حج کے مقاصد
تحریر: جناب مولانا حافظ عبدالرشید
اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور بندوں کے لئے منتخب شدہ مذہب
اور اس کی تعلیمات بھی پاکیزگی اور روحانیت کا مظہر ہیں۔ ارکان اسلام کی یہ خصوصیت
نمایاں ہے کہ ہر رکن روحانیت و طہارت نفس کی ترغیب دینے اور اس پر گامزن کرنے کا ایک
بہترین ذریعہ ہے۔ حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے اور انہی اعلیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر
اللہ تعالیٰ نے اسے ہر اس مسلمان پر فرض قرار دیا ہے جو بیت اللہ الحرام تک جانے کے
تمام وسائل رکھتا ہو اور اسے حج ادا کرنے کی مکمل استطاعت ہو اور حج کے لئے نکلنے سے
قبل اپنے سفر کے ایام میں اپنے اہل خانہ کے گزر بسر کا بھی انتظام کر سکے۔
اگر ہم حج کے ارکان و افعال پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ حج
نہایت اعلیٰ اخلاقی قدروں اور بلند ترین روحانی مسرتوں کے حصول کے لئے فرض قرار دیا
گیا ہے۔ آئیے ذرا ان مقاصد پر نظر ڈالیں تا کہ ہم ان سے بصیرت حاصل کریں اور اپنے
اعمال کو ان مقاصد کے حصول کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دے سکیں۔ جب عازم حج توشۂ سفر
اکٹھا کرتا ہے تو اس کے پیش نظر یہ بات رہتی ہے کہ اس کی تیاری اور زاد راہ حلال کمائی
سے جمع کیا ہوا ہو، کیونکہ حرام مال خرچ کر کے کی گئی عبادت اللہ تبارک و تعالیٰ قبول
نہیں فرماتے۔ لہٰذا اس کی یہ تیاری اور استعداد آخرت کے لئے توشہ اندوزی کی بھی یاد
دلائے اور تقویٰ شعاری کو اپنا شیوہ بنائے۔
تیاری کی ابتداء میں جو چیزیں سب سے اولین ترجیح پاتی ہیں ان
میں سے ایک چیز احرام کی چادریں بھی ہیں جو کفن سے مشابہ ہوتی ہیں، احرام خریدتے وقت
حاجی یہ بھی ذہن نشین رکھے کہ ایک دن اسے ایسی ہی چادروں میں لپیٹ کر قبر کے حوالے
کر دیا جائے گا۔ لہٰذا اسے کفن اور آخرت کی یاد بھی دل میں اتارنی چاہیے تا کہ معاصی
اور گناہ سے خود کو دور رکھ سکے اور نیکیوں کی طرف سبقت کا جذبہ پیدا ہو۔
ساری تیاریاں مکمل کر لینے کے بعد سفر حج کا مرحلہ آتا ہے،
حج کا یہ سفر آخرت کے سفر کی یاد دہانی کا ذریعہ ہے، دنیا کو دار عمل سمجھ کر آخرت
کی تیاری کی فکر کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے۔ پھر جب حاجی میقات پر پہنچ کر احرام باندھ
لیتا ہے اور تلبیہ پکارتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی نداء پر لبیک کہتا ہے جس نے اس حج
کی دعوت دی ہے اور اس پر حج فرض کیا ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کا لبیک کہنا،
اللہ کی دعوت پر حاضرہونا، اللہ کے یہاں مقبول ہو، مسترد نہ کر دیا جائے۔ سلف صالحین
اس بات کا خاص اہتمام کرتے تھے کہ ان کا تلبیہ پکارنا، اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا شرف
قبولیت سے نوازا جائے۔ چنانچہ سفیان بن عیینہa بیان فرماتے ہیں کہ علی ابن الحسینw نے
حج کیا تو جب احرام باندھ چکے اور چاہا کہ تلبیہ کہیں تو ان کے چہرے کی رنگت زرد پڑ
گئی، سانس اکھڑ گئی، لرزہ براندام ہو گئے اور تلبیہ زبان سے ادا نہ کر سکے۔ جب ان سے
اس کا سبب پوچھا گیا کہ تلبیہ کیوں نہیں پکار رہے ہو تو فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کہیں
میں تلبیہ پکاروں اور وہ مسترد نہ کر دیا جائے اور مجھ سے کہا جائے کہ ’’لا لبیک ولا
سعدیک‘‘ پھر جب تلبیہ پکارا تو ان پر غشی طاری ہو گئی اور اپنی سواری سے گر پڑے، اس
ایک جگہ نہیں بلکہ پورے حج کے دوران یہی کیفیت رہی اور اسی حالت میں حج مکمل کیا۔
مکہ میں داخل ہوتے وقت حاجی کے ذہن میں یہ بات جاگزیں رہے کہ
وہ ایک مقدس اور پرامن حرم میں داخل ہو رہا ہے، اس جگہ کی عظمت کا اسے بخوبی اندازہ
رہے، اس کی تعظیم اور امن و امان کی رعایت کرے اور یہ احساس پیدا کرے کہ خود وہ اس
پر امن ماحول سے مستفید ہو رہا ہے اور اپنے نفس کو کسی بھی شیطانی وسوسے سے محظوظ رکھے۔
عازم حج جب بیت اللہ کا طواف شروع کرے تو یہ سمجھ لے کہ وہ نماز
میں ہے کیونکہ بیت اللہ کا طواف بھی نماز ہی کی طرح ہے گرچہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ
نے گفتگو اور بات چیت کی اجازت دے دی ہے۔ لہٰذا پورے خشوع و خضوع اور حضور قلب کے ساتھ
طواف کرے اور اللہ جل سبحانہ کی عظمت کا اندازہ کرے جس کے گھر کے طواف میں وہ فی الوقت
مصروف ہے۔ کیونکہ جس قدر خشوع و خضوع اور تعظیم الٰہی کے ساتھ وہ طواف کرے گا اسی قدر
اس کا اثر اس کے اخلاق و سلوک پر ظاہر ہو گا اور اس کے اطمینان قلب کا سامان بنے گا
اور آخرت میں اللہ رب العزت کی رؤیت کی سعادت حاصل ہوگی۔
طواف کی سنتیں:
طواف قدوم میں یہ سنت ہے کہ شروع کے تین چکروں میں تھوڑی تیزی
کے ساتھ چلا جائے۔ بخاری و مسلم نے عبداللہ بن عباسt سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمeاور صحابہ کرام
جب مکہ آئے تو مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کر دیا تھا، یہ دیکھ کر مشرکین مکہ نے
کہا کہ تمہارے درمیان ایک ایسی قوم آ رہی ہے جنہیں مدینہ کے بخار نے لاغر کر دیا ہے
اور وہاں انہیں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، مکہ آ کر صحابہ کرام حجر اسماعیل
(حطیم) کے پاس بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی کریمe نے انہیں شروع کے تین چکروں میں تیز چال کے ساتھ چلنے
کا حکم دیا تا کہ کفار مکہ ان کی قوت و عزم کا مشاہدہ کر سکیں۔ یہ دیکھ کر کفار مکہ
نے کہا کہ ان لوگوں کے بارے میں ہم سوچ رہے تھے کہ مسلمان مدینہ کے بخار سے متاثر ہیں
حالانکہ یہ لوگ تو بہت طاقتور ہیں۔ ابن عباسw کا بیان ہے کہ لوگوں پر آسانی کرتے ہوئے اللہ کے رسولe نے
انہیں ساتوں چکروں میں رمل کا حکم نہیں دیا تھا۔ محمد بن اسحاقa بیان
فرماتے ہیں کہ ابن عباسt کہا
کرتے تھے: لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ رمل کی سنت ان کے لئے واجب نہیں اور وجہ
یہ تھی کہ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہe نے یہ محض کفار مکہ کو دکھانے کے لئے کیا تھا ان کے
طعنوں کے جواب میں، لیکن جب آپ نے حجۃ الوداع میں اس کا التزام کیا تو یہ ایک سنت
کی حیثیت سے باقی رہا۔
حج کے موقع پر اب عازم حج جن مقامات کا رخ کرے گا اسے لوگوں
کی بھیڑ سے سابقہ پڑے گا، ایسے موقع پر اسے احترام مسلم اور اذیت رسانی سے گریز کرتے
ہوئے بڑی ہی انکساری اور ایثار کا ثبوت دینا ہو گا تا کہ وہ کسی مسلمان کو اپنی ذات
سے ایذاء پہنچانے سے بچ سکے اور یہ بھیڑ اور دشواریاں اسے روز محشر کی یاد دلانے کا
باعث ہوں۔ ایسے ہی جب وہ منیٰ اور عرفات میں حج کے اعمال کی انجام دہی کے لئے سورج
کی تمازت اور دھوپ کی حدت سے دوچار ہو تو قیامت کے دن کی گرمی کے بارے میں غوروفکر
کرے جب سورج سوا نیزے کی بلندی پر ہو گا اور ہر شخص اپنے گناہوں کے بقدر پسینے میں
غرق ہوگا، سو وہ اس سے نجات کا ذریعہ تلاش کرے۔
اللہ پر ایمان کو تقویت حاصل ہونا:
تمام ہی عبادتوں کا مقصد بندے کے ایمان کو جلا بخشنا اور اس
میں اضافہ کرنا ہے۔ حج کا بھی یہی مقصود اولین ہے کیونکہ اعمال صالحہ سے ایمان میں
اضافہ ہوتا ہے اور معاصی سے کمی واقع ہوتی ہے۔ حج میں چونکہ بکثرت ان ماثور دعائوں
کا ورد ہوتا ہے جو ایمان کو جلا بخشتی ہیں اور اس میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا
عازم حج کو ان دعائوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان سے اعمال میں ایک دلفریب روحانیت
پیدا ہوتی ہے اور حج کے اعمال پوری دل جمعی کے ساتھ ادا کرنے اور اللہ کی عظمت کا احساس
کرنے کی لذت حاصل ہوتی ہے۔
بہت سے حجاج کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ رمی جمرات (شیطانوں کو کنکری
مارنے) کے لئے کسی کو اپنا نائب بنا کر اس عبادت کی روحانیت سے محروم رہتے ہیں۔ انہیں
چاہیے کہ وہ بذات خود اس عبادت کو انجام دیں تا کہ ان دعائوں کی برکت سے مستفیض ہو
سکیں جو رمی جمرات کے لئے پڑھی جاتی ہیں۔
اخلاق کی شائستگی:
حج کا ایک مقصد اخلاق کو شائستہ اور مہذب بنانا بھی ہے‘ ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
{الْحَجُّ اَشْہُرٌ
مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ
فِیْ الْحَجِّ} (البقرۃ)
یعنی جس نے حج کے مہینوں (شوال، ذی قعدہ یا ذی الحجہ) میں حج
کا احرام باندھا، اسے عورتوں سے ہم بستری، شہوت کی باتیں اور ان میں رغبت دلانے والے
دیگر افعال سے کنارہ کش رہنا پڑے گا۔ تا آنکہ وہ دسویں ذی الحجۃ کو رمی جمرۂ عقبہ،
بال منڈوانا، قربانی کرنا اور طواف افاضہ وغیرہ اعمال کو انجام نہ دے لے۔ ساتھ ہی وہ
تمام طرح کی معصیت سے بھی اجتناب کرے، حرم شریف کی حرمت کی پاسبانی کرے تا کہ وہ گناہوں
سے بچنے کا خوگر اور عادی ہو جائے اور ہر وقت اسے اللہ کا خوف ذہن نشین رہے۔ بعض لوگ
سمجھتے ہیں کہ حج صرف فرض اور واجب مناسک کی ادائیگی کا نام ہے اور وہ احسان و سلوک
کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، حالانکہ راہ حج کے مسافر کو اس کا خاص التزام کرنا چاہیے۔
اسی لئے دیکھا جاتا ہے کہ ایک گروپ میں آئے ہوئے حجاج کے درمیان تنازعے اور خودپسندی
جنم لے لیتی ہے۔ روح ایثار و قربانی دم توڑ دیتی ہے، حالانکہ اگر وہ واقعی اللہ کی
مغفرت کے طالب ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں کو ایذا پہنچا کر یہ مقصد حاصل
نہیں ہو سکتا۔ اگر راستہ مزدحم ہو جائے اور بھیڑ میں صرف چند ہی لوگوں کے گزرنے کی
گنجائش ہو تو ہر شخص کی کوشش یہ ہو کہ جذبہ ایثار سے سرشار ہو کر اپنے دینی بھائی کو
مقدم کر دے۔ خاص کر جو بوڑھے اور کمزور لوگ ہوں انہیں اگر ایسا نہ کر سکے تو حق اور
انصاف کے ساتھ ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلیں، دھکا مکی سے اجتناب کریں۔ اسی طرح حج
کے ارکان کی ادائیگی کے وقت جہاں بھی ازدحام اور مجمع ہو وہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ
لینی چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی کو ہلاکت سے نجات دلانا اپنے ارکان کی ادائیگی سے
افضل ہے کیونکہ اس عبادت کو تو وہ تھوڑے وقفے کے لئے مؤخر کر سکتا ہے لیکن اگر اپنے
مسلمان بھائی کی جان بچانے میں دیر کی تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے
کہ کچھ لوگ محض ناسمجھی کی بنا پر لوگوں کی ہلاکت کا بذات خود باعث بنتے ہیں۔ اس طرح
وہ کون سی عبادت انجام دے رہے ہیں کہ اپنے ہی بھائیوں کو دائیں بائیں دھکیلتے جا رہے
ہیں؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے بعض عازمین حج اور اسلامی بھائی حج کی تعلیمات
سے مکمل آشنائی نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں اس کے بلند مقاصد کا اندازہ ہے۔ وہ یہ
نہیں جانتے کہ حج تو بڑی الفت و محبت اور دینی ہمدردی کے جذبے سے معمور ہو کر انجام
دی جانے والی عبادت ہے۔ کمال حج تو یہ ہے کہ آپ تمام راحت و آرام کے اسباب کی فراہمی
میں اپنے مسلمان بھائی کو خود اپنی ذات پر بھی ترجیح دیں، حج کا لازمی مقصد یہ ہے کہ
آپ اپنے مسلمان بھائی کے حقوق اسے پہنچائیں اور ان کی پامالی کا باعث نہ بنیں۔
اخوت اسلامیہ کا استحکام:
پنجگانہ نماز، جمعہ، عیدین، ان تمام عبادتوں کے ذریعہ اسلامی
اخوت و بھائی چارے کو ایک نئی روح فراہم کرتی ہے۔ نماز کے بعد مصلیان مسجد آپس میں
ملتے جلتے اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے ہیں اور اس طرح ان کے آپسی تعلقات مضبوط
ہوتے ہیں، دلوں میں ایک دوسرے کی محبت اور ایمانی اخوت جاگزیں ہوتی ہے۔ جمعہ کی نماز
میں یہ اور وسعت اختیار کر لیتی ہے، عیدین کے موقع پر تو بڑے پیمانے پر اس اخوت کا
مشاہدہ ہوتا ہے۔ حج میں تو یہ منظر پوری دلفریبی لئے ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا
ہے جب سارے مسلمان پوری دنیا سے پہنچ کر مشاعر مقدسہ میں یکجا ہو جاتے ہیں۔
ذکر الٰہی کا اہتمام:
احرام باندھنے کے بعد قاصد حج سب سے پہلے تلبیہ پکارتا ہے:
[لبیک اللھم لبیک
لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک]
اس دعا کے ذریعہ حاجی اللہ تبارک و تعالیٰ کی پکار پر سر تسلیم
خم کرتا ہے اور اس کے دربار میں حاضری دے کر توحید کا علم بلند کرتا ہے کیونکہ کفار
مکہ تلبیہ پکارتے وقت اپنے معبودان باطلہ کو اللہ کی توحید میں ساجھی اور شریک بنا
دیتے تھے۔ توحید کی یہ سعادت اور اقرار و اعلان حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے
ہر مسلمان کو تاحیات ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور شدائد و مصائب کا سامنا ہونے پر کبھی
بھی غیر اللہ سے حاجت روائی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ تلبیہ کے اندر جس اخلاص اور للہیت
کا عہد آپ نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اگر آپ نے اسے پورا کیا اور کسی اور کے لئے عاجزی
اور انکساری کا ثبوت دیا نہ کسی گناہ کی طرف قدم بڑھائے، نہ کسی اور کی بات مانی تب
تو آپ نے حج مقبول ادا کیا۔ لیکن اگر آپ اپنی خواہشات کے بندے ہو کر رہ گئے، صراط
مستقیم سے منحرف ہو گئے تو آپ نے اللہ سے کئے گئے عہد کی بدعہدی کی اور حج مقبول ادا
نہیں کیا۔
توحید باری تعالیٰ سے منحرف کرنے میں جس چیز کا سب سے زیادہ
دخل ہوتا ہے وہ خواہشات نفسانی ہیں کیونکہ جب انسان ان کے تابع ہو جاتا ہے، شریعت کے
احکام کی قدر اور ان کا پاس و لحاظ نہیں رکھتا تو وہ خواہشات کو اپنے تمام سلوک و برتائو
پر حکمرانی بخش دیتا ہے پھر وہ اللہ کا بندہ نہیں بلکہ ان خواہشات کا غلام بن کر رہ
جاتا ہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{اَرَاَیْْتَ مَنِ
اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوَاہُ اَفَاَنتَ تَکُونُ عَلَیْْہِ وَکِیْلاً} (الفرقان: ۴۳)
اور خواہشات نفسانی کی پیروی کا انجام بڑا عبرتناک ہوتا ہے،
اللہ کا ارشاد ہے:
{وَلَوِ اتَّبَعَ
الْحَقُّ اَہْوَاء ہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَن فِیْہِنَّ} (المومنون:
۷۱)
ذکر و دعا کی جہاں تک بات ہے تو اس کا سب سے عمدہ اور افضل ترین
وقت عرفہ کا دن ہے جب نویں ذی الحجہ کو حاجی میدان عرفات میں ظہر و عصر کی نماز جمع
تقدیم کر کے ادا کرنے سے فارغ ہو جائے، اس وقت سے لے کر غروب آفتاب تک مسلسل ذکر و
دعا میں مصروف رہنا چاہیے، یہی رسول اکرمe کی سنت ہے۔ آپe کا فرمان ہے:
[أفضل الدعاء یوم
عرفۃ وأفضل ما قلت أنا والنبیون من قبلی لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔] (موطا
امام مالک ح:۲۴۶)
آپ نے ظہر و عصر کی نماز سے فراغت کے بعد تمام تر وقت ذکر و
دعاء میں مشغول رہ کر گزارا اور فرمایا:
[خذوا عنی مناسککم]
لہٰذا عرفہ کے دن کی ان گھڑیوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی یا
آپس میں بات چیت کی نذر نہ کی جائے کیونکہ کسے پتہ کہ اسے زندگی میں دوبارہ یہ موقع
نصیب ہو گا کہ نہیں؟
غروب آفتاب کے بعد حجاج کا قافلہ عرفات سے مزدلفہ کی جانب کوچ
کرتا ہے تا کہ وہاں مغرب و عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع تاخیر کر
کے ادا کرے اور پھر اللہ کے ذکر، دعاء و استغفار میں لگ جائے کیونکہ یہی حکم باری تعالیٰ
ہے:
{فَاِذَا اَفَضْتُم
مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُواْ اللّٰہَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوہُ کَمَا
ہَدَاکُمْ وَاِن کُنتُم مِّن قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ} (البقرۃ: ۱۹۸)
اور مزدلفہ ہی مشعر حرام ہے‘ ابواسحاق سبیعی عمرو بن میمون سے
روایت کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمروt سے پوچھا کہ مشعر حرام کیا ہے تو آپ خاموش رہے حتیٰ
کہ جب ہماری سواریاں مزدلفہ میں بیٹھ گئیں تو فرمایا کہ سائل کہاں ہیں؟ یہی مشعر حرام
ہے۔ حافظ ابن کثیرa بیان
فرماتے ہیں کہ مزدلفہ کو مشعر حرام اس لئے کہا گیا کیوں کہ وہ حدود حرم میں داخل ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام عازمین حج کو ان مقاصد کو سمجھنے اور ان کو
تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے، سنت صحیحہ کی روشنی میں ہمارے اعمال کی انجام
دہی کرائے، ہمیں دین کا خادم و داعی بنائے اور ہماری تمام عبادتوں کو شرف قبولیت عطا
کرے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment