نماز تراویح ... فضیلت واہمیت
تحریر: جناب مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر
امن پوری
قیام رمضان کو نماز تراویح کہا جاتا ہے،اس کے کئی ایک نام ہیں۔
اس با فضیلت نماز کو محروم انسان ہی چھوڑ سکتا ہے۔ ذیل میں نماز ت راویح کی فضیلت واہمیت
بارے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
Ý سیدنا ابو ہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[مَنْ قَامَ رَمَضَانَ
إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔]
’’جس نے ایمان اور
ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا، اس کے پہلے(صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
(صحیح البخاری: ۳۷، صحیح مسلم: ۱۷۳‘ ۷۵۹)
Þ نضر بن شیبانa سے
روایت ہے کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمنa سے کہا: مجھے ماہِ رمضان کے بارے میں کوئی ایسی روایت
سنائیں جو آپa نے
اپنے والد سے اور آپa کے
والد نے خود نبی کریمe سے
سنی ہو، درمیان میں کوئی واسطہ نہ ہو۔ ابو سلمہa نے کہا:ہاں!میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَرَضَ صِیَامَ رَمَضَانَ
عَلَیْکُمْ وَسَنَنْتُ لَکُمْ قِیَامَہٗ، فَمَنْ صَامَہُ وَقَامَہٗ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا
خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِہٖ کَیَوْمِ وَلَدَتْہٗ اُمُّہٗ۔]
’’اللہ تبارک وتعالیٰ
نے تم پر رمضان کے روزے فرض کر دئیے ہیں اور میں نے اس کا قیام تمہارے لئے سنت قرار
دیا ہے، جو ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اورقیام کرے ، وہ گناہوں سے
اس طرح نکل جاتا ہے، جیسے اس دن تھاجس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔‘‘ (مسند
الامام احمد: ۱/۱۹۱ ، سنن النسائی:
۲۲۱۲، سنن ابن ماجہ: ۱۳۲۸، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہa(۲۲۰۱) اور امام ضیاء مقدسیa(المختارہ:۹۰۷)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
نضر بن شیبان ’’جمہور‘‘ کے نزدیک’’ موثق ، حسن الحدیث‘‘ راوی
ہے۔
ß سیدنا ابو ہریرہt سے
روایت ہے:
[کَانَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ
یُرَغِّبُ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَاْمُرَہُمْ فِیہِ بِعَزِیمَۃٍ،
فَیَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِہٖ ، فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ وَالْاَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ ثُمَّ کَانَ
الْاَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ فِی خِلَافَۃِ اَبِی بَکْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ
عَلٰی ذٰلِکَ۔]
’’رسول کریمe قیام
رمضان کی ترغیب بغیر حتمی حکم کے دیتے تھے، فرماتے تھے:جو ایمان اور ثواب کی نیت سے
قیام ِرمضان کرے گا، اس کے پہلے (صغیرہ)گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، رسول اکرمe کے
فوت ہونے تک معاملہ اسی طرح رہا،پھر سیدنا ابو بکرt کے دورِ خلافت اور سیدنا عمرt کی
خلافت کے شروع میں بھی معاملہ یونہی رہا۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۷۴‘ ۷۵۹)
à سیدہ عائشہr سے
روایت ہے :
[اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺ
صَلَّی فِی الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَیْلَۃٍ، فَصَلَّی بِصَلَاتِہِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی
مِنَ الْقَابِلَۃِ، فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّیْلَۃِ الثَّالِثَۃِ،
اَوِ الرَّابِعَۃِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِﷺ، فَلَمَّا اَصْبَحَ،
قَالَ: قَدْ رَاَیْتُ الَّذِی صَنَعْتُمْ، فَلَمْ یَمْنَعْنِی مِنَ الْخُرُوجِ إِلَیْکُمْ
إِلَّا اَنِّی خَشِیتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ، قَالَ: وَذٰلِکَ فِی رَمَضَانَ۔]
’’رسول اکرمe نے
رمضان کی ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپe کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر اگلی رات نماز
پڑھائی تو لوگ بڑھ گئے، پھر وہ تیسری یا چوتھی رات جمع ہوئے ، لیکن آپ ان کی طرف نہ
نکلے۔ جب صبح ہوئی تو آپe نے
فرمایا:جو تم نے کیا، میں نے دیکھا، مجھے تمہاری طرف نکلنے سے صرف اس ڈر نے روکا کہ
کہیں تم پر یہ فرض نہ ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں: یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے۔‘‘ (صحیح
البخاری: ۱۱۲۹، صحیح مسلم: ۷۶۱‘ ۱۷۷ واللفظ لہ)
á سیدہ عائشہr سے
روایت ہے:
[فَخَرَجَ رَسُولُ
اللّٰہِﷺ فِی اللَّیْلَۃِ الثَّانِیَۃِ، فَصَلَّوْا بِصَلَاتِہٖ، فَاَصْبَحَ النَّاسُ
یَذْکُرُونَ ذٰلِکَ، فَکَثُرَ اَہْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَۃِ الثَّالِثَۃِ، فَخَرَجَ
فَصَلَّوْا بِصَلَاتِہٖ، فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَۃُ الرَّابِعَۃُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ
عَنْ اَہْلِہٖ، فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِﷺ، فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْہُمْ
یَقُولُونَ: الصَّلَاۃَ، فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ حَتّٰی خَرَجَ
لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ۔]
’’رسول اکرمe دوسری
رات تشریف لائے، صحابہ کرام نے آپe کے ساتھ نمازپڑھی، لوگ اس کا تذکرہ کرنے لگے، تیسری
رات مسجد والے بڑھ گئے، آپe تشریف
لائے، انہوں نے آپe کے
ساتھ نماز پڑھی، چوتھی رات مسجد لوگوں سے تنگ پڑ گئی مگر آپe تشریف
نہ لائے، لوگ کہنے لگے:نماز!لیکن رسول اکرمe فجر کی نماز تک نہ نکلے،یہاں تک کہ فجر میں تشریف لائے۔‘‘
(صحیح البخاری: ۲۰۱۲، صحیح مسلم: ۶۷۱‘ ۷۶۱)
â ایک روایت میں ہے:
[خَشِیتُ اَنْ تُفْرَضَ
عَلَیْکُمْ صَلَاۃُ اللَّیْلِ فَتَعْجِزُوا عَنْہَا۔]
’’میں ڈرا کہ تم
پر رات کی نماز فرض نہ ہوجائے اور پھر تم اس سے عاجز آجائو۔‘‘ (صحیح البخاری: ۹۲۴،، صحیح مسلم: ۱۷۸‘ ۷۶۱)
ã سیدنا ابو ذرt بیان
کرتے ہیں:
[صُمْنَا مَعَ رَسُولِ
اللّٰہِﷺ رَمَضَانَ، فَلَمْ یَقُمْ بِنَا شَیْئًا مِنَ الشَّہْرِ حَتّٰی بَقِیَ سَبْعٌ،
فَقَامَ بِنَا حَتّٰی ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، فَلَمَّا کَانَتِ السَّادِسَۃُ لَمْ
یَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا کَانَتِ الْخَامِسَۃُ قَامَ بِنَا حَتّٰی ذَہَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ،
فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِیَامَ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ، قَالَ:
فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّی مَعَ الإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ حُسِبَ لَہُ
قِیَامُ لَیْلَۃٍ، قَالَ: فَلَمَّا کَانَتِ الرَّابِعَۃُ لَمْ یَقُمْ، فَلَمَّا کَانَتِ
الثَّالِثَۃُ جَمَعَ اَہْلَہُ وَنِسَائَہُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتّٰی خَشِینَا
اَنْ یَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ،
ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِقِیَّۃَ الشَّہْرِ۔]
’’ہم نے رمضان میں
رسول اکرمe کے
ساتھ روزے رکھے۔ آپe نے
ہمیں قیام نہ کروایا، حتی کہ سات دن باقی رہ گئے تو آپe نے
ہمیں قیام کروایا، حتی کہ تہائی رات گزر گئی، جب چھ راتیں باقی رہ گئیں تو ہمیں قیام
نہ کروایا، جب پانچ راتیں رہ گئیں تو پھر قیام کروایا حتیّٰ کے آدھی رات گزر گئی،میں
نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولe! کاش کہ آپe ہمیں
اس رات کا قیام کروائیں، آپe نے
فرمایا:آدمی جب امام کے ساتھ مکمل نماز(عشا )پڑھتا ہے، اس کا قیام اللیل شمار ہوتاہے۔جب
چار راتیں رہ گئیں تو آپe نے
قیام نہ کروایا۔ جب تین رہ گئیں تو لوگوں اور اپنے گھر والوں کو اکٹھا کر کے ہمیں قیام
کروایا حتی کہ ہم ڈرے کہ ہم سے فلاح فوت نہ ہو جائے۔ راوی نے سیدنا ابو ذرt سے
پوچھا:فلاح کیا ہے؟ کہا: سحری، پھر باقی مہینہ ہمیں قیام نہ کروایا۔‘‘ (مسند الامام احمد: ۵/۱۵۹، سنن أبی داوٗد: ۱۳۷۵، سنن النسائی: ۱۶۰۶، سنن الترمذی: ۸۰۶، سنن ابن ماجہ: ۱۳۲۷، وسندہٗ صحیحٌ)
ä سیدنا زید بن
ثابتt بیان
کرتے ہیں:
[احْتَجَرَ رَسُولُ
اللّٰہِﷺ حُجَیْرَۃً بِخَصَفَۃٍ، اَوْ حَصِیرٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ یُصَلِّی
فِیہَا، قَالَ: فَتَتَبَّعَ إِلَیْہِ رِجَالٌ وَجَائُوا یُصَلُّونَ بِصَلَاتِہِ، قَالَ:
ثُمَّ جَائُوا لَیْلَۃً فَحَضَرُوا، وَاَبْطَاَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ عَنْہُمْ، قَالَ:
فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْہِمْ، فَرَفَعُوا اَصْوَاتَہُمْ وَحَصَبُوا الْبَابَ، فَخَرَجَ
إِلَیْہِمْ رَسُولُ اللّٰہِﷺ مُغْضَبًا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِﷺ: مَا زَالَ
بِکُمْ صَنِیعُکُمْ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہُ سَیُکْتَبُ عَلَیْکُمْ، فَعَلَیْکُمْ بِالصَّلَاۃِ
فِی بُیُوتِکُمْ، فَإِنَّ خَیْرَ صَلَاۃِ الْمَرْئِ فِی بَیْتِہِ إِلَّا الصَّلَاۃَ
الْمَکْتُوبَۃَ۔]
’’رسول اکرمe نے
کھجور کے پتوں یا چٹائی کا حجرہ بنایا، آپe اس میں نماز پڑھنے کے لئے نکلے، آدمی تلاش کرتے کرتے
آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے لگے، پھر وہ اگلی رات آئے تورسول اکرمe نے
باہر آنے میں دیر کر دی، آپ تشریف نہ لائے، انہوں نے آوازیں بلند کیںاور دروازے
کو کنکریاں ماریں، رسول اللہe غضب
ناک حالت میں ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:تمہارے اسی کام کی وجہ سے میں نے گمان
کیا کہ تم پر یہ نماز فرض کر دی جائے گی۔ تم اپنے گھروں میں نماز کو لازم پکڑو، کیونکہ
فرض نماز کے علاوہ آدمی کی سب سے بہترین نماز گھر میں ہے۔‘‘ (صحیح البخاری: ۷۳۱، صحیح مسلم: ۲۱۳‘ ۷۸۱ واللفظ لہ)
å سیدنا ثعلبہ
بن مالکt سے
روایت ہے:
[خَرَجَ رَسُولُ
اللّٰہِﷺ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِی رَمَضَانَ فَرَاَی نَاسًا فِی نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ یُصَلُّونَ،
فَقَالَ: مَا یَصْنَعُ ہَوُلَائِ؟ قَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہَوُلَائِ نَاسٌ
لَیْسَ مَعَہُمْ قُرْآنٌ وَاُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ یَقْرَاُ وَہُمْ مَعَہُ یُصَلُّونَ
بِصَلَاتِہٖ قَالَ: قَدْ اَحْسَنُوا، أوَ قَدْ اَصَابُوا ولَمْ یَکْرَہْ ذٰلِکَ لَہُمْ۔]
’’رسول اکرمe رمضان
کی ایک رات تشریف لائے تو لوگوں کو مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھتے دیکھ کرآپe نے
دریافت فرمایا:یہ کیا کر رہے ہیں؟کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسولe! یہ وہ لوگ ہیں
جن کو قرآن یاد نہیں، سیدنا ابی بن کعبt پڑھا رہے ہیں یہ ان کے ساتھ اپنی نماز پڑھ رہے ہیں،آپe نے
فرمایا:انہوںنے اچھا کیا ہے اور درستگی کو پہنچے ہیں۔نیز آپe نے
ناپسند نہیں کیا۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲/۴۹۵، معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: ۲/۳۰۳ ح: ۱۳۶۳، وسندہٗ حسنٌ)
æ سیدنا نعمان
بن بشیرw سے
روایت ہے:
[قُمْنَا مَعَ رَسُولِ
اللّٰہِﷺ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ لَیْلَۃَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِینَ إِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ
الْاَوَّلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَہُ لَیْلَۃَ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ،
ثُمَّ قُمْنَا مَعَہُ لَیْلَۃَ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ حَتّٰی ظَنَنَّا اَنْ لَا نُدْرِکَ
الْفَلَاحَ، وَکَانُوا یُسَمُّونَہُ السُّحُورَ۔]
’’ہم نے رمضان کی
تیئیسویں رات رسول اللہe کے
ساتھ تہائی رات تک قیام کیا، پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا، پھر ستائیسویں
رات کو اتنا لمبا قیام کیا حتیّٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم سحری کو نہ پا سکیں گے۔‘‘
(مسند الامام احمد: ۴/۲۷۲، سنن النسائی:
۱۶۰۷، وسندہٗ صحیحٌ)
امام حاکم نے (۱/۴۴۰) امام بخاریa کی
شرط پر ’’صحیح ‘‘ اور حافظ ذہبیa نے
’’حسن‘‘ کہاہے۔
ç عبد الرحمن
بن عبدالقاریa سے
روایت ہے:
[خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ
بْنِ الخَطَّابِ+، لَیْلَۃً فِی رَمَضَانَ إِلَی المَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ اَوْزَاعٌ
مُتَفَرِّقُونَ، یُصَلِّی الرَّجُلُ لِنَفْسِہِ، وَیُصَلِّی الرَّجُلُ فَیُصَلِّی بِصَلاَتِہِ
الرَّہْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّی اَرَی لَوْ جَمَعْتُ ہَوُلاَئِ عَلٰی قَارِیٍٔ وَاحِدٍ،
لَکَانَ اَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَہُمْ عَلٰی اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ
مَعَہُ لَیْلَۃً اُخْرَی، وَالنَّاسُ یُصَلُّونَ بِصَلاَۃِ قَارِئِہِمْ، قَالَ عُمَرُ:
نِعْمَ البِدْعَۃُ ہٰذِہِ، وَالَّتِی یَنَامُونَ عَنْہَا اَفْضَلُ مِنَ الَّتِی یَقُومُونَ
یُرِیدُ آخِرَ اللَّیْلِ وَکَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ اَوَّلَہُ۔]
’’میں سیدنا عمر
بن خطابt کے
ساتھ رمضان کی رات مسجد کی طرف نکلا، لوگ مختلف گروہوں میں منقسم تھے۔ کوئی آدمی اکیلا
اور کوئی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، سیدنا عمرt نے فرمایا:میرے خیال میں اگرمیں ان کو ایک قاری پر جمع
کردوں تویہ بہت اچھا ہو گا تو آپt نے ان کو سیدنا ابی بن کعبt پر
جمع کر دیا، پھر میں آپt کے
پیچھے دوسری رات کو نکلا، لوگ ایک قاری کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے‘ سیدنا عمرt نے
فرمایا:یہ کتنا اچھا طریقہ ہے،جس (آخری رات کے قیام) سے یہ سوتے ہیں ، وہ اس سے بہتر
ہے۔ لوگ اول رات قیام کیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری: ۲۰۱۰)
è سیدنا عمرو
بن مرہ جہنیt بیان
کرتے ہیں:
[جَائَ رَجُلٌ إِلَی
النَّبِیِّﷺ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاَیْتَ إِنْ شَہِدْتُ اَنْ لَّا إِلٰہَ
إِلَّا اللّٰہُ، وَاَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ، وَصَلَّیْتُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَاَدَّیْتُ
الزَّکَاۃَ، وَصُمْتُ رَمَضَانَ، وَقُمْتُہٗ، فَمِمَّنْ اَنَا؟، قَالَ: مِنَ الصِّدِّیقِیْنَ
وَالشُّہَدَائِ۔]
’’ایک آدمی نبی
کریمe کی
خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا: آپ کیا رائے رکھتے ہیں کہ اگر میں اس بات کی گواہی
دوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپe اللہ
تعالیٰ کے رسول ہیں، پانچ نمازیں ادا کروں، زکوٰۃ ادا کروں، رمضان کے روزے رکھوں اور
اس(کی راتوں) کا قیام کروں تو میرا شمار کن لوگوں میں ہو گا؟ آپe نے
فرمایا: صدیقین اور شہدا میں ‘‘ (صحیح ابن حبان: ۳۴۳۸، وسندہ صحیح)
No comments:
Post a Comment