احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
انسانی روح اور جدید میڈیکل سائنس
O ہمارے
ہاں احادیث کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ شکم مادر میں چار ماہ کے بعد بچے کے اندر
روح ڈالی جاتی ہے جبکہ جدید طب کا دعویٰ ہے کہ اس سے قبل ہی بچے میں حرکت پیدا ہو جاتی
ہے۔ اس میں کیا تطبیق ہو سکتی ہے؟
P ماں کے پیٹ میں بچے کی پیدائش کے تدریجی مراحل ایک حدیث
میں بایں طور پر بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہe نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں
کے پیٹ میں اس طرح مکمل کی جاتی ہے کہ چالیس دن تک وہ نطفہ (امشاج) رہتا ہے پھر اتنے
ہی وقت تک منجمد خون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا
رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا
جاتا ہے کہ اس کا عمل‘ اس کا رزق‘ اس کی عمر اور اس کا بدبخت ہونا یا نیک بخت ہونا
لکھ دے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری‘ بدء الخلق: ۳۲۰۸)
اس حدیث میں صراحت ہے کہ ۴۰ + ۴۰ + ۴۰ یعنی ایک سو بیس
دن تک اسے مختلف مراحل سے گذارا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ
جدید طب کا دعویٰ ہے کہ چار ماہ سے قبل ہی اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور اسے د یکھا
بھی جا سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں روح سے مراد نفس ناطقہ مدرکہ ہے جسے
روح انسانی بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اسے ’’امر ربی‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ روح ختم
نہیں ہوتی بلکہ موت کے وقت انسان کے جسم سے نکل کر علیین یا سجین میں پہنچ جاتی ہے
اور جس بات کا دعویٰ جدید طب سے کیا جاتا ہے اس سے مراد حیوانی روح ہے۔ جس سے حرکت
پیدا ہوتی ہے اسے روح حیوانی کہتے ہیں۔ یہ تو نطفے کے اندر ہی موجود ہوتی ہے۔ چار ماہ
سے قبل جو حرکت ہوتی ہے یہ حرکت نمو اور حرکت بڑھوتری ہے جو موت کے وقت ختم ہو جاتی
ہے۔ اس وضاحت کے بعد جدید طب اور احادیث کی وضاحت میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا۔ دراصل
انسان میں دو قسم کی ارواح ہوتی ہیں‘ ایک روح حیوانی جو موت کے وقت ختم ہو جاتی ہے
اور ایک روح انسانی جو موت کے وقت ختم نہیں ہوتی بلکہ جسم سے نکل کر اپنے مقام پر پہنچ
جاتی ہے اور قیامت کے دن اسی روح کو دوبارہ جسم سے جوڑ دیا جائے گا۔ واللہ اعلم!
رسول اللہ ﷺ کی جائیداد
O رسول
اللہe کی
کونسی جائیداد تھی جس سے سیدہ فاطمہr نے اپنا وراثتی حصہ طلب کیا تھا؟ جبکہ مشہور ہے کہ رسول
اللہe کی
کوئی ذاتی جائیداد نہیں تھی۔ اس بات کی وضاحت کر دیں۔
P اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہe نے
فقر وفاقہ میں اپنی زندگی بسر کی‘ دنیوی عیش وعشرت کو اپنے قریب نہ آنے دیا‘ لیکن اس
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہe کی کوئی ذاتی جائیداد نہ تھی‘ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe کی
وفات کے بعد سیدہ فاطمہr نے
سیدنا ابوبکرt سے
حسب ذیل مطالبہ کیا: ’’انہیں رسول اللہe کے اس ترکہ سے وراثتی حصہ دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے
آپ کو بطور فئ دیا تھا۔‘‘ (بخاری‘ فرض الخمس: ۳۰۹۲)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہe کا ترکہ تھا‘ اس کی تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے۔ ذیل
میں ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں:
\ قبیلہ بنو نضیر
میں مخیریق نامی ایک یہودی کے سات باغ تھے‘ اس نے غزوہ احد کے وقت وصیت کی تھی کہ وہ
اگر جنگ میں مارا گیا تو اس کے تمام اموال رسول اللہe کی ملکیت ہوں گے۔ چنانچہ وہ جنگ میں مارا گیا۔ اس بناء
پر اس کے تمام مملوکہ باغات رسول اللہe کی تحویل میں آگئے۔
\ انصار نے کچھ
زمینیں رسول اللہe کو
ہبہ کی تھیں‘ ان تک پانی نہیں پہنچتا تھا وہ بھی رسول اللہe کی
مِلک تھیں۔
\ بنو نضیر کو
جب جلا وطن کیا گیا تو ان کی مملوکہ زمینیں رسول اللہe کو بطور فئ مل گئیں۔
\ فتح خیبر کے
بعد اہل فدک نے اپنی نصف زمین دینے پر رسول اللہe سے صلح کر لی تھی۔
\ خیبر کے دو
قلعے وطیح اور سلالم بھی یہودیوں سے صلح کے نتیجے میں آپ کے قبضہ میں آگئے تھے۔
\ خیبر جو بزور
شمشیر فتح ہوا تھا‘ اس کے مال غنیمت سے آپ کو پانچواں حصہ ملا تھاو ہ بھی آپ کی مِلک
تھا۔
یہ تمام جائیداد رسول اللہe کی تھی‘ اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ رسول اللہe ان
کی پیداوار سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خرچ نکال کر باقی مسلمانوں کی ضروریات میں
خرچ کر دیتے تھے۔
ان مملوکہ اراضی سے سیدہ فاطمہr نے سیدنا ابوبکر صدیق t سے اپنا حصہ طلب کیا تھا۔ سیدنا ابوبکرtنے اس کے جواب میں
رسول اللہe کا
درج ذیل ارشاد پیش فرمایا: ’’ہمارا ترکہ بطور وراثت تقسیم نہیں ہوتا بلکہ ہم جو کچھ
چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری‘ فرض الخمس: ۳۰۹۳)
اس پر سیدہ فاطمہr وقتی طور پر کچھ آزردہ خاطر ہوئیں۔ چونکہ آپr کو
رسول اللہe کے
ارشاد گرامی کا علم نہ تھا جو سیدنا ابوبکرt نے پیش کیا۔ ایک روایت میں اس امر کی مزید وضاحت ہے
کہ جب سیدہ فاطمہr بیمار
ہوئیں تو سیدنا ابوبکرt ان
کی تیمار داری کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپt نے سیدہ فاطمہr کو مطمئن کر دیا اور وہ آپ سے راضی ہو گئیں۔ (بیہقی:
ج۶‘ ص ۳۰۱)
اس مسئلہ کی تفصیلات کتب حدیث میں موجود ہیں وہاں دیکھی جا سکتی
ہیں۔ واللہ اعلم!
وراثت کا مسئلہ
O ہمارے
ہاں ایک تاجر فوت ہو اہے۔ اس کی جائیداد تقریبا چھ کروڑ ہے۔ اس کی والدہ دو بھائی اور
ایک بہن زندہ ہے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ بیوی پہلے سے فوت شدہ ہے۔ اس کی جائیداد کیسے
تقسیم ہو گی؟
P مرتے ہی متروکہ مال تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ تقسیم
سے قبل اس کے متعلق تین حقوق ہوتے ہیں‘ پہلے انہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ وہ حقوق حسب
ذیل ہیں:
\ کفن ودفن …
اگر کسی میت کے کفن ودفن کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے مناسب
انداز کے کفن ودفن کا انتظام کیا جائے گا۔
\ ادائیگی قرض
… میت کے ذمہ جتنا قرض ہو اسے ادا کیا جائے گا خواہ ادائیگی میں تمام ترکہ صرف ہو جائے۔
\ وصیت … میت
نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو قرض کی ادائیگی کے بعد اسے پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
جائز وصیت یہ ہے کہ وہ ۳/۱ ترکہ سے زیادہ نہ
ہو۔ کسی شرعی وارث کے لیے نہ ہو اور کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ یہ جائز وصیت بھی
اس کے ترکہ سے پوری کی جائے گی۔
ان ہر سہ مراحل سے گذرنے کے بعد متروکہ جائیداد شرعی ورثاء میں
تقسیم ہو گی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ان ورثاء کو دیا جائے جن کا کتاب وسنت میں
ح صہ مقرر ہے۔ اس کے بعد میت کے جو عصبہ یعنی قریبی رشتہ دار جن کا حصہ مقرر نہیں‘
انہیں دیا جائے گا‘ صورت مسئولہ میں مرنے والے کی ماں‘ ایسی وارث ہے جس کا حصہ مقرر
ہے۔ چونکہ مرنے والے کے بہن بھائی زندہ ہیں اس لیے ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ’’اگر مرنے والے کے متعدد بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ (النساء:
۱۱)
ماں کا چھٹا حصہ نکال کر باقی پانچ حصے بہن بھائیوں کے ہیں‘
رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو حصہ دینے کے بعد جو بچ جاتے ہیں وہ میت
کے مذکور قریبی رشتہ داروں کے لیے ہیں۔‘‘ (بخاری‘ الفرائض: ۶۷۳۵)
میت کے قریبی رشتہ دار اس کے بھائی ہیں‘ ان کے ساتھ بہن بھی
وارث ہو گی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بھائی اور بہن ملے جلے ہوں تو مرد
کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء: ۱۷۶)
صورت مسئولہ میں دو بھائی اور ایک بہن ہے‘ کل جائیداد کے چھ
حصے کر لیے جائیں۔ چھٹا حصہ والدہ کو دیا جائے اور باقی پانچ حصے اس طرح تقسیم ہوں
کہ ایک بھائی کو بہن سے دو گنا ملے۔ چونکہ کل ترکہ چھ کروڑ ہے۔ اس میں سے چھٹا حصہ
یعنی ایک کروڑ والدہ کو اور باقی پانچ حصے اس طرح تقسیم ہوں کہ ایک بھائی کو بہن سے
دو گنا ملے گا۔ چونکہ کل ترکہ چھ کروڑ ہے اس میں سے چھٹا حصہ یعنی ایک کروڑ والدہ کو
اور باقی پانچ کروڑ میں سے دو‘ دو کروڑ ہر ایک بھائی کو اور ایک کروڑ بہن کو د ے دیا
جائے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment