Sunday, July 21, 2019

سیرت سیدنا ابراہیم﷩ 28-2019


سیرت سیدنا ابراہیم ﷤

تحریر: جناب مولانا امیر افضل اعوان
امام الانبیاء وخلیل اللہ سیدنا ابراہیمu وہ عظیم المرتبت ہستی اور برگزیدہ نبی ہیں کہ جن کی تمام زندگی حق وباطل کی جنگ میں گزری۔ بڑے بڑے امتحان آئے مگر آپ نے حکم خداوندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بڑی روشن مثالیں قائم کیں۔ آتش نمرود ہویا اپنے لخت جگر کو خود سے دور کرنے کا حکم، فرعون وقت کے مظالم ہوں یا اسماعیلu جیسے بیٹے کو راہ حق میں ذبح کئے جانے کا کڑا امتحان آپu نے ہر موقع پر امر الٰہی کو مقدم رکھتے ہوئے اس طرح قدم بڑھائے کہ آج نہ صرف یہ کہ دنیا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتی نظر آتی ہے بلکہ قرآن کریم میں بھی اللہ رب العزت ان کا ذکر بھی قابل تقلید انداز میں فرماتا ہے:
’’کہو ، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے ، تم کو یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے ، اور ابراہیم شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔‘‘ (آل عمران: ۹۵)
یہاں ملت ابراہیم سے مراد دین کی اصولی باتیں ہیں جو ہر نبی پر نازل کی جاتی رہیں، مثلاً صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، اسے وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کے سوا کسی دوسری قوت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا۔ اللہ کو ہی حرام و حلال قرار دینے کا مختار سمجھنا، اخروی سزاوجزا کے قانون پرانبیاء کرامo کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اعتقاد رکھنا شامل ہے۔ قرآن کریم کی سورہ الاحزاب، آیت۲۱ میں جہاں مخلوق خدا کی اصلاح وراہنمائی کے لئے رسول کریم e کو بہترین نمونہ قرار دیا گیا وہیں سیدنا ابراہیمu بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’مسلمانو! تمہارے لئے ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الممتحنہ: ۴)
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ رب العزت ارشاد فرما ہیں کہ
’’اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے مگر وہی جس کی عقل ماری گئی ہو، اور ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہ) صالحین میں (شامل) ہوگا۔‘‘ (البقرہ: ۱۳۰)
اس آیت کے شان نزول بارے علم ہوتا ہے کہ علماء یہود میں سے سیدنا عبد اللہ بن سلامt نے اسلام لانے کے بعد اپنے دو بھتیجوں مہاجر و سلمہ کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں فرمایا ہے کہ میں اولاد اسمٰعیل سے ایک نبی پیدا کروں گا جن کا نام احمد ہوگا جو ان پر ایمان لائے گا راہ یاب ہوگا اور جو ایمان نہ لائے گا ملعون ہے،یہ سن کر سلمہ ایمان لے آئے اور مہاجر نے اسلام سے انکار کردیا تھا۔
قرآن کریم میں بھی سیدنا ابراہیمu کا خصوصی ذکر موجود ہے اور قرآن کریم سے قبل موجود آسمانی کتابوں توریت اور انجیل میں بھی آپu کا تذکرہ کیا گیا، توریت کی رو سے آپu ۲۲۰۰ قبل مسیح عراق کے قصبہ ’’اُر‘‘ میں پیدا ہوئے، توریت میں آپu کے والد کا نام تارخ لکھاہے جب کہ قرآن کریم میں ’’آزر‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا۔ تفسیر کنز ایمان (خزائین العرفان) میں مذکور ہے کہ سیدنا ابراہیمu کی ولادت سرزمین اہواز میں بمقام سوس ہوئی پھر آپ کے والد آپu کو بابل ملک نمرود میں لے آئے۔
سیدنا ابراہیمu کی ولادت اس زمانہ میں ہوئی جب ہر طرف بت پرستی اور مشرکانہ رسوم و روایات پورے عروج پر تھیں، خود آپu کے والد بھی بت تراش اور بت فروش تھے مگر خالق کائنات نے ان کے دل میں شرکیہ امور سے نفرت وبے زاری کوٹ کوٹ کر بھر رکھی تھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے باپ آزر اور قوم کو بت پرستی سے روکتے اور ایک خدا پر ایمان لانے کا درس دیا کرتے مگر ان پر چنداں اثر نہ ہوتا۔ ان کے باپ نے ان کے ساتھ انتہائی سخت رویہ اختیار کئے رکھا یہاں تک کہ انہیں گھر سے نکال دیا‘ اس کے باوجود آپ راہ حق پر ثابت قدم رہے اور لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس قوم کا سالانہ ایک میلہ لگتا تھا‘ جنگل میں جاتے تھے اور شام تک وہاں لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے ، واپسی کے وقت بت خانہ میں آتے تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اس کے بعد اپنے مکانوں کو واپس جاتے تھے۔ جب سیدنا ابراہیمu نے ان کی ایک جماعت سے بتوں کے متعلق مناظرہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ کل کو ہماری عید ہے آپ وہاں چلیں دیکھیں کہ ہمارے دین اور طریقے میں کیا بہار ہے اور کیسے لطف آتے ہیں ، جب وہ میلے کا دن آیا اور آپ سے میلے میں چلنے کو کہا گیا تو آپ عذر کر کے رہ گئے۔
مخلوق خدا کو شرک سے بازرکھنے اور حق و باطل کی تفریق واضح کرنے کے لئے سیدنا ابراہیمu نے بت خانے کے تمام بت توڑ ڈالے۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میں مذکور ہے کہ
’’چنانچہ بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو ابراہیمu نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ وہ اس (بڑے بت)کی طرف رجوع کریں، وہ کہنے لگے، ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کردیا، بلاشبہ وہ بڑا ظالم ہے، (بعض) لوگ کہنے لگے کہ ہم نے ایک نوجوان کو ان بتوں کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ؑہے، وہ کہنے لگے پھر اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ دیکھ لیں (کہ ہم اس سے کیا کرتے ہیں)، (جب ابراہیم ؑآگئے تو) انہوں نے پوچھا، ابراہیم ؑ! ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے، ابراہیم ؑنے جواب دیا، نہیں بلکہ ان پر بڑے (بت) نے ہی یہ کچھ کیا ہوگا،  لہٰذا انہیں (ٹوٹے ہوئے بتوں) سے ہی پوچھ لو، اگر بولتے ہوں۔‘‘ (الانبیاء: ۵۸-۶۳)
سیدنا ابراہیمu  کے اس جواب پر مشرکین سے کچھ نہ بن پڑا، اس باب میں قرآن کریم میں راہنمائی ملتی ہے کہ
’’پھر لا جواب ہو کر شرم کے مارے سرنگوں ہوگئے، اور کہنے لگے (یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ یہ (بت) بولتے نہیں، (اس پر) ابراہیم ؑنے کہا، پھر کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں۔‘‘ (الانبیاء: ۶۵-۶۶)
مشرکین پر آپu کی وعظ و نصیحت بے اثر رہی، قرآن کریم میں آتا ہے کہ
’’وہ بولے، اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو ابراہیمu کو جلا ڈالو، اور (اس طرح) اپنے معبودوں کی امداد کرو۔‘‘ (الانبیاء: ۶۸)
نمرود اور اس کی قوم سیدنا ابراہیمu کو جلا ڈالنے پر متفق ہو گئی اور انہوں نے آپ کو ایک مکان میں قید کر دیا اور قریہ کوثی میں ایک عمارت بنائی۔ ایک مہینہ تک قِسم قِسم کی لکڑیاں جمع کیں اور ایک عظیم آ گ جلائی اور ایک منجنیق (گوپھن) کھڑی کی اور آپ کو باندھ کر اس میں رکھ کر آ گ میں پھینکا۔
سیدنا ابراہیمu نے جب کھلم کھلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شروع کی اور بت خانے میں گھس کر بتوں کو توڑ ڈالاتو ایک طوفان برپا ہوگیا۔ اس وقت سیدنا ابراہیمu کو بادشاہ وقت کی طرف سے طلب کیا گیا۔ اس وقت نمرود نامی یہ شخص عراق کا بادشاہ تھا اور اس کا دارالخلافہ بابل تھا جہاں آج کل کوفہ آباد ہے،گرچہ اس واقعہ کی بابت بائبل میں کوئی اشارہ نہیں ملتا مگر تلمود میں یہ پورا واقعہ موجود اور بڑی حد تک قرآن پاک کے مطابق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ سیدنا ابراہیمu کا باپ نمرود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے کا منصب رکھتا تھا، تو ان کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا۔ چونکہ ایک طویل عرصہ سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لئے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی، سرکشی‘ تکبر، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا، قرآن کریم میں سیدنا ابراہیمu اور فرعون کے درمیان اس صورتحال کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ
’’کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی۔ جب ابراہیمu نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ کہا ابراہیمu نے بیشک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ‘ تب وہ کافر حیران رہ گیا اور اللہ بے انصافوں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (البقرہ: ۱۵۸)
سیدنا ابراہیمu سے جب نمرود نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی کہ میرا رب زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کرتا ہے، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں، یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا کر دیا۔ اس حوالہ سے بعض روایات ہیں کہ ایک بے قصور آدمی کو بلاوجہ قتل کروا دیا اور ایک ایسے قیدی کو جسے سزائے موت ہو چکی تھی آزاد کر دیا۔ اس موقع پر سیدنا ابراہیمu کہہ سکتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو اس مردہ شخص کوزندہ کرکے دکھا مگرنمرود کی پست ذہنی سطح کو جان کر سیدنا ابراہیمu  نے اس کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ وہ کسی بھی صورت اس کی مشابہت یا دسترس کا دعویٰ نہ کرسکے۔
سیدنا ابراہیمu کو آگ میں ڈالے جانے کے حوالہ سے قرآن کریم میں مذکور ہے کہ ’’ (مگر) ہمارا حکم ہوا:
’’اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی (بن جا) ابراہیمu کے لئے۔‘‘ (الانبیاء: ۶۹)
مفسرین کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابراہیمu کو الاؤ میں ڈالا جانے لگا تو جبریل حاضر ہوئے اور کہا کہ ’’کہو توآپ کی مدد کروں۔‘‘ سیدنا ابراہیمu نے کہا ’’مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں، مجھے میرا اللہ کافی ہے۔‘‘ پھر جبریل نے کہا: ’’اچھا اپنے اللہ سے دعا ہی کرو۔‘‘ سیدنا ابراہیمu نے فرمایا: ’’میرا اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور مجھے یہی کافی ہے۔‘‘ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مخلص بندے کی یوں مدد فرمائی کہ آگ کو حکم دے دیا کہ ’’ابراہیم ؑکے لئے ٹھنڈی ہو جا مگر اتنی ٹھنڈی بھی نہیں کہ ٹھنڈک کی وجہ سے ابراہیم کو تکلیف پہنچے بلکہ صرف اس حد تک ٹھنڈی ہو کہ ابراہیم آگ کے درمیان صحیح و سالم رہ سکیں۔‘‘ یہ آگ جو کئی دنوں میں دہکائی گئی تھی اور سیدنا ابراہیمu کو بھی کئی دن اس آگ میں رکھا گیا مگر آپu کا بال بھی بیکا نہ ہوا، جو رسیاں آپu کی مشکیں باندھنے کے لئے استعمال کی گئیں وہ تو جل گئیں مگر آپu کے جسم کو کچھ گزند نہ پہنچا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیمu بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ دن کیا آرام و راحت کے دن تھے جب میں آگ میں رہا تھا۔
سیدنا ابراہیمu کی ہجرت کا واقعہ بھی بہت ایمان پرور ہے کہ جب آپu مصر پہنچے تو سیدہ سارہr کو ایک ظالم بادشاہ فرعون نے قید کردیا، اس حوالہ سے ایک حدیث مبارکہ میں منقول ہے:
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا: ’’ابراہیم نے سارہ کے ساتھ ہجرت کی‘ ان کو لے کر ایسی آبادی میں پہنچے جہاں باشاہوں میں سے ایک بادشاہ یا ظالم حکمرانوں میں سے ایک ظالم حکمران رہتا تھا‘ اس سے بیان کیا گیا کہ ابراہیم یہاں ایک خوبصورت عورت لے کر آئے ہیں‘ آپ کے پاس اس نے ایک آدمی دریافت کرنے کو بھیجا کہ اے ابراہیم!یہ عورت تمہارے ساتھ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: میری بہن ہے پھر حضرت ابراہیم لوٹ کر سارہ کے پاس گئے اور کہا کہ میری بات کو جھوٹا نہ کرنا میں نے لوگوں کو بتایا کہ تو میری بہن ہے‘ واللہ اس زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں اور سیدہ سارہ کو اس بادشاہ کے پاس بھیج دیا‘ وہ بادشاہ سیدہ سارہ کے پاس گیا وہ کھڑی ہوئیں اور وضو کر کے نماز پڑھی اور دعا کی کہ اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنی شرمگاہ کی بجز اپنے شوہر کے حفاظت کی ہے تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر تو وہ بادشاہ زمین پر گر کر خر اٹے لینے لگا یہاں تک کہ پاؤں زمین پر رگڑنے لگا۔ اعرج کہتے ہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمنt نے بیان کیا کہ سیدنا ابوہریرہt نے کہا سیدہ سارہr نے کہا کہ یا اللہ! اگر یہ مر جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ اسی عورت نے بادشاہ کو قتل کیا ہے‘ اس بادشاہ کی یہ حالت دور ہوئی تو پھر ان کی طرف اٹھا‘ سیدہ سارہr کھڑی ہوئیں وضو کر کے نماز پڑھی پھر دعاکی کہ اے میرے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور میں نے اپنے شوہر کے سبب سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو اس کافر کو مجھ پر مسلط نہ کر‘ وہ زمین پر گر کر خر اٹے لینے لگا یہاں تک کہ پاؤں رگڑنے لگا۔ عبدالرحمن نے بواسطہ ابوسلمہ ابوہریرہt نقل کیا کہ سارہr نے کہا یا اللہ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اس عورت نے اس کو قتل کیا اس کی یہ حالت جاتی رہی بادشاہ نے دوسری یا تیسری بار کہا کہ واللہ! تم نے میرے پاس ایک شیطان کو بھیجا اس کو ابراہیم کے پاس لے جاؤ اور (ہاجرہ) لونڈی ان کو دیدو وہ لوٹ کر سیدنا ابراہیم کے پاس گئیں تو کہا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اس کو ذلیل کیا اور ایک لونڈی خدمت کے لئے دلوائی۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲۱۲۷)
یہاں سیدنا ابراہیمu نے محض اس وجہ سے سیدہ سارہr کو اپنی اسلامی بہن سے عبارت کیا کیوں کہ وہ ظالم بادشاہ ہر عورت کو پکڑ لیتا تھا ، ہاں اگر ان عورتوں کو کچھ نہیں کہتا تھا جو اپنے باب یا بھائی کے ساتھ ہوں مگراس معاملہ میں اس کے برعکس ہوا کیوں کہ یہاں شاید قدرت الٰہی کی جلوہ نمائی مقصود تھی۔
سیدہ ہاجرہr اور بچپن میں سیدنا اسماعیلu کو خود سے دور بھجوانے میں بھی اللہ پاک کی بے پناہ مصلحتیںپنہاں ہیں، اس حوالہ سے صحیح بخاری، جلد دوم، حدیث ۶۲۲ میں سیدنا ابن عباسw سے روایت ہے‘ سیدنا ابراہیمu، سیدہ ہاجرہr اور سیدنا اسماعیلu کولے کر آئے اور وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں تو ان دونوں کو زمزم کے پاس کعبہ کے قریب ایک درخت کے پاس بٹھا دیا اور اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی‘ ابراہیمu نے انہیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی رکھ دیا۔ اس کے بعد سیدنا ابراہیمu لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم! کہاں جا رہے ہو اور ہمیں ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ (کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو؟) اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگر ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اسماعیل کی والدہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! ہاجرہ نے کہا تو پھر اللہ بھی ہم کو برباد نہیں کرے گا پھر وہ واپس چلے گئے۔‘‘ 
اس کے بعد سیدنا اسماعیلu کو ذبح کئے جانے کا فیصلہ اور اس پر عملدرآمدجہاں اپنے اندر مشیت الٰہی کے آگے سرجھکانے کا مظہر ہے وہیں سیدنا اسماعیلu کی جگہ مینڈھے کا ذبح ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔ اس حوالہ سے قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’پھر جب وہ لڑکا ابراہیم ؑکے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو ابراہیم ؑنے (اس سے) کہا، ’’بیٹا!میں خواب میں (کیا) دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو اب بتا تیری کیا رائے ہے؟‘‘ وہ بولا ’’ابا جان!آپ کو جو کچھ حکم ہوا ہے (بے تامل) اس کی تعمیل کیجئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ (الصافات: ۱۰۲)
یہاں بیٹے کی بے مثل فرمانبرداری کا بیان بھی ملتا ہے، سیدنا اسماعیلu اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہوگئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی۔ وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے، کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا، بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھامگربیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچوں وچراں تسلیم کرکے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کر لی اور اپنے پروردگار کی بھی۔
اللہ رب العزت نے سیدنا ابراہیمu کو بے پناہ آزمائشوں میں مبتلا کیا اور اس کے بعد جب وہ تمام امتحانوں میں ثابت قدم رہے تو ان کے درجات مزید بلند کردیئے گئے۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’اور جب ابراہیم (u) کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے ان سب باتوں کو پورا کردیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’میں تمہیں سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں‘‘ سیدنا ابراہیمu نے پوچھا: ’’کیا میری اولاد سے (بھی یہی وعدہ ہے؟)‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ظالموں سے میرا یہ وعدہ نہیں۔‘‘ (البقرہ: ۱۲۴)
بلاشبہ سیدنا ابراہیمu کو تمام دنیا کی امامت ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے سیدنا ابراہیمu نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں۔ اللہ پاک نے جب آپu کے درجات بلند کئے تو انہیں خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم ملا۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ
’’اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ قرار دیا (تو حکم دیا کہ) مقام ابراہیم ؑکو جائے نماز بناؤ اور سیدنا ابراہیمu اور سیدنا اسماعیلu کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔‘‘ (البقرہ: ۱۲۵)
خانہ کعبہ کی تعمیر کے حوالہ سے صحیح بخاری، جلد دوم، حدیث ۶۲۲ میں سیدنا ابن عباسw سے روایت ہے:
سیدنا ابراہیمu کچھ مدت کے بعد پھر آئے اور سیدنا اسماعیلu کو زمزم کے قریب ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے اپنے تیر بناتے پایا جب سیدنا اسماعیلu نے انہیں دیکھا تو ان کی طرف بڑھے اور دونوں نے ایسا معاملہ کیا جیسے والد لڑکے سے اور لڑکا والد سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا اے اسماعیل! اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے‘ انہوں نے عرض کیا کہ اس حکم کے مطابق عمل کیجئے‘ ابراہیمu بولے کیا تم میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟ اسماعیلu نے کہا ہاں! میں آپ کا ہاتھ بٹاؤ ں گا، ابراہیمu نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہاں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے اور آپu نے اس اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اس کے گردا گرد‘ ان دونوں نے کعبہ کی دیواریں بلند کیں اسماعیلu پتھر لاتے تھے اور ابراہیمu تعمیر کرتے تھے حتیٰ کہ جب دیوار بلند ہوئی تو اسماعیلu ایک پتھر کو اٹھا لائے اور اسے ابراہیمu کے لئے رکھ دیا‘ ابراہیمu اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور اسماعیلu انہیں پتھر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے رہے کہ اے پروردگار! ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے۔ پھر دونوں تعمیر کرنے لگے اور کعبہ کے گرد گھوم کر یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے‘‘
اللہ پاک نے سیدنا ابرہیمu کو بے پناہ آزمائشوں اور امتحانوں کے ساتھ اس دنیا میں بھی سرخرو کیا اور آخرت میں بھی ان کا مقام منفرد ونمایاں ہو گا۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن سب سے پہلے سیدنا ابراہیم ؑ کو ہی کپڑے پہنائے جائیں گے۔ اس حوالہ سے سیدنا ابن عباسw سے روایت کردہ صحیح بخاری، جلد دوم، حدیث۶۰۷ میں مرقوم ہے کہ رسول اللہ eنے فرمایا:
’’تمہارا حشر برہنہ پاء ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے ہوگا۔‘‘ پھر آپ eنے یہ آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے: ’’ہم نے ابتدا میں جس طرح پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے‘ یہ ہمارا وعدہ ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کریں گے (اور قیامت کے دن سب سے پہلے سیدنا ابراہیمu کو کپڑے پہنائے جائیں گے)۔‘‘
قرآن میں مختلف مقامات پر اْن تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے ، جن سے گزر کر سیدنا ابراہیمu نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوعِ انسان کا امام و رہنما بنایا جائے، بلاشبہ جس وقت سے حق ان پر منکشف ہوا، اس وقت سے لے کر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں کتنی چیزیں ایسی ہیں، جن سے انسان محبّت کرتا ہے، اْن میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی ، جس کو سیدنا ابراہیمu نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں ، جن سے آدمی ڈرتا ہے ، اْن میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا ، جسے انہوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)