استقبالِ رمضان اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
بہت جلد نیکیوں کاموسمِ بہار ماہِ رمضان المبارک ہم پر سایہ
فگن ہونے والا ہے ،اللہ تعالی کی رحمتوں اور عنائتوں والا مہینہ جلوہ گرہونے والا ہے
،عبادت اور اطاعت کا نورانی ماحول چھانے والا ہے ،رمضان المبارک مہمان بن کر آتا ہے
اور اس کا اکرام کرنے والے اور قدر دانی کرنے والے کو انعامات الٰہی سے نواز کر جاتا
ہے۔ اسی لئے اس مہینہ کی آمد کا انتظار ہر مسلمان کو رہتا ہے۔ جس کی آمد سے ہر ایک
کو بے پناہ خوشی ومسرت ہوتی ہے اور ممکن بھر اس کی قدر دانی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ اس
مہینہ کا انتظار خود نبی کریمe کو
رہتا اور آپ رجب کے مہینہ سے اپنی دعاؤں میں اس کا اضافہ فرماتے کہ
[اَللّٰہُمَّ بَارِکْ
لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ] (مسند احمد)
یعنی ’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب وشعبان میں برکت عطا فرمایااور رمضان کے مہینہ تک
ہمیں پہنچا۔‘‘
آپe یہ
دعا بھی فرماتے تھے:
[اَللّٰہُمَّ سَلِّمْنِیْ
لِرَمَضَانَ وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِیْ وَتَسَلَّمْہُ مِنِّیْ مُتَقَبَّلًا] (الدعاء
للطبرانی)
یعنی ’’اے اللہ! مجھے رمضان کے لئے اور رمضان کو میرے لئے صحیح سالم رکھیے اور
رمضان کو مجھ سے قبول فرما لیں۔‘‘
رمضان المبارک کے پیشِ نظر آپe شعبان کے مہینہ میں عبادتوں کا اہتمام دیگر مہینوں کے
مقابلے میں زیادہ فرماتے اور رمضان المبارک کی تیاری کا عملی نمونہ پیش فرماتے ۔نبی
کریمe نے
اس مہینہ کی عظمت اور اہمیت ہی کی بنیاد پر اس کی آمد سے پہلے شعبان کے آخری ایام میں
حضرات صحابہ کرام کوجمع فرماکر اس کی فضیلت بیان کی اور اس کی خصوصیتوں کو بیان
فرمایا اور ایک عظیم الشان خطبہ دے کر اس کی اہمیت اور عظمت کو اجاگر کیا ۔
خطبۂ نبوی
:
سیدنا سلمان فارسیt روایت کرتے ہیں کہ ’’شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہe نے
ہمیں ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ
سایہ فگن ہو رہا ہے‘ اس مہینے میں ایک رات ہے (شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اس مہینے کے روزے اللہ تعالی نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (تراویح)کو غیر
فرض (یعنی سنت)کیا، جو شخص اس مبارک مہینے میں اللہ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے
کے لئے کوئی غیر فرض عبادت کرے گا تو اس کا ثواب دوسرے زمانے کی فرض نیکی کے برابر
ملے گا۔ اس مہینے میں فر ض نیکی کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی و غم خواری کا مہینہ ہے۔ یہی
وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے، جس نے اس مہینہ میں
کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے)افطار کرایا تو یہ اس کے لئے
گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کوروزہ دار کے برابر
ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔آپe سے
عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان مہیا نہیں
ہوتا تو (غریب لوگ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ e نے
فرمایا کہ اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو ایک کھجور یا دودھ کی تھوڑی سی
لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی کا روزہ افطار کرادے۔ جو آدمی اس مہینے
میں اپنے غلام و خادم کے کام میں ہلکا پن اور کمی کردے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمادے
گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت رکھا
کرو جن میں دو چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو اور دو چیزیں
ایسی ہیں جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے: وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے۔
دوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو اور جو کوئی کسی روزہ
دار کو پانی سے سیراب کرے اس کو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض (کوثر)سے ایسا
سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ
جائے۔ (صحیح ابن خزیمہ)
خطبۂ نبوی کی
جھلکیاں:
رمضان المبارک کی آمد سے قبل نبی کریمe نے یہ خطبہ دیا اور اس کے ذریعہ آپe نے
در حقیقت صحابہ کرام کو استقبالِ رمضان
کا حقیقی تصور پیش کیا اور رمضان المبارک کی نہ صرف اہمیت اور فضیلت بیان کی بلکہ حقیقی
استقبال کی فکروں کو بیدا ر کیااور رمضان المبارک کے لئے ہمہ تن تیار رہنے اور اس کے
لئے اپنے معمولات میں ان تمام چیزوں کو داخل کرنے کی تعلیم دی جس مقصد کے لئے رمضان
آتا ہے۔ عبادت تو ایک مسلمان سال بھر اپنی بساط بھر کرتا ہے لیکن رمضان المبارک چوں
کہ خالصتاً عبادتوں کا موسم اور نیکیوں کا سیزن ہے اس لئے اللہ تعالی کی جانب سے عبادتوں
کے اجر و ثواب میں اضافہ اور زیادتی کی جاتی ہے۔ نوافل کو فرض کا ثواب اور فرائض کا
ثواب ستر درجہ بڑھادیا جاتا ہے۔ ایمان والوں کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھادی کہ رمضان
المبارک کے استقبال کے لئے اپنے آپ کو عبادت کے لئے فارغ کرنا اور طاعات میں سرگرداں
ہوجانا ضروری ہے۔ اسی طرح آپe نے
استقبالِ رمضان کے موقع پر حضرات صحابہ کرام کو فرمایا کہ یہ
ہمدردری و غم خواری کامہینہ ہے۔ بدنی عبادتوں کے لئے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ ایثار
و ہمدردی کے خوابیدہ جذبات کوبھی بیدار کرنا اور انسانوں کی خیر خواہی والی صفات سے
بھی آراستہ ہونے کی آپ نے تلقین فرمائی۔ اس کے لئے آپe نے طریقہ بھی صحابہ کرام کے استفسار پر بتا دیا کہ اس
عمل کوانجام دینے کے لئے کوئی لمبی چوڑی دعوت ضروری نہیں بلکہ ایک کھجور ،لسی یا پانی
کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن مسلمان کو ا س راہ میں بھی نیکیا ں کمانے اور اللہ
تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہونا ضروری ہے، تبھی جاکر وہ رمضان المبارک کی
حقیقی قدردانی کرنے والا شمار ہوگا۔ روزہ انسان کی اس سلسلہ میں بہترین تربیت کرتا
ہے اور حقیقی روزہ دار ایثار وہمددری سے مزین ہوگا‘ اسے سارے انسانوں کے تئیں ہمددری
پیدا ہوگی۔ آپe نے
فرمایا کہ یہ مہینہ صبر کی تربیت کا ہے کیوں کہ اس میں روزہ کی شکل میں مسلمان لمبے
وقت کے لئے اپنے تقاضوں اور خواہشات کو قربان کرتا ہے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لئے
حلال و جائز چیزوں کو بھی ترک کردیتا ہے۔ اس کے ذریعہ آپe نے
برداشت و تحمل کے مزاج کو حاصل کرنے کی تعلیم دی کہ جس کے بغیر اس عظیم عبادت کی انجام
دہی دشوا ر ہوجاتی ہے۔ اس خطبہ کے آخر میں نبی کریمe نے نہایت اہم چیز کی طرف توجہ دلائی اور رمضان المبارک
میں اس کے حصول کو ضروری قرار دیا اور یہ سکھایا کہ رمضان المبارک کے بابرکت اوقات
اور قیمتی لمحات کو ان چیزوں کی طلب اور دعا میں گذارنا چاہیے۔ نبی کریمe نے
فرمایا کہ اس ماہِ مبارک میں دوچیزیں ایسی ہیں کہ اس کی ضرورت سے کوئی بندہ مستغنی
نہیں ،ہر ایک اس کا حاجت مند اور طلبگار ہے‘ ان میں سے ایک جنت کی طلب اور جہنم سے
پناہ کی دعائیں اور التجائیں ہیں۔ رمضان کے مبارک ماحول میں اس فکر میں رہنا ضروری
ہے کہ کسی طرح رمضان انسان کو جنت تک پہنچادے اور جہنم سے محفوظ کردے۔ اس کو خدا وندِ
قدوس سے مانگنا اور حاصل کرنا ہے، اگر اس مبارک مہینہ میں بھی انسان کے لئے جنت کا
فیصلہ نہ ہو اور جہنم سے نجات کا اعلان نہ ہوجائے تو بلا شبہ وہ سب سے بڑا شقی القسمت
اور بدنصیب ہوگا ۔نبی کریمe نے
ا س مہینہ کو انسانوں کی مغفرت کا مہینہ قرار دیا اور اس انسان کو بد نصیب فرمایا جو
رمضان تو پائے اور اپنی مغفرت نہ کروالے۔ اسی لئے آپ نے رمضان کے آنے سے پہلے اس اہم
ترین سعادت کے حصو ل کے لئے تیار ہوجانے کی ترغیب دلائی۔ اس کے ساتھ آپ نے رمضان کے
مبارک لیل و نہار کو فضول گپ شب ، لایعنی مشاغل، اوقات کے ضیاع کی بجائے کار آمد بنانے
کا نسخہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینہ میں کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت کرنی چاہیے
اور اپنی زبان کو غیر ضروری باتوں سے بچاتے ہوئے ذکر اللہ کی کثرت میں تر رکھنے کا
حکم دیا۔ عبادتوں کی تیاری کرنے اور اپنے ذہن ودل کو تیار کرنے کے لئے آپe نے
یہ نہایت بلیغ اور عظیم خطاب فرماکر صحابہ کرام کو اس جانب متوجہ کیا۔
استقبالِ رمضان اور اعمال کی فکر
نبی کریمe نے
اور بھی بعض خطبات آمدِ رمضان سے قبل دیئے جس میں آپe نے مختلف اندازمیں رمضان المبارک کی عظمت کو بیان کیا
اور اس کی قدردانی کی بھر پور رغبت دلائی۔ چنانچہ ایک موقع پر آپe نے
فرمایاکہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے پس تم اس کے لئے تیار ی کرو‘ اپنی نیتوں
کو صحیح کرو‘ اس کا احترام‘ تعظیم کرو، اس لئے کہ اس مہینہ کا احترام اللہ تعالی کے
نزدیک بہت عظیم احترام والی چیزوں میں سے ہے۔ لہٰذا اس کی بے حرمتی مت کرو، اس لئے
کہ اس مہینہ میں نیکیوں اور برائیوں دونوں کی (جزاء وسزا) میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔
نبی کریمe نے
اس میں احترام رمضان کی شدید ضرور ت کو بیان کیا۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بات تو ہے کہ
اس میں نیکیوں کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس عظیم
مہینہ میں اگر نافرمانی کی جائے اور شریعت کی تعلیمات کی مخالفت کی جائے تو سزا میں
بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔اس طرح نبی کریمe نے انسانوں کو اپنے اعمال کی فکر میں رہنے اور بے احترامی
والے کاموں سے احتراز کرنے کی تاکید کی ۔
اہتمامِ رمضان اور اکابرین
رمضان المبارک کا استقبال اور اس کی آمد سے قبل اس کی حقیقی
تیاریوں کا اہتما م بزرگانِ دین میں خاص طور پر پایا جاتا تھا ،نبی کریمe نے
جس انداز میں صحابہ کرام کے ذوق اور جذبات کو پروان چڑھایا اس کے اثرات امت میں پے
درپے منتقل ہوتے گئے اور امت کے صلحاء اور اتقیاء نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق اس مبارک
مہینہ کی قدر دانی کرکے ایک عملی نمونہ انسانوں کو دیا۔ آمدِ رمضان سے پہلے ہی وہ اپنی
ذمہ داریوں کا جائزہ لے کر اپنے اوقات کو فار غ کر لیتے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات
میں گذرے اور پورے شوق و انہماک کے ساتھ اعمال کو انجام دیا جاسکے۔
ہمارے اکابر کا رمضان ماضی قریب کے اکثر بزگانِ دین اور اکابرین
کی رمضان المبارک میں یہی کیفیت ہوتی کہ وہ مکمل خودکو فارغ کرلیتے اور دل وجان سے
عبادات و طاعات میں مشغول ہوجاتے۔ اس طرح ان حضرات نے رمضان المبارک کی قدر کی اور
نیکیوں سے دامن کو بھرا اور انعامات الٰہی کے حق دار بن کر دنیا سے رخصت ہوئے ۔
استقبالِ رمضان اور نظام الاوقات
استقبالِ رمضان صرف یہی نہیں کہ چند جلسے سن لیے اور کچھ بیانات
میں شرکت ہوگئی بلکہ رمضان المبارک کا حقیقی استقبال یہ ہے کہ اس آنے والے مبارک مہینہ
کے لئے اپنے روز کے نظام العمل میں کچھ تبدیلی لائیں، مصروفیات اور مشغولیات سے وقت
کو فارغ کرنے کا نظم بنائیں،کیوں کہ دنیا میں کوئی کام بغیر نظام العمل کے بحسن و خوبی
پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا تو عبادات کا نظام بغیر نظم و ضبط کے کیسے قابو میں آ سکتا
ہے؟ اس لئے اس کے واسطے ہر مسلمان کو رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اپنے معمولات
کا ایک جائزہ لینا ضروری ہے، لایعنی و فضول کاموں سے اجتناب کرتے ہوئے رمضان المبارک
کا نظام العمل ترتیب دینا چاہیے تاکہ سلیقہ و سہولت کے ساتھ وقت کی رعایت و پابندی
کے ساتھ رمضا ن المبارک کو گذارا جائے اور عبادتیں انجام دی جائیں۔ رمضان کا استقبال
اور اس کی تیاری یہ ہے کہ انسان پہلے یہ سوچے کہ میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں سے
مثلاً تجارت، ملازمت ، زراعت وغیرہ کے کاموں میں سے کن کن کاموں کو مؤخر کرسکتا ہوں
، ان کو مؤخر کردے، پھر ان کاموں سے جو وقت فارغ ہو اس کو عبادت میں صرف کرے۔ اس طرح
اگر رمضان المبارک کا استقبال ہو تو پھر واقعی ہر مومن نیکیوں کو سمیٹنے اور اعمال
کو انجام دینے میں اس قدر مصروف ہوگا کہ اسے بے کار اور لایعنی امور میں پڑنے اور وقت
کو غیر ضروری چیزوں میں ضائع کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔
ہماری ذمہ داری
رمضان المبارک کی قدر ومنزلت اور اس کے استقبال سے متعلق یہ
چند باتیں ذکر کی گئیں ،اصل یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں فکر مند ہونا چاہیے کہ آج کل
جس طرح ہم رواجی انداز میں رمضان کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس کی آمد پر مسرت کا اظہار
کرتے ہیں لیکن رمضان کے چند دن گذرنے بھی نہیں پاتے کہ بے احترامی اور ناقدری کا معاملہ
شروع ہوجاتا ہے۔ ابتداء میں مسجدیں نمازیوں سے بھریں ہوئی نظرآتی ہیں بلکہ بعض اوقات
تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہیں مگر جوں ہی کچھ دن گذرتے ہیں تو تعداد میں کمی اور شوق
و ذوق میں انحطاط شروع ہوجا تا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے رمضان کی حقیقی قدر نہیں
جانی اور جس انداز میں اس میں عبادتوں کو انجام دیناتھا اس سے ہم غافل رہے۔ نبی کریمe نے
فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے
گی کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے۔ (فضائل الأوقات للبیہقی)
اس لئے رسمی اور رواجی مزاج کو ختم کرتے ہوئے ایک نئے انداز
میں اور مکمل شوق و احترام کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کرنے کی ضرورت ہے کہ جو
رمضان کے ختم ہونے تک کمزور نہ ہونے پائے ،اس کے لئے مکمل لائحہ عمل بنانے کی ضرورت
ہے کہ
1 عبادت کا اہتمام
کیا جائے ،فرائض کے ساتھ نمازِ تروایح مکمل اداکی جائے ،سنتوں اور نوافل کاالتزام ہو۔
2 تلاوتِ قرآن
کریم کا پورے اہتما م سے معمو ل بنایا جائے۔
3 تسبیحات و ذکر
کو بھی نظام العمل میں داخل کیا جائے۔
4 رمضان میں دعائیں
قبول ہوتی ہیں ،پورے خلوص کے ساتھ دعاؤں کا معمو ل بنایا جائے۔
5 جھوٹ،غیبت ،چغل
خوری وغیرہ سے اجتناب کیا جائے۔
6 گناہوں سے بچنے
کا اور نافرمانی والے کام انجام دینے سے بچا جائے۔
7 استغفار کی
کثرت ہو ۔
8 اوقات کو ضائع
ہونے اور لایعنی کاموں میں گذارنے سے حفاظت کی جائے۔
9 حسبِ حیثیت
صدقہ وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔
0 نبی کریمe کی
سنتوں اور آپe کے
مبارک طریقو ں کو جان کر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
! دینی کتابوں
کا مطالعہ اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے وغیرہ وغیرہ۔
ان چیزوں اور اس کے علاوہ دیگر اور بھی تعلیمات پر عمل پیرا
ہونے کے جذبات کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبا ل کیا جائے تو ان شاء اللہ رمضان کی
خیر و برکات اور اس کی سعادتوں سے ہر ایمان والا بہرورہ ہوگا، اور رمضان مسلمانوں کی
زندگیوں کو سدھار نے کا ذریعہ بنے گا، کیونکہ اللہ کے جو بندے اس کی قدر کرتے ہوئے
گذارتے ہیں وہ رحمت الٰہی سے اپنے دامن کو بھر لیتے ہیں اور ان کی زندگیاں انقلاب کا
ذریعہ بن جاتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment