درسِ قرآن
اعمال کیسے دکھائے جائیں گے؟! (2)
ارشادِ باری ہے:
﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ
ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸﴾
’’پس جس نے ذرہ برابر
نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ
لے گا۔‘‘
انسانوں کے اعمال کا انسانوں کو دکھایا جانا پانچ طرق سے ہوگا:
انسان کے اپنے ہی اعضاء کی گواہی، زمین کے اس ٹکڑے کی گواہی
جس پر کوئی عمل کیا گیا، تحریری اعمال نامہ اوراللہ کا ترازو اور میزان رکھ کر اعمال
کا تولنا یہ چوتھا طریقہ ہوگا کہ جس کے ذریعہ سے انسان اپنے اعمال کو دیکھ بھی لے اور
ان کی قدروقیمت بھی سامنے آجائے گی:
﴿وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ
الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ۰۰۴۷﴾
’’قیامت کے دن ہم
ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو کو درمیان میں لا رکھیں گے ، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں
کیا جائے گا،اگر ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل ہو گا ہم اسے لا حاضر کریں گے اور
ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔‘‘
مفسرین نے تحریری اعمال نامہ اور اس ترازو پر عمل کو پیش کیے
جانے میں بڑاباریک سا فرق بیان کیا ہے۔ تحریری اعمال نامہ میں انسان کے ایک ایک عمل
کا ریکارڈ ہوگا ، جب کہ ان اعمال کی قدروقیمت کی جانچ پڑتال ترازو پر ہوگی کہ یہ نیک
عمل کس نیت سے کیا گیا؟ اللہ کی رضا کے لیے یا نمود ونمائش کے لیے؟خلوص اور للہیت کس
قدر تھی؟ عمل نبی کریمe کے
فرمان کے مطابق تھا یا اپنے ہی خو د ساختہ طریقوں پر انجام دیا گیا؟ یہ تمام حقائق
ترازو دکھادے گا ۔
جبکہ اعمال دکھانے کا پانچواں طریقہ اچھا عمل خوب صورت شکل اختیار
کرتے ہوئے انسان کے سامنے آجائے اور اس کا حوصلہ بڑھائے گا جبکہ برا عمل کسی بری شکل
اور خوف ناک جانور کی شکل میں انسان کے سامنے آ کر اس کے خوف میں مزید اضافہ کرے گا۔
نبی کریم e نے
فرمایا:
[يأتيه رجل حسن
الوجه حسن الثياب ،طيب الريح... فيقول له الرجل من أنت ؟ فيقول انا عملک الصالح.]
’’قبر میں انسان
کے پاس خوب صورت چہرے ، خوب صورت کپڑوں میں ملبوس آدمی جس سے خوشبو پھوٹ رہی ہوگی،
آئے گا، انسان کہے گا کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دے گا :میں تمہارا وہ نیک عمل ہوں جسے
تم دنیا میں اللہ کے لیے سرانجام دیتے رہے ہو۔‘‘
اگر انسان چاہتا ہے کہ اس کے اعمال کی قدر ہواور قیامت کے دن
اسے بد صورت ، قبیح اور خوف ناک جانوروں کے ساتھ کی بجائے خوب صورت ہیئت میں جوان کا
استقبال کرے تو اسے خلوص نیت اور رضائے الٰہی کے لیے نیک اعمال کی بجا آوری کرنا چاہیے۔
درسِ حدیث
استقبالِ رمضان کے روزے
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّﷺ، قَالَ: لَا يَتَقَدَّمَنَّ
اَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ اَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا اَنْ يَّكُونَ رَجُلٌ
كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذٰلِكَ اليَوْمَ. ] (بخاری)
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمe نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے (شعبان
کی آخری تاریخوں میں) ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے۔ البتہ اگر کسی کو ان ایام میں
روزے رکھنے کی عادت ہو (یعنی وہ پہلے ایام کے روزے رکھتا آ رہا ہو۔) تو وہ اس دن کے
روزے رکھ لے۔‘‘ (بخاری)
ہمارے ہاں مروج ہے کہ کچھ لوگ استقبال رمضان کے روزے رکھتے ہیں
اور اسے نیکی خیال کرتے ہیں مگر نیکی وہ شمار ہوتی ہے جو کتاب وسنت سے ثابت ہو‘ جس
کام سے نبی کریمe نے
منع فرما دیا وہ نیکی کیسے ہو سکتی ہے؟ روزہ ایک پسندیدہ عمل ہے جس کے اجر کے بارے
میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’روزہ میرے لیے ہے لہٰذا اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا۔‘‘
لیکن اگر یہ عمل اپنی مرضی سے کیا جائے تو ثواب نہیں ملے گا۔ استقبال رمضان کے سلسلے
میں راشن جمع کر کے رکھنا‘ سحری وافطاری کے لوازمات کا اہتمام کرنا۔ سحری کے لیے بیدار
ہونے کی فکر کرنا درست ہے مگر استقبال رمضان کے لیے روزے رکھنا جائز نہیں۔ رسول اللہe نے
خاص طور پر رمضان سے ایک دو دن پہلے روزے رکھنے سے منع فرمایا مگر اسے اجازت دے دی
جسے ان ایام میں روزے رکھنے کی عادت ہے یعنی وہ اپنی عملی زندگی میں سوموار اور جمعرات
کے دن نفلی روزہ رکھتا ہے اور یہ اس کا معمول ہے اور رمضان سے ایک دو دن پہلے یہ دن
آجائے تو اسے اجازت ہے کہ وہ اس دن روزہ رکھ لے۔ تلاوت کردہ حدیث میں آپe نے
واضح حکم دیا ہے کہ کوئی شخص رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے۔ لیکن اکثر لوگ
استقبال رمضان کا روزہ رکھتے ہیں جو کہ ارشاد نبوی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہر وہ عمل
جو سنت نبوی کے خلاف ہو وہ قبول نہیں ہوتا اور نہ ہی اس پر ثواب مرتب ہوتا ہے لیکن
استقبال کے بارے میں تو حضور اقدسe نے منع فرما دیا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی شخص آپe کے
فرمان کی مخالفت کرتا ہے وہ اجر وثواب کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ رمضان سے ایک یا دو دن
پہلے روزہ رکھنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ اگر کوئی استقبال کے نام پر روزہ رکھے گا
تو ثواب کی بجائے گنہگار ہو گا۔ دین میں کسی کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت نہیں۔ دین
میں کتاب وسنت کی پیروی کرنا لازم ہے اپنی مرضی سے کسی کام کو اچھا یا برا نہیں کہہ
سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب وسنت کی سمجھ عطا فرمائے اور اس کی پیروی کی توفیق دے۔
آمین!
No comments:
Post a Comment