اطاعتِ رسول ﷺ
خطبہ جمعہ: امیر محترم جناب سینیٹر
پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد،
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ يُّشَاقِقِ
الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ
الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًاؒ۰۰۱۱۵﴾
’’جو شخص باوجود
راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول اللہe کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم
اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو، اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ پہنچنے
کی بہت ہی بُری جگہ ہے۔‘‘ (النسآء)
اس آیت مبارکہ میں بظاہر دو چیزیں کہی گئی ہیں جن کا انجام
بظاہر دو ہی چیزوں کی شکل میں بتایا ہے۔ دو جرائم، دو خرابیاں اور دو ہی ان کے نقصانات
اور سزائیں ہیں۔ لیکن اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو ایک جرم اور ایک سزا ہے، ایک گناہ
ہے اور ایک ہی اس کی سزا بتائی جا رہی ہے۔
جہنم میں جانے کی اہم ترین وجہ نبوی مخالفت:
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ رسولe کی مخالفت کرنے والے کا یہ انجام ہوتا ہے، پھر یہ کہنا
کہ جو مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلتا ہے اس کا یہ انجام ہوتا ہے‘ اصل میں یہ دونوں ایک
ہی چیز ہیں۔ مومنوں کی راہ اور طریقہ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہمیں مل جائے تو بات
کوسمجھنا آسان ہو جائے گا، قرآن کریم کی طرف سے اس کا جواب آتا ہے، فرمایا :
﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ
وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ
الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ﴾ (الاحزاب)
کسی مومن (مرد یا عورت) کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ ایک طرف
کسی بھی کام کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی فیصلہ ہو، اور وہ اس کی بجائے
کوئی اور راہ اختیار کرے، کسی مومن کے لئے کوئی راہ انتخاب نہیں بچتا۔ اس کے لئے ایک
ہی طریق ہے کہ اللہ اور اس کے رسول e کا
کسی بھی کام کے بارے حکم اور فیصلہ آجانے کے بعد اسی کو اپنائے، اسی پر چلے، اسی کے
مطابق اپنی زندگی بسر کرے، زندگی کے ہر میدان میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم اور فیصلے
کو دیکھے۔ یہ مومن کا طریق اور راہ ہے، اس سے ہٹ کر چلنا ہی رسول اللہe کی
مخالفت ہے۔
رسول اکرمe کی
مخالفت اور مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، جب رسول کی مخالفت
ہو گی تو مومنوں کی راہ سے ہٹ جاؤ گے، اور رسول کی مخالفت کا معنی کیا ہے ؟ اس کا
جواب بھی قرآن کریم خود دیتا ہے کہ رسول کی مخالفت کا انجام اور معنی کیا ہوسکتا ہے
؟ سورۃ نور کے آخر میں فرمایا :
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ
يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ
اَلِيْمٌ۰۰۶۳﴾
جو لوگ رسول eکی مخالفت کرتے ہیں، جو رسول کی بات سے ہٹ کر کوئی اور بات اپنا
کر اس پر چلتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہئے۔ کیا انہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اس دنیا میں
ان پر اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب آسکتا ہے، وہ یہیں کسی بڑی آزمائش میں پڑ سکتے
ہیں اور جہاں تک آخرت (عذاب الیم)کا تعلق ہے وہ تو اپنی جگہ پر ہے۔
جو لوگ رسول اکرم e کی بات سے ہٹ کر کوئی اور بات اپنا کر اس پر چلتے ہیں،
مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلتے ہیں ان کا جو انجام بتایا گیا ہے وہ کیا ہے کہ دنیا میں
ایسے انسان سے توفیق الٰہی سلب ہو جاتی ہے۔ پھر وہ شخص ہدایت سے بالکل خالی ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق وہدایت اس سے منہ موڑ لیتی ہے۔ پھر وہ مکمل طور پر گمراہی، ضلالت
اور اندھیروں کا شکار ہو جاتا ہے، جب یہ صورتحال ہو تو پھر اس کا انجام وہی ہے جو قرآن
نے بتایا ہے، آخر وہ جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا۔
اطاعت نبوی کے بغیر اعمال بربادہیں:
مومن کا طریق کار، مومن کے لئے راہ انتخاب، اللہ اور رسول e کی
بات کو ماننا ہے۔ جو کام اللہ اور رسول e کی اطاعت کے دائرے کے اندر ہے وہ اچھا اور درست کام
ہے۔ وہ ثواب کے قابل اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا باعث ہے اور جو اس دائرے سے ہٹے
گا وہ رسولe کی
مخالفت کے ضمن میں آئے گا، ایسے شخص پر مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلنے کا الزام آئے
گا اور اس کا انجام بتا دیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے دوسرے مقام پر کہہ دیا کہ اچھا نتیجہ اس عمل کا
نکلے گا جو اطاعت کے دائرے کے اندر ہے، جو اطاعت کے دائرے سے باہر نکلے گا بظاہر اس
کی کتنی بھی خوبصورت اور اچھی شکل کیوں نہ ہو، اسکا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ سورۃ محمد
میں فرمایا:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ۰۰۳۳﴾
(محمد)
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول e کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل اور ضائع نہ کرو۔
ایک ہی آیت میں دو جملے ساتھ ساتھ جوڑنے، اور یکدم کہنے کا مطلب کیا ہے کہ اللہ، اور
رسولe کی
اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔ مطلب واضح ہے کہ جو تمہارا کام اللہ اور اس
کے رسول کی اطاعت میں نہیں ہوگا وہ باطل و بے کار ہے۔ تمہیں وہ کتنا ہی خوبصورت نظر
کیوں نہ آتا ہو، وہ بالکل باطل ہے۔ اجر اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لحاظ
سے اس کی نہ کوئی قیمت ہو گی نہ کوئی اہمیت ہو گی اور نہ کوئی اس کا وزن ہو گا۔ اس
لئے ہر کام میں احتیاط ہونی چاہیے کہ اللہ اور رسولe کی اطاعت کے دائرے کے اندر ہو، اپنی مرضی سے نہ ہو،
یہ دین کی بنیاد اور روح ہے۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس بات کو بھی ذہن میں بٹھانا
چاہیے۔
بات تو اللہ اور اس کے رسولe کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہنے کی ہے۔ لیکن اصل میں
یہ دائرے بھی دو نہیں ہیں اور نہ اس کے انجام دو ہیں۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول
e کی
اطاعت کا جب الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے تو وہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
ذاتیں الگ الگ بات ایک ہے:
دونوں کی ذاتیں الگ الگ ہیں، لیکن بات دونوں کی ایک ہے۔ اللہ
کے رسولe کی
اپنی کوئی بات نہیں، آپe جو
فرماتے ہیں اور جو کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ فرمان باری ہے:
﴿وَ مَا يَنْطِقُ
عَنِ الْهَوٰى ؕ۰۰۳﴾ (النجم)
ہمارے رسول اپنی زبان مباک سے جو کچھ بولتے ہیں وہ اپنی خواہش
سے نہیں بولتے، اپنی مرضی کے مطابق حکم جاری نہیں کرتے بلکہ:
﴿اِنْ هُوَ اِلَّا
وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ۰۰۴﴾ (النجم)
اس کے سوا کوئی بات ہی نہیں کہ وہ صرف اور صرف وحی ہی ہوتی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر و بن العاصw نے آپe سے پوچھا کہ جناب میں عادتاً آپ کے احکام و فرامین
اور اقوال مبارکہ کو لکھتا ہوں آپ جانتے ہیں کہ آپ کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے وہ
میں نوٹ کرتا ہوں۔ اب میرے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں آپ کی ہر بات کو نہ
لکھوں‘ انہوں نے مجھے کہا کہ اللہ کے رسولe تو بشر ہیں، آپe کی تمام تر عظمت اور صحابہ] کی آپ کے ساتھ عقیدت کے
باوجود صحابہ yعقیدت اپنی جگہ پر رکھتے تھے، اور عقیدے کو اپنی جگہ پر رکھتے
تھے، یہ نہیں کہ عقیدت کی وجہ سے اور محبت کی وجہ سے اپنی مرضی کا عقیدہ بنا لیا اور
عقیدت کی بنا پر رسول کو اللہ سے ملا دیا۔
یہ محبت اور عقیدت نہیں، ایسی عقیدت جو عقیدے کو بگاڑ دے، اس
کا کوئی فائدہ اور مقصد نہیں‘ وہ تو ایک غلط انجام کی طرف لے جانے والی تباہ کن چیز
ہے۔ صحابہ کرام yکا عقیدہ صرف اور صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتا تھا، صرف
اور صرف اللہ کے رسولe کے
بتائے ہوئے عقیدے کے مطابق ہوتا تھا۔
ہمارا موقف اور مسلک یہ ہے کہ ہادی کائنات، رسول آخر الزمان،
رسول اکرمe کے
اور آپ کی ہدایت و راہنمائی کے ہوتے ہوئے، کسی امام، کسی فقیہ، کسی عالم اور محدث
کی بات نہیں چل سکتی۔ آخری، فیصلہ کن اور حتمی بات صرف اور صرف رسول اللہ eکی ہوتی ہے۔ عالم،
محدث، فقیہ اور اماموں کی باتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، ان کی عزت اور احترام کرنا
چاہئے، ان کے علمی مقام اور خدمات کی وجہ سے دل میں ان کی عظمت ہونی چاہئے۔ لیکن جہاں
تک بات ماننے اور اتباع کرنے کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف رسول اکرمe کی
اتباع، اور آپ کی بات ہے۔ اگر کسی کی بات حضور اکرمe کی بات کے مطابق ہے، اسی دائرے کے اندر اندر ہے تو ٹھیک
ہے اس کو تسلیم کرو، لیکن جو ں ہی ذرا سی ہٹتی ہوئی نظر آئے، قرآن و حدیث اور سنت
کی دلیل آگئی، تو اب اس کے مقابلے میں کسی کی بات نہیں چلے گی۔ اہلحدیث کی بات دو
جمع دو، چار کی طرح واضح اور نکھری ہوئی ہے، جس کے بارے حضور اکرمe نے
فرمایا:
[قَدْ تَرَکْتُکُمْ
عَلَی الْبَیْضَآءِ، لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا] (ابن ماجہ)
یہ وہ بات ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی مانند روشن ہے، اتنی
روشن، حقیقی اور سچی بات سے کوئی مسلمان از روئے عقیدہ، از روئے عقل و دانش اس کا انکار
نہیں کرسکتا۔
آخری بات کس کی؟
آخری بات کس کی ہونی چاہیے، کلمہ ہم نے کس کا پڑھا ہے ؟ امتی
ہم کس کے ہیں ؟ کسی امام کے نہیں … کسی فقیہ کے نہیں … کسی عالم کے نہیں … کسی مولوی
کے نہیں … کسی محدث کے نہیں … ہم محمد رسول اللہe کے امتی ہیں۔ یہ ہمارا فخر اور اعزاز ہے، دنیا میں اس
سے بڑا اعزاز کسی کے لئے موجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ بات ہے جو دنیا اور آخرت
میں حقیقی فائدہ پہنچانے والی بات ہے اور اگر دنیا میں نہیں تو آخر ت کا فائدہ یقینی
ہو گا۔ ان شاء اللہ !
آپ کی ذات اقدس اور بات کے ہوتے ہوئے، نہ کسی کی ذات کی اہمیت
ہے اور نہ کسی کی بات کی اہمیت ہے۔ اللہ کے رسولe کی اطاعت اس لئے کہ وہ در حقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ اسے
بھی ہم نے اپنے الفاظ سے بالواسطہ طور پر نہیں نکالا بلکہ یہ بھی قرآن کریم کے واضح
الفاظ ہیں :
﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ﴾ (النسآء)
جو اللہ کے رسولe کی
بات کو مانتا ہے، وہ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کی بات مان رہا ہوتا ہے۔ اصل میں یہ اطاعت‘
اللہ کی اطاعت ہے۔ اس لئے کہ بات پھر وہی آگئی کہ آپ کی بات اپنی تو ہے ہی نہیں،
آپ کی بات تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔
جب صحابہ کرام نے دین کی اصل،
بنیاد، اور روح کو سمجھا تو پھر انہوں نے ہر بات میں دیکھا کہ نبیe کا
فرمان اور طریقہ کیا ہے ؟ انہیں جو معمولی سی بات بھی نبیe کے
طریقے سے ہٹی ہوئی نظر آئی، اس کو انہوں نے مسترد کر دیا، اس کو انہوں نے کبھی قبول
نہیں کیا، ان کے نزدیک دین کی بنیاد اور روح یہی چیز تھی جس کی آپ e نے
تصدیق کی وہ دین ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دین اور شریعت نہیں۔
ممتاز فقیہ سیدنا عمرؓ کا فتوی:
سیدنا فاروق اعظم tکعبۃ اللہ کا طواف کر رہے ہیں کہ آپ نے ایک سوال اٹھایا اور
خود ہی اس کا بڑا پیارا جواب دیا۔ سوال سننے سے پہلے ایک لفظ کو سمجھنا پڑے گا۔ ایک
طریقے کو جو عمرے حج یا طواف میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے
سعادت دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ آدمی مکہ کا سفر کرتا ہے طواف عمرے یا حج کے لئے جاتا
ہے، جو پہلا طواف کیا جاتا ہے، جس کو شریعت کی اصطلاح میں طواف کہتے ہیں، طواف کے ساتھ
چکر ہوتے ہیں، ان سات میں سے پہلے تین چکر اگر گنجائش ہو، ہجوم نہ ہو، ممکن ہو تو ذرا
مرد (عورتیں نہیں)بھاگ کر، دوڑ کر، ذرا اکڑ کر، چستی اور چالاکی سے پہلوانوں کی طرح
لگاتے ہیں۔
اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے کہ صلح کے بعد عمرہ کے لئے رسول
اکرمe اپنے
ساتھیوں کے ہمراہ تشریف لے گئے، مکے کے کافر سائیڈ پر بیٹھ کر دیکھ رہے تھے۔ انہوں
نے مسلمانوں کی لاغر حالت دیکھ کر کہا کہ یہ ہیں تو ہمارے ہم وطن، لیکن یہ مدینے جا
کر آٹھ نو برس وہاں کی آب و ہوا میں رہ کر کمزور ہو گئے ہیں۔ پہلے یہ ہم سے لڑتے
رہے، جیتتے بھی رہے۔ لیکن اب آٹھ نو برس کی مدت نے ان کو کمزور کر دیا ہے۔ مدینے کی
آب وہوا انہیں راس نہیں آئی‘ اب اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اب یہ ہمارے سامنے ٹھہر
نہیں سکیں گے، اب اگر کوئی جنگ ہوئی، تو ہم ان کو اچھا سبق دیں گے۔
جب انہوں نے آپس میں یہ کہا تو بات مسلمانوں تک پہنچ گئی اور
ہوتے ہوئے اللہ کے رسولe تک
پہنچی، اور اللہ کے رسولe باقی
خوبیوں کے ساتھ ساتھ، بہترین عسکری قائد، جرنیل، انسانی نفسیات کے بہترین عالم بھی
تھے۔
آپe نے
فرمایا کہ اگر دشمن کے دل میں بات ہے تو اس سے اس کا حوصلہ بڑھے گا اور میرے ساتھیوں
کا حوصلہ اس سے کم ہو گا۔ جنگ میں جہاں اور چیزیں ہیں وہاں حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔
اس لئے آپe نے
فرمایا ساتھیو ! ان کے ذہن سے یہ بات نکالنی چاہیے، اس کے نکالنے کا آپ نے یہ طریقہ
تجویز کیا، فرمایا کہ طواف شروع کرو تو پہلے تین چکر چستی اور چالاکی کے ساتھ، (وہ
چال جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں جسے تکبر کی چال بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اگر عمرہ
کرنے والا یا حاجی ان چکروں میں اور مجاہد میدان جنگ میں اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ
پسند کرتا ہے۔)ذرا مضبوط پہلوانوں اور کڑیل جوانوں کی طرح چل کر دکھا ؤ، تاکہ ان کے
ذہن سے یہ فتور نکل جائے۔
ایک ایک چیز کو ادا کرنے کے لئے بیسیوں الفاظ اور اس میں سے
جو باریک فرق ہوتے ہیں ان باریک فرقوں کو ادا کرنے کے لئے بھی الفاظ، کہ آہستہ چال
کو کیا کہنا ہے، اس سے تیز کو کیا کہنا ہے اور اس سے تیز کو کیا کہنا ہے اس چال کو
’’رمل‘‘کہتے ہیں۔
سیدنا عمر tنے سوال اٹھایا کہ آج اس طواف کے تین چکروں میں ہم پہلوانوں
کی تیز (رمل کی)چال کیوں چلتے ہیں ؟ ہم نے تو یہ چال چلی تھی مشرکوں کو دکھانے کے لئے،
ان کے ذہنوں سے یہ غلط فہمی دور کرنے کے لئے کہ کیا ہم کمزور ہیں، اس کا تو وہ تاریخی
پس منظر ہے، اس کی تو ایک وجہ تھی … آج تو … وجہ موجود نہیں، آج تو وہ وجہ ختم ہو
چکی ہے۔
مشرک ختم ہو چکے ہیں، وہ مسلمان ہو کر ہمارے ساتھ مل چکے ہیں
یا میدان جنگ میں قتل کر دئیے گئے ہیں‘ اب تو کوئی مشرک باقی نہیں رہا۔ یہ سیدنا عمرt کے
اپنے دور کی بات ہے، آپ نے اس وقت یہ سوال اٹھایا کہ آج ہمیں یہ چال چلنے کی کیا
ضرورت ہے ْ اب ساتھی سن رہے ہیں ان کو سنانا اور سمجھانا ہی مقصود تھا۔ وہ خاموش ہیں‘
آپ نے سوال کے بعد خود ہی بڑا پیارا اور تاریخی جواب دیا، جو سنہری الفاظ میں لکھنے،
دل میں بٹھانے اور یاد رکھنے والا ہے۔ فرمایا:
[لَا نَتْرُکُ شَیْئًا
فَعَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ] (البدایة والنہایة)
ایک عمل جس کو ہمارے نبی eنے کیا ہم اسے چھوڑنا کبھی بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ
آج موجود ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ ہمیں معلوم ہے یانہیں، اللہ کے رسول کا عمل ہے۔ آپe نے
کیا اور پھر اس کے بعد منع نہیں کیا کہ اب مزید اس کی ضرورت نہیں۔ اس لئے یہ قیامت
تک اسی طرح ہوتارہے گا، جس طرح اللہ کے رسولe نے کیا۔
ادائیں پسند آ گئیں:
ا س سے ایک طرف یہ بھی سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول e کی
ادائیں اور باتیں اور کئے ہوئے کام اتنے پسند آئے، آپ e تو
اللہ کے پیارے اور آخری رسول e ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کاموں کو اسی طرح پسند کرتا ہے۔
صفامروہ کی جو سعی کی جاتی ہے یہ کس کی یاد گار ہے ؟ وہ تو پیغمبر
اور رسول بھی نہیں تھیں، سیدہ ہاجرہ ایک اولوالعزم، بہادر، حوصلہ مند اور نیک خاتون
تھیں، صرف ایک نبی اسماعیل uکی والدہ، اور ایک نبی ابراہیم uکی بیوی تھیں۔ وہ با حوصلہ خاتون تھیں، جنہوں نے اپنے محترم
خاوند سے پوچھا :
’’اس لق و دق صحرا،
اور بے آب و گیاہ زمین میں ہمیں کس کے سہارے پر اور کیوں چھوڑ کر جا رہے ہو ؟ ‘‘ تو
سیدنا ابراہیم eنے فرمایا : ’’مجھے
میرے اللہ نے حکم فرمایا ہے۔ ‘‘
یہاں پر اس کا گھر بسنا ہے، یا جو بھی اس کی حکمت ہے اس نے کہا
ہے تو سیدہ ہاجرہr نے
عرض کیا :
اگر یہی بات ہے تو پھر وہی ہماری حفاظت کرے گا۔ جاؤمیںتمہیں اللہ کے سپرد کرتی
ہوں، اور وہ باحوصلہ خاتون کہ جب بچہ تڑپ رہا تھا، پیاس سے بلک رہا تھا، تب بھی کوئی
شکایت اس کے لب پر نہیں آئی کہ اللہ تو نے ہمیں کہاں لا کر پھینک دیا ہے ؟ خاوند بھی
تیرے حکم سے چھوڑ کر چلا گیا، یہاں کون ہمیں پانی پلائے گا ؟ اور کون ہماری خوراک کا
بندوبست کرے گا ؟
وہ ایمان والی خاتون اپنے بچے کی خاطر، دو پہاڑوں کے درمیان
جس جذبے، ایمان، حوصلے، اور صبر کے ساتھ دوڑی، اللہ تعالیٰ کو وہ ادا اتنی پسند آئی
کہ آج تک جو وہاں جاتاہے اس کے بغیر اس کا حج ہی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں
سے پیار ہے اور ان کی اداؤں سے بھی پیار کرتا ہے۔
شاہکار رسالت کاانوکھا انداز:
اللہ کے رسولe کا
رمل‘ اس طریقے کے بارہ میں سیدنا عمر tنے سوال اٹھایا کہ کیوں کرتے ہو؟ جواب دیا کہ یہ اللہ کے رسولe کی
سنت ہے۔ آپe نے
اسے کیا ہے، اس لئے ہم اسے چھوڑنا کبھی بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔
اسی طرح آپt نے
طواف کے دوران ایک اور بات بھی کی وہ بھی بڑی یاد رکھنے والی بات ہے، آپt نے
حجر اسود کو مخاطب کیا:
[أَعْلَمُ أَنَّکَ
حَجَرٌ لاَ تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ]
تو ایک پتھر ہے، پتھر کے سوا کچھ اور نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا
ہوں کہ تو میرا معبود نہیں۔ معبود ہونا تو دور کی بات ہے میں تجھے اپنے کسی نفع اور
نقصان کا مالک بھی نہیں سمجھتا۔ تو مجھے نہ کوئی نقصان پہنچا سکتاہے، تیرے ہاتھ میں
کچھ بھی نہیں اور آگے فرمایا:
[وَلَوْ لَا أَنِّیْ
رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ.] (بخاری)
اگر میں نے یہ نہ دیکھا ہوتا کہ اللہ کے رسولe نے
تیرا بوسہ لیا ہے یا تجھے ہاتھ لگایا ہے تو میں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا، تجھے کبھی
بھی نہ ہاتھ لگاتا۔
یہ دین کی اصل اور بنیاد ہے کہ اللہ کے رسولe نے
جو کیا، جس کا حکم دیا‘ اس پر بلا چوں وچراں عمل کیا جائے۔ اسی کے تحت حجر اسود کو
چومنا اور ہاتھ لگانا ہے۔ محدثین نے بہت سی باتیں کی ہیں، لیکن ان باتوں میں کوئی حکمت
اور فلسفہ ضرور موجود ہے۔ یہ تھا صحابہ کرام] کا عقیدہ اور اسی پر صحابہ کا عمل تھا
جیسے میں نے اس کی مثال دی ہے کہ جس چیز کو انہوں نے اسوہ رسولe کے
مطابق سمجھا اپنے علم و اطلاع کی روشنی میں جو چیز اسوہ رسولe کے
مطابق تھی وہ ان کے نزدیک دین، اسلام اور شریعت تھی۔ جو چیز اسوہ رسولe سے
ہٹی ہوئی تھی وہ ان کے نزدیک نہ شریعت تھی، نہ دین تھی، نہ اسلام تھی، اس کو سمجھے
اور اس طریقے پر عمل کئے بغیر کوئی شخص مومنوں کی راہ پر نہیں آسکتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی اس اصل، بنیاد اور روح کو سمجھنے کی
تو فیق عطا فرمائے اور اطاعت نبویe کے
مطابق اپنا عقیدہ، عمل بنانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہمت عطا فرمائے اور
اپنی اور اپنے رسولe کی
مخالفت سے بچائے۔ ویسے تو کوئی مسلمان نہیں کہتاکہ میں مخالف ہوں، کون کہہ سکتاہے ؟
کہ میں اللہ اور اس کے رسولe کی
مخالفت کرتا ہوں۔ لیکن عمل گواہی دیتا ہے کہ ہمارا عمل کیا ہے ؟ اور ہمارا دعویٰ کیا
ہے؟
اگر ہم اللہ اور اس کے رسولe کی مخالفت سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر دین کی اسی اصل
کو پہچاننا ہوگا، اس کو اپنانا ہوگا کہ جو چیز اللہ اور اس کے رسولe کے
دائرے سے باہر ہے، وہ دین نہیں۔ دین صرف وہ ہے جو آپe کی سنت ہے۔
No comments:
Post a Comment