مسنون حج
(قسط دوم آخری) تحریر:
جناب ڈاکٹر محمد یٰسین
حج دین اسلام کا
بنیادی رکن ہے جس طرح نماز ، روزہ اور زکاۃ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔ حج کا منکر
اللہ کے ہاں کافر قرار پاتا ہے۔ جس طرح نماز ، روزے کے مسائل سیکھے جاتے ہیں ، اسی
طرح حج کے مسائل بھی سیکھنے چاہئیں، ورنہ بے علمی کی بنا پر انسان کا عمل ضائع بھی
ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ e نے
فرمایا:
[لِتَاخُذُو ا مَنَاسِکَکُم۔]
(مسلم: ۱۲۸۹)
’’تم مجھ سے حج و
عمرہ کے طریقے سیکھ لو۔‘‘
حج صرف پانچ یا چھ دن کا عمل ہے، یعنی آٹھ ذوالحج سے بارہ یا
تیرہ ذو الحج تک حج کے دن ہیں۔ ذیل میں ان کی تفصیل پیش خدمت ہے:
۸ ذوالحجہ: حج کا پہلا دن:
یہ حج کا پہلا دن ہے اسے یوم الترویہ بھی کہتے ہیں۔
احرام: یوم الترویہ کو مکہ مکرمہ میں اپنی رہائش گاہ ہی سے غسل
کر کے احرام باندھ لیں۔ احرام باندھنے سے پہلے
جسم پر خوشبو لگا سکتے ہیں۔ جوتاآرام دہ پہنیں جس سے ٹخنے ننگے ہوں۔عورتوں کا لباس
ہی ان کا احرام ہے ۔
نیت: احرام باندھ کر دو رکعت نفل نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے
بعد [اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ
حَجّا] کہیں۔ س کے ساتھ
[اِنْ حَبَسَنِیْ
حَابِسٌ فَمَحِلِّیْ حَیْثُ حَبَسْتَنِیْ]
کے کلمات بھی کہہ سکتے ہیں (چاہے اپنی زبان میں ہو): اگر رکاوٹ
پیش آگئی تو احرام کھول دوں گا/گی۔
منٰی روانگی: منیٰ جاتے ہوئے مرد بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ تلبیہ پڑھتے رہیں۔
تلبیہ کے کلمات یہ ہیں:
[لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ
لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ
وَالْمُلْکَ، لَاشَرِیْکَ لَکََ.]
اس کے علاوہ جو چاہیں اللہ کا ذکر کریں۔ آٹھ ذو الحج کو نماز
ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء اور نو ذو الحج کی فجر منیٰ میں اپنے اپنے وقت پر نماز قصر
ادا کریں ۔ اللہ کے رسول e کی
یہی سنت ہے۔
آج کل بہت زیادہ ہجوم ہونے کی وجہ سے سرکاری حج سکیم کے تحت
جانے والے یا پرائیویٹ ٹور اپریٹر ضیوف الرحمن کوبسوں کے ذریعے سات ذوالحج ہی کو منٰی
لے جانا شروع کر دیتے ہیں۔
۹ ذوالحجہ: حج کا دوسرا دن:
یومِ عرفہ: ۹ ذوالحج کوطلوع آفتاب کے بعد نماز فجر کے بعد منیٰ سے میدان ِ عرفات کی طرف
چلیںاور راستے میں تلبیہ پکارتے رہیں ۔
خطبہ حج: میدانِ عرفات میں مسجدِ نمرہ میں خطبہ حج سُننے کے لیے پہنچیں، وہاں ظہر اور عصر
کی نمازیں ظہر کے وقت ایک اذان اور دوالگ الگ اقامت کے ساتھ با جماعت اور قصر ادا کریں۔
اگر آپ مسجد نمرہ میں نہیں جا سکتے تو اپنے خیمے میں اذان دیکر با جماعت نماز کا اہتمام
کریں ۔ دونوں نمازوں کے درمیان سُنت اور نوافل
نہ پڑھیں۔ مغرب تک میدانِ عرفات میں رہیں، اللہ کا ذکرکثرت سے کریں اور دُعائیں مانگتے
رہیں ۔ انبیائے کرامo کا
کیا ہوا یہ وظیفہ
[لَا اِلٰہَ اِلّا
اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ
کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرً]
بکثرت پڑھیں۔ میدانِ عرفات میں وقوف حج کا بنیادی رکن یا’’ رکنِ
اعظم‘‘ ہے جو میدانِ عرفات میں نہ پہنچ سکا اس کا حج نہیں ہو گا۔
مزدلفہ روانگی: عرفات سے غروب آفتاب
کے بعد نمازِ مغرب ادا کیے بغیر مزدلفہ کے
لیے چل پڑیں ۔ مزدلفہ پُہنچ کر نماز مغرب کے تین فرض اور نماز عشاء کے دو فرض بطور
قصر باجماعت ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ادا کریں۔ اس رات نبی e نے
سنتیں، نوافل، وتریا نماز تہجد اد ا نہیں کی بلکہ آپ عشاء کی نمازپڑھ کر سو گئے اور
فجرکی نماز طلوعِ فجر کے بعد عام معمول سے جلدی اداکی اور طلوعِ آفتاب سے ذرا پہلے
منٰی کے لیے روانہ ہو گئے۔ جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مارنے کے لیے مزدلفہ سے صرف سات کنکریاں چن لیں۔ ایک کنکری مٹریا چنے کے دانے کے
برابر ہونی چاہیے۔
۱۰: ذوالحجہ: حج کا تیسرا دن:
اس دن کے اہم کام:
1 فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کریں، نماز کے بعد مشعر الحرام کے پاس اللہ کا ذکرکثرت
سے کریںاور طلوع آفتاب سے ذرا پہلے مزدلفہ سے منٰی جائیں۔ وہاں اپنے خیموں میں جاکر
سامان وغیرہ رکھ کر کھانا کھائیں اور تلبیہ پڑھتے ہوئے جمرات کی طرف جائیں یا ٹرین
کے ذریعے سے مزدلفہ ا سٹیشن سے جمرات چلے جائیں ۔
بڑے جمرے
کے قریب پہنچ کر تلبیہ کہنا بند کر دیں ۔ اس دن صرف بڑے جمرے کو سات کنکریاں ماریں
اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔یہاں دعاکے لیے نہ رکیں۔
2 قربانی: اگرقربانی کے پیسے جمع نہیں کروا ئے تو آپ اپنی قربانی خود ذبح کریں یا سعودی
حکومت کے زیر انتظام قربانی کرنے کی سہولت سے استفادہ کریں۔ اس صورت میں آپ کو قربانی
کے وقت کے متعلق sms کے ذریعے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ حکومت سعودیہ نے اس
سکیم کے تحت گوشت دیگر ممالک میں محفوظ طریقے سے مستحقین تک پہنچانے کا بندوبست کیا
ہوتا ہے۔
3 حلق یا قصر: ۱۰ ذوالحج کا تیسرا
کام حلق یا قصر کروانا ہے۔ حلق کروانے سے مراد پورے سر کے بال منڈوانا اور قصر سے مراد
بال قینچی یا مشین سے ترشوانا۔ رسول اللہ e نے حلق کروانے والے کے لیے تین بار اور قصرکر وانے والے
کے لیے ایک بار رحمت کی دعا کی۔ حلق کروانا افضل ہے ۔ عورتوں کا غیر محرم سے بال کٹوانا
درست نہیں۔عورتیں ایک پورے کے برابر خود ہی بال کاٹ لیں۔ قربانی اور حلق و قصر کے بعد
احرام کھول کر سادہ لباس پہن سکتے ہیں۔
4 طوافِ افاضہ: یہ طواف حج کا رکن ہے۔ اس طواف میں احرام، اضطباع اور رمل نہیں
ہوتا۔ بس با وضو ہو کر حجر اسود کو بوسہ‘ استلام یا اشارہ کر کے طواف کے سات چکر لگا
ئیں ، مقامِ ابراہیم پر دو رکعت اد اکر یں اور آب ِ زم زم پی کر صفا مروہ کی سعی کر
کے منٰی میں واپس آجائیں۔ اگر کسی وجہ سے اس دن طواف زیارت نہ کر سکیں تو ایام تشریق
(۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحج) کو کسی بھی دن کر سکتے ہیں ۔دس ذوالحج کو اگر مذکورہ کاموں کی ترتیب قائم رہ سکے تو بہتر
ہے اور اگر ان میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو رسول اللہe نے فرمایا: ’’کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔‘‘ ( صحیح
بخاری: ۱۷۲۲)
۱۱-۱۲ ذوالحجہ:
چوتھا اور پانچواں دن:
۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ کو ایّام تشریق کہا جاتا ہے۔ ان ایّام میں اللہ
تعالیٰ کا ذکر بکثرت کریں اور تینوں جمرات کو
زوال کے بعد ۷، ۷، ۷ الگ الگ کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔پہلے
اور دوسرے جمرے کو کنکریاں مار کر دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا مانگیں، البتہ تیسرے
جمرے کو ، جسے جمرہ کبریٰ کہتے ہیں،کنکریاں مار کر دعا کے لیے نہ ٹھہریں، سنت یہی ہے۔
۱۲ ذو الحجہ کو مغرب سے پہلے مکہ واپس آگئے تو آپ کا حج مکمل ہو گیا،
اگر منٰی ہی میں مغرب کا وقت ہو گیا تو ۱۳ ذوالحج کوبھی تینوں جمرات کو ۷، ۷، ۷ الگ
الگ کنکریاں مارکر واپس آئیں، کیونکہ سنت طریقہ یہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی آپ کا حج
مکمل ہوگیا ہے۔
طوافِ وداع: حج کے بعد جب وطن واپسی کا ارادہ ہو تو طواف وداع کرکے جائیں۔
یہ طواف واجب ہے۔ اگر رہ گیا تو دم لازم آئے گا جو مکہ کے مساکین تک پہنچانا پڑتا
ہے‘ حیض اور نفاس والی خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں۔
[اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
الَّذِیْ بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ]
ملحوظات:
1 ۸ ذی الحج کو
لوگ حج کا احرام بیت اللہ جا کر باندھتے ہیں اور طواف کر تے ہیں‘ یہ عمل سنت رسولe سے
یا صحابہ کے عمل سے ثابت نہیں۔ بلکہ مکہ مکرمہ میں اپنی اپنی رہائش گاہ سے ہی احرام
باندھ کر منیٰ جانے کا حکم ہے۔ سرکاری حج سکیم کے تحت سات ذو الحج کو دوپہر کے بعد
ہی بسوں کے ذریعے منٰی لے جانا شروع کر دیتے ہیں۔ منٰی جانے کے لئے کسی وقت کا تعین
نہیں، البتہ آٹھ ذو الحج کو ظہر کی نماز سے پہلے پہنچ جانا چاہیے۔منٰی میں نماز ظہر،
عصر اور عشاء کو قصر کر کے پڑھنا تمام حاجیوں کے لئے ضروری ہے، حاجی خواہ مکہ کے مقیم
ہوں یا دور سے آئے ہوں۔ حجۃالوداع کے موقع پر نبی کریمe نے
بلا استثنیٰ تمام حجاج کو نماز قصر پڑھائی اور اہل ِ مکہ کو اپنی نماز پوری کرنے کا
حکم نہیں دیا۔(مسلم، نمبر: ۶۹۶)
جبکہ
فتح مکہ کے موقع پرنبی کریم e نے
خود نماز قصر پڑھی تھی اور اہل ِ مکہ سے فرمایا تھا کہ تم نماز پوری کر لو کیو نکہ
ہم تو مسافر ہیں۔ (سُنن ابودائود: ۱۲۲۹)
2 سرکاری حج سکیم
کے تحت ضیوف الرحمٰن کو بہترین ٹرین کی سہولت دی گئی ہے ۔ میدانِ عرفات جانے کے لئے
معلم کے کارکن نو ذوالحج کی رات ہی سے حاجیوں کو لے جانا شروع کر دیتے ہیں ۔ گھنٹوں
کا سفر چند منٹوں میں بڑی سہولت کے ساتھ طے ہو جاتا ہے۔ اس طرح حاجی صاحبان تھکاوٹ
سے بچ جائیں گے اور نہا یت اطمینان کے ساتھ میدان ِ عرفات میں ذکر اذکار کر سکتے ہیں
۔
3 عرفات کا سفر:
بعض لوگ سواری کی سہولت ہونے کے باوجود پیدل چلنے کو زیادہ ثواب سمجھتے ہیں ، جبکہ
رسول اللہe نے
یہ سفر سواری پر طے فرمایا تھا ۔ جو شخص پیدل جائے گا و ہ مکمل دل لگی سے اللہ کی عبادت
نہ کر سکے گا۔
4 میدانِ منٰی
میں خاص طور پر جمرات کو کنکریاں مارنے کے موقع پر حجاج جس طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے
ہیں وہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ لوگوں میںبیک وقت علامتی شیطان کو کنکریاں مارنے
کا اتنا جوش ہوتا ہے کہ اس کی خاطر حقیقی انسانوں کو کچل دیا جاتا ہے۔اللہ کے ایک حکم
کی تعمیل کے شوق میںاللہ کے دوسرے حکم کو پامال کرنے کی اس سے بری مثال اور کیا ہو
سکتی ہے۔
5 موجودہ دور
میں سفر کی سخت پابندیوں کی وجہ سے امام ابن تیمیہؒاور حافظ ابن قیمؒ کافتویٰ ہے کہ
حائضہ یا مستحاضہ عورت لنگوٹ (پیمپر)پہن کر طواف زیارت کر لے۔کیونکہ حج کے قافلوں کا
شیڈول طے شدہ ہوتا ہے اس میں کسی ایک کی خاطر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔
6 ایام حج میں
اتنی ریاضت نہ کریں کہ آپ بیمار ہو جائیںاور آپ کا حج متاثر ہو جائے ۔
7 دوران سفر ہر
مسلمان کیلئے قصر کرنا سنت ہے۔ رسول اللہe نے فرمایا کہ سفر میں نماز قصر اللہ کی طرف سے صدقہ
ہے‘ اس کے صدقے کو قبول کرو۔ (صحیح مسلم) دوران سفر پوری نماز پڑھنا جائز ہے ۔
حج اور عمرہ اگر سنت کے مطابق نہیں تو یہ اعمال ایسے درخت کی
طرح ہیں جو بے ثمر ہیں یا ایسے پھولوں کی طرح ہیں جن میں خوشبو نہیں۔
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
حج کے بعد سب سے افضل اور بڑی سعادت مدینہ منورہ کا سفر اور
مسجد نبوی شریف کی زیارت ہے۔ اسکے علاوہ جنت البقیع ، مسجد قبا ، مسجد قبلتین‘ قبرستان
شہدااُحد کی زیارت کے لیے لوگ جاتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment