قربانی کے 4 دن
تحریر: جناب مولاناحافظ سجاد الٰہی
قربانی چار دن کرنا رسول اللہe سے ثابت ہے۔ ایک دن 10 ذوالحجہ کا جسے یوم النحر (قربانی کا دن) کہا جاتا ہے
اور تین دن اس کے بعد جنہیں ’’ایام تشریق‘‘ کہا جاتا ہے۔ یوم النحر میں تو کوئی اختلاف
نہیں کہ یہ قربانی کا دن ہے لیکن بعد میں کچھ لوگ دو دن مانتے ہیں اور کچھ تین دن تک
قربانی کو جائز سمجھتے ہیں۔ جو لوگ چار دن قربانی کو جائز سمجھتے ہیں ان کی دلیل یہ
حدیث ہے:
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’ایام تشریق سارے کے سارے ذبح کے دن ہیں۔‘‘ (بحوالہ دارِقطنی ص ۲۸۴ج۔۴)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی چار دن تک کرنا جائز ہے۔ لہٰذا
جو لوگ مسئلہ کی وضاحت کے لئے چوتھے دن قربانی کرتے ہیں وہ لائق تحسین ہیں نہ کہ قابل
گرفت۔
اس اہم مسئلہ کی وضاحت کیلئے قرآن و سنت سے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
حج اور عیدالاضحی پر قربانی کرنے کے دنوں کے متعلق متعدد اقوال
یہ ہیں:
1 قربانی کے تین دن ہیں، ایک عیدالاضحی کا اور دو دن اس کے بعد
والے۔
2 قربانی صرف ایک دن ہے اور وہ عیدالاضحی کا دن ہے۔
3 منیٰ میں تین دن تک قربانی کی جا سکتی ہے۔ ایک عیدالاضحی کے دن اور دو دن اس کے
بعد والے، باقی جگہوں میں قربانی کا وقت صرف ایک دن ہے۔ (زاد المعاد: ۷/۳۱۹، ۳۷۰)
4 قربانی کے چار دن ہیں، ایک عیدالاضحی کا اور تین دن اس کے بعد۔
ذیل میں اس چوتھے قول کے متعلق گفتگو کرنا مقصود ہے۔ اس قول
پر متعدد امور دلالت کناں ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1 حضرات ائمہ احمدؒ، ابن حبانؒ اور بیہقی ؒ نے حضرت جبیر بن مطعمt کے
حوالے سے نبی کریمe سے
روایت نقل کی ہے آپe نے
فرمایا: ’’سارے ایام تشریق میں قربانی (کرنا جائز) ہے۔ (المسند والاحسان فی تقریب صحیح
ابن حبان، جزء من رقم الحدیث ۳۸۵۴، ۹/۱۷۷، والسنن الکبریٰ للبیہقی جزء من رقم الحدیث ۱۹۷۳۹، ۹/۴۹۷) الفاظ حدیث صحیح ابن حبان کے ہیں۔ امام ابن قیمؒ اور علامہ شوکانی
ؒنے متعدد طرق کی بنا پر اسے (قوی)، شیخ البانیؒ نے شواہد کی بنا پر اسے (حسن)، شیخ
ارنائووط اور ان کے رفقا نے شواہد اور متعدد طرق کی بنا پر اسے (صحیح لغیرہ) کہا ہے۔
(زاد المعاد ۷/۳۱۹، نیل الاوطار ۵/۷۱۶، وسلسلۃ الاحادیث
الصحیحہ، رقم الحدیث ۷۴۸۶، ۵/۶۱۷-۶۷۷، ومناسک الحج والعمرۃ
للشیخ البانی ؒ ص ۱۳۴، المسند ۶۷/۳۱۶)
یاد رہے کہ ایام تشریق سے مراد گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ
ہیں۔ امام ابن قیمؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں: کیونکہ یہ تینوں دن منیٰ (میں ٹھہرنے)،
رمی کرنے، کھانے پینے کے دن ہونے اور ان میں روزے کے حرام ہونے کے حوالے سے سب احکام
ایک جیسے ہیں تو پھر نص اور اجماع کے بغیر قربانی کرنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف
کیسے ہو سکتے ہیں۔ (زاد المعاد ۷/۳۱۹)
2 حضرت علیt نے
ارشاد فرمایا: ’’قربانی کے ایام عیدالاضحی کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں۔‘‘ (زادالمعاد:
۵/۳۱۹)
3 امام بیہقیa نے
حسن بصریa سے
نقل کیا ہے انہوں نے کہا: ’’قربانی یوم النحر کے تین دن بعد ہے، (یعنی قربانی کے چار
دن ہیں، ایک دن عیدالاضحی کا اور تین دن اس کے بعد کے) (السنن الکبریٰ رقم الروایۃ
۹۷۴۹، ۹/۴۹۹)
4 امام بیہقیaنے حضرت عطاءa سے
روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: ’’منیٰ کے سب دنوں میں (بشمول) کوچ کرنے والے آخری
دن کے قربانی کی جائے گی۔ (السنن الکبریٰ)
5 امام بیہقی ؒ نے حضرت عمر بن عبدالعزیزa سے
روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا: ’’قربانی یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں۔‘‘
(السنن الکبریٰ) یوم النحر سے مراد عیدالاضحی کا دن ہے۔
6 امام
ابن قیمؒ رقم طراز ہیں: ’’اور وہ (قربانی کرنے کے چار دن) اہل بصرہ کے امام حسنؒ (بصرہ)،
اہل مکہ کے امام عطاء ابن ابی رباحؒ، اہل شام کے امام اوزاعیؒ اور اہل حدیث فقہاء کے
امام شافعیؒ کا مذہب ہے اور ابن منذرؒ نے بھی اسی (مذہب) کو پسند کیا ہے۔ (زادالمعاد
۷/۳۱۹)
7 سعودی
عرب کی دائمی مجلس برائے علمی تحقیقات اور افتاء کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ انہوں نے کہا
ہے کہ ’’اہل علم کے سب سے صحیح قول کے مطابق تمتع، قران اور بشمول عید کا دن قربانی
کے چار دن ہیں، ایک دن عید کا اور تین دن اس کے بعد، قربانی کے وقت کا اختتام چوتھے
دن کے غروب آفتاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ البحوث والافتاء ۱۱/۴۰۶، نیز ملاحظہ ہو: مناسک الحج والعمرہ ص ۳۳۷)
مذکورہ بالا امور کے پیش نظر قارئین اس بات کا خود فیصلہ کرلیں
کہ قربانی کے چار دن والے اقوال کی کیا اہمیت اور حیثیت ہے؟
No comments:
Post a Comment