سیدنا عبداللہؓ بن ام مکتوم
تحریر: مولانا عبدالمالک مجاہد
عبداللہ بن ام مکتوم
tمکہ مکرمہ کے باسی تھے اور خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔آپ
اللہ کے رسولe کی
سب سے پہلی اور غم گسار زوجہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔والد
کا نام قیس بن زائدہ تھا۔ والدین نے ان کا نام الحصین رکھا تھا ‘ مگر اللہ کے رسول
e نے
بدل کر عبد اللہ رکھ دیا۔ آپ کی والدہ اُم مکتوم کانام عاتکہ بنت عبد اللہ تھا۔
سیدنا عبد اللہt قدیم
الاسلام تھے۔سابقون اولون میں شامل تھے۔ امیدوں کے چراغ جلانے والے ‘ پیدائشی نابینا
ہونے کے باوجود بڑے پر عزم اور با ہمت تھے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریمe کا
دیدار نہیں کیا مگر آپ کے فرمودات وارشادات دل کی گہرائی سے سنے اور آپe کے
پیغام کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ مکہ مکرمہ سے سب سے پہلے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے جانے والے
مصعب بن عمیرt تھے۔
سیدنا عبد اللہ بن ام مکتوم کو جب علم ہوا کہ اللہ کے رسول eنے اپنے صحابہ کرام
کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے تو آپ بلا تاخیر اپنا وطن‘ برادری اور
گھر بار چھوڑ کر مدینہ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ آپ نے اپنا دین بچایا اورباقی سب کچھ
اللہ کی خاطر چھوڑ چھاڑ کر مدینہ کے لیے روانہ ہو گئے۔سیدنا مصعب بن عمیرt کے
بعد دوسری شخصیت جسے ہجرت مدینہ کا شرف حاصل ہوا‘ عبداللہ بن ام مکتومt تھے۔
اللہ کے رسولeنے ان کو مسجد نبوی کا مؤذن بھی مقرر فرمایا۔ مسجد نبوی کے
سب سے پہلے مؤذن سیدنا بلال بن رباحt تھے۔یہ
دونوں حضرات باری باری اذان اوراقامت کہتے ۔ اگر اذان عبد اللہ دیتے تو اقامت بلال
کہتے۔ اسی طرح اگر اذان بلال دیتے تو اقامت عبد اللہ کہتے۔ بعد میں اللہ کے رسول نے
ارشاد فرمایا: جو شخص اذان کہے‘ وہی اقامت کہنے کا زیادہ حقدار ہے۔ رمضان المبارک کے
دوران سحری کی پہلی اذان سیدنا بلال بن رباحt دیا کرتے تھے۔ آپ e نے ارشاد فرمایا: جب بلال اذان دے تو سحری کھانا شروع
کر دیا کرو اور جب عبداللہ بن أم مکتوم اذان دیں تو کھانا پینا چھوڑ دو کیونکہ سحری
کا وقت ختم ہو گیا۔
عبداللہ بن أم مکتومt اسلام کے شیدائی اور اللہ کے رسولe سے
شدید محبت کرنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں آپ سے ملنے کے لیے حاضر
ہو جاتے۔ اللہ کے رسولe نے
ان کو بعض ایسے اعزازات سے نوازا جو بہت کم صحابہ کو حاصل ہوئے ہیں۔ آپe غزوات
یا دوسرے امور کے لیے مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تو مدینہ شریف میں انہیں اپنا
قائم مقام مقرر کر کے جاتے۔ بات سمجھنے کے لیے کہ جب جنگ ہوتی ہے تو سارے لوگ تو جنگ
پر نہیں جا سکتے۔ ان میں بیمار ضعیف ‘ بوڑھے‘ بچے عورتیں سبھی شامل تھے۔ مدینہ منورہ
کی حفاظت کے لیے بھی بعض صحابہ کو چھوڑا جاتا تھا۔ ان کو نمازیں پڑھانے کے لیے عبداللہ
بن ام مکتومt کو
مقرر کیا جاتا۔ مدینہ طیبہ میں بطور امام ان کی تقرری سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ
نابینا امام کی امامت درست ہے‘ وہاں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ ایک ریاست تھی
جس کے سربراہ اللہ کے رسولeتھے۔ جب آپ e مدینہ
کو چھوڑتے تو عبداللہ بن ام مکتومt کو بھی کئی مرتبہ یہ اعزاز ملتا کہ مدینہ کے قائم مقام
والی بنتے۔ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھانے کے علاوہ ریاست مدینہ کے انتظامی امور کی سرپرستی
اور قیادت کے فرائض بھی سر انجام دیتے تھے۔ انہیں تیرہ مرتبہ یہ اعزاز ملا کہ وہ مدینہ
کے قائم مقام والی بنے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاد فرض کیا تو عبداللہ بن ام مکتوم کی بڑی
خواہش تھی کہ کاش وہ بینا ہوتے تو وہ بھی جہاد میں حصہ لیتے ۔ اللہ کی راہ میں قتال
کرتے اور شہید کا رتبہ پاتے۔
اللہ کے رسولeکی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق t کا دور شروع ہوا جو محض دو سال‘ دو ماہ اور دس دن کے
بعد ختم ہو گیا۔ سیدنا عمر فاروق t کا دور آیا تو فارس اور روم کے خلاف جہاد میں اور تیزی
آ گئی۔سیدنا ابوبکر صدیقt اس
حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ اسلامی حکومت بڑی مستحکم ہو چکی تھی۔ مسلمان دنیا پر
چھا رہے تھے۔ روم و ایران کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں۔
سیدنا ابوبکر صدیقt کے آخری دور میں معرکہ یرموک ہوا۔ شام کی سرحد کے قریب
اردن میں یرموک چھوٹا سا دریا ہے۔ اس کے کنارے یہ تاریخی جنگ ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی
تعداد 36000ہزار اور رومیوں کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار تھی۔ دشمن چار گنا
زیادہ تھا‘ مگر اس کے باوجود اس نے بری طرح شکست کھائی۔ اس کے 70 ہزار
فوجی ہلاک ہوئے ۔ مسلمانوں کے شہداء کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔
میں جوبات قارئین کو بتانا چاہتا ہوں وہ رومی بادشاہ ہرقل کے
تاریخی الفاظ تھے جو اس نے شکست کے بعد اس علاقہ کو چھوڑتے وقت کہے تھے۔ یہ علاقہ اس
زمانے میں سوریا کہلاتا تھا۔ یہ چار ممالک ’’اردن ‘ فلسطین‘ لبنان اور موجودہ سوریا
(شام) کا مجموعہ تھا جسے شام کہا جاتا تھا۔
یہاں رومیوں کی حکومت تھی۔ ہر قل کے حسرت ویاس کے عالم میں کہے ہوئے الفاظ: [وَدَاعًا یَا سُورِیَا وَدَاعًا لَا لِقَائَ بَعْدَہُ] الوداع اے سوریا! الوداع‘ ایسا الوداع کے جس کے بعد کبھی تمہارے
ساتھ ملاقات نہ ہو سکے گی۔
ایک طرف مسلمان رومیوں پر فتح حاصل کر رہے ہیں۔ شام کی فتح کے
دروازے کھل چکے ہیں۔ دوسری جانب مسلمان عراق کو فتح کرنے کے پروگرام کو آخری شکل دے
رہے ہیں کیونکہ ایرانی مسلمانوں کے خلاف حملے کی تیاری کر چکے تھے۔ مدینہ منورہ میں
مجاہدین کی آمدجاری ہے ۔ کوچوں اور بازاروں میں مجاہدین چلتے پھرتے نظر آ رہے ہیں۔
مدینہ شریف کے گرد و نواح اور بازار گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازوں سے گونج رہے ہیں۔ شہر
میں مناخہ کے میدان میں مجاہدین اسلام جنگی کرتب سیکھ رہے ہیں ۔ ورزشیں ہو رہی ہیں۔
مناخہ کا میدان مسجد نبوی کے دائیں طرف واقع تھا۔ یہاں لوگ تجارت بھی کرتے اور ا سی
کے ساتھ ساتھ مجاہدین کرتب بھی دکھاتے تھے۔ مجاہدین قادسیہ جانے کی تیاریوں میں مشغول
تھے۔ سیدنا عبداللہ بن ام مکتومt آنکھوں
سے نابینا ضرور ہیں‘ مگر دل کے بینا ہیں۔گو کہ ان کے پاس بصارت نہیں‘ مگر بصیرت سے
مالا مال ہیں۔ وہ غیر معمولی حد تک سمجھ دار ہیں۔ ان کے قوائے جسم اور دل کے ارادے
بہت مضبوط ہیں۔ رگوں میں قریشی خون دوڑ رہا ہے ۔ وہ اسلام کے لیے بے شمار خدمات انجام
دے چکے ہیں۔ جب مدینہ طیبہ میں جہاد کی ہلچل
سنی تو صحابہ کرام سے پوچھتے ہیں: یہ میں کیا آوازیں سن رہا ہوں؟ بتایا گیا کہ امیر
المؤمنین عمر بن خطابt مجاہدین
کا رخ ایران کی طرف کرنے والے ہیں۔ اب وہ کسریٰ کی طاقت سے ٹکرانے جا رہے ہیں۔ ان کا
حکم ہے جو شخص بھی تلوار اٹھانے اور قتال کرنے کی طاقت وصلاحیت رکھتا ہے اسے معرکہ
قادسیہ کے لیے نکلنا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ام مکتومt تھوڑا سا سوچتے اور غور کرتے ہیں۔ اللہ اللہ! اس کی
راہ میں نکلنا اور جہاد کرنا‘ پھر غازی بن کر لوٹنا یا شہادت کے بلندمرتبے پر فائز
ہو جانا۔ سبحان اللہ! کیااس سے بڑھ کر بھی کوئی سعادت ہو سکتی ہے؟ انہیں اللہ کے رسولeکا فرمان یاد آ
جاتا ہے۔ شہید کو قیامت کے روز بہت سے اعزازات سے نوازا جائے گا۔
خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کے سارے گناہ معاف
کر دیے جائیں گے۔ جنت میں جائے گا تو 72 حوروں
سے اس کی شادی کر دی جائے گی۔
سیدنا عبداللہ بن ام مکتومt نے دنیا میں کسی عورت کو تو دیکھا نہیں کہ وہ دنیا میں
آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے‘ مگر تمنا اور خواہش تھی کہ جنت میں حوروں کو دیکھ
سکیں گے۔ حور کے بارے میں انہیں معلوم تھا کہ اس کے سر کی چادر دنیا جہان کے قیمتی
خزانوں سے بہتر ہو گی۔ شہید کو قیامت کے روز وقار کا تاج پہنایا جائے گا۔
جنت کی تمنااور اس کا حوصلہ دل میں لیے ابن ام مکتومt‘ سیدنا عمر بن خطابt کی
طرف چل دیے۔ سیدنا عمر فاروقt کی
مجلس میں پہنچے‘ اذن باریابی طلب کیا جو فورا دے دیا گیا۔ یہ کون ہیں؟ یہ کوئی عام
شخصیت تو نہیں۔ یہ وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے لیے قرآن پاک میں سورۃ عبس کی پہلی آیات
نازل کی گئی تھیں۔
سیدنا عمر فاروق tنے انہیں مرحبا کہا۔ ان کا شایان شان استقبال کیا جا رہا ہے۔
مرحبًا وأھلًا و سھلًا عبداللہ بن ام مکتوم! فرمائیے‘ آپ کا میرے پاس کیسے آنا ہوا؟
ترحیبی جملے ادا ہو رہے ہیں۔ خیرسگالی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن ام
مکتومt کہہ
رہے ہیں: امیرالمؤمنین! میں نے سنا ہے کہ آپ مجوسیوں سے ٹکر لینے کے لیے قادسیہ کے
میدان میں مجاہدین کو ارسال کر رہے ہیں۔
سیدنا عمر فاروقt نے
جواب میں فرمایا: ہاں عبداللہ! آپ نے درست سنا ہے۔
میں بھی اس لشکر کے ساتھ قادسیہ کے میدان میں جانا چاہتا ہوں۔
انہیں کون انکار کر سکتا تھا۔ امیر المؤمنین بھی ان کی دل سے
عزت کرتے تھے ۔ عبداللہ بن ام مکتومt تو
اندھیروں میں روشنی کے چراغ جلانے والے تھے۔ عزم و ارادے کے پہاڑ‘ عبداللہ بن ام مکتومt امیر
المؤمنین عمر بن خطابt کو
اپنی پلاننگ بتا رہے ہیں۔فرماتے ہیں: مجھے اسلامی لشکرکے ہمراہ بھجوا دیں۔زرہ پہنا
کر صفوں کے درمیان کھڑا کر دیں۔ اسلام کا جھنڈا‘ محمد عربی eکا جھنڈا‘ لا إلہ
إلا اللہ کا جھنڈا میرے ہاتھ میں پکڑ ا دیں۔ کہنے لگے: میں تو نابینا آدمی ہوں‘ وہ
اپنی خوبی امیر المؤمنین کو بتا رہے ہیں۔ کبھی نابینا نے بھی جنگ لڑی ہے؟!کبھی کسی
نے دیکھا کہ ایک نابینا کے ہاتھ میں لشکر کا جھنڈا ہو‘ مگر شہادت کا مشتاق دین اسلام
کا یہ سپاہی سیدنا عمر فاروق t کو
قائل کر رہا ہے۔ اپنی خوبی بیان کر رہا ہے کہ نابینا تو میدان جنگ سے نہیں بھاگتا۔
مجھے تو معلوم ہی نہیں ہو گا کہ جنگ میں فتح کسے ہو رہی ہے۔ کون مرد میدان ہے۔ میں
کیسے بھاگ سکتا ہوں؟ امیر المؤمنین! جس کے ہاتھ میں جھنڈا ہے اگر وہ قائم رہے‘ اپنی
جگہ پر ڈٹا ہوا ہے تو اس سے مجاہدین کو حوصلہ ملے گا۔ ہاں! اگر میں جھنڈے کی حفاظت
کرتے ہوئے شہید ہو جاتا ہوں یا مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے ‘ہر حال میں صف اول میں
کھڑا رہوں گا۔ امیر المؤمنین عمر بن خطابt ان کے دلائل کے سامنے خاموش ہیں۔ یوں بھی یہ کوئی عام
صحابی تونہیں ہیں‘ یہ سابقون أوَّلون میں سے ہیں۔ اللہ نے ان کو نور بصیرت عطا فرمایا
ہے۔
یہ دن مدینہ منورہ کی تاریخ کا بڑا روشن اور سنہرا دن ہے جب
مجاہدین قادسیہ کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ امیر المؤمنین خود اس لشکر کو الوداع کہہ
رہے ہیں۔ مجاہدین کی تعداد چالیس ہزار ہے۔ ان چالیس ہزار میں سیدنا عبداللہ بن ام مکتومt بھی
شامل ہیں۔ مایوس لوگوں کو عزیمت کا درس دینے والے‘ کامیابی کی راہ دکھانے والے ‘ بزدلوں
کوشجاعت کا سبق دینے والے عبداللہ بن ام مکتومt سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے قادسیہ کی طرف رواں
دواںہیں۔
قادسیہ کا مقام عراق میں نجف سے جنوب مغرب کی طرف 50 کلومیٹر
کی مسافت پر واقع ہے۔ اس لشکر کی قیادت سیدنا سعد بن ابی وقاصt کر
رہے ہیں۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ قریشی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ کے رسولe کے
جھنڈے تلے کتنی ہی بار بہادری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ ان کے ماتحت قعقاع بن عمرو تمیمی‘
مثنیٰ بن حارثہ‘ شرحبیل کندی اور جریر بن عبداللہ بجلیy جیسے
کمانڈر موجود ہیں۔ مسلمان مجاہدین کی صفیں ترتیب دی جا رہی ہیں۔ عبداللہ بن ام مکتومt کے
لیے خصوصی زرہ کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ انہیں جنگی لباس پہنا کر صف میں کھڑا کیا جاتا
ہے۔ ان کے ہاتھ میں جھنڈا پکڑا دیا جاتا ہے۔ یہ تو لا إلہ إلا اللہ کا جھنڈا ہے۔ بعض
روایات کے مطابق انہوں نے یہ کہا تھا کہ مجھے زمین میں گڑھا کھود کر گاڑ دیا جائے تاکہ
میں اپنی جگہ سے ادھر ادھر حرکت نہ کر سکوں۔
سیدنا عبداللہ بن أم مکتومt آپ کتنے خوش نصیب ہیں؟ آپ کے حصے میںکس قدر بڑی سعادت
آئی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں اسلام کا جھنڈا دے دیا گیاہے ۔ نجانے وہ جھنڈا کتنا اونچااور
لمبارہا ہو گا۔
قادسیہ کی جنگ کوئی معمولی جنگ نہ تھی۔ مجوسیوں اور مسلمانوں
کے درمیان یہ فیصلہ کن معرکہ تھا جس نے کسریٰ کی سلطنت کو پاش پاش کر دیا۔ قادسیہ کی
جنگ چار دن تک جاری رہی ۔ تیسرا دن بہت ہی اہم اور ہولناک تھا۔ دونوں طرف سے بہادروں
نے خوب جم کر لڑائی کی۔ تاریخ نے اس دن کا نام یوم عماس رکھا ہے اور عماس کا معنی شدید
اندھیرا بنتا ہے۔ یہ نام شاید اس لیے رکھا گیا کہ فریقین کے گھوڑوں کے قدموں سے اس
قدر گرد و غبار اٹھا کہ اندھیرا چھا گیا۔ ایرانی اپنے ہمراہ ہاتھی بھی لائے تھے۔ ان
کی نئے سرے سے ترتیب لگائی گئی۔ ان کی رسیوں کو اور زیادہ مضبوط کیا گیا‘ مگر مسلمان
کمانڈروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ انہوں نے ان ہاتھیوں کو بھی مار بھگایا اور وہ
اپنے ہی لشکر پر چڑھ دوڑے۔ مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے فتح مبین سے نوازا۔ یہ پہلا
معرکہ تھا جس میں مسلمان مجاہدین بڑی تعداد میں شہید ہوئے۔ مؤرخین کے مطابق مسلمان
شہداء کی تعداد آٹھ ہزار پانچ سو تھی ۔ ان شہداء میں ایک مقدس خون سیدنا عبداللہ بن
ام مکتومt کا
بھی تھا۔ معرکہ ختم ہو چکا ہے۔ فارس کے مشہور کمانڈرز رستم اور جالینوس قتل ہو چکے
ہیں۔ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ چکا ہے۔ مسلمان ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اس کے مقتولین
کی تعداد چالیس ہزار تھی۔
مسلمان جنگ کے دوران بھی نماز اداکرتے ہیں۔ اذان کا وقت ہو چکا
ہے۔ مؤذن کی تلاش ہے اور مؤذن بھی وہ ہے جسے اللہ کے رسولeنے مؤذن مقرر کیا تھا ان کا نام عبداللہ بن ام مکتومt ہے۔
سیدنا بلالt کے
بعد دوسرا بڑا مؤذن‘ ان کی آواز نجانے کتنی خوبصورت اور بلند ہو گی جو مدتوں مسجد نبوی میں گونجتی رہی۔
انہیں دائیں بائیں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مگر وہ نظر نہیں آ رہے۔
زخمیوں میں بھی نہیں ہیں۔ شہداء میں تلاش کرنے کے لیے مجاہدین بھاگ پڑتے ہیں۔ ان کے
پاس تو جھنڈا تھا جب ان کے مقدس جسم کو تلاش کر لیتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ مسلم
فوج کا جھنڈا ان کے جسم کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ وہ خون سے تر ہو چکا ہے ۔ صاف نظر آ
رہا ہے کہ آخری وقت تک انہوں نے جھنڈے کی خوب حفاظت کی ہے۔ غور سے دیکھا تو معلوم
ہوا کہ دشمن کے ایک گھوڑے نے انہیں کچل ڈالا ہے۔ ان کے چہرے میں تیر بھی پیوست ہے۔
عبداللہ بن ام مکتومt وفات پا گئے… نہیں! اللہ کی قسم! وہ فوت نہیں ہوئے‘
بلکہ وہ تو شہید اور زندہ ہیں۔
{وَلَا تَحْسَبَنَّ
الَّذِینَ قُتِلُوا فِي سَبِیلِ اللَّہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ
یُرْزَقُونَ} (آل عمران)
’’جو لوگ اللہ کی
راہ میں قتل کیے گئے ہیں انہیں ہر گز مردہ نہ سمجھو‘ وہ تو زندہ ہیں اپنے رب کے پاس
رزق پا رہے ہیں۔‘‘
ان کا مقدس جسم دنیاوی لحاظ سے فوت ہو گیا تاکہ جنت الرحمن میں
اڑتا پھرتا رہے اورمزے کرے۔
قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ انہیں یہ مقام اور یہ مرتبہ
کیوں ملا؟ اس لیے کہ انہوں نے اپنا ایک ہدف مقرر کیا تھا ۔ ان کے سامنے ایک مشن تھااور
وہ تھا شہادت پانے کا ھدف… انہوں نے ہم جیسے لوگوں کے لیے اور قیامت تک کے لوگوں کے
لیے مثال چھوڑی۔ مثال یہ تھی کہ دنیا والو! کسی شخص کا نابینا ہوجانا ا س کے مشن اور
ہدف کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ مایوس لوگو! جو ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہو جاتے
ہو‘ شکوے کرنے لگ جاتے ہو‘ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہو ‘کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس
نہ ہونا۔ اپنے مشن اور محاذ پر ڈٹے رہنا‘ اس کے لیے جان دے دینا‘ مگر دنیا والوں سے
یہ کبھی نہ کہنا: ہمیں فلاں عارضہ تھا‘ اس لیے ہم کامیاب نہ ہو سکے۔ اپنے مشن میں کامیاب
ہونے کے لیے تمہیں بہت آگے جانا ہے۔
ایک مرتبہ ابن ام مکتومt‘ اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر تھے۔
آپ نے پوچھا: عبد اللہ! تمہاری بینائی کب چلی گئی تھی؟ عرض کی: جب میں لڑکا تھا۔ فرمایا:
خوش ہوجاؤ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میںدنیا کی زندگی میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں
لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کی جزاء جنت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم! تاریکیوں میں روشنی کی علامت ہیں۔
آہنی عزم اور بلند ہمتی کی اعلیٰ مثال ہیں۔
ان شاء اللہ ان کے روحانی فرزند ان کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔
No comments:
Post a Comment