مرد وعورت کے طریقۂ نماز میں فرق
(دوسری وآخری قسط) تحریر: جناب مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر امن
پوری
دلیل نمبر: ۹
یزید بن ابی حبیبa بیان کرتے ہیں:
[إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺ
مَرَّ عَلَی امْرَاَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ: إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ
اللَّحْمِ إِلَی الاَرْضِ فَإِنَّ الْمَرْاَۃَ لَیْسَتْ فِی ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ]
’’رسول اکرمe نماز
پڑھتی دو عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: جب تم سجدے کرو تو کچھ گوشت زمین سے ملا
دیا کرو، کیوں کہ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲؍۲۲۳، المراسیل لأبی داود: ۸۷)
تبصرہ: یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کیوں کہ تابعی
براہ ِراست نبی اکرمe سے
بیان کر رہا ہے۔ امام بیہقیa خود
فرماتے ہیں کہ یہ ’’منقطع‘‘ ہے۔
امام مسلمa مرسل
روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
[وَالْمُرْسَلُ مِنَ
الرِّوَایَاتِ فِی اَصْلِ قَوْلِنَا، وَقَوْلِ اَہْلِ الْعِلْمِ بِالأَخْبَارِ لَیْسَ
بِحُجَّۃٍ۔]
’’مرسل روایت ہمارے اور محدثین کے قول کے مطابق حجت نہیں۔‘‘ (مقدمۃ
صحیح مسلم: ۱؍۲۲، ح: ۲۰، طبع دارالسّلام)
دلیل نمبر: ۱۰: سیدنا علیt فرماتے ہیں:
[إِذَا سَجَدَتِ
الْمَرْاَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا۔]
’’جب عورت سجدہ کرے،
تو سمٹ جائے اور اپنی دونوں رانیں جوڑ لے۔‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ: ۱؍۲۶۹، واللفظ لہ،، السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲؍۲۲۲)
تبصرہ: یہ قول بلحاظ سند
سخت ’’ضعیف‘‘ ہے، کیوں کہ
1 ابو اسحاق سبیعی
’’مدلس‘‘ ہیں۔ (طبقات المُدلِّسین لابن حجر: ۴۲)
جو کہ
لفظِ ’’عن‘‘ سے بیان کر رہے ہیں، جب ثقہ راوی بخاری و مسلم کے علاوہ ’’عن‘‘ سے روایت
کرے تو وہ ضعیف ہوتی ہے تاوقتیکہ راوی سماع کی تصریح کردے۔
2 حارث بن عبداللہ
اعور راوی باتفاق محدثین ’’ضعیف‘‘ اور ’’کذاب‘‘ ہے۔ اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق
بھی ثابت نہیں۔ حافظ نوویa کہتے
ہیں:
[اَلْحَارِثُ الاَعْوَرُ
مُتَّفَقٌ عَلٰی ضُعْفِہٖ وَتَرْکِ الْـإِحْتِجَاجِ بِہٖ۔] (المَجموع شرح المُھَذَّب:
۳؍۲۸۸)
’’حارث اعور کے ضعیف ہونے اور اس سے حجت نہ لینے پر محدثین کا اتفاق
ہے۔‘‘
دلیل نمبر: ۱۱
سیدنا عبداللہ بن عباسw سے عورت کی نماز کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
[تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ] ’’وہ اکٹھی ہو جائے گی اور سمٹ جائے گی۔‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ:
۱؍۲۷۰، ح : ۲۷۹۱)
تبصرہ: اس قول کی سند
انقطاع کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ
1 بکیر بن عبداللہ
اشج راوی کے بارے میں امام حاکمa لکھتے
ہیں کہ اس کا شمار تابعین میں تو کیا جاتا ہے، لیکن اس کا صحابہ کرام] سے سماع ثابت
نہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث: ۴۵)
منقطع
روایت محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔
2 حافظ عراقیa لکھتے
ہیں:
[ذَکَرَہُ ابْنُ
حِبَّانُ اَیْضًا فِی اَتْبَاعِ التَّابِعِیْنَ۔]
’’امام ابن حبانa نے
بھی اسے تبع تابعین میں ذکر کیا ہے۔‘‘ (تحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل: ۴۰)
3 بکیر بن عبداللہ
کے بارے میں امام حاکمa لکھتے
ہیں:
[لَمْ یَثْبُتْ سَمَاعُہ،
مِنْ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جُزْئٍ، وَ اِنَّمَا رُوَاتُہ، عَنِ التَّابِعِیْنَ۔]
’’اس کا سماع سیدناعبداللہ
بن حارث بن جزءt سے
ثابت نہیں، بلکہ اس کی روایات تابعین سے ہیں۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث: ۴۵)
سیدناعبداللہ بن حارثt کی وفات سن ۸۸ ہجری میں ہوئی،
بکیر بن عبداللہ اشج کا ان سے سماع نہیں، تو سیدنا عبداللہ بن عباسw سن
۶۹ ہجری میں فوت ہوئے،
ان سے سماع کیسے ممکن ہے؟
الحاصل: یہ قول بہ لحاظ
سند ثابت نہیں۔
ثابت ہوا کہ مرد اور عورت کے رکوع و سجود کے طریقہ میں کوئی
فرق نہیں، یہ فرق باسند صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے قطعا ثابت
نہیں۔
دلیل نمبر: ۱۲: امام حسن بصریa فرماتے
ہیں:
[الْمَرْاَۃُ تَضْطَمُّ
فِی السُّجُودِ۔]
’’عورت سجدہ میں
اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھے گی۔‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ: ۱؍۲۷۰)
تبصرہ: اس قول کی سند
ضعیف ہے۔ ہشام بن حسان بصری ’’مدلس‘‘ ہیں۔ (طبقات المدلسین لابن حجر : ۴۷)
امام اسماعیل بنa کہتے
ہیں:
[کُنَّا لاَ نَعُدُّ
ھِشَامَ بْنَ حِسَانٍ فِی الْحَسَنِ شَیْئًا۔]
’’ہم ہشام بن حسان
کو حسن بصری سے روایت میں کچھ نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:
۹؍۵۶)
یہ جرح مفسر ہے۔ حیرانی ہے کہ اس کے باوجود بعض لوگ ہشام بن
حسان کی حسن بصریa سے
روایت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، نہ جانے کیوں؟
دلیل نمبر: ۱۳
معمرa بیان
کرتے ہیں کہ امام حسن بصریa اور
امام قتادہa نے
فرمایا:
[إِذَا سَجَدَتِ
الْمَرْاَۃُ فَإِنَّہَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ، وَلَا تَتَجَافٰی لِکَی لَا تَرْفَعَ
عَجِیزَتَہَا]
’’جب عورت سجدہ کرے،
تو جتنا ممکن ہو، سمٹ جائے اور کہنیوں کو پہلو سے دور نہ کرے تاکہ اپنی کمر اوپر نہ
اُٹھائے۔‘‘ (مُصنَّف عبد الرزاق: ۳؍۱۳۷، ح: ۵۰۶۸)
تبصرہ: سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔
اس میں امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانیa ’’مدلس‘‘ ہیں،
’’عن‘‘ سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں ملی۔
امام حسن بصریa کے
قول کے ’’ضعیف‘‘ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امام معمر بن راشدa نے
امام حسن بصریa سے
نہ سماع کیا ہے، نہ ہی ان کو دیکھا ہے۔ (المراسیل لابن أبی حاتم: ۲۱۹)
لہٰذا یہ قول ’’مدلَّس و منقطع‘‘ ہے۔
دلیل نمبر: ۱۴: امام مجاہدa تابعی
کے بارے میں ہے:
[إِنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ
أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَہ، عَلٰی فَخِذَیْہِ إِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْأَۃُ۔]
’’آپ مرد کے سجدے
میں عورت کی طرح اپنے پیٹ کو رانوں سے ملانا نا پسند مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘ (مصنف ابن
أبی شیبۃ: ۱؍۲۷۰)
تبصرہ: اس قول کی سند
سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے، کیوں کہ اس کا راوی لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘
اور ’’سئ الحفظ‘‘ ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام دارقطنی، امام یحییٰ بن مَعین، امام
ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدیS اور
جمہور محدثین نے اسے حدیث میں ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
1 اس کے بارے
میں حافظ عراقیa لکھتے
ہیں:
[ضَعَّفَہُ الْجُمْھُوْرُ۔]
’’جمہور محدثین نے
اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (المغنی عن حمل الأسفار فی الأسفار: ۲؍۱۷۸، تخریج أحادیث الإحیاء للحَدَّاد: ۱۶۴۸)
2 حافظ نوویa کہتے
ہیں:
[لَیْثُ بْنُ اَبِی
سُلَیْمٍ، فَضَعَّفَہُ الْجَمَاہِیْرُ۔]
’’لیث بن ابی سلیم
کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘ (شرح مقدمۃ مسلم ص ۴)
3 حافظ ہیثمیa لکھتے
ہیں:
[وَضَعَّفَہُ الاَکْثَرُ۔]
’’جمہور محدثین نے
اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (مجمع الزَّوائد: ۱؍۹۰۔۹۱، ۲؍۱۷۸)
4 حافظ ابن ملقنa لکھتے
ہیں:
[ضَعِیْفٌ عِنْدَ
الْجُمْھُوْرِ۔](البدرالمنیر: ۲؍۱۰۴)
’’جمہور محدثین کے
نزدیک ضعیف ہے۔‘‘
5 حافظ بوصیریa کہتے
ہیں:
[ضَعَّفَہُ الْجُمْھُوْرُ۔]
’’جمہور محدثین نے
اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (مِصباح الزُّجاجۃ فی زَوائد ابن ماجۃ : ۵۴)
6 حافظ ابن حجرa نے
اس کو ’’ضعیف الحفظ‘‘ کہا ہے۔ (تغلیق التعلیق: ۲؍۳۳۷)
دلیل نمبر: ۱۵
امام ابراہیم نخعیa فرماتے ہیں:
[إِذَا سَجَدَتِ
الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا،
وَلَا تُجَافِی کَمَا یُجَافِی الرَّجُلُ۔]
’’جب عورت سجدہ کرے
تو پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چمٹائے اور اپنی کمر کو بلند نہ کرے اور کہنیوں کو پہلو
سے دور کرے، جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔‘‘ (مصنف ابن أبی شیبۃ: ۱؍۲۷۰، وسندہ، صحیحٌ)
تبصرہ: یہ نہ قرآن ہے،
نہ حدیث، نہ قول صحابی اور نہ قول امام ابی حنیفہa۔ یہ ایک مسلمان کا اجتہاد ہے، جو صحیح
احادیث کے خلاف ہے۔ ویسے بھی جو لوگ مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کرتے ہیں، وہ
امام ابراہیم نخعیa کے
کئی اجتہاد ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کو چاہیے کہ اپنے مزعوم امام سے با سندِ
صحیح یہ فرق ثابت کریں، ورنہ مانیں۔
قارئین کرام! یہ بعض الناس کی کل کائنات ہے، جس کا حشر آپ نے
دیکھ لیا، قرآن و حدیث یا کسی صحابی سے مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق ثابت نہیں
ہوسکا۔ صرف اور صرف امام ابراہیم نخعیa کا
قول ثابت ہے، خوب یاد رہے کہ عبادت نبی کریمe کے طریقہ کے مطابق ادا کرنی چاہیے، نہ کہ اُمتیوں کے
اجتہادات کے مطابق۔
محدث البانیa نے
کیا خوب لکھا ہے:
[وَلاَ اَعْلَمُ
حَدِیْثًا صِحِیْحًا فِی التَّفْرِیْقِ بَیْنَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَصَلاَۃِ الْمَرْأَۃِ،
وَإِنَّمَا ہُوَ الرَّاْیُ وَالإِجْتِہَادُ۔]
’’میں نے مرد و عورت
کے طریقہ نماز میں فرق کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی، یہ صرف رائے اور اجتہاد
ہے۔‘‘ (السلسلۃ الضعیفۃ: ۵۵۰۰)
جس نے بھی یہ فرق بیان کیا ہے، اپنے اجتہاد سے بیان کیا ہے۔
ہر ایک کے اجتہاد کو قرآن و حدیث پر پیش کیا جائے، اگر موافق ہو تو لے لیا جائے ورنہ
رد کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ احناف زیر ناف ہاتھ باندھتے ہیں، جب کہ ان کی عورتیں
سینے پر ہاتھ باندھتی ہیں، یہ فرق محمد رسول اللہe، صحابہ کرام] اور امام ابو حنیفہa سے
بھی باسند صحیح ثابت نہیں، فرمانِ نبوی ہے:
[صَلُّوا کَمَا رَاَیْتُمُونِی
اُصَلِّی۔] (بخاری)
’’نماز میرے طریقے
کے مطابق پڑھیں۔‘‘
آپe کا
یہ فرمان عام ہے۔ ہر مرد و عورت کو شامل ہے۔ کسی صحیح مرفوع یا موقوف روایت سے بھی
مر دو عورت کے طریقہ نمازمیں فرق ثابت نہیں۔ شریعت نے نماز کے بعض مسائل میں عورتوں
کے لیے مخصوص احکام صادر کیے ہیں، مثلاً: لباس، امام کو لقمہ دینے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ
مارنا، امامت کی صورت میں صف کے درمیان میں کھڑے ہونا، صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا،
وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ صورتیں شرعی دلائل کی روشنی میں مستثنیٰ کی گئی ہیں، نیز یہ بات
بھی ذہن نشین رہے کہ ان کا طریقہ نماز سے کوئی تعلق نہیں۔
حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہوا ہے:
[اِنَّ کُلَّ حُکْمٍ
ثَبَتَ لِلرِّجَالِ ثَبَتَ لِلنِّسَائِ لِأَنَّہُنَّ شَقَائِقُ الرِّجَالِ إلَّا مَا
نُصَّ عَلَیْہِ۔]
’’ہر حکم، جو مردوں
کے لیے ثابت ہو، وہی حکم عورتوں کے لیے ہے، کیوں کہ عورتیں مردوں کی نظائر ہیں، سوائے
اس حکم کے جس پر (خاص) نص وارد ہو جائے۔‘‘ (البَحر الرَّائق لابن نُجَیم الحنفی: ۱؍۴۳)
جب مردوں کے لیے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا صحیح احادیث
سے ثابت ہو گیا تو عورتوں کے لیے یہی حکم ہو گا۔ بعض نے اتفاق کا دعویٰ کیا ہے کہ عورت
سینے پر ہاتھ باندھے گی۔ اولاً اتفاق کا یہ دعویٰ کسی ثقہ امام سے ثابت نہیں، تقلید
پرستوں کے دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتفاق کا یہ دعویٰ باطل و
مردود ہے۔
الحاصل:
قارئین کرام! ہم نے مر دو عورت کی نماز میں فرق کرنے کے حوالے
سے احناف کے تمام دلائل کا منصفانہ جائزہ آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ان کے دلائل میں کتنی جان ہے؟ جب کہ
صحیح فرمانِ رسول جو ہم نے پیش کر دیا ہے، اس کے مطابق مردو عورت کی نماز میں کوئی
فرق نہیں، کیوں کہ آپe نے
اُمت کو اپنے جیسی نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اب رسول اکرمe نے
جس طریقے سے نماز پڑھی ہے، وہ کتب حدیث میں موجود ہے اور اس میں ایسا کوئی فرق بیان
نہیں کیا گیا۔
اب فیصلہ کریں کہ مرد وزن کی نماز میں فرق کر نا دین اسلام سے
محبت ہے یا…؟؟
No comments:
Post a Comment