Saturday, July 27, 2019

جنگ وجدل کی تاریخ اور اسلامی تعلیمات 16-2019


جنگ وجدل کی تاریخ اور اسلامی تعلیمات

تحریر: جناب مولانا فاروق الرحمٰن یزدانی
جب سے کائنات وجود میں آئی جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلا جھگڑا سیدنا آدمu کے دو بیٹوں کے درمیان ہوا‘ ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ قرآن حکیم نے اس کا تذکرہ کیا ہے:
{اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۱ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ۱ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ٭} (المائدہ: ۲۷)
جنگ و جدل کا مقصد دنیا کو سرنگوں کرنا‘ غلام بنانا‘ اپنی بڑھوتی اور حاکمیت قائم کرنا وغیرہ۔ اس مقصد کو پانے کے لیے طاقت کا استعمال ‘زور آزمائی ‘قتل و غارت‘ وحشیانہ طرز عمل اور سفاکانہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔ نمرود کو جب سیدنا ابراہیمu سے خطرہ محسوس ہوا تو اس نے آگ میں جلانے کی ناپاک کوشش کی۔ فرمایا:
{قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَ انْصُرُوْٓا اٰلِہَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ٭} (الانبیاء: ۶۸)
{قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ٭}(الانبیاء: ۷۰)
چونکہ یہ معرکہ حق و باطل کے درمیان تھا۔ لہٰذا حق تعالیٰ نے اپنی نصرت سے سیدنا ابراہیمu کوفیض یاب کیا۔ اسی طرح سیدنا موسیٰu کا واسطہ وقت کے طاغوت فرعون سے پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰu کو فرمایا:
{اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہ طَغٰی٭} (النازعات: ۱۷)
سرکشی کرنے والا اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب وہ دعویٰ کر رہا ہے۔ {فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی} (النازعات: ۲۴)
سیدنا موسیٰu کے سمجھانے اور نصیحت کرنے کا اس پر کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ مزید بھڑک اٹھا۔ پھر اس معرکہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔
{فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَ الْاُوْلٰی٭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی٭}(النزاعت: ۲۵-۲۶)
یہ واقعات اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کے لیے بیان کر دیئے کہ دنیا میں ایسا ہو گا۔ جہاں حق ہے وہاں باطل بھی ہے۔ جہاں ظلم‘ وہاں عدل بھی ہے‘ جہاں سچائی‘ وہاں جھوٹ بھی ہو گا۔ جہاں اخلاص‘ وہاں منافقت بھی ہو گی اور جہاں ضدیں جمع ہو جائیں وہاں ٹکراؤ تو ہو گا۔ اسی طرح امن اور فساد ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔
طلوع اسلام سے قبل عرب حالت جنگ میں رہتے‘ یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا حتی کہ حرمت والے مہینوں میں بھی یہ شغل جاری رکھتے اور مہینوں کی ترتیب بدل دیتے۔
{اِنَّمَا النَّسِیْٓئُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَـــہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَــــہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ…} (التوبۃ: ۳۷)
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کوئی موت کے دہانے پر پہنچ جاتا تو اپنی اولاد کو وصیت میں جنگ ہی دے کر جاتا‘ گویا وراثت میں جنگ ہی ملتی۔
لڑائی جھگڑا‘ جنگ و جدل فطرت ہی کا حصہ ہے‘ اسلام نے اس کا راستہ نہیں روکا بلکہ اس کو اصلاح احوال کے لیے استعمال کیا‘ اگر یہ راستہ اختیار نہ کیا جاتا تو حزب الشیطان اپنے مقاصد پانے میں کامیاب ہو جاتا۔ لہٰذا اس باطل کو دبانے کے لیے جنگ کی اجازت فرمائی:
{اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۱ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ٭ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ۱ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۱ وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہ۱ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ٭} (الحج: ۳۹-۴۰)
بعض لوگوں کا بعض سے ٹکراؤ اور مدافعت نہ ہوتی تو تمام عبادت گاہیں تباہ و برباد ہو جاتیں ۔ ہجرت یاجنگ کے ذریعے ان کی حفاظت کا سامان کیا گیا ۔
یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مصلحت پسند پر امن بندوں کو شرپسند‘ مفسدین اور تخریب کاروں کے مقابل لا کر آزماتا ہے تاکہ حق واضح ہو جائے اور باطل سرنگوں ہو۔ اس موقعہ پر کامیاب وہ ہے جو صبر و استقامت کے ساتھ صحیح راستہ اختیار کرتا ہے۔
سورۃ محمد آیت نمبر ۴‘ ۵‘ ۶‘ ۷ میں فرمایا:
{وَ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ۱ وَ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ٭ سَیَہْدِیْہِمْ وَ یُصْلِحُ بَالَہُمْ٭ وَ یُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ٭ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ٭}
جنگ دراصل ایمان والوں کے لیے آزمائش کی گھڑی ہے۔ ثابت قدمی اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جدوجہد کا نتیجہ کہ ایک ایک لمحہ اللہ کے ہاں قابل قدر اور حالات کو سنوارنے کا ذریعہ جس کا انجام جنت کے سوا کچھ نہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ۱ وَ نَبْلُوَاْ اَخْبَارَکُمْ٭} (محمد: ۳۱)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات جنگ حق و باطل کے درمیان محض معرکہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی بڑی آزمائش کہ اس موقع پر جدوجہد کرنے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ یہ فرق بھی جاننا ضروری ہے کہ ان حالات میں ان کا طرز عمل کیا ہے؟
مسلمان کبھی جنگ کی خواہش نہیں کرتا اور نہ ہی جنگ میں پہل کرتا ہے لیکن جب ظلم و زیادتی بڑھ جائے اور ان پر زمین تنگ کر دی جائے تو یہ اذن‘ اجازت خالق کائنات کی طرف سے ہے کہ اپنا دفاع کرو اور ان کی زیادتی کا راستہ روکو۔ لیکن تمہاری طرف سے زیادتی نہ ہو۔ عہد رسالت مآبe میں ایک مسلمان خاتون بنو قینقاع کے بازار گئی ۔ ایک سنار نے اسے ورغلانے کی کوشش کی‘ جب وہ نہ مانی تو اس کے کپڑے کسی چیز سے باندھ دیئے۔ جس کا خاتون کو علم نہ تھا‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھی تو کپڑے اتر گئے اور وہ برہنہ ہو گئی اور یہودی مذاق اڑانے لگا۔ اس پر ایک مسلمان نے یہودی کو قتل کر دیا۔ جس کے جواب میں یہودیوں نے بھی مسلمان کو قتل کر دیا یہ بات جب عام مسلمانوں تک پہنچی تو انہوں نے رسول اکرم e کی قیادت میں ان کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی بن سلول کی مداخلت پر آپ نے انہیں چھوڑ دیا۔ بنو قینقاع پر اس واقعہ کا اس قدر رعب طاری ہوا کہ وہ شام کی طرف جلا وطن ہو گئے۔
دوسرا اہم واقعہ عہد بنو عباس خلیفہ معتصم کے دور میں رونما ہوا۔ جب رومیوں نے عموریہ پر فوج کشی کی تو خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے لگے۔ ایک خاتون نے بلند آواز سے معتصم کو للکارا‘ اس پر رومی فوج کے لوگ ہنسنے لگے کہ معتصم اس کی مدد کو آئے گا‘ وہ تو عراق میں ہے۔ لیکن کسی طرح یہ بات معتصم تک پہنچ گئی۔ اس نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ رومیوں پر حملہ کیا اور ان خواتین کو اس مصیبت سے نکالا۔ گویا اسلامی عساکراس طرح جنگ و جدل میں کسی زیادتی کے بغیر مظلوم کی مدد کرتے ہیں۔ تاریخ اسلام اس طرح کے ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ طوالت کی وجہ سے اسی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
 جنگ کے آداب:
شریعت میں جنگ کے آداب (آداب الحرب) کے عنوان سے ایک مکمل باب موجود ہے۔ اسلام نے جنگ کو بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ اسے بھی قواعد و ضوابط کا پابند کیا گیا۔ اسلام نے صدیوں قبل ان ضابطوں کو قانونی شکل دی جسے مغرب نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد محسوس کیا اور جنیوا کنونشن کی روشنی میں اس کے اصول و ضوابط وضع کیے گئے۔ اسلام بہت ہی مہربان دین ہے۔ اس کا ہر پہلو انسانیت کی خیر خواہی اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے سے تعبیر کیا ہے۔ فرمایا:
{اَنَّہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا۱ وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا٭} (المائدہ: ۳۲)
چند بنیادی آداب ملاحظہ فرمائیں:
1          قرآن حکیم نے ایک بنیادی اصول بیان کیا ہے۔
{وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا۱ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ٭}
جنگ میں جو مد مقابل آئے اسی کو قتل کرنا ہے۔ اس قتل میں زیادتی کا پہلو نظر نہ آئے کیونکہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے۔ حالانکہ جنگ میں جذبات بھڑکے ہوتے ہیں‘ اس وقت اعتدال اور توازن برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا‘ لیکن اس کے باوجود اسلام کی واضح تعلیمات یہ سوچ پیدا کرتی ہیں کہ یہ امن و آشتی کا دین ہے۔
2          جنگ میں عورتوں‘ بچوں اور مذہبی پیشواؤں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ سیدنا انس بن مالکt روایت کرتے ہیں آپe نے ارشاد فرمایا:
[انطلقو باسم اللہ وباللہ وعلی ملۃ رسول اللہ ولا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا ولا صغیرا ولا امراۃ ولا تغلوا و خموا اغنائکم و اصلحوا واحسنو ا ان اللہ یحب المحسنین۔]
3          جنگ میں قتل و غارت ہوتی ہے لیکن مثلہ کرنے ‘ لاش کی بے حرمتی کرنے سے منع کیا۔ فرمایا:
[اغزوا ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیدا]
4          جنگ میں گھیراؤ جلاؤ‘ تدمیر وتخریب کی بھی اجازت نہیں۔ اس کے لئے سیدنا ابو بکرt کا وہ ہدایت نامہ جو انہوں نے روم کے مقابلے میں بھیجے گئے لشکر کے امیر یزید بن ابی سفیان کو جاری کیا ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ یزید کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر ساتھ چل رہے تھے جس پر یزید نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! آپ بھی گھوڑے پر سوار ہوں یا مجھے اتر لینے دیں۔ آپ نے فرمایا کہ نہ تو اترے گا اور نہ میں سوار ہوں گا۔ میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں چل رہا ہوں۔ فرمایا کہ تم ایک ایسے ملک میں جا رہے ہو جہاں انواع واقسام کے کھانے ہوں گے اللہ کا نام لیکر شروع کرو اور آخر میں اللہ کی حمد بیان کرو۔ وہاں یہودیوں کی عبادت گاہ میں ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو عبادت گاہوں کے لئے محدود رکھا ہے‘ انہیں چھوڑ دینا۔ ایسے لوگ ملیں گے جن کے سروں پر شیطان نے جگہ بنائی ہو گی۔ یعنی (الشماسہ) ان کو قتل کر دینا‘ یہ دراصل فوجی ہونگے۔
نہ بوڑھوں کو قتل کرنا‘ نہ عورت کو قتل کرنا‘ نہ بچوں کو قتل کرنا۔ نہ عمارتوں کو خراب کرنا۔نہ درخت کاٹنا مگر ضرورت کے لیے۔ ضرورت کے علاوہ کسی جانور کو ذبح نہ کرنا‘  نہ کھجوروں کے درختوں کوجلانا اور نہ مثلہ کرنا۔
\          نبی کریم e کی وصیت فرمایا:
[لا تحرموا النخل، ولا تغرقوہ بالماء، ولا تقطعوہ شجرۃ مثمرۃ ولا تحرقوا زرعا، وفی روایۃ ولا تہدموا دارا۔]
 قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک
اسلام دین رحمت ہے‘ وہ حیوانوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیتا ہے تو پھر قیدیوں کے ساتھ کیوں نہیں جبکہ وہ انسان ہیں۔ قیدی جو کہ جنگ میں گرفتار کر لیے جائیں‘ اسلام میں ان کو گرفتار کرنے کی مشروعیت ہے۔ [خذوہم و احصروہم] جب یہ گرفتار ہو جائیں۔ جنگی قیدی کی حیثیت سے انہیں قید رکھا جائے۔ مگر ضروریات زندگی مہیا کی جائیں۔ مثلاً کھانا‘ پینا‘ لباس وغیرہ۔ {ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما واسیرا} اسی طرح بعد میں جو قیدی پکڑے گئے ان کے ساتھ صحابہ کرام احسان کا معاملہ کرتے‘ خود کھجور کھاتے اور قیدیوں کو روٹی پیش کرتے۔ آپe ہمیشہ صحابہ کو قیدی سپرد کر کے فرماتے: اَحسِن اِلَیہِ!
صلاح الدین ایوبیa نے جب بیت المقدس فتح کیا تو ہزاروں صلیبی گرفتار ہوئے۔ لیکن انہوں نے انہیں آزاد کر دیا تاکہ حالات کی تنگی کی وجہ سے یہ پریشان نہ ہوں۔
 جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں:
دنیا میں لڑی جانے والی پہلی جنگ عظیم اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے مسائل پیدا کئے اور کسی مسئلے کو حل نہ کر سکے۔ آخر کار سب کو گفتگو کی میز پر آنا پڑا۔ یہی مسائل کے حل کا مہذب طریقہ ہے۔ افغانستان کی جنگ کی تازہ ترین صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ مدتوں سے آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا‘ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ ہزاروں قتل اور زخمی ہوئے‘ لیکن کوئی مسئلہ حل نہ ہوا۔ اس میں امریکہ‘ یورپ اور اس کی افواج ملوث تھیں۔ جدید ترین وسائل اور ہتھیار استعمال ہوئے لیکن طالبان کو شکست نہ دے سکے۔ آخر کار امریکہ نے گھٹنے ٹیک دیئے اور طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا۔ اسے سوپیاز اور جوتے کھانے کے بعد یہ فلسفہ سمجھ آیا کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکال لیا جائے۔
یہی حال بھارت کا ہے۔ اسے رقبہ کے اعتبار سے وسیع ہونے ‘آبادی کے اعتبار سے بڑا ہونے کا گھمنڈ ہے  اور علاقے کا تھانیدار بننے کا شوق ہے‘ لہٰذا جو سلوک نیپال ‘بنگلہ دیش کے ساتھ کر رہا ہے وہی سلوک پاکستان سے کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ اس کے اور پاکستان کے درمیان کشمیر اصل مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی سات لاکھ فوج کشمیر میں مصروف ہے۔ جس پر روزانہ کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں۔ یہ بھارت کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی فوجی نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا آئے دن شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ بات پوری دنیا کو سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہندو دھرم کے ماننے والے حکومت میں ہیں اور بدقسمتی سے ان کا تعلق جنونی دہشت گرد ہندوؤں سے ہے۔ یہ لوگ مسلم کشی کے نعرے پر حکومت میں آئے اور جب سے اقتدار میں ہیں بھارت میں مسلمانوں پر ہی نہیں دیگر اقلیتوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کیا گیا ہے۔ قتل و غارت گری کے بیسیوں واقعات ہو رہے ہیں‘ ان کی املاک کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ لیکن دنیا محو تماشا ہے کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔ حالانکہ وہ برملا تعصب‘ مذہبی منافرت اور نسل پرستی کا اعلان کر رہے ہیں جوکہ اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا میں ۶۰ کے قریب مسلم ممالک ہیں لیکن کسی جگہ اقلیتوں کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی مذہب کے نام پر قتل و غارت ہے۔ اس لیے پوری دنیا کو اس بات پر تشویش کا اظہار کرنا چاہئے کہ کشمیر میں جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کر کے انہیں اقلیت میں بدلا جا رہا ہے اور دیگر صوبوں سے ہندوؤں کو لا کر کشمیر میں بسایا جا رہا ہے۔
جنگ تباہی کا نام ہے۔ یہ اپنے ساتھ بے شمار مسائل لیکر آتی ہے۔ لوگوں میں نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جب انڈیا کے طیارے آ کر واپس چلے گئے تو پاکستانی عوام نفسیاتی دباؤ میں آ گئے اور مایوسی کی باتیں کرنے لگے۔ لیکن جیسے ہی دوسرے دن ان کے دو طیارے گرا لئے اور ایک پائلٹ گرفتار ہوا تو نفسیاتی برتری محسوس ہوئی اور پورے بھارت پر مایوسی چھا گئی۔
جنگ سے اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ روز مرہ کی اشیاء خورد و نوش کمیاب ہو جاتی ہیں۔ ذرائع آمد و رفت رک جاتے ہیں۔ پھل سبزیاں اور دیگر اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتیں۔ لہٰذا اشیاء کی قلت سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تباہی اور اس کے اثرات مدت تک رہتے ہیں۔
اس سے بھارت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ جہاں کی پچاس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ہزاروں خاندان روزانہ سڑکوں پر کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہیں جنگ میں اپنے قیمتی وسائل نہیں جھونکنے چاہئیں۔ خطے میں قیام امن کے لیے بھارت کی ذمہ داری زیادہ ہے‘ اس لیے کہ وہ ایک بڑا ملک ہے اسے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔ یہ مسائل جب تک حل نہیں ہوتے کشیدگی برقرار رہے گی اور آنے والی نسلوں کو جنگ و جدل کا تحفہ دیکر جائیں گے۔ دوسری اہم بات بھارت کو مذہبی جنونیت سے باہر آنا ہو گا۔ ہندو ازم عقلی اعتبار سے ناقابل یقین اور ناقابل عمل مذہب ہے۔ کوئی دانش مند اس کے فلسفے کو ماننے کے لیے تیارنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں یہ کسی جگہ قابل قبول نہیں۔ لوگ ہندو ازم کو چھوڑ رہے ہیں لہٰذا انہیں بھارت میں رہتے ہوئے امن کاپرچار کرنا چاہیے۔ تشدد‘ نفرت اور تعصب والا راستہ چھوڑ دینا چاہیے۔
دونوں ملکوں کو یہ بھی باور ہونا چاہیے کہ اسلحہ فروخت کرنے والے عالمی گماشتے شدید خواہش مند ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی شدت اختیار کرے تاکہ دونوں ممالک ان سے اسلحہ خریدیں ‘ بھارت جو پہلے ہی اپنا دفاعی  بجٹ کھربوں ڈالر تک لے گیاہے اب مزید اضافہ کرے گا۔ بھوک اور علاج کے بغیر مرتے عوام کو سنبھالنے کی بجائے اسلحہ اور بارود کی لو سے ان کا علاج ہو گا اوربھوک مٹائی جائے گی‘ سب ہوش کے ناخن لیں اور اس عالمی سازش کو ناکام بنائیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)