سے قاصر ہے۔
شریعت اِسلامیہ نے مسلمانوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ دنیا
کے کسی بھی خطہ میں جائیں کیوں کہ مسلمان سراپا رحمت و سلامتی ہوتے ہیں۔ مسلمان اَمن
کے لیے خطرہ اور فسادی نہیں ہوتے بلکہ امن کے علمبردار اور سلامتی کے پیکر ہوتے ہیں،
ساری اِنسانیت کے لیے نفع بخش اور راحت رساں ہوتے ہیں۔عرب سے عجم تک، یورپ سے افریقہ
تک اور افریقہ سے ایشیا تک مسلمان جہاں بھی گئے امن و سلامتی‘ عدل و انصاف، صلہ رحمی
و احسان کا پیغام لے کر گئے۔ خوف و دہشت، فتنہ و فسادکے زہر آلود معاشرہ و سماج کو
انہوں نے گہوارہ ٔ امن و سلامتی بنا ڈالا۔
ان کے اخلاق کی پاکیزگی، معاملات کی صفائی، رواداری، بھائی چارگی، اِتحاد و یگانگت،
محبت و اخوت، رحمت و مودت کی بدولت ظلم و عدوان کے بادل چھٹ گئے اور عدل و انصاف کے
پھول کھل گئے۔
اِسلام نے غیر مسلم ابنائے وطن سے معاشرتی تعلقات، کاروباری
معاملات، تجارت، خرید و فروخت، لین دین، رہن، کفالہ، صلح وغیرہ دیگر اُمور کی اجازت
دی ہے۔ تمام معاملات و تعلقات میں صداقت و راست بازی کی پابندی کی تاکید کی اور جھوٹ،
مکر و فریب اوردھوکہ و خیانت سے اجتناب کاحکم فرمایا ہے۔ نخوت و استکبار کی جگہ تواضع
و انکساری، فروتنی و خاکساری کے معاملہ کا قانون دیا ہے۔ مسلمان کا ربط و تعلق کسی
بھی مذہب و ملت کے افراد سے ہو اس کو بہر طور یہ ملحوظ رکھنا ہے کہ میں تو مسلم ہوں۔
اِسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی اور اخلاقی تعلقات کی مسلمانوں کے بالمقابل زیادہ
تاکید کی ہے۔عدل و انصاف کے معاملے میں اِسلام میں دوست و دشمن،مسلم و غیر مسلم کا
فرق درست نہیں۔اِسلام دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و اِنصاف کو لازمی قرار دیتا ہے تاکہ
اس کی بنیاد پر ایک خوش گوار معاشرہ تشکیل پائے۔ اسلام ہر حال میں عدل و انصاف کے ایسے
قوانین نافذ کرتا ہے جو ہوا کے رْخ کو موڑدیں۔
اِن واضح اور پاکیزہ تعلیمات کے بعد کیا اس اِمر کی گنجائش ہے
کہ یہ کہا جائے کہ اِسلام اپنے مخالفوں کو برداشت نہیں کرتا‘ ان سے جنگ و جدال کی بات
کرتاہے‘ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے‘ غیر اِسلامی ملک کے غیر مسلم افراد پر انفاق کرنا
اور مصیبت و آفت میں ان کے ساتھ ہمدردی و تعاون کرنا تو مسلمانوں کا وصف خاص ہے۔اِسلام
نے غیر مسلم افراد سے کاروبار، تجارت، لین دین اور معاملات کو درست رکھا ہے، چنانچہ
نبی اکرمe نے
خیبر فتح ہونے کے بعد اِسلام کے سب سے بڑے دشمن یہود کے ساتھ مزارعت کا معاملہ فرمایا
تھا۔
اِس سے ظاہر ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ کتنے پاکیزہ طریقہ
پر معاملات کرتے آئے ہیں کہ ظلم و زیادتی اور حق تلفی کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ اِسی
طرح مسلمان غیر مسلموں سے رہن کا معاملہ بھی کرسکتے ہیں۔ اِ سلام نے غیر مسلموں کے
بھی جان و مال کو تحفظ دیا ہے اور انہیں باوقار زندگی مرحمت کی ہے اور کامل مومن کی
علامت و شناخت بھی یہی رکھی کہ اس سے دوسرے لوگ خواہ مسلم ہوں کہ غیر مسلم، مامون و
محفوظ رہیں۔
No comments:
Post a Comment