نمازِ تراویح ... آٹھ رکعات کا اثبات
تحریر: جناب مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر
امن پوری
نماز ِ تراویح آٹھ رکعات ہی سنت ہے ، جیسا کہ دارالعلوم دیوبند
کے شیخ الحدیث جناب انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:
[وَلاَ مَنَاصَ مِنْ
تَسْلِیْمٍ اَنَّ تَرَاوِیْحَہٗ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ رَکْعَاتٍ وَلَمْ یَثْبُتْ فِیْ
رِوَایَۃٍ مِّنِ الرِّوَایَاتِ اَنَّہٗ صَلَّی التَّرِاوِیْحَ وَالتَّہَجُّدَ عَلٰی
حِدَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ۔]
’’یہ تسلیم کیے بغیر
کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریمeکی نماز ِتراویح آٹھ رکعت تھی۔ کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں
کہ آپeنے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں۔‘‘ (العرف الشذی
: ۱/۱۶۶)
جناب خلیل احمد سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں:
’’ابن ہمام (نے)آٹھ
کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے ، سو یہ قول طعن کے قابل نہیں۔‘‘ (براہین قاطعہ:
۱۸)
مزید لکھتے ہیں:
’’سنت موکدہ ہونا
تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے ، اگرا ختلاف ہے تو بارہ میں۔‘‘ (براہین قاطعہ: ۱۹۵)
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں:
’’بیماروں کو تو
کہہ دیتا ہوں کہ تراویح آٹھ پڑھو ، مگر تندرستوں کو نہیں کہتا۔‘‘ (الکلام الحسن: ۲/۸۹)
جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی لکھتے ہیں:
’’اگرچہ نبی کریم
eسے آٹھ تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابنِ عباس سے
بیس رکعت بھی ہے۔‘‘ (علم الفقہ: ۱۹۸)
یہی بات امام ِ احناف ابن ہمام حنفی(فتح القدیر :۴۶/۸۱)، علامہ عینی حنفی (عمدۃ القاری :۱۷/۷۷ا)، ابنِ نجیم حنفی(البحر
الرائق :۶/۶۲)، ابنِ عابدین شامی حنفی(رد المحتار :۱/ا۵۲)، ابوالحسن شرنبلانی حنفی (مراقی الفلاح: ۴۴۲)، طحطاوی حنفی (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار: ا/۲۹۵)وغیرہم نے پیش کی ہے۔
حنفی و دیوبندی علما و فقہا کے آٹھ رکعت مسنون تراویح کے فیصلے
کے بعد اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ رکعت نماز ِ تراویح کے سنت ہونے پر دلائل
ذکر کرتے ہیں :
1 ابو سلمہ بن
عبدالرحمنa نے
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہr سے
سوال کیا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہeکی رات کی نماز (تراویح)کی کیا کیفیت ہوتی تھی ؟ تو سیدہ عائشہ
صدیقہrنے فرمایا:
[مَا کَانَ رَسُولُ
اللّٰہِﷺ یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلاَ فِی غَیْرِہٖ عَلٰی إِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً۔]
’’رمضان ہو تا یا
غیر رمضان رسول اللہe گیارہ
رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری: ۱۱۴۷‘ ۲۰۱۳۔ صحیح مسلم: ۷۳۸)
جمہور علماء ام المومنین سیدہ عائشہ rکی حدیث سے آٹھ رکعت تراویح ثابت کرتے ہیں ، جیسا کہ علامہ
ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبیa لکھتے ہیں :
[ثُمَّ اُخْتُلِفَ
فِی الْمُخْتَارِ مِنْ عَدَدِ الْقِیَامِ۔۔۔۔۔ وَقَالَ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْعِلْمِ:
إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، اَخْذًا بِحَدِیْثِ عَائِشَۃَ الْمُتَقِدِّمِ۔] (المفہم
لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم: ۲/۳۸۹-۳۹۰)
’’پھر قیام کے عدد
ِ مختار میں اختلاف کیا گیا ہے ، کثیر علمائے کرام نے سیدہ عائشہrوالی مذکورہ حدیث سے دلیل لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گیارہ
رکعات ہیں۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں جناب انور شاہ کشمیری حنفی لکھتے ہیں :
[وَفِی الصِّحَاحِ
صَلاَۃُ تَرَاوِیْحِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلاَمُ ثَمَانِیْ رَکْعَاتٍ، وَفِی
السُّنَنِ الْکُبْرٰی وَغَیْرِہٖ بِسَنَدٍ ضَعِیْفٍ مِنْ جَانِبِ اَبِیْ شَیْبَۃَ فَإِنَّہٗ
ضَعِیْفٌ اِتِّفَاقاً عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً، وَاَمَّا عِشْرُوْنَ رَکْعَۃَ الآنَ إِنَّمَا
ہُوَ سُنَّۃُ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ، وَیَکُوْنُ مَرْفُوْعاً حُکْماً وَإِنْ
لَّمْ نَجِدْ إِسْنَادَہٗ قَوِیًّا۔]
’’یہ صحیح بخاری
وصحیح مسلم کی روایت ہے نیز صحیح احادیث سے نبی کریمeکی نماز ِ تراویح آٹھ رکعت ثابت ہے اور سنن کبریٰ وغیرہ میں
بیس رکعتوں والی روایت ضعیف سند کے ساتھ ابو شیبہ سے آئی ہے ،جو کہ بالاتفاق ضعیف
راوی ہے اور بیس رکعتیں خلفائے راشدین کی سنت ہے اور مرفوع کے حکم میں ہے ، اگرچہ اس
کی (بھی)قوی سند ہمیں نہیں ملی۔‘‘ (العرف الشذی: ۱/۱۰۱)
دیکھئے!شاہ صاحب کس طرح آٹھ رکعت تراویح نبی کریم eسے صحیح بخاری و
صحیح مسلم میں ثابت کر رہے ہیں اور ساتھ ہی حنفی مذہب کی کمزوری ومعذوری پیش کر رہے
ہیں کہ ہم بیس رکعت تراویح نبی کریمeاور خلفائے راشدین سے قوی سند کے ساتھ نہیں پا سکے ، آپ خود
اندازہ فرمائیں کہ ایک مسئلہ جو قوی سند کے ساتھ ثابت بھی نہ ہو ، پھر صحیح بخاری وصحیح
مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بھی ہو تو اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟
ہم کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین سے کسی وضعی (من گھڑت)روایت سے
بھی بیس رکعت نماز ِ تراویح پڑھنا ثابت نہیں، لہٰذا بیس رکعت تراویح کو خلفائے راشدین
کی سنت قرار دینا صریح غلطی ہے۔
جناب انورشاہ کشمیری دیوبندی کے علاوہ متعدد حنفی فقہا نے بھی
اس حدیث ِ عائشہrکوآٹھ رکعت تراویح کی دلیل بنایا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ نماز
ِ تراویح اور تہجد میں کوئی فرق نہیں، یہ ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں۔ (دیکھیں
فیض الباری: ۲/۴۲۰ وغیرہ)
2 سیدنا جابر
بن عبداللہ wبیان فرماتے ہیں:
[صَلَّی بِنَا رَسُولُ
اللّٰہِﷺ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ وَاَوْتَرَ۔] (مسند أبی یعلٰی: ۲/۳۲۶، المعجم الصغیر للطبرانی: ۱/۱۹۰، فتح
الباری لابن حجر: ۳/۱۲، وسندہٗ حسنٌ)
’’اللہ کے رسولeنے ہمیں ماہ ِ رمضان
میں آٹھ رکعت نماز ِ تراویح اور وتر پڑھائے۔‘‘
اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ جمہور محدثین کے نزدیک ’’موثق
، حسن الحدیث‘‘ ہیں۔اس حدیث کو امام ابن خزیمہa (۱۰۷۰)اور امام ابن حبانa (۲۴۰۹)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حافظ ذہبی aلکھتے ہیں:
[وَإِسْنَادُہٗ وَسَطٌ۔]
(میزان الاعتدال: ۳/۳۱۱)
’’اس کی سند اچھی
ہے۔‘‘
علامہ عینی حنفی (عمدۃ القاری:۷/۱۷۷) اور دیگر فقہا نے اس حدیث کو آٹھ رکعت نماز ِ تراویح پر دلیل بنایا ہے۔
3 سیدنا جابر
بن عبداللہ wسے روایت ہے کہ سیدنا ابی بن کعب t نے رسولِ کریمeکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسولe!آج رات مجھ سے
ایک کام سرزد ہوا ہے ، نبی کریم eنے دریافت فرمایا: اُبی
وہ کیا ؟ سیدنا ابی بن کعبtنے عرض کیا: میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا، ہم قرآنِ کریم
نہیں پڑھی ہوئیں ، اس لیے ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی:
[فَصَلَّیْتُ بِہِنَّ
ثَمَانَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ اَوْتَرْتُ، قَالَ: فَکَانَ شِبْہُ الرِّضَا وَلَمْ یَقُلْ
شَیْئًا۔] (مسند أبی یعلیٰ: ۲/۳۶۲، زوائد
مسند الامام احمد: ۵/۱۱۵، المعجم الاوسط للطبرانی: ۴/۱۴۱، قیام اللیل للمروزی: ۲۱۷،
وسندہٗ حسنٌ)
’’میں نے انہیں آٹھ
رکعت تراویح پڑھائیں ، پھر وتر پڑھائے، اس بات پر آپe نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور کچھ نہیں کہا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبانa (۲۵۵۰)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے ، حافظ ہیثمیa نے
اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ (مجمع الزوائد: ۲/۷۴)
4 صحابی رسول
سیدناسائب بن یزیدtبیان فرماتے ہیں:
[اَمَرَ عُمَرُ بْنُ
الْخَطَّابِ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِیمًا الدَّارِیَّ اَنْ یَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَی
عَشْرَۃَ رَکْعَۃً۔] (الموطأ للامام مالک: ۱۳۸، شرح معانی الآثار للطحاوی: ۱/۲۹۳،
السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲/۴۹۶، مشکاۃ المصابیح: ۱/۴۰۷، وسندہٗ صحیحٌ)
’’سیدنا عمر بن خطاب
tنے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داریw کو
حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نمازِ تراویح (مع وتر)پڑھایا کریں۔‘‘
سیدنا عمر بن خطاب tکا یہ حکم صحیح بخاری و صحیح مسلم والی حدیث ِ عائشہrکے موافق ہے، شہید
ِ محراب سیدنا عمر بن خطابt کا
حکم محمد رسول اللہeکے عمل کے عین مطابق ہے ، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمر فاروقtنے اپنے دور ِ خلافت
میں آٹھ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا نیز اس سے بیس رکعت تراویح کے قائلین
و عاملین کا رد ہوتا ہے اور ان کا بیس رکعتوں کے سنت ِ مؤکدہ ہونے کامفروضہ باطل ٹھہرتا
ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بیس رکعت نما زِ تراویح اس لیے پڑھتے
ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب tنے بیس رکعات پڑھی تھیں ، یہ بات سیدنا عمر tپر بہتان اور سراسر
جھوٹ ہے ، کسی وضعی (من گھڑت)روایت سے بھی سیدنا عمرt سے بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں۔
لہٰذا ثابت ہواکہ عہد ِ فاروقی میں آٹھ رکعت تراویح پر صحابہ
کرام کا اجماع تھا۔
5 سیدنا سائب
tبیان کرتے ہیں:
[اِنَّ عُمَرَ جَمَعَ
النَّاسَ عَلٰی اُبَیٍّ وَتَمِیمٍ فَکَانَا یُصَلِّیَانِ إِحْدَی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً۔]
(مصنف ابن أبی شیبۃ: ۲/۳۹۱-۳۹۲، تاریخ المدینۃ للامام عمر بن شبہ: ۲/۷۱۳، وسندہٗ صحیحٌ)
’’سیدنا عمر tنے لوگوں کو سیدنا
ابی بن کعبt اور
سیدنا تمیم داریtپر جمع کردیا ، وہ دونوں گیارہ رکعت نماز ِ تراویح پڑھاتے تھے۔‘‘
6 سیدنا سائب
بن یزید tبیان کرتے ہیں:
[کُنَّا نَقُوْمُ
فِیْ زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِإِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً۔] (سنن سعید بن
منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی للسیوطی: ۱/۳۴۹، حاشیۃ آثار السنن للنیموی: ۲۵۰، وسندہٗ
صحیحٌ)
’’ہم (صحابہ)سیدنا
عمر بن خطاب tکے زمانہ میں گیارہ رکعات (نماز ِ تراویح )پڑھتے تھے۔‘‘
علامہ سبکیa لکھتے
ہیں:
[إِسْنَادُہٗ فِیْ
غَایَۃِ الصِّحَۃِ۔]
’’اس کی سند انتہا
درجے کی صحیح ہے۔‘‘ (شرح المنہاج بحوالہ الحاوی للفتاویٰ: ۱/۳۵۰)
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز ِ تراویح رسولِ
کریمe کی
سنت ہے اور سیدنا عمر بن خطاب t نے
سیدنا ابی بن کعبt وسیدنا
تمیم داریtکو وتر سمیت گیارہ رکعت نمازِ تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا
اور انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل و تکمیل میں گیارہ رکعت نماز ِ تراویح پڑھائی اور
صحابہ کرام نے پڑھی۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
!
No comments:
Post a Comment