عشرۂ ذی الحجہ ... فضائل واعمال
تحریر: جناب مولانا زبیر احمد
قمری سال کے آخری مہینہ کا نام ذی الحجہ ہے۔ یہ مہینہ ان حرمت
وعظمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کو باری تعالیٰ نے زمین وآسمان کی پیدائش ہی کے
وقت سے محترم بنا رکھا ہے۔ اسی مہینہ میں اسلام کا حج جیسا عظیم الشان رکن شان وشوکت
کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ پورے عالم اسلام میں قربانی یک جاتی ہے اور سال کا دوسرا
اسلامی تہوار منایا جاتا ہے۔ اس مہینے کے ابتدائی دس دنوں کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے۔
ان دس دنوں میں اعمال صالحہ دوسرے دنوں کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔
فضائل:
کتاب وسنت سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی عظمت وفضیلت واضح
ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ
عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ}
’’قسم ہے فجر کی
اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی۔‘‘ (الفجر: ۳)
سیدنا جابرt نے
نبی کریمe سے
روایت کیا کہ آپe نے
فرمایا:
[والفجر ولیال عشر] میں ’العشر‘ سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن اور ’الوتر‘ سے مراد یوم عرفہ
اور ’الشفع‘ سے مراد قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ ہے۔‘‘ (مسند احمد: ۳/۳۲۷‘ نسائی: ۲/۵۱۲‘ مستدرک الحاکم: ۴/۲۲۰ اور امام حاکم نے
مسلم کی شرط پر اسے صحیح کہا ہے۔ نیز امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَیَذْکُرُوا اسْمُ
اللّٰہِ فِیٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ} (الحج: ۲۸)
امام بخاریa نے
بحوالہ سیدنا عبداللہ بن عباسw نقل
فرمایا کہ ان ’’معلوم‘‘ دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ (بخاری‘ کتاب
العیدین)
فرمان نبوی e ہے:
[ما من ایام العمل
الصالح فیہا احب الی اللہ من ہذہ الایام یعنی ایام العشر قالوا: یا رسول اللہ! ولا
الجہاد فی سبیل اللہ؟ قال ولا الجہاد فی سبیل اللہ الا رجل خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع
من ذلک بشیء] (بخاری: ۹۶۹)
’’عمل صالح کے لیے
یہ ایام (یعنی ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن) اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
صحابہ کرام] نے عرض کیا؟ اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ تو آپe نے
فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد بھی نہیں سوائے اس انسان کے جو اپنی جان ومال کے ساتھ
نکلے اور اس میں سے کچھ بھی لے کر واپس نہ ہو۔ (یعنی مال خرچ کر ڈالے اور خود شہید
ہو جائے۔)‘‘
دوسری روایت میں نبی اکرمe نے فرمایا:
[ما من عمل ازکی
عند اللہ ولا اعظم اجرا من خیر یعلمہ فی عشر الاضحی]
’’اللہ عز وجل کے
نزدیک عشرہ ذی الحجہ میں عمل کرنے سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب کا حامل کوئی عمل
نہیں۔‘‘
پوچھا گیا‘ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ تو آپe نے
فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔‘‘ ہاں! البتہ اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان
ومال کو خطرے میں ڈال دیا اور کچھ بھی واپس نہ لا سکا۔ (مسند احمد‘ دارمی‘ اس حدیث
کی اسناد حسن ہے۔ ارواء الغلیل: ۳/۳۹۸)
ان مذکورہ نصوص سے عشرہ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت روز روشن کی
طرح واضح ہے کیونکہ ان ایام میں متعدد اہم ترین عبادتیں جمع ہوتی ہیں۔ حافظ ابن حجرa فتح
الباری (ج ۲‘ ص ۴۶۹) میں رقمطراز ہیں:
[والذی یظہر ان السبب
فی امتیاز عشر ذی الحجۃ لمکان اجتماع امہات العبادۃ فیہ وہی الصلاۃ والصیام والصدقۃ
والحج ولا یتأتی ذلک فی غیرہ]
’’عشرہ ذی الحجہ
کی امتیازی فضیلت کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری اہم ترین بنیادی عبادتیں اس عشرہ
میں اکٹھی ہو جاتی ہیں جیسے نماز‘ روزہ‘ صدقہ اور حج وغیرہ اس کے علاوہ دیگر دنوں میں
یہ ساری عبادتیں اس طرح جمع نہیں ہوتیں۔‘‘
اعمال:
1 حج وعمرہ کرنا:
اس عشرہ میں کیے جانے والے بہترین اعمال میں سے سب سے افضل عمل
حج وعمرہ کے مناسک ادا کرنا ہے جس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے گھر کے حج کی توفیق دے اور
وہ حج کے اعمال کو بحسن وخوبی انجام دے تو اسے فرمان نبوی کے مطابق جنت ضرور ملے گی۔
ارشاد نبویe ہے:
[العمرۃ الی العمرۃ
کفارۃ لما بینہما والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ] (متفق علیہ)
یعنی ’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ اپنے درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور
حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
2 روزہ رکھنا:
ذی الحجہ کے تمام نودنوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ البتہ عرفہ
(نویں ذی الحجہ) کے دن کے روزہ کی تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریمe کی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک سے مروی ہے کہ
[کان رسول اللہ ﷺ
یصوم تسع ذی الحجۃ ویوم عاشوراء، وثلاثۃ أیام من کل شہر]
’’رسول اکرمe ذی
الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھتے تھے‘ اسی طرح یوم عاشوراء کا اور ہر مہینہ میں تین
دن روزہ رکھتے تھے۔‘‘
عام روزہ کے تعلق سے رسول اللہe نے فرمایا:
[ما من عبد یصوم
یوما فی سبیل اللہ الا باعد اللہ بذلک الیوم وجہہ عن النار سبعین خریفا] (بخاری:
۲۸۴۰، مسلم: ۱۱۵۳)
’’عرفہ (نویں ذی
الحجہ) کے روزہ کے بارے میں مجھے اللہ سے امید ہے کہ ایک سال اس سے پہلے اور ایک سال
اس کے بعد کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جائے گا۔‘‘
لہٰذا نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے۔
ان مبارک ایام میں اللہ کا ذکر واذکار کرنا:
ان بابرکت دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَیَذْکُرُوا اسْمُ
اللّٰہِ فِیٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ}
’’اللہ کا ذکر ان
معلوم دنوں میں کرو۔‘‘
اور ’’ایام معلومات‘‘ سے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن مراد ہیں۔
ان دنوں میں اللہ کے ذکر کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرw سے
مروی ہے کہ رسول اکرمe نے
فرمایا:
[ما من أیام أعظم
عند اللہ ولا أحب إلیہ العمل فیہن من ہذہ الأیام العشر فأکثروا فیہن من التہلیل والتکبیر
والتحمید] (مسند احمد: ج۹، ص ۳۲۳)
’’اللہ کے نزدیک
سب سے با عظمت اور محبوب دن ایام عشرہ ذی الحجہ کے مقابلے میں کوئی دن نہیں‘ اس لیے
ان دنوں میں لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ جیسے اذکار کثرت سے کیا کرو۔‘‘
امام بخاریa فرماتے
ہیں کہ سیدنا ابوہریرہt ماہ
ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں بازار کو نکل جاتے اور تکبیر کہتے رہتے۔ پھر دوسرے لوگ
بھی ان کی تکبیر سن کر کہتے تھے۔ (بخاری‘ کتاب العیدین‘ باب فضل العمل فی ایام التشریق)
امام اسحاقa نے
فقہاء تابعین سے بیان کیا ہے کہ وہ لوگ بھی ان دس دنوں میں اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا
الہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد کہتے تھے۔ بازار‘ مسجد‘ گھروں اور
راستوں میں تکبیر با آواز بلند کہنا مستحب ہے۔ ان دنوں میں مشروع ذکر سے مراد تکبیر
مطلق اور مقید دونوں ہے۔ تکبیر مطلق ماہ ذی الحجہ کے آغاز سے ایام تشریق (۱۳/ذی الحجہ) کے اخیر تک کہنا مشروع ہے اور تکبیر مقید عرفہ (۹/ذی الحجہ) کی نماز فجر سے عصر تک کہی جائے۔
4 عرفہ کے دن دعا کرنا:
عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی کریمe نے
فرمایا:
[خیر الدعاء دعاء
یوم عرفۃ وخیر ما قلت أناا والنبیون من قبلی لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک
ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر] (ترمذی: ۳۴۴۸)
’’سب سے بہترین دعا
عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کی وہ یہ
کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر۔‘‘
اس دن اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے۔
لہٰذا اس دن خصوصی طور پر دعاء کا اہتمام کرنا چاہیے۔
5 تمام معاصی اور گناہوں سے
توبہ کرنا:
تمام اوقات میں مسلمانوں پر توبہ کرنا واجب ہے۔ لیکن ان مبارک
ایام میں توبہ کرنے کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس لیے ہمیں اس عشرہ ذی الحجہ میں خالص توبہ
کرنا چاہیے کیونکہ معصیت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور سرزنش کا سبب ہوتے ہیں۔ اور
اطاعات تقرب الٰہی اور محبت باری کے اسباب ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سنہرے ومبارک ایام میں
اعمال صالحہ کی جانب رغبت کرتے ہوئے سچی توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔
6 اعمال صالحہ کا اہتمام کرنا:
اس عشرہ میں نیک اعمال اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب ہیں۔ اس لیے
جو شخص حج پر قادر نہ ہو اسے چاہیے کہ ان مبارک اوقات کو اطاعت وفرمانبرداری میں لگائے۔
یعنی نماز‘ تلاوت قرآن‘ ذکر الٰہی‘ دعا‘ صدقہ‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے اعمال
صالحہ کو انجام دے اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ کثرت سے نوافل کا اہتمام کرے کیونکہ
نوافل اللہ سے قریب کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ان ایام میں تمام اعمال کے ثواب میں
اضافہ ہو جاتا ہے۔
7 صدقہ کرنا:
صدقہ کرنا بھی ان نیک اعملا میں سے ہے جو ان دنوں میں مسلمانوں
کے لیے مستحب ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا
بَیْعَ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ}
(البقرۃ: ۲۵۴)
’’اے مومنو! جو ہم
نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت
ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘
اور نبی کریمe نے
فرمایا:
[ما نقصت صدقۃ من
مال] (مسلم)
’’کسی مال کا صدقہ
نکالنا اس مال کو گھٹاتا نہیں۔‘‘
لہٰذا ہمیں ان دنوں میں خصوصاً زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا چاہیے۔
8 قربانی کرنا:
دس ذی الحجہ کو پوری دنیا کے مسلمان قربانی کرتے ہیں جس کو یوم
النحر کہا جاتا ہے۔ اس دن تمام اعمال سے افضل قربانی کا خون بہانا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
[إن أعظم الأیام
عند اللہ یوم النحر ویوم القر] (ابوداؤد وسنن نسائی بحوالہ مشکواۃ المصابیح: ج۲، ص
۸۱۰)
’’اللہ کے نزدیک
سب سے زیادہ با عظمت اور وقار والا دن قربانی کا ہے پھر منیٰ میں ٹھہرنے کا دن ہے۔‘‘
قربانی کتاب وسنت سے ثابت شدہ عبادتوں میں سے ہے۔ فرمان باری
تعالیٰ ہے:
{فَصَلِّ لِرَبِّکَ
وَانْحَرْ} (الکوثر)
’’پس آپ اپنے رب
کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔‘‘
صحیح بخاری ومسلم میں سیدنا انس بن مالکt سے
مروی ہے‘ انہوں نے کہا کہ
[ضحی النبیﷺ بکبشین
أملحین أقرنین ذبحہما بیدہ وسعی وکبر ووضع رجلہ علی صفاحہا۔]
’’نبی کریمe نے
دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی۔ ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ بسم
اللہ اللہ اکبر کہا اور اپنا پیر ان دونوں کی گردنوں پر رکھا۔‘‘ (بخاری: ۵۵۶۵)
آپ نے ہجرت مدینہ کے بعد بھی مدنی زندگی میں ہر سال قربانی اور
اپنی امت کو بھی تاکید فرمائی کہ ان کا ہر گھرانہ ہر سال قربانی دے۔ سیدنا عبداللہ
بن عمرw کہتے
ہیں:
[أقام رسول اللہ
ﷺ بالمدینۃ عشر سنین یضحی] (سنن ترمذی)
’’رسول اللہe نے
دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی۔‘‘
معلوم ہوا کہ قربانی آپ e کی سنت مبارکہ ہے۔ یہ مذہب اسلام کا شعار اور اسلامی
تہذیب وتاریخ کا ایک بڑا نشان ہے۔ دور نبوی سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا اسی پر
عمل رہا اور تا قیامت اس پر عمل رہے گا۔
یاد رکھیں دنیا کا ہر کوئی نظام بغیر ایثار وقربانی کے زندہ
نہیں رہ سکتا۔ قوموں کے عروج وارتقاء کے لیے قربانی ضروری ہے۔ دنیا میں وہی قوم فوز
وفلاح اور سیاست وقیادت سے ہمکنار ہو سکتی ہے جس کے اندر ایثار وقربانی کا جذبہ بدرجہ
اتم موجود ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عشرہ ذی الحجہ میں ان
تمام اعمال کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین!
No comments:
Post a Comment