ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی
کیلئے؟!
ان دنوں امام کعبہ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ عواد الجہنیd پاکستان کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے مرکز اہل حدیث ۱۰۶ راوی روڈ لاہور‘ جامع مسجد فیصل اسلام آباد‘ بادشاہی مسجد لاہور اور دوسرے مقامات
پر اپنے خطابات میں مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کی ضرورت پر بڑا زور دیا اور کہا کہ
علماء کا کام اللہ کے بندوں کو جوڑنا ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس وقت امت مسلمہ
کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے کیونکہ عدم اتفاق کی وجہ سے دہشتگری کے واقعات ہوتے ہیں۔
اسلام تو امن وامان سے رہنے کا درس دیتا ہے اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان اور سعودی عرب توحید کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔ پاکستان
سعودیہ ایک طاقت اور دونوں کے دل ساتھ دھڑکتے ہیں۔ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر
ہی معاشرے کو جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ دراصل مسلمانوں کے مسائل کا سبب دین سے دوری
ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں کم وبیش ڈیڑھ ارب مسلمان اور ساٹھ اسلامی مملکتیں
موجود ہیں۔ اسلام اور مسلمان دشمن قوتوں نے عراق‘ افغانستان اور شام کو تہہ وبالا کر
دیا ہے۔ بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں‘ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان ایک عرصہ سے بھارت
کی ظالم ڈوگرہ فوج کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد مسلمان جام
شہادت نوش کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود حریت پسند مسلمانوں کے جذبے اور حوصلے بلند ہیں
اور وہ اپنی آزادی اور اسلامی تشخص کی بقاء کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔
ان کی قربانیاں ان شاء اللہ ضرور رنگ لائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ میں
اتفاق واتحاد کی فضا پیدا کی جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ قرونِ اولیٰ میں جب ہم اتحاد کے داعی اور عامل تھے تو فتح ونصرت
ہمارے قدم چومتی تھی۔ آج ہم اتحاد کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے غیروں کے دست نگر
بن گئے ہیں۔ اسلام نے معاشرے کی تشکیل اور اس کے استحکام کے لیے یکجہتی‘ باہمی یگانگت
اور اتحاد واتفاق کی تعلیم دی ہے۔ اسلام میں عبادات نماز باجماعت‘ جمعہ اور عیدین کا
اجتماع اور حج کا عالمی دینی اجتماع یہ سب عبادتیں اتحاد کا مظہر ہیں۔ قرآن مجید کا
ارشاد ہے {وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا} یعنی تم سب مل کر اللہ کی رسی (کتاب وسنت) کو مضبوطی سے پکڑ لو اور گروہ گروہ
نہ بن جاؤ۔ علامہ اقبالؒ نے اس کی یوں ترجمانی کی ہے ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
نبی کریمe نے فرمایا کہ مسلمان باہمی مروت ومرحمت اور شفقت میں جسد واحد کی مانند ہیں۔
جسم کے ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کی تکلیف سے بیقرار ہو جاتا ہے۔
اسلام نے اتحاد واتفاق کا خیال رکھا ہے کہ آپس میں جدال وقتال کی سخت ممانعت فرمائی
ہے۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتل کفر ہے۔ آپe نے یہ بھی فرمایا: [اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِن لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ] ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اتحاد اسلامی کے بارے میں بڑے خوبصورت انداز میں روشنی
ڈالی ہے۔ رقمطراز ہیں: ’’آفتاب توحید نے طلوع ہوتے ہی تفریق وانتشار کی تمام تاریکیوں
کو مٹا دیا۔ اس کی روشنی کے فیضان بخشی میں اسود وابیض اور عرب وعجم کی کوئی تمیز نہ
تھی۔ خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی طرح اس کی رحمت بھی عام تھی۔ وہ رب العالمین ہے پس ضرور
تھا کہ اس کی راہ کی طرف دعوت دینے والا بھی رحمۃ للعالمین ہو۔‘‘ {وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ
اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ}
انسان کی یہ سب سے بڑی ضلالت اور خود فراموشی تھی کہ اس نے رشتۂ خلقت کی وحدت
کو بھلا کر زمین کے ٹکڑوں اور خاندان کی تفریقوں پر انسانی رشتے قائم کر لیے تھے۔ خدا
کی زمین کو جو محبت اور باہمی اتحاد کے لیے تھی‘ قوموں کے باہمی اختلافات ونزاعات کا
گھر بنایا تھا۔ لیکن اسلام دنیا میں پہلی آواز ہے جس نے انسان کی بنائی ہوئی تفریقات
پر نہیں بلکہ الٰہی تعبد کی وحدت پر ایک عالمگیر اخوت واتحاد کی دعوت دی تھی اور کہا:
’’اے لوگو! ہم نے دنیا میں تمہاری خلقت کا وسیلہ مرد اور عورت کا اتحاد رکھا اور نسلوں
اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا۔ اس لیے کہ باہم پہچانے جاؤ‘ ورنہ دراصل یہ تفریق انشعاب
کوئی ذریعۂ امتیاز نہیں اور شرف ہی کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ
متقی ہے۔‘‘ … ’’اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر اتاری گئی جبکہ تم اسلام
سے پہلے ایک د وسرے کے دشمن تھے مگر اسلام نے تمہارے دلوں میں الفت ومحبت پیدا کر دی
اور تم ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہو گئے۔‘‘
یہ برادری اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی ہے‘ ہر انسان جس نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ
کا اقرار کیا وہ اس برادری میں شامل ہو گیا۔ خواہ مصری ہو‘ خواہ نائیجیریا کا باشندہ
ہو‘ خواہ قسطنطنیہ کا‘ تعلیم یافتہ ترک‘ لیکن اگر وہ مسلم ہے تو ایک ہی خاندان توحید
کا عضو ہے جس کا گھرانہ کسی خاص وطن اور مقام سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام دنیا اس
کا وطن اور تمام قومیں اس کی عزیز ہیں۔ دنیا کے تمام رشتے ٹوٹ سکتے ہیں مگر یہ رشتہ
کبھی نہیں ٹوٹ سکتا ؎
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
No comments:
Post a Comment