سابق امام حرم الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل رحمہ اللہ
تحریر: جناب حافظ عبدالاعلیٰ (بریڈ
فورڈ)
امامت وہ منصب جلیل ہے جواللہ کی بہت بڑی نعمت شمار کیا جاتا
ہے۔ سیدنا ابراہیمu کوزندگی
بھر کی قربانیوں کے بعد رب کائنات نے امامت کے منصب پر فائز فرما دیا: {انی جاعلک للناس اماما} (البقرۃ)
اس آیت کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ منصب امامت کوئی معمولی نہیں
بلکہ یہ عطیہ خداوندی ہوتا ہے۔ جس پر اللہ خوش ہوتے ہیں اسے یہ منصب عطا کردیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ منصب امامت سب سے زیادہ عزت والا ہے کیونکہ انبیاء کرام کا یہی منصب
تھا گویا امام براہ راست مصلی و منبر رسول کا وارث ہوتا ہے ۔ ساری دنیا کی مساجد کی
ماں حرم کعبہ ہے‘ جسے قرآن مجید نے مسجد الحرام کہا‘ اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی
جاتی ہے اور دنیا کی ساری مساجد اس کی بیٹیاں ہیں گویا تمام آئمہ مساجد مسجد الحرام
کے امام کے مقتدی ہیں۔ حرم اقدس کاامام ساری دنیا کا امام ہے ۔گویاروئے زمین پر سب
سے بڑا منصب مسجدالحرام کے امام کا ہے۔ آج ہم جس ہستی کاذکر کررہے ہیں وہ بھی کعبۃ
اللہ کے محترم ومقدس آئمہ میں سے ایک ہیں۔ میری مراد فضیلۃ الامام الشیخ محمد بن عبداللہ
السبیلa سے
ہے ۔الشیخ ابن السبیل عالم اسلام کی ایک محبوب ترین ہستی تھی۔ سال میں دنیا بھر سے
آنے والے مسلمان حج و عمرہ کے موقع پرایک کروڑسے زیادہ کی تعداد میں ان کے پیچھے نمازیں
ادا کرتے تھے۔ وہ زیادہ تر پاکستان، بھارت وغیرہ کے دورے پر تشریف لے گئے ۔ اس کابڑا
سبب پاکستان کے جرنیل ضیاء الحق کی اسلام اور حرمین کے ساتھ والہانہ محبت تھی ۔ انہی
کے دور میں مسجد الحرام کے امام کے علاوہ مدینہ پاک کے آئمہ کرام بھی جو وقت کے چیف
جسٹس تھے‘ پاکستان تشریف لے آئے۔ لاکھوں میں فرزندان توحید نے ان کے پیچھے نمازیں ادا
کیں۔ اس موقع کو بسا غنیمت جانا کہ جس امام کے پیچھے ہمیں مکہ و مدینہ جاکر نمازیں
ادا کرنے کا موقع نصیب ہوتا ہے وہ آج ہماری دھرتی پر تشریف لائے ہیں۔ غالبا ۱۹۸۸ء میں جب امام کعبہ الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل لاہور تشریف لائے تو میاں فضل
حق مرحوم کی دعوت پر آپ نے بیگم کوٹ لاہور میں مدرسۃ البنات کے سنگ بنیاد کی تنصیب
کی تھی ۔ اس وقت مجھے‘ امام صاحب کو سٹیج پر دعوت دینے اور استقبال کرنے کا شرف حاصل
ہوا تھا۔ شیخ محترم غالبا وہ پہلے امام حرم ہیں جنہوں نے باقاعدہ سرکاری طور پر ہندو
پاک کے علاوہ مختلف ممالک کا تبلیغی دورہ کیا جہاں ان کے دیدار اور ان کی امامت میں
نماز ادا کرنے کیلئے لوگ ایسے اُمڈ آتے کہ عموماً انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ۔
شیخ محترم برطانیہ میں بھی ایک سے زائد بار تشریف لاچکے ہیں۔
شیخ کے مختصر
احوال واعزازات
الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل کی ولادت صوبہ قصیم کے علاقہ البکیریہمیں
۱۳۴۵ھ میں ہوئی۔خوش نصیبی کے ساتھ ساتھ ذہانت و فطانت عطیہ خداوندی
تھی۔ قرآن کریم کے حفظ کی تکمیل اپنے والد سے کی۔ تجوید وقراء ت اس علاقے کے معروف
قاری شیخ سعدی یاسین سے سیکھی۔ حفظ وقراء ت اور علوم دینیہ کی تکمیل اکیس سال کی عمرتک
آپ کرچکے تھے اور بائیس سال کی عمر میں تدریس شروع کردی۔ باقاعدہ مدرسہ دینیات پھر
بریدہ کے ایک اسکول میں آپ کو بحیثیت مدرس مقرر کیا گیا۔ ساتھ ہی ایک مسجد میں امامت
اور درس بھی دیتے ۔ آپ کی پرکشش آواز اور دلکش خطابت سے آپ کی شہرت البکیریہ سے
ریاض اور ریاض سے مکہ مکرمہ تک پھیلتی گئی ۔ دنیوی زندگی کی سب سے بڑی سعادت اس دن
ملی جب ۱۳۸۵ھ میں آپ کو حرم کا امام و خطیب مقرر کیا گیا۔جہاں آپ نے کئی
برس تک یہ خدمت سرانجام دی۔ ۱۴۲۹ھ میں گرتی ہوئی
صحت کے پیش نظر آپ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ زندگی کے اس سب سے بڑے اعزاز کے بعد
دیگر اعزازات کے دروازے کھلتے گئے ۔مسجد حرام میں آپ کے شاگردوں میں بڑے بڑے نامور
علماء شامل ہیں۔ مثلاً الشیخ صالح الفوزان، الشیخ عبدالرحمن الکلیہ، الشیخ مقبل بن
ہادی یمنی نمایاں ہیں۔ آپ کی صلاحیتوں کے باعث شئون الحرمین الشریفین (امور حرمین)
کا آپ کو صدر نامزد کیا گیا۔ یہ عہدہ وزات کے برابر ہے۔ شیخ صاحب سپریم کونسل آف
علماء کے ممبر اور مجمع الفقہ الاسلامی مکہ مکرمہ کے رکن تھے۔سن ۱۴۱۲ھ میں حدود حرمین متعین کرنے کیلئے ایک کمیٹی لجنۃ اعلام الحرم المکی الشریف تشکیل
دی گئی تو موصوف کو اس کا سربراہ بنایا گیا ۔ نہایت جانفشانی سے اس کمیٹی نے علمی،
تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے حدود حرم کا تعین کرکے علامات نصب کیں۔ سن ۱۴۲۲ھ میں مکہ مکرمہ میں ایک فلاحی کمیٹی نے علمی ، تاریخی اور جغرفیائی ادارہ بنایا
جس کا مقصد نوجوانوں کیلئے شادی بیاہ کے مسائل حل کرنا تھا۔ شیخ صاحب کو اس کا بھی
صدر بنایا گیا۔ شیخ صاحب سعودی ریڈیو کے مشہور پروگرام نور علی الدرب کے مستقل مقرر
تھے ۔شیخ مرحوم کی مشہور کتابوں میں آپ کے خطبات چار جلدوں میں ہیں۔
شیخ محترم اپنی پیرانہ سالی اور علالت کے باعث سن ۱۴۲۹ھ میں امامت سے سبکدوش ہوکر عزلت نشین ہوگئے تھے۔ بالآخر یہ پیکر اخلاص صفر ۱۴۳۴ھ بمطابق دسمبر ۲۰۱۲ء پیر کے دن اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی خبر وفات ساری
دنیا میں حزن و ملال کے ساتھ سنی گئی۔ دوسرے دن مسجد حرم میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔
جہاں شیخ نے سال ہا سال تک نہ جانے کتنے مرحومین کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ اس کے علاوہ
پوری دنیا میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ شیخ محترم کی تدفین مقبرۃ العدل
میں ہوئی، جہاں شیخ الاسلام ابن بازؒ جیسی کئی نابغہ روزگار ہستیاں آسودہ خاک ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!
اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہہ واعف عنہ۔
No comments:
Post a Comment