اُسوۂ ابراہیمی کی یاد میں
تحریر: جناب مولانا محمد حنیف ندوی
رحمہ اللہ
جس طرح ایک فرد کے لیے اس عالم کشاکش میں ایسے لمحات مسرت وانبساط
کا ہونا ضروری ہے جن سے کہ طبیعت کی پژمردگی دور ہو اور دل شادمانی ونشاط کی تازہ کیفیات
سے معمور ہو جائے۔ ٹھیک اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے سفر زندگی میں ایسے جزائر کا
آنا لازمی ہے جہاں کا رخ آگے بڑھنے کے لیے پچھلی کوفت کا ازالہ کر سکے اور نئے جوش
وولولے سے ارتقاء وعروج کی سمتوں کی طرف قدمزن ہو سکے۔ اسلام جو دین فطرت ہے‘ انسان
کی اس نفسیاتی احتیاج سے غافل ہو سکتا تھا جبکہ اس سے بھی زیادہ اور نازک احتیاجات
کا اس کے برابر خیال رکھا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی یہی خوبی ہے جس پر قربان ہو
جانے کو دل چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ شدید وابستگی کو قائم واستوار رکھتی ہے کہ اس کے اوامر
ونواہی کے پورے چوکٹھے میں ایک بات بھی ایسی نہیں جس سے معلوم ہو کہ یہ دل اور ضمیر
کے فطری تقاضوں کی آواز ہیں۔ بلکہ محض بیرونی اور خارجی تحکم ہے جس کو فطرت وطبیعت
انسانی کے علی الرغم خواہ مخواہ عائد کر دیا گیا ہے۔ رسول اللہe نے
نبوت کے بعد جب مدینہ کو مستقر ٹھہرایا تو یہ دیکھا کہ یہاں نو روز ومہرجان دو مستقل
تقریبیں عید کے طور پر منائی جاتی ہیں اور لوگ ان میں لہو ولعب کے تقاضوں کو پورا کرتے
ہیں۔ نگاہ نبوت میں یہ بات جچی کہ مسلمانوں کے لیے بھی کچھ دن ایسے ہونے چاہئیں کہ
جن میں یہ اس نفسیاتی اقتضا کی تکمیل کر سکیں۔ چنانچہ اس کے جواب میں عیدین کی دو تقریبیں
معین ہوئیں تا کہ مسلمان اپنی انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے تشکر وامتنان ایزدی کا اظہار
باقاعدہ کر سکیں۔
{وَلِتُکَبِّرُوْا
اللّٰہ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}
’’اور تا کہ اللہ
نے جو تم کو راہ راست دکھا دی ہے اس پر تم اس کی بڑائی کرو اور تا کہ تم احسان مانو
اور شکر وسپاس کا اظہار کرو۔‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا عیدین کی یہ تقریب اس کے سوا اور کچھ نہیں
کہ یہ خوش ہونے کے دو دن ہیں اور مسرت واظہار مسرت کے دو مواقع ہیں؟ اور بس!… نہیں‘
ایسا نہیں‘ مسرت وانبساط چاہے کتنی ہی فطری خواہشیں ہوں ان کی یہ اہمیت بہر آئینہ
نہیں ہو سکتی کہ اسلام صرف ان کے لیے سال کے دو دن وقف کرے اور مسلمانوں کو اجازت دے
کہ دوسری قوموں کی طرح عقل وہوش کے موجبات سے الگ ہو کر اور دین واخلاق کی پابندیوں
سے ہٹ کر کھیل کھیلیں اور جو جی میں آئے کر گزریں۔ کیونکہ اسلام کا اپنا ایک نظام
ہے۔ فکر وعمل کے متعین سانچے ہیں‘ اس لیے یہاں خوشی اور جوش بھی اپنی فراوانیوں کے
باوجود خاص خدا کے لیے الٹ کر چلتے ہیں۔ لیکن یہ حدود کیا ہیں؟ اس کا جواب اس سوال
کے حل ہونے پر موقوف ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ عیدالاضحی کی مسرت وشادمانی کی نوعیت
کیا ہے؟ اور اس کے پیچھے تاریخ کی کون اہم اور سبق آموز کڑیاں ہیں جن کو فکر ونظر
کے سامنے لانا مقصود ہے۔
سنئے! آج سے کئی ہزار برس پہلے ایک نہایت ہی جلیل القدر پیغمبر
گزرے ہیں جن کا نام سیدنا ابراہیمu تھا۔
ان کے ذمہ یہ خدمت تھی کہ یہ اللہ کی توحید کا نعرہ بلند کریں اور پورے جزیرۃ العرب
میں ایک رب العزت کی پرستش کی طرح ڈالیں۔ ذمہ
داری بہت بڑی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے امتحان لینا چاہا کہ ابراہیمu کس
قدر اس سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں؟ کیونکہ کسی مشن کی کامیابی صرف اس
پر موقوف نہیں ہوتی کہ خود اس مشن میں کتنی معقولیت ہے؟ اور جو نصب العین لوگوں کے
سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں کتنی منطقی استواری ہے؟ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیکھا
یہ جاتا ہے کہ پیش کرنے والا کون ہے اور کس درجہ اس نصب العین کے لیے قربانی وایثار
کی استعداد رکھتا ہے؟ اللہ کی اس آزمائش نے خواب کا روپ دھارا اور سیدنا ابراہیمu نے
دیکھا کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے موت کے گھاٹ اتار رہا ہوں۔ یہ دیکھنا تھا کہ
سچ مچ سیدنا ابراہیمu اس
پر تیار ہو گئے کہ اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر دی اور اللہ کی راہ میں اپنے جگر
گوشہ کی قربانی پیش کر دی۔ کتنی بڑی قربانی ہے یہ اپنے ہاتھ اور اپنی چھری سے اس بیٹے
کو ذبح کرنا جس کو کتنی ہی دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں پایا ہے اور خدا خدا کر کے ابھی
اس نے چلنا ہی سیکھا ہے۔ مگر نصب العین بھی تو کم اہم نہیں۔ ایک خدا کے تخت اقتدار
کو زمین پر بچھانا اور دنیا بھر کے سطوت وخدائی کو ختم کر دینا۔ جن لوگوں نے کبھی ایسے
اونچے عقیدے کے لیے زندگی وقف کی ہے وہ جانتے ہیں کہ اس راہ میں ایسے موڑ بھی آتے
ہیں جبکہ اپنے مفاد کو‘ خواہشات کو اور عزیزوں وجگر پاروں کو آزمائش میں ڈال کر اس
کی حفاظت کی جاتی ہے اس لیے یہ کیونکر ممکن تھا کہ سیدنا ابراہیمu آزمائش
میں نہ پڑتے۔
یہ عید اسی تاریخی واقعہ کی یادگار ہے۔ پس اس میں مسرتوں کی
نوعیت یہ نہیں کہ آپ اجلے اور بیش قیمت کپڑے پہنے ہوئے ہیں یا جیب میں روپے کھنک رہے
ہیں یا کہ ہزاروں جانور کٹے ہیں اور منوں خون بہہ گیا اور طرح طرح کے کھانوں سے آپ
کا دسترخوان آراستہ ہے۔ بلکہ مسرت وانبساط کا پیمانہ یہ ہے کہ اس حقیقت پر غور کیا
جائے تو کیا آج بھی دنیا میں وہی گمراہی نہیں جس کے ازالہ کے لیے حضرت ابراہیمu تشریف
لائے تھے۔ کیا آج بھی پندار وغرور نے الوہیت وخدائی کی اس صورت کو اختیار نہیں کر
رکھا جو نمرود کا خاصہ تھا۔ یعنی آج دنیا میں وہ جگہ کہاں ہے جہاں بادشاہت کے علم
نہیں گڑے ہیں؟ جہاں ریاست کے بت نصب نہیں ہیں اور جہاں قوم وملت کے نام پر خواہشات
وآرزوؤں کے صنم خانے آباد نہیں ہیں۔ کیا کہیں اللہ کے دین کو نافذ کرنے کی آزادی
ہے؟ اور کسی گوشے میں اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے مواقع میسر ہیں؟ اگر نہیں تو پھر
دریافت طلب چیز یہ ہے کہ اسوہ ابراہیمی کو کیوں زندہ نہ کیا جائے؟
اس عید کا یہی مقصد ہے کہ ہر برس مسلمان سیدنا ابراہیمu کے
مشن پر سوچ بچار کریں اور ان کے گرد وپیش جو گمراہیاں پھیل اور بڑھ رہی ہیں ان کے تدارک اور ازالہ کے
لیے انہی کا سا ایثار انہی کی سی قربانی اختیار کریں۔ اجتماعی زندگی میں یہ عجیب وغریب
نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ نقشہ زندگی پر جتنی تہذیبیں ابھریں اور جتنی قومیں کار زار
حیات میں کامیاب ہوئیں اور پروان چڑھیں وہ سب وہی تھیں جنہوں نے اپنے تصورات کو زندہ
رکھنے کے لیے بے پناہ ایثار سے کام لیا۔ اس سلسلہ میں حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں سچ
اور جھوٹ حق وباطل کا قطعی امتیاز نہیں۔ ایثار وقربانی میں کچھ ایسا ہمہ گیر سحر ہے
کہ دروغ بھی اس سے فروغ پا جاتا ہے۔
پھر جو جو تہذیبیں مٹیں اور جن جن قوموں نے موت وہلاکت کے دروازوں
پر دستک دی وہ سب وہی تھیں جن میں ایثار کی صلاحیتیں ختم ہو گئیں اور ذاتی وانفرادی
آرزؤوں نے ان پر بری طرح قبضہ کر لیا۔
اگر عید آئی اور حسب معمول گزر گئی اور آپ میں اسلام کے لیے
کوئی وابستگی پیدا نہ ہوئی اور نہ ایثار وقربانی نے کوئی کروٹ ہی لی تو پھر سمجھ لیجیے
کہ یہ ایک رسم ہے جس کو آپ نے پورا کیا اور ایک تہوار ہے جو منایا گیا۔ اگر اسلام
کے لیے کوئی تڑپ دل میں ہویدا ہوئی اور کام کا کوئی نقشہ ابھرا تب البتہ فی الواقع
آپ نے عید کے مفہوم کو سمجھا اور اسوہ ابراہیمی u کو اپنانے کی مقدور بھر سعی کی‘ اللہ کرے آپ کی عید
اسی طرح آئے اور آپ اس کی سچی مسرتوں سے ہمکنار ہو سکیں۔
No comments:
Post a Comment