بھارت میں انتخابات اور مسلمان
تحریر: جناب مولانا اللہ بخش
2014ء کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے عوام میں خود کو ایک نئے روپ
میں پیش کرتے ہوئے سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس کا نعرہ دیا۔ دو کروڑ نوکریاں دینے اور ہر خاندان کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے بھی
جمع کرانے کا وعدہ کیا۔ وہ ان وعدوں کے سا تھ عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو
گئی کہ اب وہ بہت بدل گئی ہے‘ وہ ملک کی ترقی اور بہتری کے لئے کام کرے گی اور ہر شہری کا بلا لحاظ مذہب
و ذات یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرے گی۔ ان وعدوں اور دعوؤں کی بنا پر 2014ء میں بی جے پی
کو زبردست کامیابی ملی ۔نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے یہ پیغام دیا کہ وہ فرقہ
پرستی کو پس پشت ڈال کر غربت اور مسائل کے خلاف جنگ لڑیں گے لیکن بی جے پی اور آر
ایس ایس کے قاہدین کے من میں اکھنڈ بھارت اور ہندو راشٹر کی تڑپ مچلنے لگی اور وہ دھیرے
دھیرے اپنی پرانی روش پر آتے گئے۔ کبھی گاؤ رکھشا کے نام پر تو کبھی گھر واپسی اوروندے
ماترم کے نام پر اور کبھی بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگا کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی
کی گئی ۔بی جے پی اور شاطر مودی نے جو نقاب پہن کر عوام کو پانچ سال دھوکا دیا وہ اب
اتر چکا ہے۔مودی اپنی تقریروں میں یہ کہہ کر
کہ اب ہندؤ جاگ گیا ہے ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندؤ جاگے
گا یا نہیں لیکن اس دفعہ کانگریس کافی جاگ گئی ہے۔ کانگریس نے جس آواز کے نام سے جو
منشو ر دیا ہے اس میں ایسے اہم وعدے کئے گئے ہیں جو عوام کو متاثر کر سکتے ہیں۔ راہول
گاندھی نے بحیثیت پارٹی صدر پہلی دفعہ منشور پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ
وہ بی جے پی کی طرح کوئی بھی جھوٹا وعدہ نہیں کر رہے۔ کانگریس کے انتخابی منشور کے
مطابق پانچ کروڑ خاندانوں کو ہر سال ۷۲ ہزار روپے کی امداد دی جائے گی۔ ہندوستان کی ترقی میں ریڑھ کی
ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کسانوں کی حالت مودی حکومت میں انتہائی بد تر تھی۔ وہاں ہر
سال سینکڑوں کسان سودی قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث خودکشی کر لیتے ہیں۔ کانگریس نے
کسانوں کے لئے الگ سے ہر سال بجٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں فوجداری مقدمات
کا سامنا کرنے کی بجائے سول کورٹس کا سامنا کرنا ہو گا ،کسانوں کیلئے جیل یاترا کی
بجائے عام معافی کا اعلان بھی کیا گیا ہے ۔راہول نے میڈیا کے سامنے منشور پر بات کرتے
ہوئے کہا کہ موجودہ الیکشن بانڈ سکیم‘ مشتبہ اور غیر شفاف ہے اور یہ برسر اقتدار پارٹی
کے حق میں بنائی گئی ہے‘ کانگریس اقتدار پانے کے بعد اس کا خاتمہ کر دے گی۔ خواتین
ریزرویشن بل کو کانگریس حکومت بناتے ہی منظور کرائے گی تاکہ لوک سبھا اور ریاستوں کی
اسمبلیوں میں خواتین کی 33% نشستیں محفوظ کی جا سکیں۔ اس کے ساتھ ملازمتوں میں بھی 33% ریزرویشن عورتوں کو دینے کا وعدہ
کیا ہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لئے اے ایم یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی ادارے
کی حیثیت سے برقرار رکھنے کا بھی اعلان کیا
ہے۔ ۲۲ لاکھ
خالی پڑی اسامیوں پر نوجوانوں کو بلا مذ ہب و ملت ملازمتیں دینے کی بات بھی کی گئی
ہے۔ ایسے نوجوان جو اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں انہیں تین سال تک کسی حکومتی اجازت
کی ضرورت نہیں ہو گی۔ تعلیم کے شعبے میں جی ڈی پی کا 6% دیا جائے گا ۔کشمیر کی گھمبیر صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کشمیر
کی خصوصی حیثیت کی حامل شق 370 کو برقرار رکھا جائے گا اور افسپا جیسے ظالمانہ قانون
کو ختم کر دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ بی جے پی کے دور میں جو ہجومی تشدد کا ناسور مسلمانوں
کی جان لے رہا تھا اور کسی قانون کے نہ ہونے کے سبب مجرم صاف بچ جاتے تھے اس پر روک
لگانے کے لئے کڑی سزا دینے کے لئے قانون بنا یا جائے گا۔ کانگریس نے اگرچہ دعویٰ کیا
ہے کہ وہ کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کر رہی لیکن انتخاب میں اس طرح کے وعدے معمولی بات ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے تو وعدوں میں مودی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ خان صاحب نے
کنٹینر پر کھڑے ہوکر ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر وں سے نیا پاکستان بنانے کی
بات کی تھی ابھی تک وہ صرف ایک گھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو دے سکے ہیں کیونکہ ان سے
بڑا کو ئی نادار اور مستحق نہیں۔
دوسری طرف بی جے پی جو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں وعدے پورے
کرنے کی بجائے ہندؤ راشٹر بنانے میں جتی رہی
اس وقت اس کی پوزیشن بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے‘ کیونکہ نعروں اور وعدوں سے
نہ پیٹ بھرتا ہے اور نہ مسائل حل ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے دور میں غربت میں اصافہ ہوا
اور بمبئی جیسے شہر کے فٹ پاتھ غلاظت سے بھرے پڑے ہیں۔ بی جے پی اپنے وعدوں میں ناکامی
کے بعد ایک بار پھر ہندو توا کا سہارا لے رہی ہے۔ اس نے پلوا مہ ا ور نام نہاد سرجیکل
سٹرائیک کو اپنا انتخابی بیانیہ قرار دیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ 2020ء تک کشمیر کی خصوصی
حیثیت کو ختم کر دیں گے ۔مودی سرکار نے انتہا پسند ہندو ووٹ بینک سمیٹنے کے لئے چند
روز قبل لوک سبھا سے ایک ایسا قانون پاس کروایا
ہے جس سے ہندوستان کے سیکولر آئین کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن
نے اس پر چپ سادھ لی۔ شہریت ترمیمی بل 2016ء کے ذریعے ہندوستان کے سیکولر جمہوری آئین میں مذہبی تقسیم
کو باقاعدہ قانونی شکل دی گئی ہے۔ اس قانون کے مطابق پڑوسی ملکوں افغانستان، پاکستان
اور بنگلہ دیش سے جو ہندو ،سکھ ،عیسائی اور پارسی ہندوستان آئیں گے انہیں دس کی بجائے
صرف چھ سال میں بھارت کی شہریت دے دی جائے گی لیکن مسلمانوں کے لئے یہ یہ دروازے بند
ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہریت بل میں ہندؤؤں کے لئے بھارت کو مادر وطن تسلیم
کیا گیا ہے۔ یہ سیکولر بھارت کا ایسا قانون ہو گا جس کے دائرے سے مسلمانوں کو باہر
رکھا جائے گا۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس
پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون بھارت کو اسرائیل کی صف میں لا کھڑا کرتا
ہے اور اس بل کو تیار کروانے والے آج بھی دو قومی نظریہ کے قائل ہیں۔ اس قانون سے
شمال مشرقی صوبوں اور آسام میں مسلمانوں کے لئے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ہندو ووٹ
بٹورنے کے لئے چند روز قبل سمجھوتہ ایکسپریس کے مجرموں کو رہا کروایا گیا ۔اس فیصلے
پر جج نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بے حد تکلیف ہے کہ دہشت گردی کی
اتنی بڑی وار دات کرنے والے ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے سزا پائے بغیر چھوٹ رہے ہیں۔
استغاثہ یعنی این ایس اے نے جان بوجھ کر اصل ثبوت اپنے پاس روک لئے۔ بی جے پی نے انتخابات
میں کامیابی کے لئے شکتی مشن بھی لانچ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مودی سرکار کے کارناموں
پر مبنی ایک فلم پی ایم مودی بھی 5 اپریل
سے ریلیز کی گئی ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج پر الیکشن کمیشن نے اس فلم کے چار پروڈیوسرز
اور اشتہارات چھاپنے والے اخبارات کو نوٹس جاری کیا ہے ۔مودی کی کامیابی کے لئے ایک
چینل بھی نمو کے نام سے لانچ کیا گیا ہے‘ لیکن لگتا ہے ہندو توا کو اب شکست سے بچانا
ممکن نہیں۔ لوگ اب رام مندر کی رام کہانی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔ہندوستانی مصنفین
کی تنظیم انڈین رائٹرز فورم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کے خلاف اٹھ
کھڑے ہوں اور اس کے خلاف ووٹنگ کریں۔ نفرت کی اس سیاست کا گرو ایل کے ایڈوانی ہے جس
نے90کی دہائی میں سومنات سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکال کر پورے ملک
میں فرقہ واریت کا آتش فشاں دھکایا تھا۔ اسی کے پیدا کردہ فرقہ وارانہ زہر کا اثر
ہے کہ آج ہندؤ دہشت گردی عروج پر ہے ۔ایڈوانی کو بابری مسجد کی شہادت پر بنے کیس
میں تو شاید کبھی عدالت سزا نہ دے سکے لیکن وہ آج ان لوگوں کے ہاتھوں رسوا ہو رہے
ہیں جو کبھی ان کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کی ہمت بھی نہ پاتے تھے۔ اس وقت ایڈوانی،جوشی
،پروین توگڑیا، اوما بھارتی اور ونے کٹیار جیسے بی جے پی کے چوٹی کے لیڈروں سے یہ لکھوا
لیا گیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں کھڑے نہیں ہوں گے۔
۲۰۱۹ء الیکشن بھارت
میں اصل امتحان مسلمانوں کا ہے اگر وہ ہندوستان میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتے
ہیں تو پھر انہیں اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہو گا ۔کسی کا دم چھلہ بننے کی بجائے
دلت اور سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو ملا کر اپنا اتحاد قائم کریں اور ہندوستان کی سیاست
کا مرکز بن جائیں۔
No comments:
Post a Comment