یوم الحج کا ورودِ مقدس
تحریر: جناب مولانا ابوالکلام آزاد
رحمہ اللہ
عشق الٰہی کا سب سے
بڑا گھرانہ
تقریباً ایک ہفتہ کے بعد تاریخِ عالم کا وہ عظیم الشان روز طلوع
ہونے والا ہے جس کے آفتاب کے نیچے کرۂ ارضی کے ہر گوشے کے لاکھوں انسان اپنے مالک
کو پکارنے کے لیے جمع ہوں گے اور ریگستان عرب کی ایک بے برگ و گیاہ وادی کے اندر خدا
پرستی و عشق الٰہی کا سب سے بڑا گھرانہ آباد ہوگا:
{الَّذِیْنَ إِن
مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا
بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ} (الحج: ۴۱)
’’وہ لوگ کہ اگر
انہیں زمین میں قائم کر دیں تو ان کا کام صرف یہ ہوگا کہ صلوٰۃ الٰہی کو قائم کریں،
زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں۔‘‘
اللہ کی پرستش کا پہلا مقدس
گھر
یہ پہلا گھر تھا جو اللہ کی پرستش کے لیے بنایا گیا اور آج
بھی دنیا کے تمام بحر و بر میں صرف وہی ایک مقدس گوشہ جو اولیاء الشیطان و اصحاب النار
کی لعنت سے پاک ہے اور صرف اللہ کے دوستوں اور اس کی محبت میں دکھ اٹھانے والوں کے
لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔
دور دراز ملکوں سے اجتماع
کی وجہ
سمندر کو عبور کر کے، پہاڑوں کو طے کر کے، کئی کئی مہینوں کی
مسافت چل کر دنیا کی مختلف نسلوں، مختلف رنگتوں، مختلف بولیوں کے بولنے والے اور مختلف
گوشوں کے باشندے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ ایک انسانی نسل دوسری نسل کو بھیڑیوں
کی طرح پھاڑ دے اور اژدہوں کی طرح ڈسے۔ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی زمین کو اپنے
ابلیسی غرور اور شیطانی سیادت کی نمائش گاہ بنائیں۔ اس لیے نہیں کہ تیس تیس من کے گولے
پھینکیں اور سمندر کے اندر ایسے جہنمی آلات رکھیں جو منٹوں اور لمحوں میں ہزاروں انسانوں
کو نابود کر دیں، بلکہ تمام انسانی غرضوں اور مادی خواہشوں سے خالی ہو کر اور ہر طرح
کے نفسانی ولولوں اور بہیمی شرارتوں کی زندگی سے ماوراء الوریٰ جا کر، صرف اس ربِ قدوس
کو پیار کرنے کے لیے، اس کی راہ میں دکھ اٹھانے اور مصیبت سہنے کے لیے اور اس کی محبت
و رأفت کو پکارنے اور بلانے کے لیے جس نے اپنے ایک قدوس دوست کی دعائوں کو سنا اور
قبول کیا، جب کہ نیکی کا گھرانہ آباد کرنے کے لیے اور امن و سلامتی اور حق عدالت کی
بستی بسانے کے لیے اس نے اپنے اللہ کو پکارا تھا کہ:
{رَّبَّنَا إِنِّیْ
أَسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِندَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ
رَبَّنَا لِیُقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ
إِلَیْْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ}(ابراھیم:
۳۷)
’’اے پرورگار! میں
نے تیرے محترم گھر کے پاس ایک ایسے بیابان میں جو بالکل بے برگ و گیاہ ہے، اپنی نسل
لا کر بسائی ہے تا کہ یہ لوگ تیری عبادت کو قائم کریں۔ پس تو ایسا کر کہ انسانوں کے
دلوں کو ان کی طرف پھیر دے اور ان کے رزق کا بہتر سامان کر دے تا کہ وہ تیرا شکر کریں۔‘‘
مقدس گھرانے کا معنوی تصور
کس بستی کے باشندے؟
آہ! تم ذرا ان کی اُن عجیب و غریب حالتوں کا تصور کرو، یہ کون
لوگ ہیں اور کس پاک بستی کے بسنے والے ہیں؟ کیا یہ اسی زمین کے فرزند ہیں جو خون اور
آگ کی لعنتوں سے بھر گئی اور صرف بربادیوں اور ہلاکتوں ہی کے لیے زندہ رہی۔ کیا یہ
اسی آبادی سے نکل آئے ہیں جو سبعیت و خونخواری میں درندوں کے بھٹ اور سانپوں کے غاروں
سے بھی بدتر ہے اور جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو اس طرح چیرتا پھاڑتا ہے کہ آج تک
نہ تو سانپوں نے کبھی اس طرح ڈسا اور نہ جنگلی سؤروں نے کبھی اس طرح دانت مارے؟ کیا
یہ اسی نسل اور گھرانے کے لوگ ہیں جس نے اللہ کے رشتوں کو یکسر کاٹ ڈالا اور اس طرح
اس کی طرف سے منہ موڑ لیا کہ اس کی بستیوں اور آبادیوں میں اللہ کے نام کے لیے ایک
آواز اور ایک انسان بھی باقی نہ رہی؟ آہ! اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کون ہیں اور
کہاں سے آئے ہیں؟ یہ قدوسیوں کی سی معصومیت فرشتوں کی سی نورانیت اور سچے انسانوں
کی سی محبت ان میں کہاں سے آ گئی ہے۔
ماحول کی ہمہ گیر یکسانیت
تمام دنیا نسلی تعصبات کے شعلوں میں جل رہی ہے، مگر دیکھو یہ
دنیا کی تمام نسلیں کس طرح بھائیوں اور عزیزوں کی طرح ایک مقام پر جمع ہیں اور سب ایک
ہی حالت، ایک ہی وضع، ایک ہی لباس، ایک ہی قطع، ایک ہی مقصد اور ایک ہی صدا کے ساتھ
ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سب اللہ کو پکار رہے ہیں، سب اللہ ہی کے لیے حیران و سرگشتہ
ہیں، سب کی عاجزیاں اور درماندگیاں اللہ ہی کے لیے ابھر آئی ہیں۔ سب کے اندر ایک ہی
لگن اور ایک ہی ولولہ ہے، سب کے سامنے محبتوں اور چاہتوں کے لیے، پرستشوں اور بندگیوں
کے لیے ایک ہی محبوب و مطلوب ہے۔ جب کہ تمام دنیا کا محورِ عمل، نفس و ابلیس ہے تو
یہ سب صرف اللہ کے عشق و محبت میں خانہ ویراں ہو کر اور جنگلوں و دریاؤں کو قطع کر
کے دیوانوں اور بے خودوں کی طرح یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف دنیا کے مختلف
گوشوں کو چھوڑا بلکہ دنیا کی خواہشوں اور ولولوں سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔
دل سوختہ لوگوں کی بستی
اب یہ ایک بالکل نئی دنیا ہے جس میں صرف عشقِ الٰہی کے زخمیوں
اور سوختہ دلوں کی بستی آباد ہوئی۔ یہاں نہ نفس کا گزر ہے جو غرورِ بہیمی کا مبداء
ہے اور نہ انسانی شرارتوں کو بار مل سکتا ہے جو خون ریزی اور ظلم و سفّاکی میں کرۂ
ارضی کی سب سے بڑی درندگی ہیں۔
راز و نیازِ عبد و معبود
یہاں صرف آنسو ہیں جو عشق کی آنکھوں سے بہتے ہیں، صرف آہیں
ہیں جو محبت کے شعلوں سے دھوئیں کی طرح اٹھتی ہیں، صرف دل سے نکلی ہوئی صدائیں ہیں
جو پاک دعاؤں اور مقدس نداؤں کی صورت میں زبانوں سے بلند ہو رہی ہیں، اور ہزاروں سال
پیش کے عہدِ الٰہی اور راز و نیاز عبد و معبود ہی کو تازہ کر رہی ہیں۔
لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک
سرِ روحانیاں داری ولے خود را ندیدستی
بخواب خود در آ تا قبلۂ روحانیاں بینی!
’’تجھے اللہ والوں
کا شوق ہے مگر تو نے اپنی طرف نہیں دیکھا، اپنے خواب کی طرف توجہ کر، تا کہ تجھے اللہ
والوں کا قبلہ نظر آئے۔‘‘
No comments:
Post a Comment