Sunday, July 07, 2019

مولانا علی محمد صمصام رحمہ اللہ 26/2019


یادِ رفتگان ... مولانا علی محمد صمصام رحمہ اللہ

تحریر: جناب مولانا محمد یوسف انور
متحدہ ہندوستان میں صوبہ پنجاب کی زرخیر سرزمین میں علمی وادبی شخصیات اور علمائے ذیشان کی خاصی تعداد نے جم لیا۔ جن میں سے ہر ایک نے اپنی دینی خدمات کے سبب شہرت کی بلندیاں حاصل کیں۔ درس وتدریس ہو یا وعظ وتذکیر کا میدان ہو انہوں نے بعد میں آنے والوں کے لیے گہرے علمی تاثرات وکمالات چھوڑے ہیں جن سے اکتساب فیض ہمیشہ ہوتا رہے گا۔
دنیا کی ہر زبان میں رسات مآبe کی مدح سرائی اور نعت گوئی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے لیکن ٹھیٹھ پنجابی زبان میں اس خدمت کا وافر حصہ مولانا علی محمد صمصامa کے نام سے موسوم ہے۔ کوئی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے دیہات میں رات کو چوکوں میں اور دن کو درختوں کی چھاؤں میں بڑے بوڑھوں کی بھی اور نوجوانوں کی بھی مجلسوں میں ہیر رانجھا‘ سسی پنوں اور سوہنی مہینوال کے گیت اور کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن پھر وہ دور بھی آیا کہ انہی جگہوں پر مولانا علی محمد صمصام کے تحریر کردہ رسائل جن میں رسول اکرمeکی شان وفضائل اور حیات مبارکہ پر مشتمل عشق ومحبت میں ڈوبی ہوئی نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ کسی مقام پر ’’جھوک مدینے والے احمد سردار دی‘‘ پڑھی جا رہی ہے اور کسی جگہ ’’نام محمد والا کالجے ٹھاردا‘‘ کی صدائیں آ رہی ہیں۔ سننے والے ہیں کہ جھوم جھوم تو جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ غلط عقائد اور شرک وبدعات سے بھی تائب ہوئے جا رہے ہیں۔
مسلک اہل حدیث کے حاملین کے جلسوں اور عظیم ترین کانفرنسوں کے اجلاسوں کا آغاز تلاوت کلام پاک کے بعد مولانا صمصام کی نظم سے ہوتا تھا۔ مولانا موصوف بذات خود جب ان دعوتی پروگراموں میں مدعو ہوتے تو وہ اپنی تقریروں کو ان نظموں اور اشعار سے مزین فرماتے۔ بلکہ کسی بھی جلسے کی کامیابی اس زمانے میں یہی سمجھی جاتی کہ اس میں مولانا صمصام بھی خطاب کریں گے۔ ان کی خطابت میں شعر وشاعری بھی ہوتی اور پنجابی زبان میں لطائف وظرائف کی بھی کافی مقدار ہوتی۔ ڈیڑھ دو گھنٹوں تک ان کی تقریر کا خوبصورت سماں بندھا رہتا۔ انہی دنوں حافظ محمد اسماعیل روپڑیؒ‘ حافظ عبدالقادر روپڑیؒ‘ حافظ محمد لکھویؒ کے پنجابی اشعار سے اپنی خوش نوا خطابت کو مزین کرتے۔ کبھی مولانا صمصام کے اشعار بھی پڑھتے۔
اگرچہ دروس میں اردو شعراء میں علامہ اقبال‘ مولانا ظفر علی خاں‘ حفیظ جالندھری اور الطاف حسین حالی کا نعتیہ کلام خوب پڑھا جاتا تھا اور ہمارے علماء بھی تقریروں میں ان کے اشعار پڑھتے تھے لیکن مولانا صمصام کے کلام کی مقبولیت ایسی تھی کہ پنجابی زبان کی مٹھاس اور نبی مکرمe کے فضائل ومحاسن سے بھر پور ہر ہر شعر پر سامعین داد وتحسین دیتے اور نعرہ زن رہتے۔
مولانا صمصام کی زبانی ان سطور کے راقم نے یہ واقعہ سنا کہ مشرقی پنجاب کے مشہور شہر بٹالہ میں تقسیم ملک سے قبل ہر سال تین روزہ سالانہ اہل حدیث کانفرنس منعقد ہوتی تھی جس میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی‘ مولانا عبدالمجید سوہدروی‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری اور حافظ محمد عبداللہ روپڑیS خاص طور پر شمولیت فرماتے۔ اکثر اجلاسوں کی صدارت یہی بزرگ فرماتے۔ ایک مرتبہ ہفتہ کی رات کے اجلاس کی صدارت مولانا میر سیالکوٹی فرما رہے تھے اور اس اجلاس کے مقررین مولانا محمد عبداللہ ثانی‘ مولانا احمد الدین گکھڑوی اور حافظ عبدالقادر روپڑی وحافظ محمد اسماعیل روپڑی تھے جن کا موضوع ’’تقابل مذاہب‘‘ تھا۔ صدر اجلاس مولانا سیالکوٹی نظموں کو پسند نہ فرماتے تھے‘ میں نے بڑی سفارشوں کے بعد چند منٹ نظم پڑھنے کے لیے ان سے لیے۔ مولانا صمصام فرماتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ہمارے جلسوں میں ہندو‘ سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی سامعین میں موجود ہوتے۔ میں نے موقع کی مناسبت سے اپنی نظم کچھ تمہید کے بعد اس طرح سنائی:
محمدؐ دے رتبے نوں پا کوئی نہیں سکدا
جہاناں دی رحمت کہا کوئی نہیں سکدا

جتھے رات معراج سرکار پہنچی
ستاں فلکاں نوں چیر جا پار پہنچی

مقام اس تے نبیاں چوں جا کوئی نہیں سکدا
محمدؐ دے رتبے نوں پا کوئی نہیں سکدا

شہادت دی انگلی میرے پیر وانگوں
کھڑی کر ول آسمان تیر وانگوں

قمر کر کے ٹکڑے وکھا کوئی نہیں سکدا
محمدؐ دے رتبے نوں پا کوئی نہیں سکدا

اے شودر مہاشے نہ زندگی گوا توں
نہ در در تے جا کے نہ دُر دُر کرا توں

محمد بغیر سینے لا کوئی نہیں سکدا
محمدؐ دے رتبے نوں پا کوئی نہیں سکدا

جے توں ایتھے کھڑا پڑھ لیں کلمے دی بانی
تے صمصام پیوے تیرا جوٹھا پانی

پھر مسجد تھیں تینوں ہٹا کوئی نہیں سکدا
محمدؐ دے رتبے نوں پا کوئی نہیں سکدا

مولانا صمصام کہتے ہیں کہ صدر جلسہ حضرت میر سیالکوٹیa کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور سامعین بلا امتیاز محظوظ ہو رہے تھے۔ نعرہ ہائے تکبیر سے پنڈال گونج رہا تھا۔ میری نظم کے اختتام پر دور کھڑے چند ہندو نوجوانوں کی آوازیں آئیں کہ مولانا صاحب! ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ ان کے جواب میں مولانا سیالکوٹی نے اسی موضوع پر صدارتی خطاب فرمانے کے بعد فرمایا کہ ’’فجر کی نماز کے بعد میں درس قرآن مجید دوں گا اور آپ ہندو لوگ غسل کر کے دھلے کپڑے پہن کر مسجد میں آئیں آپ کو کلمہ پڑہا کر مسلمان کیا جائے گا۔‘‘
چنانچہ اگلی صبح نماز ودرس سے فراغت کے بعد مولانا سیالکوٹی نے بیس بائیس ہندو خاندانوں کو کلمہ پڑھایا اور انہیں اسلام قبول کرایا۔ یہ ہندو لوگ اپنی خواتین اور بچوں سمیت آئے اور مسلمان ہوئے تھے۔
تقسیم ملک کے بعد سالہا سال تک ہم نے جماعتی جلسوں اور کانفرنسوں میں مولانا صمصام کی تقریریں کرائیں۔ بڑھاپے کے باوجود زبان وکلام کی مترنم شیرینی سے سامعین لطف اندوز ہوتے۔ ہماری مرکزی جامع مسجد اہل حدیث امین پور بازار میں مولانا احمد الدین گکھڑوی سے قبل وہ سات آٹھ ماہ تک خطابت کی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے اور ملک بھر کے تبلیغی پروگراموں میں بھی شرکت فرماتے۔ ہفتہ کی کوئی رات ہی خالی ہوتی اور وہ رات کبھی ہمارے غریب خانہ میں گذارتے اور کبھی اپنے گاؤں چک ۳۹ ستیانہ بنگلہ میں چلے جاتے۔
میرے والد علیہ الرحمہ سے انہیں قلبی پیار اور لگاؤ تھا۔ ان کی صالحیت وتقویٰ اور علماء کے ساتھ عقیدت ومحبت سے بڑے متاثر تھے اور ہم سب اہل وعیال کے لیے دعا گو رہتے۔
مولانا مرحوم مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بانیان مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ اور مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے گہرے قدر دان‘ ان کی تنظیمی مساعی اور دینی وسیاسی تگ وتاز کو سراہتے‘ مولانا سلفی کے وہ ہم عمر اور بے تکلف دوست بھی تھے۔ ایک دفعہ ہم دونوں راولپنڈی سے واپسی پر گوجرانوالہ میں مولانا سلفی کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو مولانا سلفی نے خادم کو چائے لانے کے لیے کہا۔ مولانا صمصام کہنے لگے کہ ’’حضرت! میں چائے کا اتنا عادی نہیں ہوں۔‘‘ جواب میں مولانا سلفی نے فرمایا کہ ’’چلو عادی نہیں تو ثمودی ہی سہی۔‘‘  ہم اس جملے سے بڑے محظوظ ہوئے۔
مولانا صمصام‘ مولانا سلفی کی محدثانہ تحریروں اور عام فہم علمی تقریروں کا اکثر تذکرہ کرتے اور ان کی خطابت کے بعض واقعات کو مزے لے لے کر بیان کرتے۔ مولانا غزنوی بلاشبہ بلند مرتبت عالم دین‘ ثقہ اور معروف سیاستدان‘ تحریک آزادی کے شعلہ نوا مقرر اور مجاہد بیباک تھے جنہوں نے زندگی کے بیشتر ماہ وسال قید وبند میں گذارے۔ لیکن مولانا غزنوی بھی مولانا صمصام کی تقریر دلپذیر توجہ سے سنتے اور اونچی سطح کے علمی اجلاس میں مولانا صمصام کی پنجابی تقریر کے لیے وقت نکالتے‘ یہ کوئی ۱۹۶۲ء کی بات ہو گی کہ جامعہ سلفیہ میں تقریب بخاری کا انعقاد تھا‘ مولانا غزنوی صدارت فرما رہے تھے اور حضرت العلام مولانا حافظ محمد محدث گوندلویa نے درس بخاری ارشاد فرمایا۔ ان سے قبل مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانیa نے حجّیت حدیث پر تقریر فرمائی۔  اس زمانے میں شہر میں جماعت کم تھی‘ ضلع کے دیہات سے جماعتی احباب کی اکثریت سامعین میں موجود تھے۔
درس بخاری کے بعد مولانا غزنوی نے خطاب فرمایا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں حضرت حافظ صاحب کے درس علمی سے علماء وطلبہ مستفید ہو رہے تھے لیکن عام دیہاتی سامعین کے فہم سے یہ بالا تر تھا۔ اتفاق سے مجلس میں مولانا صمصام تشریف رکھتے ہیں‘ انہیں کہوں گا کہ وہ چند منٹ پنجابی میں تقریر کریں اور نظم بھی سنائیں۔
چنانچہ مولانا صمصام مائک پر آئے اور انہوں نے چند کلمات تمہیدی کے بعد تقریب کی مناسبت سے یہ نظم سنائی‘ جس کے دو تین اشعار یہاں لکھ رہا ہوں:
جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا
اوہ پاویں لکھ گنہگار بیڑا پار ہو گیا

جیہدی نبی دے دوارے تے رسائی ہو گئی
اوہدے گناہاں تے پاپاں دی صفائی ہو گئی

اوہدا دوزخ بھی یارو گلزار ہو گیا
جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا

اوہ پاویں لکھ گنہگار بیڑا پار ہو گیا
جنہوں ذرا اثر ہو گیا خلیلی رنگ دا

اوہ گنج بخش کولوں نہیں مراداں منگدا
اوہ تے حسبنا اللہ تھیں ساہو کار ہو گیا

جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا
اوہ پاویں لکھ گنہگار بیڑا پار ہو گیا

جیہدا نبی دی حدیثوں دل اکدا نہیں
اوہ فقہ کوفیاں تے شافعیاں دی تکدا نہیں

اوہ تے قال قال تھیں سرشار ہو گیا
جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا

اوہ پاویں لکھ گنہگار بیڑا پار ہو گیا
کوئی ستر دھیاں مار کے دوارے آوندا

پڑھیا کلمہ تے عزتاں اچیاں پاوندا
جبریل اوہدی شکل تے نثار ہو گیا

جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا
او پاویں لکھ گنہگار بیڑا پار ہو گیا

مولانا صمصام حرمین شریفین سے کمال کی محبت رکھتے تھے۔ ہر سال کسی نہ کسی طرح حج کے لیے پہنچ جاتے۔ ان کی بہت سی نظمیں بحری جہاز میں لکھی ہوئی ہیں اور بہت سی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر لکھی گئی ہیں۔ ان نظموں اور اشعار سے بیت اللہ اور مسجد نبوی کی عظمت اور تقدس کا خوب اظہار ہوتا ہے۔ جنہیں بار بار پڑھنے سننے کے لیے دل میں آمادگی اور شوق پیدا ہو ہو جاتا ہے۔
نبی کریمe کی اتباع اور سنت مطہرہ بڑی سلیس اور پنجابی زبان میں واضح واجاگر ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ ضرورت سمجھی جا رہی تھی کہ آج کی نسل کو ان کی اس خدمت جلیلہ سے آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ جناب مولانا عارف جاوید محمدی (کویت) اور ان کے رفیق خاص جناب حافظ شاہد محمود نے تلاش بسیار کرتے ہوئے سارا چیدہ چیدہ مواد جمع کیا اور اسے کتابی شکل دے کر قارئین کے لیے ایک تاریخی معلومات کا بحر ذخار پیش فرما دیا ہے۔ جو جماعتی عوام وخواص کے علاوہ نوجوان مقررین اور خطباء کے لیے یکساں نعمت عظمیٰ ہے۔ جبکہ ہمارے آج کے معروف احوال کے لوگ اپنے اسلاف اور قومی رہنماؤں کی ملکی وملی اور دینی خدمات سے بے خبر ہیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)