فرضیّتِ حج کی شرائط
تحریر: جناب الشیخ محمد بن صالح
العثیمین
حج اسلام کا ایک رکن ہے جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ ارشاد
نبویؐ ہے:
[بنی الاسلام علی
خمس شہادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصوم
رمضان وحج بیت اللہ الحرام]
نبی کریم e نے
فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے: شہادت‘ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ اور حج۔‘‘
تمام مسلمان فرضیت حج پر متفق ہیں‘ کوئی مسلمان بھی حج کی فرضیت
سے اختلاف نہیں رکھتا‘ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حج فرض ہے لیکن اس کی
فرضیت کچھ شرائط کے ساتھ منسلک ہے۔
Ý ان شرائط میں پہلی چیز اسلام ہے۔ اسلام کفر کی ضد ہے‘ کافر پر نہ تو حج فرض ہے
نہ ہی اسے اس کا حکم دیا جائے گا۔ کافر سے سب سے پہلے اسلام قبول کر لینے کو کہا جائے
گا۔ اس کے بعد نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا
جائے گا۔ اس کے بعد اسلام کے بقیہ احکام کا حکم دیا جائے گا۔ اگر کوئی کافر حج کرتا
ہے تو اس کا حج صحیح نہیں ہو گا۔ اسی بناء پر ایک اہم سوال جو مشکل بن سکتا ہے وہ یہ
ہے کہ کیا تارک صلوٰۃ کا حج صحیح ہو گا؟ اور اس کا حج مقبول ہو گا یا نہیں؟ جس کا جواب
یہ ہے کہ ایسے شخص کا حج قبول نہیں ہو گا کیونکہ ایسا شخص غیر مسلموں میں شمار کیا
جائے گا۔
Þ حج کی دوسری شرط بلوغت ہے‘بلوغت صغر کی ضد ہے‘ کسی نابالغ پر حج واجب نہیں البتہ
اس کا حج صحیح ہو گا لیکن اس کی جزاء اسے نہیںملے گی۔ حج کے صحیح ہونے کی دلیل یہ حدیث
ہے کہ ایک عورت نے رسول اکرمe کی
جانب اپنے بچے کو اُٹھاتے ہوئے سوال کیا‘ اے اللہ کے رسول! کیا اس بچے کا حج ہو سکتا
ہے؟ آپe نے
فرمایا: ہاں اور اس کاثواب تمہیںملے گا۔ اکثر علماء کرام کا خیال ہے کہ انسان جب اپنے
بچے کے لیے طواف کرتا ہے تو یہ طواف اس کے لیے کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے پہلے اپنا طواف
کرنا چاہیے‘ بعد میں اپنے بچے کا طواف کرنا چاہیے۔
ß وجوب حج کی تیسری شرط ہوش وحواس جس کی ضد جنون ہے‘ اگر انسان مجنون اور مخبوط الحواس
ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہوتا‘ کیونکہ وہ مرفوع القلم ہے‘ اگرچہ وہ کسی مالدار شخص
کی اولاد ہی کیوں نہ ہو‘ ایسے مجنون شخص پر حج نہیں اور نہ ہی ہم پر لازم ہے کہ ہم
اس کا حج ادا کریں‘کیونکہ اس سے حج ساقط ہو چکا ہے جس طرح سے زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے
ارکان اس سے ساقط ہو جاتے ہیں۔
à وجوب حج کی چوتھی شرط حریت ہے جو غلامی کی ضد ہے‘غلام پر حج واجب نہیں لیکن اس
کا حج صحیح ہو گا‘ مگر اس کو جزا نہیں ملے گی۔ اس کی مثال بچے کے حج کی طرح ہے جس پر
حج واجب نہیں ہوتا۔ البتہ اس کا حج صحیح ہوتا ہے‘ لیکن اس کی جزا اسے نہیں ملتی‘ اس
کا مطلب یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد دوبارہ حج کرنا پڑے گا‘ بالکل اسی طرح غلام پر حج
فرض نہیں۔ البتہ اس کا حج صحیح ہو گا لیکن اس کے لیے کافی نہیں۔ مطلب یہ کہ اگر غلام
آزاد ہو جائے تو اسے دوبارہ حج کرنا پڑے گا اور یہی قول اکثر علماء کے نزدیک مشہور
ہے۔
á پانچویں اورآخری شرط استطاعت ہے‘ ارشاد ربانی ہے۔ [من استطاع الیہ سبیلا] اللہ
کے اس قول سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی غریب اور فقیر شخص پر حج واجب نہیں۔ الا
یہ کہ وہ مکہ سے قریب رہتا ہو اور اس کے لیے آنا جانا ممکن ہو‘ ایسے شخص پر حج واجب
ہے لیکن اگر کسی فقیر کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ سکے تو اس پر حج واجب
نہیں۔ لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسا شخص محنت اور مشقت سے کام لے کر لوگوں کے ساتھ
جائے اور حج کرے تو کیا اسے اس حج کا ثواب ملے گا یا نہیں‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر
کسی غیر مستطیع شخص نے بہت ہی مشقت اور تکلیف کے ساتھ حج کیا تو اس کا حج صحیح ہو گا
اور اسے اس کی جزا ملے گی۔
استطاعت سے مراد یہ بھی ہے کہ انسان مقروض نہ ہو کیونکہ مقروض
شخص پر غیر مستطیع ہونے کی وجہ سے حج واجب نہیں۔ قرض آدمی کاحق ہوتا ہے جو کہ حرص اور
لالچ پرمبنی ہوتا ہے اور آدمی اپنے حق میں نرمی نہیں برتتا‘اگر تم نے دنیا میںاس کا
حق ادا کر دیا تو ٹھیک وگرنہ آخرت میں تمہارے نیک اعمال سے وہ اپنے حق کی وصولی کرے
گا لیکن اللہ کا حق عفو ودرگذر پرمبنی ہوتا ہے اسی لیے مقروض شخص پر حج واجب نہیں ہوتا۔
لیکن اگرقرض کی ادائیگی قسطوں میں ہو رہی ہو تو ایسے شخص پر حج فرض ہے۔ کیونکہ وہ مستطیع
شمار ہو گا اگرچہ قرض کی رقم بہت زیادہ ہو‘ جیسے بعض لوگ جن کے قرضے کی رقم بہت زیادہ
ہوتی ہے‘ کہتے ہیں کہ میں حج کا خرچ کس طرح پورا کر سکتا ہوں جبکہ میں نے قرض کی کچھ
بھی ادائیگی نہیں کی۔ ہم کہیں گے کہ یہ نظریہ غلط ہے‘ اگر ہم ۱۰ ملین روپے قرض لیں
اور حج کا خرچ ۵ لاکھ روپے رکھیںتو ہمارے پاس قرضہ کی رقم کتنی ہو گی؟ ۱۰ ملین میںسے
صرف ۵ لاکھ کم ہو گی پھر بھی تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ تمہارے پاس حج کی استطاعت نہیں۔
پس اگر کوئی شخص ان شرائط پر پورا اترتا ہے تو اسے چاہیے کہ
حج کے لیے تاخیر کرنے کی بجائے عجلت سے کام لے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے [فاستبقوا
الخیرات] نیکیوں کی جانب دوڑ لگاؤ۔ نیز [سارعوا الی مغفرۃ من ربکم] اپنے رب کی مغفرت
کی جانب تیزی سے دوڑو۔ آپe نے
فرمایا: ’’جس نے بھی حج کا ارادہ کیا اسے چاہیے کہ جلدی کرے کیونکہ کوئی بیمار بھی
ہو سکتا ہے‘ کوئی اور ضرورت بھی اس کو لاحق ہو سکتی ہے۔ پس جب حج کے واجب ہونے کی تمام
شرطیں پوری ہوتی ہیں تو انسان کے لیے جائز نہیں کہ حج کو مؤخر کرے بلکہ اسے جلد سے
جلد حج سے فارغ ہو جانا چاہیے۔
دین اسلام یا شریعت مصطفیe سے واقفیت رکھنے والوں میں بہت کم اشخاص اس بات کی اہمیت
کو سمجھتے ہیں کہ جس طرح نماز کی توفیق ہوتے ہوئے نماز کا ترک اور صاحب نصاب ہوتے ہوئے
زکوٰۃ کا انکار انسان کو دائرہ اسلام سے باہر نکال دیتا ہے بالکل اسی طرح حج کی استطاعت
رکھتے ہوئے حج کو ادا نہ کرنا انسان کی دنیوی واخروی زندگی کے لیے وبال جان بن جاتا
ہے‘ اس بات کی اہمیت سمجھنے کے لیے نبی کریمu کی اس حدیث کو سامنے رکھیے کہ
’’جو شخص خورد نوش
کا خرچ اور بیت اللہ تک پہنچنے پر قادر ہو اور پھر بھی حج نہ کرے تو وہ ایسے ہے جیسے
یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔‘‘ (ترمذی)
دارمی شریف کی روایت ہے سیدنا ابوامامہt کہتے
ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: جس شخص کو حج سے ان چیزوں نے نہ روک رکھا ہو یعنی ظاہری حاجت‘ ظالم بادشاہ‘
خطرناک مرض تو اس کے لیے ایسے ہے جیسے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔
فرضیت حج والی
آیت پر غور وتدبر:
خالق کائنات سورۂ آل عمران آیت نمبر ۹۷ میں فرماتے ہیں:
{وَلِلّٰہِ عَلَی
النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ
اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ}
’’اور اللہ تعالیٰ کی خاطر لوگوں پر جو اس کے گھر تک پہنچنے کی
استطاعت رکھتے ہوں حج کرنا فرض ہے اور جو اس سے انکار کرے تو اللہ تعالیٰ جہان والوں
سے بے پروا ہے۔‘‘
مفسرین نے استطاعت میں مردوں کے لیے تین شرائط اور عورتوں کے
لیے چار شرائط مقرر کی ہیں۔ تین شرائط جن میں عورتیں مرد برابر ہیں وہ یہ ہیں: 1 آنے
جانے کا خرچہ 2 راستہ
پر امن 3 خطرناک
مرض نہ ہو (کہ انسان مناسک حج بالکل ادا نہ کر سکے‘ معمولی یا وقتی بیماری اس میں شامل
نہیں۔) عورتوں کے لیے چوتھی بڑی کڑی شرط محرم کی موجودگی ہے۔ ہمارے ہاں بعض لوگ حج
کو خواہ مخواہ مؤخر کر کے گنہگار ہوتے ہیں۔ مستطیع آدمی کو چاہیے کہ وہ اس فریضہ کی
ادائیگی میں عجلت سے کام لے۔
قرآن کی یہ آیت کتنی چیزیں ثابت کرتی ہے:
قرآن پاک کی آیت کی روشنی میں ہمیںلفظ استطاعت پر اپنی توجہ مرکوز کر کے پھر مسئلے
کی اہمیت کو سمجھنا ہے‘ یہ آیت ہمارے کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔
پہلا مسئلہ‘ جوان بیٹی:
شریعت نے جوان بیٹی کی شادی کے لیے مناسب رشتہ آنے تک انتظار
کی اجازت دی ہے کیونکہ بیٹی کو جوان ہونے کے بعد محض اپنے گھر سے فارغ کرنا مقصود نہیں
ہوتا بلکہ اس کی مرضی کے موافق اور شرعی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر شادی کرنا ہوتی
ہے۔ شریعت میں بیٹی کی خاطر حج لیٹ کرنے کی گنجائش نہیں۔
دوسرا مسئلہ‘ والدین سے پہلے حج کرنا:
لفظ ’’استطاعت‘‘ پر غور کریں تو شریعت میں کہیں یہ تقاضا نظر
نہیں آتا کہ جس شخص کے والدین نے حج نہ کیا ہو تو بیٹا نہیں جا سکتا۔
تیسرا مسئلہ‘ جوانی میں حج کرنا:
بے شمار نوجوان ایسے ہیں جو آپ کو یہ کہتے ملیں گے کہ ابھی ہماری
عمر ہی کیا ہے؟ بس والدین کو حج کرا دیا ہے یہ کافی ہے‘ یہ بھی سراسر غلط ہے‘ سورۂ
آل عمران کی آیت نمبر ۹۷ ہمیں دعوت فکر دے رہی ہے۔
چوتھا مسئلہ‘ کاروباری قرضدار:
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میںہزاروں لاکھوں لوگ مبتلا ہیں اور
اپنے حج کو اس وجہ سے مؤخر کرتے جا رہے ہیں کہ ہم تو قرضدار ہیں اور قرضدار پر تو
حج نہیں‘ یہ بات غلط ہے۔ حج سے صرف وہ قرضدار مستثنیٰ ہیں جنہوں نے تن کا کپڑا خریدنے
یا پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کسی سے قرضہ لیا نہ کہ اپنا کاروبار چمکانے کے لیے وہ
غریب قرضدار جس کا نان نفقہ پورا نہ ہوتا ہو اس پر تو سرے سے حج ہی فرض نہیں‘ کیونکہ
فرضیت ’’استطاعت‘‘ پر ہوتی ہے۔
پانچواں مسئلہ‘ جائیداد ہے مگر نقدی نہیں:
ایک شخص ۲۵ ایکڑ اراضی کا مالک ہے مگر نقد کچھ بھی پاس نہیں‘
ایسے شخص پر تو حج بدرجہ اولیٰ فرض ہے کیونکہ آج کل قیمت پیسے کی نہیں بلکہ جائیداد
کی ہے۔
چھٹا مسئلہ‘ بیوی بچوں کی نگرانی:
دیار غیر میں یہ مسئلہ عام ہو سکتا ہے‘ اگر ایک آدمی خلوص نیت
سے یہ سوچتا ہے کہ حج پر تو چلا جاؤں‘ بچوں کی نگرانی کون کرے گا؟ بلاشبہ بچوں کی دیکھ
بھال اس کی ذمہ داری ہے‘ لیکن اگر آدمی سنجیدگی سے کوشش کرے تو کوئی صورت نکل سکتی
ہے۔
ساتواں مسئلہ‘ چندہ مانگ کر حج کو جانا:
شریعت مطہرہ میں مانگنا ویسے ہی بڑا معیوب عمل ہے‘ چہ جائیکہ
ایک شخص لوگوں سے حج کے لیے چندہ مانگے‘ شریعت کی طرف سے اس آیت کی روشنی میںاس پر
حج ہی فرض نہیں۔
آٹھواں مسئلہ‘ گھر میں بیماری:
بعض لوگ محض اس وجہ سے حج کو التواء میں ڈال دیتے ہیں کہ ان
کے گھر میں کوئی بیمار ہے یا کسی وجہ سے ان کے عزیز ترین رشتہ دار کی طویل علالت کے
باعث ان کی گھر میں موجودگی از حد ضروری ہے۔ اس بات کا علاج وہی ہے جو مسئلہ نمبر چھ
کی وضاحت کے ضمن میں پیش کیا گیا ہے۔
نوواں مسئلہ‘ والد صاحب کا چالیسواں:
ایک صاحب نے حج کی تیاری کی‘ اتفاق سے حج پر جانے سے قبل ان
کے والد محترم انتقال کر گئے‘ ان صاحب نے یہ کہہ کر حج ملتوی کر دیا کہ ان کے والد
صاحب کا چالیسواں ابھی تک نہیں ہوا‘ وہ کیسے حج کو جا سکتے ہیں؟ یہ سراسر شریعت کے
ساتھ عدم واقفیت ہے‘ بلکہ مذاق ہے‘ وہ ایک مقدس فریضہ ادا کرنے جا رہے تھے اور اس مقدس
فریضہ کو محض اس کام کی وجہ سے ٹال دیا گیا جو شریعت میں نہ فرض ہے‘ نہ واجب‘ نہ سنت‘
نہ مستحب‘ بلکہ بدعت ہے۔ شریعت میں یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے کہ اللہ کی محبت میں تمام
محبتیں قربان کر دی جائیں۔
دسواں مسئلہ‘ وقتی قرض:
دنیا میںطرح طرح کے لوگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں جہاں کئی
لوگ بلاوجہ یا خود ساختہ وجوہات کی بناء پر حج کو مؤخر کرتے ہیں‘ وہیں کچھ اللہ کے
نیک بندے ایسے بھی ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے آپ کو حج کے لیے تیار کرنے کا بندوبست
کرتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے حج پر جانا تھا اور رقم کا بندوبست حج کے دو ماہ بعد ہونا
تھا۔ یعنی انہیں اپنی کمپنی سے کچھ بقایا جات یا بونس ملنا تھا‘ ان کا سوال یہ تھا
کہ کیا وہ کسی شخص سے قرض حسنہ تحریری طور پر معاہدہ کے ذریعے لے کر حج کو جا سکتے
ہیں اور واپسی پر جب انہیں اپنی رقم ملے گی تو وہ ادا کر دیں گے۔ قرض دینے والے کو
ان کی موت کی صورت میںبھی جب ادائیگی کی فکر نہ ہو تو ایسے شخص کا حج بالکل جائز ہو
گا۔
No comments:
Post a Comment