رمضان المبارک ... قبولیت کا مہینہ
تحریر: جناب ڈاکٹر رانا شفیق خاں
پسروری
اللہ عزوجل اکیلا ہی ہر قسم کی عبادت اور ہر طرح کی ریاضت کا
حقدار ہے۔ تمام اعلیٰ تعریفات، ساری حرکات و سکنات، طیبات وتحیات صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیے خاص اور مخصوص ہیں۔
وہی ہے جو ارض و سموات کی تمام مخلوقات و موجودات کو پیدا کرنے اور روزی دینے والا
ہے۔ وہی ہے جو اکیلا ساری کائنات کا انتظام و انصرام فرمانے والا ہے۔ ہر قسم کے تصرفات
اور ہر طرح کے اختیارات صرف اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ تمام نفع و نقصانات، عزتیں
اور ذلتیں اُس کی مرضی اور منشاء کے تابع ہیں۔ وہ مالک الاملاک، ملک الملوک، حاکموں
کا حاکم اور زبردستوں کا زبردست ہے کہ جس کو چاہے اقتدار عطا کر دے اور جس سے چاہے
اقتدار چھین لے۔ جس کو چاہے زمین سے اٹھائے اور تخت پر لا بٹھائے اور جس کو چاہے تخت
سے کھینچے اور تختے پر پھینک دے۔ ایسا طاقتور، ایسا قدرت والا کہ جس کو چاہے عزت سے
سرفراز کر دے اور جسے چاہے ذلت سے ہمکنار کر دے۔ ایسا کامل قدرت والا، ایسا مختار کل
کہ جس کو چاہے نفع دے اور جس کو چاہے نقصان پہنچائے اور اگر وہ کسی کو نفع دینے پہ
آ جائے تو ساری کائنات میں کوئی اُس نفع کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اگر وہ
کسی کو نقصان پہنچانے پہ آ جائے تو ساری دنیا مل کر بھی چاہے تو اُس نقصان کو پہنچنے
سے روک نہیں سکتی۔
زندگی دینے والا، زندگی لینے والا، پیدا کرنے والا، مارنے والا،
بیمار کرنے والا، بیماروں کو شفا عطا کرنے والا، رزق عطانے والا، رزق اور کاروبار میں
برکت عطانے والا، دکھوں اور مصیبتوں سے نجات دینے والا، خوف سے امن دینے والا، صرف
ایک وہی ہے اور کوئی بھی نہیں، اس لیے تمام التجائیں، ساری حاجات و مناجات صرف ایک
اس کے سامنے رکھنی چاہئیں اور کسی کے نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے بیان کے بعد ان گنت درودوسلام، تحیات
و تسلیمات، سید الرُسل، سید البشر، سیدِ ولد آدم، محسن انسانیت، امام الانبیاء، احمد
مجتبیٰ جناب محمد مصطفیe کی
ذاتِ مبارکہ پر کہ جن کی ہر بات، ہر فعل ہمارے لیے قابل حجت، واجب تعمیل اور سب سے
بڑھ کر باعث نجات ہے۔
اللہ کی طرف سے اَن گنت درود و سلام اور رحمت و برکات کا نزول
ہو آمنہ کے لال، مکہ کے درِ یتیم، مدینہ کے تاجدار، ہادیٔ عالم، محسن اعظم، فخر آدمe کی
ذات مبارکہ پر کہ جنہوں نے ہمیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھلایا۔
جنہوں نے تہذیب و تمدن کو نکھار بخشا اور جنہوں نے دُنیا و آخرت
میں کامیابی و کامرانی کی راہیں دکھلائی ہیں۔ جنہوں نے ہمیں وہ تعلیمات عطا کی ہیں
جن پر عمل کر کے ہم صحیح معنوں میں مسجود ملائکہ ٹھہرے ہیں۔
ماہِ رمضان اللہ کے فیضان کا مہینہ، اُس کی بخششوں اور اُس کی
عنایات کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ اُس کی رضا، اُس کی رحمت و برکات اور اُس کے انعام و
اکرامات کا خزینہ ہے۔ ایسے لمحات لیے جو مستجاب الدعوات ہیں، دعائوں کی قبولیت کے لمحات
لیے ہوئے، اِس مہینے میں جس طور پر اللہ کی رحمت موجزن ہوتی ہے وہ اس مہینے کے علاوہ
اور دنوں میں نہیں۔ یہ لمحات اللہ کے انعام و اکرام کے خزینے کے لمحات ہیں، یہ روز
و شب اس پرُسعادت مہینے کے لمحات اور گھڑیاں ہیں۔ اس مہینے میں جو لطافتیں، جو عنایتیں
اور جو سعادتیں انسان کو حاصل ہوتی ہیں وہ انسان کو اللہ کے بہت قریب کر جاتی ہیں اور
یہ دن حقیقتاً اُن سعادتوں اور اُن لطافتوں کی عطا کے دن ہیں۔
ایک تو اِس وجہ سے کہ بندے اپنے رب کو روزے رکھ کر، رمضان کے
احکامات پر عمل کر کے، رمضان کے تقاضوں کو پورا کر کے، بڑے نکھر چکے ہوتے ہیں، کندن
بن چکے ہوتے ہیں یا کندن بننے کے قریب ہو چکے ہوتے ہیں۔ دوسرا اِس وجہ سے کہ اِن آخری
دنوں میں اللہ کی عنایات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اور اِس وجہ سے بھی کہ ان دنوں کو اللہ
رب العزت نے گیارہ ماہ کے مقابل اپنی عنایت کے لیے چن لیا۔ ویسے بھی آپ نے دیکھا ہو
گا کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو بانٹ رہا ہو، بانٹتے بانٹتے جب آخر میں پہنچے تو بجائے
اِس کے کہ تھوڑا تھوڑا دے کر جھولی کو انڈیل دیتا ہے، اِسی طرح اللہ رب العزت ان دنوں
میں اپنی جھولی کو انڈیل دیتے ہیں، اتنا زیادہ عطا کرتے ہیں کہ جس کا شمار کیا ہی نہیں
جا سکتا۔ آخری عشرے کے ان دس دنوں میں بہت زیادہ عطاتے ہیں، آخری عشرے کی راتوں میں
بہت زیادہ نوازتے ہیں، نہال کرتے چلے جاتے ہیں، اُس اللہ سے اپنی دنیا و آخرت کی بہتری
کے لیے مانگتے رہنا چاہیے۔ ماہِ رمضان کے احکامات اللہ رب العزت نے سورۂ بقرہ میں
بیان فرمائے ہیں۔
احکامات بیان کرتے کرتے اور روزوں کے مسائل بیان کرتے کرتے درمیان
میں ایک آیت رکھ دی، اُس آیت سے پہلے بھی رمضان کے احکامات اور اُس آیت کے بعد بھی
رمضان کے احکامات اور وہ آیت رمضان کے احکامات کے درمیان اِس طرح ہے جس طرح انگوٹھی
میں نگینہ سجا ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
{وَإِذَا سَأَلَکَ
عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
} (البقرۃ: ۱۸۶)
لوگو! یاد رکھو، اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ جب بھی میرا
کوئی بندہ مجھ سے سوال کرتا ہے، فانی قریب تو میں اُس کے بہت زیادہ قریب ہوتا ہوں۔
اجیب دعوۃ الداع اذا دعان جب بھی کوئی دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کر لیتا
ہوں۔ اس آیت میں اللہ رب العزت نے کوئی تخصیص نہیں کی کہ بندہ کب دعا کرے تو اللہ
قبول کرتا ہے، کب نہ کرے تو قبول نہیں کرتا۔ نہ ہی یہ کہا گیا کہ کس وقت اللہ سوال
کرنے والے کے قریب ہوتا ہے اور کس وقت قریب نہیں ہوتا۔ بلکہ مطلقاً ارشاد فرمایا کہ
جب میرا بندہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کے بہت قریب ہوتا ہوں، جب بھی کوئی دعا کرتا
ہے تو میں اُس کی دعا کو قبول کرتا ہوں۔
رمضان کے احکامات میں اس کو بیان کر کے اللہ رب العزت نے ماہِ
رمضان میں دعائوں کی قبولیت کے بارے میں ہر قسم کے تردد کو ختم کر دیا کہ یہ مہینہ
ہے ہی مستجاب الدعوات اور یہ دن تو بالاولیٰ قبولیت کے دن ہیں، بالاولیٰ مستجاب الدعوات
ہیں۔ ایسے دن، ایسی راتیں جن میں مانگی ہوئی دعائیں اللہ بہت قبول کرتے ہیں۔ فرمایا:
’’قریب‘‘ میں قریب
ہوں اور قربت کے دو معنی ہوتے ہیں۔ ایک معنیٰ ہوتا ہے: وجوداً قریب، کسی بندے کے ساتھ
جڑ کے بیٹھے ہوئے شخص کو کہا جاتا ہے کہ یہ قریب ہے کہ اُس کی بات آرام سے سن سکتا
ہے۔ بڑے غور سے اُس کا مشاہدہ کر سکتا ہے، بڑے غور سے اُس کو دیکھ سکتا ہے، اس کے چہرے
کے تغیرات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اُس کے جسم کے اعضاء اور ارکان کی حرکت کو بخوبی دیکھ
سکتا ہے، اُس کے پل پل کے بدلتے رنگ کو دیکھ سکتا ہے۔ دوسری قربت، دِل کی قربت، احترام
کی قربت، عزت کی قربت، پیار اور لاڈ کی قربت ہوتی ہے، اللہ رب العزت وجود کے ساتھ تو،
’’الرحمن علی العرش استوٰی‘‘ عرش پر مستوی ہیں لیکن بندے کو جتنا رب جانتا ہے اتنا
بندہ خود اپنے آپ کو نہیں جانتا، کوئی دوسرا تو کیا جانے جتنا رب اپنے بندے کو جانتا
ہے، اتنا بندہ خود اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ ارشاد فرمایا: نحن اقرب الیہ من حبل الورید
ہم کسی انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہوتے ہیں۔ شہ رگ سے زیادہ قربت کا
کیا مطلب ہے، شہ رگ کسی انسان کے کتنے قریب ہوتی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے چاہیے کہ
جو لباس میں نے پہنا ہے یہ لباس میرے اتنے قریب کہ میرے وجود پر ہے، یہ ٹوپی جو میں
نے پہنی ہے، یہ چشمہ جو میں نے لگا رکھا ہے، یہ میرے قریب ہے، یہ اشیاء میرے زیادہ
قریب ہیں، لیکن یہ قربت کسی لمحے میں دوری میں بدل سکتی ہے۔ یہ لباس میں الگ کر سکتا
ہوں، یہ چشمہ، یہ ٹوپی میں اتار سکتا ہوں، کہیں رکھ سکتا ہوں، کہیں بھول سکتا ہوں،
یہ قربت دوری میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ذرا غور فرمائیں! شہ رگ انسان کے کتنے قریب ہے کہ انسان کے وجود
کے اندر داخل ہے، وجود کا حصہ ہے اور اس طرح وجود کا حصہ ہے کہ اگر شہ رگ کٹ جائے تو
انسان کی زندگی کا رشتہ کٹ جاتا ہے، زندگی منقطع ہو جاتی ہے۔ بتلائیے! اس شہ رگ سے
زیادہ قربت کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ رب العزت نے کہا ہے کہ اقرب بہت ہی زیادہ قریب! اب
شہ رگ سے بہت زیادہ قریب، ایسا قریب کہ ہمارے اندرون کو جاننے والا ہے۔ ہمارے دل کی
حرکتوں کو، دل کے تحرک کو اور دل کی دھڑکنوں کو جاننے والا، کتنی ایسی خواہشیں جو زباں
تک نہیں آ پاتیں رب اُن کو بھی جانتا ہے۔ کتنی ایسی آرزوئیں جو لفظ بن کر لبوں پر
نہیں مچلتیں، رب اُن کو بھی جانتا ہے بلکہ اس کائنات کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال
پہلے ہی اُس نے لکھ دیا کہ کس کی کیا خواہش ہے، کون کیا کرے گا؟؟؟
بتلائیے! اس سے زیادہ انسان کا جاننے والا اور کون ہو سکتا ہے،
اُسے ہی یہ معلوم ہے کہ کیا انسان کے لیے بہتر ہے۔ کیا انسان کے لیے بہتر نہیں ہے،
تو فرمایا:
’’انی قریب‘‘ جو
سوال کرتا ہے میں اس کے قریب ہوتا ہوں، رب سے بڑھ کر انسان کے قریب اور کون ہو سکتا
ہے اور دوسرا تقرب لاڈ کا اور پیار کا، باقی ساری کائنات کو لفظ کن سے پیدا کیا۔ ارض
و سموات کی ساری مخلوقات و موجودات کو لفظ کن کے ساتھ پیدا کیا، ’’کُن فیکون‘‘ اُس
نے کُن کہا اور وہ ہو گئی، فرمایا ہو جا، وہ ہو گئی۔ ساری مخلوقات و موجودات لفظ کُن
سے پیدا کی لیکن حضرت انسان کی باری آئی تو اللہ رب العزت نے اسے اپنے ہاتھ سے تخلیق
بخشی، صرف دستِ قدرت سے بنایا ہی نہیں بلکہ ارشاد فرمایا: ’’ونفخت فیہ من روحی‘‘ فرمایا
کہ بنانے کے بعد پھر میں نے اِس میں اپنی روح کو پھونک دیا، اپنے ہاتھ سے بنایا اور
اپنی روح کو پھونکا اور پھر ملائکہ جیسی عظیم مخلوق کہ جس کے بارے میں گناہ کا تصور
بھی نہیں کیا جا سکتا، اُس کو حکم دیا کہ انسان کی عظمت کے سامنے سربسجود ہو جائے۔
اتنا پیارا، اتنا لاڈلا انسان اگر رب اپنے ان بندوں کی، حضرت
انسان کی نہیں سنتا یا نہیں جانتا تو اور کون جانتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں
تو گناہ گار ہوں، بزرگوں کے حوالے سے وسیلہ پا کر اور وسیلہ بھی اُن کا جو دنیا سے
جا چکے ہیں، دیکھئے! بات کسی اور طرف نکل جائے گی، لیکن بات کو سمجھنے کے لیے کہ جو
اتنا قریب ہو کہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو اُس کو سنانے کے لیے اُن کو وسیلہ بنایا
جاتا ہے جو بہت دور ہوتے ہیں۔
کسی کی بادشاہ کے ساتھ ڈائریکٹ ملاقات ہو تو اُس کو کیا پڑی
ہے کہ بادشاہ تک سنانے کے لیے کسی اور کو ڈھونڈتا پھرے، لوگ تو اسے کہیں گے کہ یہ احمق
ہے، اس کے براہ راست تعلقات ہیں اور دنیا کے یہ بادشاہ، دنیا کے یہ حکمران دور ہوتے
ہیں، اُن تک پہنچنے کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے، اجازت طلب کرنا پڑتی ہے، اُن کے دربار
پر جا کر کئی کئی گھنٹے، کئی کئی دن کھڑا رہنا پڑتا ہے لیکن وہ ایسا بادشاہ ہے کہ جو
انسان کے اندر تک کو جانتا ہے، فرمایا: نحن اقرب الیہ من حبل الورید جو شہ رگ سے بھی
زیادہ قریب ہے اور اُس کے لیے وسیلہ اُن کو ڈھونڈتے ہیں جو قبروں میں جا پڑے ہیں، نگاہوں
سے بھی دور ہیں اور جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے رسول اللہe کو
فرمایا کہ: ’’انک لا تسمع الموتٰی‘‘ کہ آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور واضح کرتے
ہوئے فرمایا: ’’ما انت بمسمع من فی القبور‘‘ پیارے، جو قبروں میں چلے گئے تو اُن کو
نہیں سنا سکتا، جن تک ہماری بات نہیں پہنچتی وہ آگے کس طرح پہنچائیں گے، فرمایا:
’’اذا سالک عبادی عنی فانی قریب‘‘ جب بھی کوئی مجھ سے سوال کرتا ہے میں اس کے بہت قریب
ہو جاتا ہوں۔ ’’اجیب دعوۃ الداع اذا دعان‘‘ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ہر دعا کرنے
والے کی دعا کو میں قبول کرتا ہوں، یہ دن دعائوں کی قبولیت کے دن ہیں، اور دعا کیا
چیز ہے؟ فرمایا: الدعاء مخ العبادۃ لوگو! جو عبادت ہے اُس کا مغز دعا ہے، دعا نہیں
تو عبادت کیا ہے۔
ایک حدیث میں فرمایا کہ: الدعاء اصل العبادۃ دعا اصل عبادت ہے۔
مانگنا اصل عبادت ہے، پھر ایک اور حدیث میں واضح طور پر فرمایا: الدعاء ھو العبادۃ
دعا ہی عبادت ہے اور عبادت سوائے رب کے کسی اور کی جائز نہیں۔
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ کا مطلب کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود
نہیں اور معبود وہ ہوتا ہے جس کی عبادت کی جائے، جب اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے ہی
نہیں تو کسی اور کی عبادت ہو ہی نہیں سکتی۔
’’ولا یشرک بعبادۃ ربہٖ احدا‘‘ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں بنانا، مانگنا ہی عبادت
ہے۔ پکارنا ہی عبادت ہے، سوائے رب کے کسی اور کی عبادت جائز نہیں، سوائے رب کے کسی
اور سے مانگنا جائز نہیں۔ حدیث کے الفاظ ہیں: ’’الدعاء سلاح المومن وعماد الدین‘‘ لوگو! یاد رکھو، دعا جو ہے یہ دین کا ستون ہے۔ مومن کا اسلحہ
ہے، اسلحہ حفاظت کے لیے ہوتا ہے، اسلحہ دشمن کے مقابلے کے لیے ہوتا ہے، ساری وہ اشیاء،
وہ بلائیں، وہ مصیبتیں، وہ کُلفتیں، وہ دکھ، وہ درد، وہ آزمائشیں، وہ امتحان جو بندے
کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، بندے کے دشمن ہیں، ان سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو صرف
دعا ہے۔
الدعاء نور السموٰت والارض دنیا و آخرت میں، زمین و آسمان
میں جو اندھیارے ہیں، جو تیرگیاں ہیں، جو بدبختیاں ہیں، اُن میں روشنی کا مینارہ ہے
تو وہ دعا ہے۔ رسول اللہe نے
فرمایا: لا یرد القضاء الا الدعاء لوگو! اللہ نے جو قسمت لکھ دی ہے اِس میں اگر کسی
چیز سے تبدیلی ہو سکتی ہے تو وہ دعا ہے۔ دعا ہی ہے جو انسان کی قسمت میں لکھی ہوئی
برائیوں کو دور کر دیتی ہے۔ انسان کی قسمت میں لکھے ہوئے دکھ، درد کو ٹال دیتی ہے۔
دعا ہے جو انسان کی قسمت میں لکھی گئی مصیبتوں اور کلفتوں کو ہٹا دیتی ہے۔
فرمایا: لا یرد القضاء الا الدعاء ’’قسمت کے اندر اگر کوئی چیز
ترمیم کر سکتی ہے تو وہ دعا ہے۔‘‘ فرمایا: ان الدعاء ینفع مما نزل ومما لم ینزل ’’یاد
رکھو! آسمان سے جو مصیبتیں اتری ہیں یا جو ابھی نہیں اتریں اور اترنے والی ہیں، دعا
اُن مصیبتوں سے بچا لیتی ہے۔‘‘
’’فعلیکم عباداللہ بالدعاء‘‘ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے بندو! دعا کو اپنے لیے
خاص کر لو، اپنے لیے لازم کر لو۔ دعا انسان کی دنیا و آخرت کو بہتر کرنے کا بہترین
ذریعہ ہے اور یہ دن قبولیت کے دن ہیں، یہ دن اللہ کی عنایات کے دن ہیں، ان دنوں میں
مانگی گئی دعائیں رب ضرور قبول فرماتے ہیں۔ رسول اللہe نے فرمایا: ان دنوں میںاللہ کی طرف سے خاص طور پر فرشتوں
کو مقرر کیا جاتا ہے جو ہر دم منادی کرتے ہیں، ندا کرتے ہیں، جو لوگوں کو پکارتے ہیں،
جو کہتے ہیں: کوئی رب سے مانگنے والا، آئے اپنے رب سے مانگے، رب اُس کو عطا کرتا چلا
جائے گا۔ کوئی رزق کا طلبگار آئے، اپنے رب کے حضور رزق طلب کرے، اللہ اسے رزق عطا
کر دیں گے۔ کوئی رزق میں برکات کا خواہش مند ہے، آئے اپنے رب کے حضور، اللہ اس کے
رزق میں برکت فرما دیں گے۔ آئو جو مانگنا ہے مانگو، رب تمہاری مانگوں کو پورا کر دے
گا۔ فرشتے دوہائی دیتے ہیں، کوئی توبہ کا خواہش مند ہے، توبہ کا خواستگار آئے، رب
اُس کی توبہ کو قبول کر لیں گے۔ کوئی بخشش کا چاہنے والا ہے، آئے رب سے بخشش طلب کرے،
رب اُسے بخش دے گا۔
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: لوگو یاد رکھو! ’’روزہ دار کی ہر مانگی ہوئی دعا رب قبول کر لیتے ہیں۔‘‘
روزہ دار جو دعا مانگتا ہے اُس کو رد کیا ہی نہیں جاتا، اللہ اُس کے اٹھے ہوئے ہاتھوں
کی لاج رکھ لیتے ہیں۔
حدیث پاک میں ہے، رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ جو ہمیشہ کے لیے قائم و دائم
ہے، جو زندہ و جاوید ہے، وہ اپنے بندے سے شرم محسوس کرتے ہیں کہ جب وہ ہاتھ اٹھائے
تو اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔‘‘ اللہ اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھتے ہیں۔ وہ اس
طرح دینے والا ہے احادیث میں ہے کہ سل اللہ من فضلہٖ وان اللہ یحب ان یسئلہ ’’اپنے رب سے اُس کا فضل مانگتے رہا کرو۔‘‘ اس لیے
کہ اللہ پسند کرتے ہیں کہ اُس سے سوال کیا جائے، اللہ کو اس بندے سے بہت زیادہ پیار
ہو جاتا ہے جو رب سے مانگتا رہتا ہے۔
احادیث میں ہے‘ فرمایا کہ اگر اللہ سے نہ مانگا جائے تو اللہ
ناراض ہو جاتا ہے اور جو رب سے مانگتا ہے اللہ اسے اپنا بنا لیتا ہے۔ فرمایا: واللہ
یغضب ان ترکت سوالہ وبنی اٰدم حین یسئل یغضب
او لوگو! بندوں کا یہ وطیرہ ہے، بندوں کی یہ عادت ہے کہ اُن
سے مانگا جائے تو ان کی پیشانیوں پر بل پڑ جاتے ہیں، اُن کے چہروں کے رنگ متغیر ہو
جاتے ہیں، اُن کے چہروں کے تیور بدل جاتے ہیں اور اللہ وہ ہے کہ جس سے نہ مانگا جائے
تو وہ ناراض ہو جاتا ہے بلکہ قرآن پاک کی آیت ہے، الفاظ پر غور فرمائیں، اللہ رب
العزت کیا ارشاد فرماتے ہیں: قال ربکم ادعونی استجب لکم فرمایا: تمہارا پیدا کرنے والا
اور تمہارا پالنے والا کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو، میں تمہاری مانگوں کو پورا کروں گا۔
مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعائوں کا قبول کرنے والا ہوں، اور آگے کیا فرمایا:
{إِنَّ الَّذِیْنَ
یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ} (غافر)
اور فرمایا: وہ لوگ جو مجھ سے نہیں مانگتے، غرور میں مبتلا ہیں،
تکبر میں مبتلا ہیں گویا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں رب کے فضل کی حاجت ہی نہیں ہے۔
ایسے نہ مانگنے والوں کو ذلیل کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ ذرا اُس کے غصے کی شدت
کا عالم دیکھیں‘ اس نے کہا جو مجھ سے نہیں مانگتا گویا وہ غرور و تکبر کے اندر مبتلا
ہے۔ ایسے نہ مانگنے والوں کو ذلیل کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ اسے اپنے رب کی حاجت
ہی نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو رب کے حضور ہاتھ اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر
آج آسائشیں ہیں تو کیا ہوا ع
نہ جا اُس کے تحمل پہ کہ بے ڈھب ہے گرفت اُس کی
اُس کی پکڑ بڑی سخت ہے، ہر دم اللہ کے فضل کا سوال کیا جانا
چاہیے، اللہ کے حضور دستِ دعا بلند کرتے رہنا چاہیے، فرمایا ’’اگر اللہ سے نہ مانگا
جائے تو اللہ ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘ سل اللہ من فضلہٖ وان اللہ یحب ان یسلہ‘‘ اللہ اُس
بندے کو پسند کرتے ہیں جو اس سے مانگتا ہے، اُس سے نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا
ہے۔ ایسا دینے والا اور کون ہے، ایسا عطانے والا، ایسا نوازنے والا کائنات کے اندر
کون ہے؟ سوائے اُس کے اور کوئی بھی نہیں ہے۔
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: اُس سے زیادہ سے زیادہ مانگتے رہو، مانگنا ہی تو عبادت ہے۔ بلکہ جو اُس
سے نہیں مانگتے، اُس سے بیگانہ ہو گئے ہیں، اُن کے بارے میں ارشاد فرمایا:
٭ لھم قلوب لا یفقھون
بھا انکے دل ہیں لیکن
سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں۔
٭ ولھم اعین لا یبصرون
بھا انکی آنکھیں تو
ہیں لیکن اندھے ہو چکے ہیں۔
٭ ولھم اٰذان لا یسمعون
بھا ان کے کان تو ہیں
لیکن اُن میں کوئی بات پہنچتی ہی نہیں، اُنہیں کوئی خبر نہیں کہ اصل معاملات کیا ہیں
اور اُن کو اپنے رب سے مانگنا چاہیے یا نہیں مانگنا چاہیے۔
٭ اولٰئک کالانعام
بل ھم اضل وہ کہنے کو تو
انسان ہیں لیکن حیوانوں کی طرح ہیں۔
٭ بل ھم اضل بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر ہیں‘ حیوان تو پھر بھی اپنے رب کی
اپنے طریق کے مطابق عبادت کرتے ہیں یہ تو اُن سے بھی بدتر ہیں جو اپنے خالق کو بھول
چکے ہیں۔ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا:
[ادعوا اللہ وانتم
موقنون بالاجابۃ واعلموا ان اللہ لا یستجیب دعاء من قلب غافل لاہ]
’’جب بھی اپنے رب
سے مانگو یقین کے ساتھ مانگو، اس یقین کے ساتھ مانگو کہ ادھر تم مانگو گے ادھر تمہارا
رب تمہیں عطا کر دے گا۔جو شخص بے دلی کے ساتھ مانگے رب اُس کی دعا قبول نہیں کرتے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’دعائوں میں عجلت نہ کیا کرو۔ جلد بازی
کیا ہے؟ بے دلی کیا ہے؟ جس کے ساتھ دعا مانگنے سے منع کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی
دعا مانگتا ہے لیکن اس ہیچ میچ کے ساتھ کہ پتہ نہیں رب قبول بھی کرے گا کہ نہیں کرے
گا یا تھوڑی سی دعا مانگی۔ اس نے کہا کہ رب تو دعا قبول ہی نہیں کرتا مانگنے کا کیا
فائدہ ہے۔ اللہ کے رسولe نے
ارشاد فرمایا کہ جو اس دل کے ساتھ دعا مانگے رب اُس کی دعا مانتا ہی نہیں ہے، اس لیے
کہ یہ تو اُس کی شان میں گستاخی ہے ناکہ تم سمجھو کہ رب قبول ہی نہیں کرتا، وہ تو کہتا
ہے کہ مجھ سے مانگو میں دیتا ہوں، جو اُس سے نہ مانگے وہ اُس سے ناراض ہوتا ہے وہ تو
دیتا ہے۔
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’اگر ساری کائنات اپنی خواہشوں کے مطابق اُس سے مانگے، ساری کائنات
کے رہنے والے اپنی آرزوئوں کے مطابق اُس سے مانگیں، وہ سب کی آرزوئوں کے مطابق اُن
کو دے دے بلکہ اُن کی خواہشوں سے بڑھ کر اُن کو دے دے تو ساری کائنات کو عطانے اور
نوازنے کے باوجود اُس کے خزانے میں اتنی بھی کمی واقع نہیں ہوتی جتنی بھرے ہوئے سمندر
میں سوئی ڈبو کر نکال لی جائے تو پانی میں کمی واقع نہیں ہوتی۔‘‘
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا کہ رب کے ہاں دعائوں کی قبولیت کا معاملہ تین طرح ہوتا ہے، یعنی دعا کی
قبولیت کے الگ الگ انداز ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جیسے ہی بندے نے رب سے مانگا رب نے اُسی
طرح دے دیا، اُس وقت دے دیا اور دوسرا قبولیت کا انداز یہ ہے کہ ہاں دیر ہے اندھیر
نہیں، تھوڑی دیر کے بعد دیتا ہے اور تیسرا یہ کہ اللہ علام الغیوب ہے، کاشف الصدور،
انسان کے حالات کو انسان سے بہتر جاننے والا کہ کیا بندے کے لیے فائدہ مند ہے اور کون
سی چیز نقصان دہ، چنانچہ قبولیت کا چوتھا انداز یہ ہے کہ اللہ دعا کو اِس طرح قبول
کرتے ہیں کہ اس کے اوپر آنے والی مصیبتوں کو دور کر دیا جاتا ہے اور اس کے درجات بلند
کر دئیے جاتے ہیں۔
حضرات! اسی طرح قبولیت کے لیے کچھ خاص شرائط بھی ہیں۔ حدیث پاک
میں ہے: رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتا ہے اور کہتا ہے اے
میرے رب! اے میرے رب! یعنی ہاتھوں کو اٹھا کر دعا مانگتا ہے۔
[وطعمہ حرام ومشربہ
حرام وملبسہ حرام وغزی بالحرام فانی یستجاب لھذا۔]
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا کہ آدمی اپنے ہاتھوں کو اٹھاتا تو ہے لیکن اس کا کھانا بھی حرام، اس کا
پینا بھی حرام، اس کا پہننا بھی حرام اور اس کی ساری زندگی حرام کی، بتلائیے! ایسے
آدمی کی دعا کی قبولیت کس طرح ہو؟
دعائوں کی قبولیت کے لیے خاص کر جبکہ وہ آدمی خطاکار ہے، گناہ
گار ہے تو پہلے اپنے رب کے حضور توبہ کر لے اور جو شخص رب سے توبہ کرتا ہے، رب نہ صرف
اس کے گناہوں کو بخش دیتے ہیں بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں بھی بدل دیتے ہیں، اور گناہوں
کو بخشوانے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے، جب بھی انسان کو احساس ہو کہ وہ اللہ کا مجرم
ہے ویسے ہی اللہ کے حضور جھک جائے تو اللہ اس کی دعا کو قبول کر لیتے ہیں۔
حدیث قدسی ہے، رسول اللہe نے ارشاد فرمایا: اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ
جب کوئی گناہ گار بندہ اپنے سارے گناہ لے کر میرے حضور آ جائے اور گناہ کتنے، چند
سو، چند ہزار، چند لاکھ نہیں، بلکہ اتنے کہ ساری زمین اس کے گناہوں سے بھری ہو اور
اس کے گناہوں کا ڈھیر آسمان کو چھو رہا ہو، کوئی اتنے گناہ بھی لے کر آ جائے اور
ندامت کا اظہار کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی عزت و جلال اور بلند شان کی قسم کھا کر فرماتے
ہیں: میں اس کے سارے گناہوں کو بخش دیتا ہوں، اس گناہ گار کو بالکل معاف کر دیتا ہوں۔
موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے
وہ قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
آئیے! ان مبارک لمحات اور مستجاب الدعوات دنوں میں اپنے رب
سے بہت زیادہ مانگیں۔ اپنے لیے، اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب، دوست و احباب کے لیے
اور سب سے زیادہ اپنے وطن، اپنی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے، اللہ ہم سب پر
اپنی رحمتوں اور برکات کا نزول فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment