ابوالاشبال مولانا شاغف البہاری رحمہ اللہ
تحریر: جناب صاحبزادہ برق التوحیدی
راقم الحروف کو
جب بھی حج یا عمرہ کی سعادت نصیب ہوتی تو اس موقعہ پر جن اصحاب علم و فضل سے شرف زیارت
حاصل ہوتا ان میں ہمارے ممدو ح مکرم جناب حضرت مولانا ابو الا شبال البہاری المکی سر
فہرست ہوتے۔ اس دفعہ بھی عمرہ کی سعادت ہوئی لیکن افسوس مصروفیت اور خرابی صحت کی بنا
پر موصوف ممدوح کی زیارت کا شوق دل میں لیے ہی واپس آگیا۔ جب یہاں پہنچا تو بعض مسلکی
جرائد میں ان کی وفات کی اطلاع پا کر از حد قلبی دکھ ہوا کہ ہم علم و فضل اور تحقیق
و تد قیق نیز فکر و نظر کی ثقاہت اور وسعت معلومات میں نمونہ سلف سے محروم ہو گئے ہیں
۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
گزشتہ سے پیو ستہ سال ان سے ملا قات ہوئی تو بہت زیادہ نقاہت
کا شکار تھے مگر اس پیرانہ حال‘ مختلف خانگی مسائل اور متعدد امراض کا شکار ہونے کے
باوجود نہ صرف یہ کہ ان کے حواس خمسہ بحمد اللہ جواں تھے بلکہ وہ مہمان نوازی شگفتہ
مزاجی اور ظرافت طبع جیسی اخلاقی صفات عالیہ کے ساتھ محفل کو کشت ِ زعفران بنا رہے
تھے اور ہم جیسے طلبہ کے لیے اپنے حا صل مطالعہ کے موتی بکھیر رہے تھے ۔ سعودیہ میں
قیام کے دوران ان سے کئی مرتبہ ملا قات کی سعادت ملی اور چند مرتبہ فضیلۃ الا ستاذ
الشیخ المحقق ارشاد الحق اثریd کے
ساتھ بھی ان کے در ِ دولت پر حاضری کا موقع ملا اور مجمع البحرین کے کنارے بیٹھ کر
گلدستہ معلومات متنوعہ سے معطر ہونے کا شرف بھی ملا۔
راقم الحروف نے ایک مرتبہ ان سے خصوصی ملا قات کی اور ان کی
زبان سے ان کے احوال زندگی سن کر بصورت نوٹس لکھے بھی لیکن صد افسوس کہ آج ہم جب ان
کو مرحوم لکھ رہے ہیں تو اس کے علاوہ ان کے متعلق کچھ لکھنے کو دستیاب نہیں کہ وہ اوراق
فی الوقت خرد برد کی نظر ہیں۔ تاہم ۱۳ ذوالحج ۱۴۲۸ھ بمطابق ۲۲ دسمبر ۲۰۰۷ء بروز ہفتہ
نماز ِ ظہر کے بعد ان کے دولت کدہ پر ملا قات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا میں ۱۹۴۲ء کو
(ہند کے مردم خیز صوبہ) بہار کے ضلع چمپارن میں پیدا ہوا۔ والد محترم و مرحوم کا نام
خداداد تھا جن کی دو بیو یا ں تھیں مگر میں زندہ بچ رہنے والی اکلوتی اولاد ہوں ۔ والدین
نے نام صغیر احمد رکھا اور عجیب اتفاق ہے کہ آپ جسمانی طور پر ضعیف و نحیف ہی تھے
، البتہ صغیر الجسہ ہونے کے باوصف علم و فضل میں بسطۃ فی العلم تھے کہ آپ اپنے لقب
’’ شا غف ‘‘ کا مظہر مجسم تھے ، جبکہ بیٹے کے نام پر ابو الا شبال کنیت سے معروف ہوئے
۔ مرحوم موصوف نے حسب ِ ماحول دنیاوی تعلیم ابتدائی سطح تک ہی حاصل کی جبکہ دینی تعلیم
علاقائی مدرسہ اسلامیہ میں پانے کے بعد دہلی کے مدرسہ سبل السلام پھا ٹک حبش خاں گئے
پھر بنارس کے جامعہ رحمانیہ کا رُخ کیا‘ وہاں سے کلکتہ کی طرف رخت ِ سفر باندھا، موصوف
نے طب کو باقاعدگی سے پڑھا خصوصاً ہو میو پیتھی میں مہارت حاصل کی لیکن اس کو بطور
ِ پیشہ اختیار نہیں کیا کہ ایسا کرنے سے علمی مشاغل متاثر ہوتے تھے۔
موصوف نے بتایا کہ جب کبھی میں دینی علوم کے طلبہ کے پاس سے
گزرتا تو وہ جب فعل یفعل کی گردان یاد کرتے تو مجھے بڑے بھلے لگتے اور ان کی اسی ادا
نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ دینی تعلیم کے حصول پر راغب ہو گیا۔ میرے قابل فخر اساتذہ
میں حضرت مولانا منظور الحق بہاریa ہیں
جو بہت بڑے اہلحدیث مبلغ تھے اور ان کی دعوت و تبلیغ سے بہت سارے لوگ راہ ِ راست پر
آئے۔ صرف و نحو حضرت مولانا عبدالرشید لدا خی بلتستانی سے پڑھی جو بہت قابل اور محنتی
استاذ تھے ۔ اسی طرح مشکو ۃ شریف حضرت مولانا عبدالصمد شرف الدین بہاریa سے
پڑھی جبکہ مولانا فضل اللہ جیلانی حنفی اور مولانا عبدالحلیم بہاری اہل حدیث‘ دونوں
سے اجازہ حاصل کی۔
مرحو م رسمی تعلیم سے تقریباً ۱۹۶۰ء کو فارغ ہوئے اور تحقیق
و تد قیق سے منسلک ہوگئے اور اس دوران تحفۃ الاشراف کی پہلی تین جلدوں پر کام کیا۔
بعد ازاں آپ ۱۹۷۱ء میں پاکستان آئے جس کا پس منظر یہ ٹھہرا کہ دورانِ تعلیم کتاب
الحج کے مطالعہ سے حج کرنے کا شوق پیدا ہوا ، اسی دوران مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب
میں خود کو دیکھا کہ طوافِ کعبہ کے لیے جا رہا ہوںلیکن کسی نے بازو سے پکڑ کر روک دیا،
اسی دوران بیدار ہو گیا‘ اپنے استاذ سے تعبیر پو چھی تو بتایا کہ شادی کے بعد حج کرو
گے‘ چنانچہ ۱۹۶۶ء کو شادی ہوئی۔
اپنی شادی کے متعلق خود لکھتے ہیں:
’’یہاں بر سبیل تذکرہ
اپنی زندگی کا ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں، جب میری شادی ہوئی تو نہایت سادگی کے ساتھ‘
جمعہ کے بعد مسجد میں نکا ح ہوا اور عشاء کے
بعد سسرال ہی میں مجھے ایک کمرے میں بیوی کے ساتھ بند کر دیا گیا۔ مسجد میں ساری رات
وعظ وتقریر ہوتی رہی۔ پندرہ بیس واعظین تھے‘ ہر ایک حق خطابت ادا کر رہا تھا۔ چونکہ
سارے مسلک اہل حدیث پر گامزن تھے اور باتیں کتاب و سنت کی ہو رہی تھیں۔ میں مسجد سے
قریب ہی گھر میں تھا اس لیے ساری رات ان مقررین کی آواز سنتا رہا‘ بعد نماز فجر مجھ
سے خطاب کرنے کے لیے کہا گیا، حسب ارشاد میں منبر مسجد پر جا کر بیٹھ گیا، حمد و ثناء
کے بعد فوراً میرے دما غ میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ ان لوگوں کو آداب مسجد سے آگاہ
کیا جائے کیونکہ میں نے ایک دن دیکھا کہ ان کے اندر آداب ِ مسجد کا فقدان ہے مسجد
کے صحن کی چھوٹی دیواروں پر بیٹھ کر بیڑی اور سیگریٹ کا کش لگا نا اور مسجد میں دنیاوی،
کارو باری معاملات پر جھگڑنا وغیرہ، چنانچہ میں نے مختصراً پون گھنٹہ کتاب و سنت کی
روشنی میں آدابِ مسجد کو بیان کیا‘ اسی وقت سے لوگ متنبہ ہو گئے اور الحمد للہ! آج
تک اس پر یہ لوگ عمل پیرا ہیں۔‘‘ (مقالات ِشا غف: ص ۲۲ــ۔۲۳)
بہرحال اپنے خواب کی عملی تعبیر کے لیے کلکتہ سے بذریعہ بمبئی
کراچی کو روانہ ہوا۔ ۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء کو کراچی پہنچے‘ وہاں کچھ دیر کام کیا لیکن یہی
دھن سوار رہی کہ حج کروں تو کیسے کروں؟ اسی دوران حضرت مولانا عبدالغفار حسنa سے
ملا قات ہوئی جن کے ساتھ پہلے سے تعارف تھا۔ اُنہوں نے جناب حکیم عبدالرحیم اشرفa سے
بات کی تو جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد میں استاد مقرر ہو گئے‘ وہاں ایک سال رہے‘
مولانا عبدالغفار حسنa اس
وقت جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاد تھے اور تب جامعہ اسلامیہ کے رئیس شیخ عبدالعزیز
بن بازa تھے
جن سے مولانا عبدالغفار حسن مرحوم نے ان کے مدینہ جانے کی بات چلائی لیکن شیخ ابن بازa تبدیل
ہو گئے اور ان کی جگہ شیخ عبدالمحسن العباد رئیس بن گئے۔ جب ان سے مولانا عبدالغفار
حسن مرحوم نے بات کی تو اُنہوں نے کہا عمرہ پر آجائیں تو ہم رکھ لیں گے لیکن ان حالات
میں عمرہ کے لیے جانا بھی کچھ آسان نہ تھا، بہر حال کسی سے کچھ رقم لے کر پاسپورٹ
بنایا‘ اس کوشش کے ساتھ دارالحدیث کراچی میں تدریس کرتا رہا۔ یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے اس
سے پہلے ایک حنفی بزرگ کے ساتھ بھی کچھ کام کیا تھا جو کبھی کبھار میرا تعاون بھی کر
دیتے تھے‘ ایک دن ان سے ملا قات ہوئی پو چھا ، کیا کر رہے ہو تو میں نے بتا یا کہ عمرہ
کو جانے کا خیال ہے لیکن … اُنہوں نے اتوار کے روز آنے کا کہا، جب گیا تو اُنہوں نے
دو ہزار روپے کا تعاون کیا، یہ رقم لے کر میں جناب عبدالغفار لا کھانی مرحوم کے پاس
گیا‘ اُنہوں نے کہا اتنے میں ویزہ وغیرہ نہیں لگے گا کچھ اور رقم لائو، میں نے کہا
میرے پاس تو اور کچھ بھی نہیں، اُنہوں نے کہا: پانچ سو روپے ہی دے دو، میں نے کہا:
پانچ پیسے بھی نہیں، بہرحال اُنہوں نے پاسپورٹ رکھ لیا۔
اسی دوران مجھے معلوم ہوا کہ شفیق پریس والوں کا بھی سعودی سفارتخانہ
سے کوئی تعلق ہے‘ میرا کچھ وقت ان کے ساتھ بھی علمی تعاون رہا تھا‘ ان سے واقفیت تھی
اور احترام بھی کرتے تھے‘ میں ان کے پاس جانے کو پاسپورٹ لینے لا کھانی مرحوم کے پاس
گیا تو اُنہوں نے کہا تم کیسے ویزہ لگوا لو گے ؟ میں نے کہا : آپ پاسپورٹ دے دیں میں
پاسپورٹ لے کر شفیق پریس والوں کے ساتھ سفارتخانہ گیا اور اُنہوں نے چند دن بعد ویزہ
لگا دیا اور یوں ۲۶ جون ۱۹۷۵ء کو سعودیہ پہنچ گیا، جس پر بے حد خوش ہوا، عمرہ ادا کرنے
کے بعد مدینہ طیبہ حاضری دی وہاں جب مولانا عبدالغفار حسن مرحوم سے ملا قات ہوئی تو
اُنہوں نے شیخ عبدالمحسن عباد مرحوم سے ملا قات کروائی، اُنہوں نے سب سے پہلا اور ایک
ہی سوال کیا کہ یہ جو کچھ لکھا ہے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا‘
وہ میرے رسم الخط سے بڑے متاثر ہوئے بہرحال اُنہوں نے بات چلانے کا وعدہ کیا ۔
میں واپس مکہ مکرمہ آگیا‘ وہاں کسی نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو
مولانا عبدالصمد شرف الدین طواف کر رہے ہیں‘ بعد میں ان سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے
کہا صبح جدہ آجا ئو وہاں ملیں گے‘ جب دوسرے دن جدہ پہنچا تو اُنہوں نے شیخ عبداللہ
عمر نصیف مرحوم سے ملا قات کروائی‘ موصوف عبداللہ عمر نصیف کے ماموں تھے۔ اُنہوں نے
بتایا کہ کام کی غرض سے آئے ہیں اُنہیں کام دیا جائے، اُنہوں نے اُسی وقت ایک فارم
دیا کہ اسے پُر کر دو، میں نے فارم پُر کرکے دے دیا۔ جب پندرہ دن بعد رابطہ کیا تو
معلوم ہو ا کہ فارم گم ہو گیا ہے لہٰذا دوبارہ فارم پُر کر دیجیے، فارم دو بارہ پُر
کرکے دیا، تو شیخ عبدالصمد شرف الدین مرحوم نے خود ساتھ ہو کر یہ کام دو گھنٹوں میں
کروا دیا اور ساتھ ہی کہا کہ شیخ بچوں کا ویزہ بھی چاہتے ہیں تو مسئول نے پو چھا کتنے
بچے ہیں میں نے کہا: پانچ، تو اس نے کہا: درجن کیوں نہیں؟ بہرحال دوسرے دن سب کا ویزہ
مل گیا، دو رمضان کو واپس گیا اور تقریباً چھ ماہ بعد ربیع الا ول ۵ مارچ ۱۹۷۷ء کو
واپس سعودیہ پہنچ گیا، اور تب سے اب تک رابطہ عالم اسلامی میں تحقیق و تد قیق کے شعبہ
سے منسلک ہوں۔
ظاہر ہے اس دوران موصوف مرحوم سعودی حکومت کے قوانین کے تحت
رابطہ عالم اسلامی کے اقامہ پر رہے تاہم اس دوران اُنہوں نے سعودی وزارت داخلہ کو سعودی
قومیت کے حصول کے لیے درخواست دی جس کے ساتھ موصوف مرحوم نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ
تعالیٰ جیسے اکابر مشائخ و علماء سعودیہ اور أئمہ حرمین شریفین کے تزکیات بھی لف کیے‘
چنانچہ ایک مدت تک انتظار کے بعد موصوف کو سعودی شہریت (قومیت ) اور نیشنل کارڈ اور
پاسپورٹ جاری کر دیا گیا ۔ سعودی حکومت کی طرف سے شہریت کا ملنا من وجہ سعادت بھی تھا
کہ ہمیشہ سر زمین حرم میں رہنے کا موقع مل گیا اور یہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی تھا۔
جذبہ تبلیغ واصلاح:
ہم نے پہلے اُن کی شادی کے موقعہ پر پیش آمدہ واقعہ کا ذکر
کیا ہے‘ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی رفیقہ حیات مرحومہ کس قدر متقی اور
پرہیز گار خاتون تھیں وہاں اس گھرانہ میں جذبہ دعوت و ارشاد اور تبلیغ واصلاح کا بھی
بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف حسب حالات اصلاح احوال کا جذبہ
صادقہ رکھتے تھے اور ایسے مواقع کو غنیمت سمجھتے تھے کہ آپ کو کسی کو بات سمجھانے
کا موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ بتاتے ہیں کہ
’’چند سال قبل کا
واقعہ ہے میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں چائے پینے گیا‘ ایک میز پر ہم پانچ
آدمی بیٹھ گئے ۔ قریبی میز پر دو آدمی بیٹھے گفتگو کر رہے تھے اور بڑے ہی جوش و خرم
میں تھے ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ میں نے فلاں کو وہ سبق دیا ہے کہ وہ تا حیات
یاد رکھے گا ۔ میں نے کہا بھائی صاحب آپ نے تو اسے وہ سبق دیا ہے جسے وہ ساری زندگی
یاد رکھے گا۔ یعنی صرف اس دنیا میں جب وہ مر جائے گا تو اس سے یہ چیز جدا ہو جائے گی
البتہ مرنے کے بعد اس کا نتیجہ آپ کے سامنے آئے گا یعنی اب پا نسا پلٹ جائے گا اور
آپ اپنی اس عقلمندی کے عذاب میں گرفتار ہوں گے جس سے گلو خلاصی نا ممکن ہوگی پھر بات
لمبی ہو گئی و ہ حضرت آپے سے باہر ہو گئے۔ گرما گرمی کے بعد میں نے کہا میرے بھائی!
آپ مسلمان ہیں‘ میری باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اپنے حریف سے معافی مانگ لیں۔‘‘
(مقالات ِشاغف: ص ۲۵۶)
اس سے اندازہ ہو تا ہے کہ موصوف میں امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کا کتنا جذبہ تھا اور وہ ’’الدین النصیحہ‘‘ پر کس قدر عمل پیرا تھے ۔ موصوف
کے اس جذبہ تبلیغ و اصلاح کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگائیے فرماتے ہیں:
آج سے تقریباً تیس سال قبل مجھ سے ایک نوجوان طالب علم نے ایک سوال کیا کہ مولانا
میں ایک مشکل میں گرفتار ہوں اس کا کیا حل ہے ؟ میں نے کہا فرمائیے کیا مشکل ہے ؟ اس
طالب علم نے کہا کسی پکنک کے سفر میں، میں غیر مسلم طلبہ کے ساتھ چند لقمے سور کا گوشت
کھا بیٹھا ہوں اس کا کیا ہو گا ؟ میں نے اس نوجوان سے کہا تم توبہ واستغفار کرو اور
آئندہ سے جب کبھی پکنک وغیرہ پر جائو تو سب سے پہلے یہ معلوم کر لو کہ کھانے پینے
کا کیا نظم ہے اور بس، اس دن کے بعد سے آج تک اس مسئلے پر غور کر تا رہا ہوں اور تاحیات
اس پر غور کر وں گا ، اس گندگی خور قوم کو معلوم تھا کہ ان کے ساتھ ایک مسلم بھی ہے
جس کے مذہب نے اس گندے جانور کو حرام قرار دیا ہے ۔ اس کے باوجود ان لوگوں نے اسے اس
گندہ و خبیث جانور کھانے پر مدعو کیا ۔ اب تو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ نصاریٰ کی بنائی
ہوئی بسکٹ ، ٹافی غرض کہ جمیع اشیاء خوردنی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ قوم گندگی
خور ہے اور دوسروں کو بھی گندگی خور ی پر مجبور کرتی ہے۔‘‘ (ملخصاً، مقالاتِ شاغف ص
۵۱۳)
دوسرا رُخ:
وعظ ونصیحت اور اصلاح میں اس حکیمانہ انداز کے ساتھ آپ کی شخصیت
کا یہ رُخ بھی تھا کہ اپنے استحضار اور وسعت معلومات کی بنا پر مناظرانہ طبیعت رکھتے
تھے اور حسب ِ موقع ایسا جواب دیتے کہ دوسرے کو مجال مقال نہ رہتی۔ بتاتے ہیں کہ آج
سے چند سال قبل کی بات ہے ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور بیٹھتے ہی میرے مکتبہ پر ایک
نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگے آپ کے پاس کتب ِ فقہ بھی ہیں ؟ میں نے کہا : جس گھر میں سنن
نبویہ یعنی کتب احادیث ہوں وہ کسی اور کتاب کی بھی ضرورت محسوس کر سکتا ہے ؟ کہنے لگے
محدثین فقہ نہیں جانتے تھے؟ احادیث نبویہ سے براہ راست استفا دہ کرنا ممکن نہیں ، میں
نے اس سے پو چھا ، آپ کس فقہ کے ماننے والے ہیں جواب ملا فقہ شافعی ، میں نے کہا
: اگر میں فقہ شافعی خرید لوں اور کل کوئی آپ ہی جیسا حنفی ملنے آئے او ر وہ فقہ
حنفی خریدنے کی دعوت دے۔ اسی طرح ہر وارد کے اشارے پر کتب فقہ خریدتا رہوں اور آپ
فقہاء کے اختلاف سے غالبا ً واقف ہوں گے‘ اب عمل کرنے کے لیے میں مشکل میں پڑ جائو
ں گا کہ کس کی فقہ پر عمل کروں اور کس کو صحیح سمجھوں اور کس کو نہیں؟ اس کا حل کیسے
ہوگا؟ (مقالاتِ شاغف ص: ۳۱۴)
اسی طرح بتا تے ہیں:
میں جب طالب علم تھا ہمارے استادوں میں ایک حنفی استاد بھی تھے‘ ان سے ہم لوگ فارسی
پڑھا کرتے تھے ۔ بلوغ المرام کے درس میں سیدنا مغیرہ بن شعبہt کی روایت کہ اللہ کے رسول e نے
وضو کرتے ہوئے سر کا مسح کرتے وقت اپنی پگڑی پر مسح کیا ، ہمارے استاذ دور سے سن رہے
تھے‘ جب ہم دوسرے دن ان کے پاس فارسی کے درس کے لیے حاضر ہوئے ۔ استاذ محترم نے بلا
ضرورت درمیان درس سیدنا مغیرہ بن شعبہt کی حدیث پر کلام شروع کر دیا ، کہنے لگے دراصل مغیرہ
بن شعبہ سے سہو ہوا‘ اللہ کے رسول e سر کا مسح کر رہے تھے پگڑی گرنے لگی تو اسے ہاتھ سے
پکڑ لیا ، سیدنا مغیرہ بن شعبہt نے
اسے پگڑی کا مسح سے تعبیر کر دیا ۔ بچپن کا دور تھا میں نے استاذ محترم سے پو چھا کہ
سیدنا مغیرہ بن شعبہt سے
غلطی ہوئی ، صحیح کا علم کہاں سے حاصل ہوا؟ استاذ محترم نے فرمایا: امام ابوحنیفہa نے
تمام احادیث کو جمع کرکے یہ فیصلہ دیا ، میں نے اعتراضاً کہا کہ حضرت ! اُنہوں نے اس
غلطی کی تصحیح کی ، اس سو سالہ دور کے مسلمان اس غلطی سے آگاہ نہ ہو سکے ؟ میرے استاذ
کے پاس اس کا جواب تو تھا نہیں البتہ مجھے گستا خ کہہ کر خاموش ہو گئے ، مجھے جب بھی
یہ واقعہ یاد آتا ہے اس استاذ پر افسوس کرتا ہوں۔ (مقالاتِ شاغف: ص ۳۴۵)
مذکورۃ الصدر واقعہ سے یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ موصوف کے پاس ذخیرہ
کتب فقہ نہ تھا بلکہ امر واقع یہ ہے اللہ وحدہ لا شریک نے موصوف کو جسمانی صغر کے عوض
بسطۃ فی العلم بنارکھا تھا کہ علم و عمل کی تمام خوبیوں اور اخلاق و کر دار کی تمام
صفات حمیدہ سے متصف تھے ۔ قسام ِازل ان کو وسیع حافظہ کے ساتھ اتقان و ضبط اور تقیظ
و استحضار کی وافر صلاحیت سے نواز رکھا تھا۔ موصوف کی لائبریری دیکھنے سے اندازہ ہو
جا تا تھا کہ اس کی اکثر کتب موصوف مرحوم کے مطالعہ سے گزر چکی ہیں کہ جا بجا نوٹس
اور حوالہ جات کے شروع میں کی گئی نشاندہی اسی کی چغلی کھا تی تھی اور پھر جب وہ اپنے
مکتبہ میں تشریف فرما ہو کر کسی بھی مسئلہ پر گفتگو فرماتے تو اعتراف کرنا پڑتا کہ
یہ تمام کتب ان کی نظر کے سامنے ہیں اور وہ اُٹھتے سیدھے جا کر اسی کتاب پر انگلی رکھتے
اور نکال کر حوالہ پیش کر دیتے ، چنانچہ اس سلسلہ میں موصوف یاد گار سلف صالح تھے لیکن
سب سے ممتاز یہ کہ موصوف عقیدہ و عقیدت سلف میں متصلب ومستغرق تھے اور بڑے نازک و حساس
جذبات رکھتے تھے۔ دفاع حدیث با لخصوص امام بخاریa اور ان کی الجامع الصحیح تو ان کی کمزور ی تھی اور اس
موضوع پر ان کے پاس سینکڑوں کتابیں تھیں اور بخاری سے شغف نے انہیں فنا فی البخاری
بنا دیا تھا ۔ جس کا اندازہ موصوف کے حدیث، حجیت حدیث ، دفاع حدیث، امام بخاریa کی
شخصیت اور ان کی الجامع الصحیح کی حیثیت و اصحیت جیسے بنیادی اور اہم مضامین کے مجموعہ
’’مقالاتِ شاغف‘‘ کے مطالعہ سے لگا یا جا سکتا ہے ، جس کے متعلق ہماری رائے یہ ہے کہ
حدیث ومحدثین بالخصوص امام بخاریa اور بخاری شریف سے محبت وعقیدت،تعلق درس و تدریس رکھنے
والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ دل چاہتا ہے اس حوالہ سے ان کے رشحات قلم کو
قارئین کے سامنے رکھیں مگر مضمون کی نسبت سے یہ خارج از بحث ہے لیکن اس سلسلہ میں ان
کی ایک درد بھری تجو یز کا خدمت بخاری میں ایک وقیع مشورہ کے طور پر نقل کرنا مناسب
سمجھتے ہیں۔ مرحوم موصوف لکھتے ہیں:
’’اس سے استفادہ
کی ایک شکل میرے خیال میں آسان یہ ہے کہ چند نوجوان کمر بستہ ہو کر حدیث کی مشہور
آٹھ کتابوں (صحاح ستہ ، مؤطا ، دارمی ) کو صحیح بخاری کی ترتیب پر مرتب کر دیں اور
جو کتاب زائد ہو اس کو ان کتب کے درمیان مناسب جگہ رکھ دیں نیز ان کتب کے ابواب کو
بھی صحیح بخاری کے ابواب کے تحت لاکر مرتب کر دیں اور جوابواب زائد ہوں ان کو ان کے
درمیان مناسب جگہ فٹ کر دیں اور ان احادیث کو انہی ابواب کے تحت یکجا کر دیں ۔ اس ترتیب
سے مرتب کرنے کے بعد سنت نبویہ کا یہ عظیم ذخیرہ ہر شخص کے لیے مفید ہو گا نیز اس سے
دوسرا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہر باب کی تقریباً ساری احادیث اکٹھی ہو جائیں گی اور
مختلف طرق و الفاظ بیک وقت قاری کے سامنے ہوں گے۔ (مقالاتِ شاغف ص: ۴۶۔۴۷) …… (جاری)
No comments:
Post a Comment