احکام ومسائل ... صلوٰۃ وسلام علیٰ رسول اللہ ﷺ
(قسط دوئم آخری) تحریر: جناب ڈاکٹر محمد شریف شاکر
تشہد میں السلام علی النبیؐ:
حافظ ابن حجر عسقلانیa (۷۲۸ھ) لکھتے ہیں:
’’صحیح البخاری کی
’’کتاب الاستیئذان‘‘ میں ابومعمرعبداللہ بن مسعودt سے روایت کرتے ہیں کہ حدیث تشہد ذکر کرنے کے بعد آپ
(ابن مسعود) نے کہا:
[وَہُوَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْنَا،
فَلَمَّا قُبِضَ قُلْنَا: السَّلاَمُ! یَعْنِی! عَلَی النَّبِیِّﷺ۔] (البخاری، حدیث:
۶۵۶۲)
’’اور نبی e ہمارے
درمیان تھے پھر جب آپ قبض کر لیے گئے تو ہم نے کہا کہ سلام ہو یعنی نبیe پر۔‘‘
صحیح بخاری میں اسی طرح واقع ہوا ہے۔ یہی حدیث ابوعوانہ نے اپنی
صحیح میں اور السراج، الجوزقی، ابونعیم الاصبھانی اور بیہقی نے امام بخاریa کے
استاد ابو نعیم تک متعدد طرق سے ’’لفظ‘‘ یعنی حذف کر کے ان الفاظ کے ساتھ تخریج کیا:
[فَلمّا قبض قلنا
السلام علی النبیﷺ] ’’پھر جب آپ قبض
کر لیے گئے تو ہم نے کہا کہ سلام ہو نبی e پر۔‘‘ اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابونعیم سے اسی طرح
روایت کیا ہے۔ اور (امام )سنبلی نے اس روایت کو اکیلے ابو عوانہ کے پاس سے (اپنی کتاب)
’’شرح المنہاج‘‘میں ذکر کرنے کے بعد کہا:
[إِنْ صَحَّ ہَذَا
عَنِ الصَّحَابَۃِ دَلَّ عَلَی اَنَّ الْخِطَابَ فِی السَّلَامِ بَعْدَ النَّبِیِّﷺ
غَیْرُ وَاجِبٍ فَیُقَالُ السَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ قُلْتُ قَدْ صَحَّ بِلَا رَیْبٍ
وَقَدْ وَجَدْتُ لَہُ مُتَابِعًا قَوِیًّا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ أخبرنَا بن جُرَیْجٍ
اَخْبَرَنِی عَطَائٌ اَنَّ الصَّحَابَۃَ کَانُوا یَقُولُونَ وَالنَّبِیُّﷺ حَیٌّ السَّلَامُ
عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ فَلَمَّا مَاتَ قَالُوا السَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ
وَہَذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ۔] (حافظ ابن حجر عسقلانی: فتح الباری: دار نشر الکتب الاسلامیہ،
شیش محل روڈ لاہور: ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء: ص۲/۳۱۴)
’’اگر یہ صحابہ سے
صحیح ثابت ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی e کے بعد ، سلام میں آپ (e) کو مخاطب کرنا
واجب نہیں، لہٰذا ’’السلام علی النبی‘‘(نبی پرسلام ہو) کہا جائے۔ میں (حافظ ابن حجر
عسقلانی)کہتا ہوں کہ بلاشبہ یہ صحیح ثابت ہے اور میں نے اس کا ایک طاقتور متابع پالیا
ہے (جو درج ذیل ہے) عبدالرزاق نے کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی ، اس نے کہا کہ مجھے
عطاء (رحمہ اللہ) نے بتایا کہ بلاشبہ صحابہ [اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ] اس وقت کہا کرتے تھے ، جب نبی e زندہ تھے ، پھرجب آپ (e) فوت ہوگئے تو انہوں ’’السلام علی
النبی‘‘کہا اور یہ صحیح سند ہے۔‘‘ (ابن حجر عسقلانی: فتح الباری:ص۲/۳۱۴)
ایک ضعیف حدیث :
مندرجہ بالا صحیح حدیث کے مقابلہ میں ایک ضعیف حدیث بھی دیکھتے
چلئے:
شیخ الاسلام ابن تیمیہa لکھتے
ہیںکہ سعید بن منصور(م۲۲۷ھ) نے اپنی سنن
میں کہا:
[حدثنا عبدالرحمن
بن زید بن اسلم، حدثنی ابی عن ابن عمر أنہ کان إذا قدم من سفر أتی قبر النبیﷺ وقال:
السلام علیک یا أبا بکر السلام علیک یا أبتاہ۔] (ابن تیمیہ: اقتضاء الصراط المستقیم:
۲/۲۴۳)
’’ہمیں عبدالرحمن
بن زید نے حدیث بیان کی، اس نے کہا کہ میرے باپ نے عبداللہ بن عمر (w) سے (سن کر) مجھے
حدیث بیان کی کہ (ابن عمر) جب سفر سے آتے تو نبی e کی قبر پر آتے اور کہتے اے ابوبکر! تجھ پر سلام‘ اے
میرے ابا جی! آپ پر سلام۔‘‘
اس حدیث کا راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے۔ اس کے بارے
میں حافظ ابن حجر عسقلانیa نقاد
محدثین کے اقوال نقل کرتے ہیں: عبداللہ بن احمد (بن حنبل) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے
والد سے سنا:
[یضعف عبدالرحمان
وقال: روی حدیثاً منکراً اُحلّت لنا میتتان ودمان۔]
وہ عبدالرحمن کو ضعیف کہتے اور فرماتے کہ یہ ایک منکر حدیث ’’اُحلّت لنا ۔۔۔الخ‘‘روایت
کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث پر جرح:
الدوری ، یحییٰ بن معین سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
[لیس حدیثہ بشیء] (اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ہے)، ابو زرعہ نے کہا کہ وہ ضعیف
ہے ، اور ابو حاتم نے کہا:
[لیس بقویٍّ فی الحدیث
وکان فی نفسہٖ صالحا وفی الحدیث واھیاً وقال الحاکم وابونعیم روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ۔]
(حافظ ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب:
۳/۳۶۳،۳۶۴)
’’وہ حدیث میں قوی
نہیں، وہ فی نفسہ نیک تھا اور حدیث میں کمزور تھا، حاکم اور ابونعیم نے کہا کہ یہ اپنے
باپ سے بنائوٹی حدیثیں روایت کرتا تھا۔‘‘
قارئین! آپ مندرجہ بالا صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ صحابہ کرام نے نبی e کی
وفات کے بعد تشہد میں [اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ] کی بجائے [لسَّلاَمُ عَلَی النَّبِیُّ] کہنا شروع کردیا۔ اور عبداللہ بن عمر iکی صحیح حدیث میں
بھی ابھی ذکر ہوا کہ آپ قبر نبوی پر جا کر [السلام علی النبی ، السلام علی ابی بکر، السلام علی أبی] کہا کرتے تھے۔
مولانا ابوعبداللہ باجوہ:
لیکن مسلک اہل حدیث کے ترجمان ہفت روزہ’’ اہل حدیث‘‘جلد :۴۹، شمارہ:۳۲ کے صفحہ ۱۹ پر مولانا ابوعبداللہ
باجوہ صاحب نے لکھا:
رسول اکرم e پر
نہایت ادب واحترام سے درود وسلام عرض کریں ، سلام کے لیے یہ الفاظ مسنون ہیں:
[السلام علیک ایھا
النبیّ و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ صلی اللّٰہ علیک وجزاک عن امّتک خیر الجزاء۔]
پھر سیدنا ابوبکرt پر
[السلام علیک یا
ابابکر ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ رضی اللّٰہ عنک وجزاک عن أمۃ محمد خیراً۔]
اور سیدنا عمرt پر
[السلام علیک یا
عمر بن الخطاب ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ رضی اللّٰہ عنک وجزاک عن امۃ محمد خیراً۔]
کے ذریعہ سلام
کہیں۔ (التحقیق والایضاح)
مولانا باجوہ صاحب نے یہ عبارت جس کتاب سے نقل کی، اس کتاب کامصنف
کوئی عام شخص نہیں یا کوئی عام مولوی صاحب نہیں بلکہ اس کے مصنف ، سعودی عرب کے سابق
مفتی اعظم شیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازa ہیں اور اس کو نشر کرنے والے ’’الرئاسۃ العامۃ للبحوث
العلمیۃ والافتاء الادارۃ العامۃ لمراجعۃ المطبوعات الدینیۃ ، الریاض ، المملکۃ العربیۃ
السعودیۃ‘‘ ہے۔ اس کتاب کے صفحہ ۹۰ پر سنن ابی دائود
کی حدیث ۲۰۴۱ نقل کی گئی اور
اسے حسن حدیث قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ حدیث حسن نہیں بلکہ ضعیف ہے۔ امام ابودائودa نے
اسے یوں تخریج کرتے ہیں:
[حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَیْوَۃُ، عَنْ أَبِی صَخْرٍ حُمَیْدِ
بْنِ زِیَادٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ،
اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ قَالَ: مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ إِلَّا رَدَّ اللَّہُ
عَلَیَّ رُوحِی حَتَّی اَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ۔] (سنن ابی دائود، :حدیث۲۰۴۱، ص۲۹۵)
سیدنا ابوہریرہ (t) سے روایت ہے کہ
بلاشبہ رسول اللہ e نے فرمایا کہ ’’جو کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ
مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے ، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کی اسنادی حیثیت:
حافظ ابن حجر عسقلانیa اس حدیث کے ایک راوی حمید بن زیاد ابوصخر کے بارے میںمحدثین
کی دوقسم کی آراء نقل کرتے ہیں کہ ’’احمد بن حنبل‘‘ نے کہا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
عثمان دارمی نے یحییٰ سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسحاق بن
منصور اور ابن ابی مریم نے یحییٰ سے روایت کیا کہ یہ (حمید بن زیاد) ضعیف ہے اور نسائی
نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ ابن عدی نے اس کی تین حدیثیں روایت کرنے کے بعد کہا کہ صالح
الحدیث ہے اور یہ بھی کہا کہ اس کی کچھ حدیثیں ایسی ہیں جن میں اس کی متابعت نہیں کی
جاتی۔ میں(ابن حجر) کہتا ہوں کہ ابن حبان نے ان دونوں (حمید بن زیاد ابوصخراور حمید بن صخر ابومودود) میں فرق کیا ہے۔
بغوی نے کتاب الصحابہ میں کہا کہ بلاشبہ حاتم بن اسماعیل نے اپنے اس قول میں وہم سے
کام لیتے ہوئے حمید بن صخر کہہ دیا، حالانکہ وہ حمید بن زیاد ابوصخر مدنی ہے اور وہ
صالح الحدیث ہے۔ دارقطنی نے کہا کہ وہ ثقہ ہے اور ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا۔
(۲۳) حافظ ابن حجر عسقلانی:تہذیب التہذیب: ص۲/۲۷)
حافظ ابن حجرa مزید
لکھتے ہیں کہ ’’حمید بن زیاد ابوصخر ابن ابی المخارق الخراط صاحب العباء مدنی ہے ،
یہ مصر میں رہائش پذیر ہوا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حمید بن صخر ابومودود خراط ہے۔ اور
کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں دو(الگ الگ)ہیں۔ یہ ہے تو صدوق (لیکن) یہ وہم کا شکار تھا،
یہ طبقہ سادسہ سے ہے، ۸۹ھ میں فوت ہوا۔
(حافظ ابن حجر عسقلانی: تقریب التہذیب: (تحقیق: حامد عبداللّٰہ المحلاوی): دارالحدیث،
القاہرۃ: ۱۴۲۰ھ/۲۰۰۹ء: ص۱۷۷(ترجمہ رقم:۱۵۴۶))
سنن ابی داؤد کی مندرجہ بالا حدیث نمبر ۲۰۴۱ کا ایک راوی حمید
بن زیادہے، جس کے بارے میں محدثین کرام کی مختلف آراء حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مندرجہ
بالا سطور میں بیان کی ہیں۔ بعض نے اسے ثقہ کہا اور بعض نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ جس
راوی کے بارے میں دونوں قسم کی آراء یعنی جرح وتعدیل جمع ہوجائیں تو ایسے راوی کو محدثین
ضعیف قرار دیتے ہیں۔
الجرح مقدم علی التعدیل:
امام نوویa (م۶۷۶ھ)لکھتے ہیں:
[ولو تعارض جرح وتعدیل
قدم الجرح علی المختار الذی قالہ المحققون والجماھیر ، ولا فرق بین ان یکون عدد المعدّلین
اکثر او اقل ، وقیل : اذا کان المعدلون اکثر قدم لتعدیل والصحیح الأوّل ، لان الجارح
اطلع علی امرٍ خفیٍّ جھلہ المعدّل۔] (النووی، یحییٰ بن شرف ابوزکریا محی الدین: شرح صحیح مسلم (ذیل صحیح مسلم): کتب خانہ رشیدیہ ، دہلی : سن ندارد:ص۱/۲۱)
’’اگر جرح وتعدیل
میں تعارض ہو تو مختار مذہب کے مطابق جرح کو مقدم کیا جائے گا اور اس میں کوئی فرق
نہیں کہ تعدیل کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یا کم اور کہا گیا ہے کہ جب معدلین زیادہ
ہوں تو تعدیل کو مقدم کیا جائے گا۔ صحیح بات پہلی ہی ہے کیوں کہ جرح کرنے والا کسی
ایسے مخفی امر پر مطلع ہوجاتا ہے جس کا علم معدّل کو نہیں ہوتا۔‘‘
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کی تحقیق:
اس حدیث کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ اس کے رواۃ میں ابو صخر حمید بن زیادہ ہیں۔
مسلم نے اس کی متابعت کے طور پر روایت لی ہے۔ یحییٰ بن معین نے اسے بعض اوقات ضعیف
کہا ہے ، اس سے بعض منکرات بھی مروی ہیں۔ (السلفی ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل:
حیاۃ النبیe: اسلامک پبلشنگ
ہائوس، لاہور: ۱۴۰۴ھ: ص۴۸ )
اس حدیث کے راوی حمید بن زیادجس کی کنیت ابوصخر ہے ، اس پر کی
جانے والی جرح کی وجہ سے یہ حدیث صحیح تو کیا حسن کے درجہ سے بھی نیچے آکر ضعیف کے
مقام پرآٹھہری۔ … لہٰذامولانا ابوعبداللہ باجوہ کا روضۂ رسول پر جاکر سلام پڑھنے کا
طریقہ صحابہ کرام کے عمل سے متصادم ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کا طریقۂ سلام:
یہ طریقہ سلام شیخ رحمہ اللہ کا اپنا وضع کردہ ہے ۔
1 شیخ ابن باز
لکھتے ہیں کہ زیارت کرنے والا اپنے سلام میں یہ الفاظ کہے تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ
یہ آپe کے
اوصاف میں سے ہے:
[السلام علیک یا
نبی اللّٰہ السلام علیک یا خیرۃ اللّٰہ من خلقہ السلام علیک یا سید المرسلین، وامام
المتقین، اشھد اَنّک قد بلّغت الرسالۃ و ادّیت الامانۃ و نصحت الأمّۃ وجاھدتَّ فی اللّٰہ
حق جھادہ۔] (التحقیق والایضاح، ص۹۰)
’’اے اللہ کے نبی
تجھ پر سلام! اے اللہ کی مخلوق میں سے سب سے بہتر تجھ پر سلام! اے رسولوں کے سردار
اور متقین کے امام تجھ پر سلام! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے رسالت پہنچا دی اور امانت
ادا کردی، اور امت کو نصیحت کی اور آپ نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جو (اس کے راستہ
میں) جہاد کرنے کا حق تھا۔‘‘
مندرجہ بالا طریقہ سلام بھی صحابہ کرام سے ثابت نہیں۔
2 شیخ محمد بن
صالح العثیمینa لکھتے
ہیں کہ جب نمازپڑھ لینے کے بعد زیارت قبر نبوی کا ارادہ کرے تو قبر کے سامنے ادب و
وقار کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور کہے:
[السلام علیک ایھا
النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ، اللّٰھمّ صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت ۔۔۔ انک
حمید مجید، اشھد انک رسول اللّٰہ حقّا وانک قد بلّغت الرسالۃ وادّیت الامانۃ و نصحت
الأمّۃ وجاھدتَّ فی اللّٰہ حق جھادہ ، فجزاک اللّٰہ عن امتک افضل ما جزی نبیّا عن امتہ۔
(محمد بن صالح العثیمین: المنہج لمرید العمرۃ والحج: مؤسسۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین
الخیریۃ: ص۳۲،۳۳)
شیخ محمد بن صالح العثیمین نے بھی [السلام علیک ایھا النبی ۔۔۔الخ] اور درود ابراہیمی کے بعد رسول اللہ eکو ایسے مخاطب کیا جیسے زندہ لوگوں کو مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ
قبر پرکھڑے ہوکر رسول اللہ e کو
پکارنا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
اصحاب رسول ﷺ کا عمل:
شیخ الاسلام
ابن تیمیہa لکھتے
ہیں:
[فقد کان المھاجرون
والانصار علی وعھد ابی بکر وعمر وعثمان وعلی رضی اللہ عنہم یجیئون إلی المسجد کل یوم
خمس مرات یصلّون، ولم یکونوا یأتون مع ذلک إلی القبر یسلمون علیہ، لعلمھم رضی اللّٰہ
عنہم بما کان النبیﷺ یکرھہ ذلک، وما نھاھم عنہ، وانھم یسلمون علیہ حین دخول المسجد
والخروج منہ، وفی التشھد، کما کانوا یسلمون علیہ فی حیاتہ، والماثور عن ابن عمر یدلّ
علی ذلک۔ (ابن تیمیہ: اقتضاء الصراط المستقیم :ص۲/۲۴۲)
’’ابوبکر وعمر اور
عثمان وعلی کے زمانے میں مہاجرین وانصار دن میں پانچ دفعہ مسجد کی طرف
آتے (اس میں) نماز پڑھتے، اس کے باوجود وہ قبر(نبوی) کی طرف نہیں آتے تھے کیوں کہ وہ
جانتے تھے کہ نبی e اسے
مکروہ خیال کرتے تھے اور آپ نے ان کو اس سے منع کردیا تھا، وہ (صحابہ) مسجد میں داخل
ہوتے وقت اور اس سے نکلتے وقت اور تشہد میں آپ پر سلام بھیجا کرتے تھے۔ جس طرح وہ آپ
کی زندگی میں آپ پرسلام بھیجا کرتے تھے اور ابن عمرwکی (سابقہ) حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔‘‘
مسلک اہل حدیث:
مسلک اہل حدیث کے ترجمان محترم جناب حافظ صلاح الدین یوسفیa لکھتے
ہیں:
’’صحیح بات یہی ہے
کہ ہر دوصورتوں میں فرشتے ہی آپ کو درود پہنچاتے ہیں ، آپ خود نہیں سنتے کیوں کہ قبر
کے پاس بھی کھڑے ہوکر درود پڑھنے والے کا درود آپ تب ہی سن سکتے ہیں ، جب آپ اللہ کی
صفت ’’سمیع‘‘ سے متصف ہوں اور ایسا ہرگز نہیں، اُلوہی صفات سے آپ قطعاً متصف نہیں ہیں،
اسی لیے ہمارے نزدیک مطلقاً سماع موتیٰ کا عقیدہ شرک کا دروازہ ہے مگر افسوس علمائے
دیوبند اس کے قائل ہیں۔ اعاذنا اللّٰہ منہ۔‘‘ (حافظ صلاح الدین یوسف: اہل حدیث کا منہج : ام القریٰ پبلی کیشنز، گوجرانوالہ:۲۰۱۲ء: ص۱۳۴)
یہ تو ہے مسلک اہل حدیث ، سعودی علماء کے بارے میں آپ خود ہی
فیصلہ کرلیں۔
وما توفیقی الا باللہ!
No comments:
Post a Comment