مولانا محمد یٰسین شاد رحمہ اللہ
تحریر: جناب مولانا لیاقت علی باجوہ
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی
جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے بہرحال یہاں سے رخصت ہونا ہی
ہے۔ موت سے نہ پہلے کوئی بچ سکا اور نہ ہی کوئی آئندہ بچ پائے گا۔ اس دنیا میں جو آتا
ہے جانے کے لیے آتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ
قبرکے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے
مولانا یاسین شادa بھی اس دنیا کو چھوڑ کرداعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اناللہ
وإنا إلیہ راجعون!
خاندانی پس منظر:
مولانا محمد یٰسین شادa کا خاندان تقسیم ملک کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آیا
تھا۔ تقسیم ملک سے قبل ان کا خاندان موضع دبلی باس ڈھانی سابق ریاست بیکانیر کے ضلع
گنگا نگر کی تحصیل ہنو مان گڑھ میں رہتا تھا۔ ان کے دادا جی کا نام محمد رمضان اور
والد محترم کا نام چوھدری عبدالرحمان تھاجن کی وفات ۱۹۹۶ء میں ہوئی۔
تاریخ پیدائش:
مولانا محمد یاسین شادa ۹ ریبع الثانی یکم
اکتوبر ۱۹۶۰ء بروز ہفتہ موضع کوٹ کبیر تحصیل میلسی ضلع وہاڑی میں پیدا ہوئے
مولانا یاسین شادa نے
F A‘ فاضل اردو اور بہاؤلدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی اے تک
تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۸۳ء میں وفاق المدارس سلفیہ کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس کے ساتھ
ساتھ مختلف مدارس میں دینی علوم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مثلاً دارالحدیث محمدیہ ملتان۔
دارالحدیث محمودیہ کوٹ کبیر‘ جامعہ سلفیہ فیصل آباد‘ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ اور دورہ
تفسیر شیخ الحدیث مولانا محمد یوسفa سے
راجووال سے کیا۔ مولانا شادa کی
زندگی کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ دنیا اور آخرت کے کا موں کی انہوں نے تقسیم نہیں
کی بلکہ ہر کام کو عبادت اور رضائے الٰہی کے جذبے سے انجام دیا کرتے تھے۔ ان کے خاندان
کے ہر فرد کے دل میں ان کی ایک خاص محبت تھی۔
وہ صورتیں الٰہی کس دیس میں بستی ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں
اساتذہ کرام:
آپ نے مختلف اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا جن میں سے چند کے نام
یہ ہیں۔ مولانا سید عبدالشکور اثری‘ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی‘ شیخ الادب
مولانا عبدالحلیم صاحب‘ مولانا قدرت اللہ فوق a، مولانا محمد رفیق فیصل آبادی‘ مولانامحمدعلی
کوٹ کبیر‘ حافظ عبدالستار حسن حافظ محمد لکھویS۔
ملازمت:
تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا یاسین شادa ۱۹۸۱ء سے مختلف حکومتی سکولوں میں اوٹی ٹیچر کی حیثیت سے کام کرتے
رہے۔ ۱۹۹۶ء میں علالت کی وجہ سے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
لائبریری کاآغاز:
مولانا مرحوم نے ۱۹۸۵ء میں میلسی سے نقل مکانی کر کے پیپلز کالونی ملتان شہر میں سکونت اختیار کر لی۔
یکم جنوری ۱۹۹۷ء میں اپنے والد محترم کے نام سے عبدالرحمان اسلامک لائبریری
قائم کی۔ اس کے بعد ۲۰۰۷ء میں گلشن فیض نہر قاسم پور ہیڈ نو بہار ملتان میں ایک پلاٹ
خریدا۔ اس میں ،مسجددارلسلام اہل حدیث کے نام سے مسجد بھی تعمیر کرائی اور لائبریری
بھی اسی مسجد میں لے آئے۔ مولانا یاسین شادa اس لائبریری و مسجد کے بانی ہیں۔ ان کے دوسرے بھائی
مولانا احمددین سعودی (فاضل بحرالعلوم السعودیہ کراچی) اس مسجد کے خطیب ومعاون لائبریری
ہیں۔ مولانا یاسین شادa کے
تیسرے بھائی محترم عبدالجبار کے بیٹے عائش الرحمن لائبریری کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ لائبریری
میں تفسیر‘ حدیث‘ فقہ رجال‘ سیرت النبیe‘ تاریخ‘ ادبیات‘ شعر وشاعری‘ سیاسیات‘
عمرانیات‘ اُردو‘ عربی‘ فارسی پر مشتمل ہزاروں کتب موجود ہیں۔
تصانیف:
مولانا یاسینa کو
لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق تھا۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے مضامین مختلف موضوعات
پر جماعتی رسائل میں شائع ہوتے رہتے تھے البتہ ان کی لائبریری کی طرف سے نماز نبویe از
مولانا عبدالتواب محدث ملتانیa‘ خبر نامہ لائبریری‘
اشتہار عقیدہ توحید تقسیم کیے جا چکے ہیں اور مولانا یاسین شادa کا
اب لائبریری کی طرف سے مجلہ شائع کرنے کا پروگرام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مہلت نہ دی۔
ازدواجی زندگی:
مولانا یاسین شادa کی اولاد نہیں تھی اور ان کی بیوی ایک سال قبل اللہ
تعالیٰ کو پیاری ہو گئی تھیں۔
بیماری کے ایام:
مولانا مرحوم کافی عرصہ سے دل کی تکلیف میں مبتلا تھے‘ اس کے
ساتھ شوگر کے بھی مریض تھے۔ آپ جماعت غرباء اہل حدیث کراچی کی ۷۴ویں سالانہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد واپس آئے تو طبیعت دن بدن کمزور ہوتی
گئی اور آ خر وہ وقت آگیا جو ٹل نہیں سکتا۔ آپ نے ۱۷ فروری مغرب کے وقت
وفات پائی اور ۱۸ فروری ۲۰۱۹ء ۱۲ جمادی الثانی ۱۴۴۰ھ کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں آپ کا جنازہ مولانا عبدالشکور رنگ پوری نے پڑھایا
اور بعد ازاں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آپ وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی
واپس نہیں آتا۔
اللہم اغفر لہ و ارحمہ واغفر لہ واجعل قبرہا روضہ من الجنہ
No comments:
Post a Comment