احکام ومسائل ... صلوٰۃ وسلام علیٰ رسول اللہ
تحریر: جناب پروفیسر ڈاکٹر حافظ شریف
شاکر
کیا ہر جگہ سے نبی کریمؐ پر صلوٰۃ وسلام پہنچتا ہے:
امام ابو یعلی موصلی(م ۳۰۷ھ) اپنی مسند میں لکھتے ہیں:
[حَدَّثَنَا اَبُو
بَکْرِ بْنُ اَبِی شَیْبَۃَ، حَدَّثَنَا زَیْدُ ابْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ
بْنُ إِبْرَاہِیمَ، مِنْ وَلَدِ ذِی الْجَنَاحَیْنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ
عُمَرَ، عَنْ اَبِیہِ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ، اَنَّہُ رَاٰی رَجُلًا یَجِیء
ُ إِلَی فُرْجَۃٍ کَانَتْ عِنْدَ قَبْرِ النَّبِیِّﷺ، فَیَدْخُلُ فِیہَا فَیَدْعُو،
فَنَہَاہُ، فَقَالَ: اَلَا اُحَدِّثُکُمْ حَدِیثًا سَمِعْتُہُ مِنْ اَبِی، عَنْ جَدِّی،
عَنْ رَسُولِ اللَّہِﷺ، قَالَ: لَا تَتَّخِذُوا قَبْرِی عِیدًا، وَلَا بُیُوتَکُمْ
قُبُورًا، فَإِنَّ تَسْلِیمَکُمْ یَبْلُغُنِی اَیْنَمَا کُنْتُمْ۔] (ابویعلی الموصلی،
احمد بن علی بن المثنی التمیمی، الامام: مسند ابی یعلی الموصلی(تحقیق: سعید بن محمد
السنّاری): حدیث ۴۶۹:دارالحدیث القاھرۃ: ۱۴۳۱ھ؍۲۰۱۳ء: ص۱/۴۴۹)
’’علی بن عمر(بن
علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب) اپنے باپ (عمر بن علی) سے وہ علی بن حسین (زین العابدین)
سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک شخص کو نبی e کی قبرکے پاس (دیوار میں) شگاف کی طرف آتے دیکھا کہ
وہ اس میں داخل ہوکر دعا کر رہا ہے، تو آپ نے اسے منع کرتے ہوئے کہا: کیا میں تمہیں
ایسی حدیث نہ سنائوں؟ جسے میں نے اپنے باپ (حسین بن علی) سے اس نے میرے دادا(علی بن
ابی طالب) سے انہوں نے نبی e سے
سنا ، آپ e نے
فرمایا: تم میری قبر کو عید نہ بنائو! اورنہ تم اپنے گھروں کو قبریں بنائو! بلاشبہ
تمہارا سلام جہاں بھی تم ہو ، مجھے پہنچ جاتا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہa یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ابو عبداللہ محمد
بن عبدالواحد المقدسی الحافظ نے یہ (حدیث) ان (احادیث) میں روایت کی ہے جنہیں آپ نے
صحیحین پر زائد جید احادیث سے چنا ہے، اور اس میں ابوعبداللہ المقدسی کی شرط ، حاکم
کی اپنی صحیح میں شرط سے زیادہ عمدہ ہے۔ (ابن تیمیہ،احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام
، شیخ الاسلام: اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم (تحقیق: الدکتور ناصر
بن عبدالکریم العقل): توزیع وزارۃ الشئون الاسلامیہ والاوقاف، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ:
۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ء: ص۲/۱۷۱)
شیخ الاسلام دوسرے مقام پر اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ اسے
ابوعبداللہ المقدسی الحافظ نے اپنی المستخرج
میں تخریج کیا ہے۔ (نفس المرجع: حدیث۳۲:ص۱/۳۳۷)
سنن ابی داؤد کی حدیث:
امام ابوداؤد نے اسی موضوع پر یوں حدیث تخریج کی:
[حَدَّثَنَا اَحْمَدُ
بْنُ صَالِحٍ، قَرَاْتُ عَلَی عَبْدِاللَّہِ بْنِ نَافِعٍ، اَخْبَرَنِی ابْنُ اَبِی
ذِئْبٍ، عَنْ سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ، عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللَّہِ ﷺ: لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیدًا،
وَصَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِی حَیْثُ کُنْتُمْ۔] (سنن ابی داؤد،
کتاب المناسک ، باب زیارۃ القبور، حدیث۲۰۴۲)
’’رسول اللہ e نے
فرمایا:تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائو! اور نہ میری قبر کو عید بنائو! اور تم مجھ
پر صلاۃ پڑھو! پس بلاشبہ تمہارا صلاۃ (درود) پڑھنا جہاں کہیں تم ہو مجھے پہنچ جاتا
ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہa اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[وہذا إسناد حسن،
فإن رواتہ کلہم ثقات مشاہیر، لکن عبد اللہ بن نافع الصائغ الفقیہ المدنی صاحب مالک
فیہ لین لا یقدح فی حدیثہ ــ قال یحیی بن معین: ہو ثقۃــ وحسبک بابن معین موثقا ــ
وقال أبو زرعۃ: لا بأس بہــ وقال أبوحاتم الرازی: لیس بالحافظ، وہو لین تعرف حفظہ
وتنکر فإن ہذہ العبارات منہم تنزل حدیثہ من مرتبۃ الصحیح إلی مرتبۃ الحسن، إذ لا خلاف
فی عدالتہ وفقہہ، وأن الغالب علیہ الضبط، لکن قد یغلط أحیانا، ثم ہذا الحدیث مما
یعرف من حفظہ، لیس مما ینکر، لأنہ سنۃ مدنیۃ وہو محتاج إلیہا فی فقہہ، ومثل ہذا یضبطہ
الفقیہ ــوللحدیث شواہد من غیر طریقہ، فإن ہذا الحدیث روی من جہات أخری فما بقی منکراــ
وکل جملۃ من ہذا الحدیث رویت عن النبی ﷺ بأسانید معروفۃ، وإنما الغرض ہنا النہی عن
اتخاذہ عیدا۔] (ابن تیمیہ: اقتضاء الصراط المستقیم : ص۲/۱۷۰)
’’اور یہ حسن سند
ہے کیوں کہ اس کے سبھی رواۃ مشاہیر ثقات ہیں ، لیکن عبداللہ بن نافع صائغ جو مدنی فقیہہ
ہے اور (امام) مالک کا شاگرد ہے اس میں کچھ نرمی ہے جو اس کی حدیث میں قادح نہیں ہے
، یحییٰ بن معین نے کہا: ’’ھو ثقۃ‘‘(وہ ثقہ ہے) اور تیرے لیے ابن معین ثقہ قرار دینے
والا کافی ہے۔ اور (امام) ابوزرعہ نے کہا:’’ لا باس بہ‘‘ (اس پر کوئی اعتراض نہیں)، اور (امام) ابوحاتم رازی
نے کہا: وہ حافظ نہیں، وہ حدیث میں نرم ہے ، اس کی حدیث محفوظ بھی ہوتی ہے اور منکر
بھی۔ ان(ائمہ) کی یہ عبارتیں اس کی حدیث کو صحیح کے مرتبہ سے اُتار کر حسن کے مرتبہ
پر لے آتی ہیں ، جب کہ اس کی عدالت وفقاہت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں اور اس پر ضبط
کا غلبہ ہے، لیکن بعض اوقات( حدیث میں) غلطی کرجاتا ہے، پھر یہ حدیث ان (احادیث) میں
سے ہے جو اس کے حافظہ سے پہچانی جاتی ہیں نہ کہ ان (احادیث) میں سے جو منکر (احادیث)
ہیں۔ کیوں کہ یہ مدنی سنت ہے اور وہ اپنی فقہ میں اس (مدنی سنت) کا محتاج ہے اور اس
جیسی (حدیث) کو فقیہہ خوب حفظ وضبط میں لے آتا ہے اور اس کے ، اس کی (اس) سند کے علاوہ
کئی شواہد ہیں کیوں کہ یہ حدیث دیگر اسناد سے روایت کی گئی ہے، لہٰذا یہ منکر نہ رہی۔
اس حدیث کا ہر جملہ نبی e سے
معروف سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ، یہاں صرف آپ (e) کی قبر کو عید
بنانے سے منع کرنا مقصود ہے۔‘‘
امام احمد بن حنبلa اپنی مسند میں درج ذیل حدیث ہیں:
[حدثنا سریج قال:
حدثنا عبداللّٰہ بن نافع عن ابی ذئب عن سعید المقبری عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ
ﷺ لا تتخذوا قبری عیداً ، ولا تجعلوا بیوتکم قبوراً ، وحیثما کنتم فصلّوا علیّ ، فانّ
صلاتکم تبلغنی۔] (صححہ الالبانی، ابوداؤد: حدیث: ۲۰۴۲) (امام احمد: المسند (مجلدین)،
حدیث ۸۷۹۰ (۸۸۰۰۴): بیت الافکار الدولیۃ، الاردن: الطبعۃ الرابعۃ: ص۱/۳۷۱)
سنن سعید بن منصور:
سنن سعید بن منصور کی درج ذیل مرسل حدیث:
[حدثنا عبدالعزیز
بن محمد، اخبرنی سھیل بن ابی سھیل قال: راٰنی الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب+ عندالقبر
فنادانی وھو فی بیت فاطمۃ یتعشی، فقال: ھلم الی العشاء ، فقلت: لا اریدہ ، فقال: مالی
رأیتک عند القبر؟ قلت : سلّمت علی النبیﷺ فقال: اذا دخلت المسجد فسلّم، ثم قال: انّ
رسول اللّٰہﷺ قال: ’لا تتخذوا قبری عیدا، ولا تتخذوا بیوتکم مقابر، لعن اللّٰہ الیھود
اتخذوا قبور انبیاء ھم مساجد، وصلوا علیّ، فان صلاتکم تبلغنی حیث ما کنتم۔‘ ما انتم
ومن فی الاندلس الا سواء۔] (ابن تیمیہ: اقتضاء الصراط المستقیم: ص۱/۳۳۸،۳۳۹)
’’سہیل بن ابی سہیل
نے کہا کہ مجھے حسن بن حسن بن علی بن ابی طالبt نے قبر (قبر نبوی) کے پاس دیکھا تو مجھے آواز دی اور
وہ فاطمہr (الزہراء) کے گھر
میں شام کا کھانا کھا رہے تھے، توکہا: کھانے کی طرف تشریف لایئے! میں نے کہا: میراکھانے
کا ارادہ نہیں ، توانہوں نے کہا: مجھے کیا ہے کہ میں نے آپ کو قبر کے پاس دیکھا ہے؟
میں نے کہا کہ میں نے نبیe کو
سلام کیا ہے توانہوں نے کہا کہ جب آپ مسجد میں داخل ہوں تو سلام کیجئے! پھر کہا بلاشبہ
رسول اللہ e نے
فرمایا:
[’لا تتخذوا قبری
عیدا، ولا تتخذوا بیوتکم مقابر ، لعن اللّٰہ الیھود اتخذوا قبور انبیاء ھم مساجد ،
وصلوا علیّ ، فان صلاتکم تبلغنی حیث ما کنتم‘۔]
’’میری قبر کو عید
نہ بنائو! اور تم اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائو! اللہ یہودیوں پر لعنت کرے ، انہوں
نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ، اور تم مجھ پر صلاۃ پڑھو! بلاشبہ تم جہاں
کہیں بھی ہو ، تمہارا صلاۃ پڑھنا مجھے پہنچ جاتا ہے۔ (حسن بن حسن نے) کہا: تم اورا
ندلس میں رہنے والے برابر ہو۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
[فھذان المرسلان
من ھٰذین الوجھین المختلفین یدُلاَّن علی ثبوت الحدیث، لا سیما وقد احتج من ارسلہ بہٖ
وذلک یقتضی ثبوتہ عندہٗ، ولو لم یکن روی من وجوہٍ مسندۃٍ غیر ھٰذین، فکیف وقد تقدم
مسنداً۔] (اقتضاء الصراط المستقیم: ۱/۳۳۹)
’’دو مختلف سندوں
سے (روایت کی گئی) یہ دو مرسل (حدیثیں)، حدیث کے ثابت ہونے پر دلالت کرتی ہیں، خصوصاً
اسے مرسل روایت کرنے والے نے اس سے دلیل پکڑی ہے اور یہ اس کے ہاں حدیث کے (صحیح) ثابت
ہونے کی مقتضی ہے اگرچہ یہ ان دو (مرسل سندوں) کے علاوہ مرفوع سندوں سے نہ بھی روایت
کی جاتی (تب بھی یہ قابل حجت ہوتی) تو یہ کیسے قابل حجت نہ سمجھی جائے؟ جبکہ اس کا
مرفوع روایت کیا جانا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔‘‘ (اس سے مراد سنن ابی دائود کی حدیث نمبر۲۰۴۲ ہے۔)
رسول اللہ e کی
قبر مبارک بلاشبہ روئے زمین پر افضل ترین قبرہے ، اور اللہ تعالیٰ نے یقینا اسے عید
بنانے سے روک دیا ہے ، اور آپ e کے
علاوہ کوئی بھی شخص ہو ، اس کی قبر تو اس نہی کی زیادہ حق دار ہے۔پھر آپ(e) نے اسے اپنے ارشاد:
[لا تتخذوا بیوتکم
مقابر] کے ساتھ ذکر کیا،
یعنی ان گھروں میں دعاء وقراء ت اور ان میں نماز پڑھنا ترک نہ کرو کہ وہ قبروں کا مقام
حاصل کرلیں، آپ (e) نے گھروں میں عبادت
کی تلاش و جستجوکا حکم دیا اور قبروں کے پاس عبادت کی تلاش سے منع کردیا ، اور جو کچھ
مشرکین نصاریٰ اور ان کی مشابہت کرنے والے کرتے ہیں، آپ e نے اس کے برعکس حکم جاری فرمایا۔ جس کا تذکرہ درج ذیل
حدیث میں کیا گیا ہے:
صحیحین کی حدیث:
صحیحین میں عبداللہ بن عمر iسے مروی ہے کہ بلاشبہ نبی e نے فرمایا:
[اِجْعَلُوْا مِنْ
صَلاَتِکُمْ فِیْ بُیُوتِکُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوْھَا قُبُورًا] (صحیح البخاری: حدیث
۴۳۲، صحیح مسلم:لحدیث۱۸۲۰)
’’تم اپنی نماز کا
کچھ حصہ اپنے گھروں میں رکھو اور ان گھروں
کو قبریں نہ بنائو۔‘‘
ابوہریرہt نے
نبی e سے
روایت کیا کہ آپ نے فرمایا:
[لاَ تَجْعَلُوْا
بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ، فَاِنَّ الشَّیْطٰنَ یَفِرُّ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِیْ یَسْمَعُ
سُورۃ الْبَقَرۃ تُقْرَاُ فِیْہِ] (نفس المرجع: رقم الحدیث: ۱۸۲۴)
’’تم اپنے گھروں
کو قبریں نہ بنائو ، کیوں کہ شیطان جس (گھر) میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت سنتا ہے ، یقینا
وہ وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔‘‘
پھر نبی e نے
اس کے بعد اپنے ارشاد:
[صلوا علیّ، فان
صلاتکم تبلغنی حیث ما کنتم۔]
کے ساتھ اپنی قبر کو عید بنانے سے منع کردیا۔
سنن النسائی کی حدیث:
[اَخْبَرَنَا مَحْمُودُ
بْنُ غَیْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْیَانَ،
عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّہِ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللَّہِ ﷺ: ’إِنَّ لِلَّہِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِینَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُونِی
مِنْ اُمَّتِی السَّلَامَ‘۔] (النسائی، حدیث: ۱۲۸۳)
’’رسول اللہ e نے
فرمایا کہ اللہ کے فرشتے زمین میں سیاحت کرنے والے ہیں، وہ میری امت کی طرف سے مجھے
سلام پہنچا دیتے ہیں ۔‘‘
عبداللہ بن عمرؓ کیسے صلاۃ وسلام پڑھا کرتے تھے؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہa (۷۲۸ھ) لکھتے ہیں:
[روی ابن بطۃ1 فی
الابانۃ باسناد صحیح، عن معاذ بن معاذ2 حدثنا ابن عون،3 قال: سأل رجل نافعاً فقال:
1 ابن بطہ: آپ
کا اسم گرامی عبید اللہ بن محمد بن محمد بن حمدان ابوعبداللہ عکبری ہے، آپ ابن بطہ
کے نام سے معروف ہیں، آپ کبار علماء حنابلہ میں سے ہیں ، آپ ایک فقیہ اور حدیث کے عالم
تھے ، آپ کی تصانیف سو سے زائد ہیں ،ان میں سے ’’الشرح والابانۃ علی اصول الدیانۃ‘‘ہے۔
آپ۳۰۴ہجری کو پیدا ہوئے اور ۳۸۷ھ کو فوت ہوئے۔
2 معاذ بن معاذ
بن نصر بن حسان العنبری ابو المثنّی البصری القاضی ، ثقہ متقن ہیں، اصحاب ستہ نے ان
سے احادیث تخریج کیں ، آپ ۱۹۶ھ میں فوت ہوئے۔
(حافظ ابن حجر عسقلانی:تہذیب التہذیب :داراحیاء
التراث العربی، بیروت:۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱ء: ص۵/۴۷۰)
3 عبداللہ بن
عون بن ابی عون عبدالملک بن یزید الہلالی ، ثقہ مامون تھے ، ابن حبان نے اس کاذکر ثقات
میں کیا ، عبداللہ کو احمد بن حنبل نے ثقہ کہا، رمضان ۲۳۲ھ کو فوت ہوئے۔(تہذیب التہذیب : ص۳/۲۲۶)
[ھل کان ابن عمر
یسلم علی القبر فقال: نعم، رأیتہ مائۃً أو أکثر من مائۃ مرۃٍ ،
کان یأتی القبر فیقوم عندہ فیقول:
السلام علی النبی، السلام علی ابی بکر، السلام علی أبی۔] (ابن تیمیہ: اقتضاء الصراط
المستقیم: ۲/۱۸۰)
’’ابن بطہ نے الابانہ
میں صحیح سند کے ساتھ معاذ بن معاذ سے روایت کیا ، اس نے کہا کہ ہمیں ابن عون نے حدیث
بیان کی، اس نے کہا کہ ایک شخص نے نافع (مولیٰ ابن عمر) سے سوال کیا تو کہا: کیا ابن
عمر (رضی اللہ عنہما) قبر (قبر نبوی) پر سلام کیا کرتے تھے ، تو نافع نے کہا: ہاں!
میں نے آپ کو سو دفعہ یاسو سے زیادہ دفعہ دیکھا، آپ قبر کو آتے تو اس کے پاس کھڑے ہوجاتے
پھر کہتے: نبی (e) پر سلام ہو، ابوبکر
پر سلام ہو، میرے اباجی پر سلام ہو۔‘‘ ………
(جاری)
No comments:
Post a Comment