قربانی کا جانور کیسا ہو؟!
تحریر: جناب مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر
امن پوری
قربانی کا حکم:
ذوالحجہ کے ایامِ قربانی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مخصوص
شرائط کے حامل جانوروں کا خون بہانا شعارِ اسلام اور عظیم عبادت ہے، جسے قربانی کہا
جاتا ہے اور یہ سنت ہے۔ سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[من کان لہ سعۃ فلم
یضح فلا یقربن مصلانا]
’’جو شخص استطاعت
و قدرت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہوں کے قریب تک نہ پھٹکے۔‘‘ (مسند
احمد: ۲/۳۲۱، سنن ابن ماجہ: ۳۱۲۳)
اس حدیث کی سند کو امام حاکم نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، حافظ ذہبیؒ
نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس کا راوی عبداللہ بن عیاش القتبانی جمہور کے نزدیک ’’موثق،
حسن الحدیث‘‘ ہے۔ حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: [حدیثہ فی عداد الحسن] (سیر اعلام النبلاء: ۷/۳۳۴)
واضح رہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطابw سے
اس خدشہ کے پیش نظر قربانی چھوڑنا ثابت ہے کہ کہیں لوگ اس کو واجب نہ سمجھ لیں۔ (السنن
الکبریٰ للبیہقی: ۹/۲۶۵ وسندہ صحیح)
سیدنا ابو مسعود بدری انصاریt کہتے ہیں:
[لقد ھممت ان ادع
الاضحیۃ وانی لمن ایسرکم بھا، مخافۃ ان یحسب انھا حتم واجب] (السنن الکبریٰ للبیقی:
۹/۲۶۵ )
’’میں تو قربانی
ترک کرنے کا ارادہ کرتا ہوں اس ڈر سے کہ اسے حتمی اور واجب نہ سمجھ لیا جائے، حالانکہ
میں تم سب سے بڑھ کر آسانی سے قربانی کر سکتا ہوں۔‘‘
حافظ ابن حجرؒ نے اس اثر کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ سیدنا عبداللہ
بن عباسw (السنن الکبریٰ
للبیہقی: ۹/۲۶۵، وسندہ صحیح) اور سیدنا بلال t (المحلی لابن حزم: ۷/۳۵۷، وسندہ صحیح) اس کے وجوب کے قائل نہیں تھے۔
زیاد بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرw سے
قربانی کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: یہ سنت اور کارِ خیر ہے۔ (صحیح بخاری:
۲/۸۳۲ تعلیقاً تغلیق التعلیق
۵/۳، وسندہ صحیح)
حافظ ابن حجرa نے
اسے موصولاً ذکر کر کے اس کی سند کو ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث
امام بخاریؒ اور دیگر محدثین عظام کے نزدیک بھی قربانی سنت ہے۔ امام ابو حنیفہؒ سے
باسندِ صحیح قربانی کو واجب قرار دینا ثابت نہیں، مدعی پر دلیل لازم ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر:
قربانی کے جانور کے لیے دوندا ہونا شرط ہے، جیسا کہ سیدنا جابر
بن عبداللہ الانصاریt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[لا تذبحوا الا مسنۃ
الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن] (مسلم)
’’تم دوندا جانور
ہی ذبح کرو، اگر تنگی واقع ہو جائے تو بھیڑ کی نسل سے جذعہ ذبح کر لو۔‘‘
حافظ نوویؒ کہتے ہیں کہ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ’’مُسِنَّۃ‘‘
اس اونٹ یا گائے اور بکری وغیرہ کو کہتے ہیں جو دوندا ہو، نیز اس حدیث میں یہ وضاحت
ہو گئی ہے کہ بھیڑ کی جنس کے علاوہ کسی اور جنس کا ’’جذعۃ‘‘ جائز نہیں، قاضی عیاض کے
بقول اس پر اجماع ہے۔ (شرح مسلم للنووی: ۲/۱۵۵)
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
[وقد اجمع اھل العلم
ان لا یجزی الجذع من المعز، وقالوا: انما یجزی الجذع من الضأن] (جامع ترمذی)
’’اہلِ علم کا اس
بات پر اجماع ہے کہ بکری کی جنس کا ’جذعۃ‘ قربانی میں کفایت نہیں کرتا، جب کہ بھیڑ
کی جنس کا ’جذعۃ‘ کفایت کرتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ جذعۃ کی عمر میں اختلاف ہے، جمہور ایک سال کے قائل
ہیں اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔ حافظ نوویؒ لکھتے ہیں:
[والجذع من الضأن
ما لہ سنۃ تامۃ، ھذا ھو الاصح عند اصحابنا، وھو الاشھر عند اھل اللغۃ وغیرھم]
بھیڑ کی جنس کا ’جذعۃ‘ مکمل ایک سال کا ہوتا ہے، ہمارے اصحاب کے نزدیک یہی صحیح
تر بات ہے، نیز یہی اہل لغت وغیرہ کے ہاں مشہور قول ہے۔ (شرح مسلم للنووی: ۲/۱۵۵)
اس حدیث میں مذکورہ حکم عام ہے، ہر جانور کو شامل ہے، وہ بکری
کی جنس ہو یا بھیڑ کی، گائے کی جنس ہو یا اونٹ کی، ان سب کا دوندا ہونا ضروری ہے۔ وہ
صحیح احادیث جن سے بھیڑ کے جذعۃ کی قربانی کا جواز ملتا ہے، وہ تنگی پر محمول ہیں،
یعنی دوندا جانور نہ ملے تو ایک سال کا دنبہ یا بھیڑ ذبح کی جا سکتی ہے، اس طرح تمام
احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
تنگی کی دو صورتیں ممکن ہیں: ایک دوندے جانور کا دستیاب نہ ہونا
اور دوسرے ایسے جانور کو خریدنے کی طاقت نہ ہونا، ایسی صورت میں بھیڑ کا ’’جذعۃ‘‘ یعنی
ایک سال کا دنبہ ذبح کیا جائے گا۔
تنبیہہ: بعض عاقبت نااندیش
لوگ جانور کو دوندا باور کروانے کے لیے سامنے والے دانت توڑ دیتے ہیں، یہ محض دھوکا
اور فریب ہے، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
جانور کی قربانی میں شراکت:
بکرا، بکری، دنبہ اور بھیڑ میں سے ہر ایک جانور صرف ایک آدمی
کو کفایت کرتا ہے، ہاں ایک بکرا یا دنبہ تمام اہل خانہ کے لیے کافی ہے، دلائل ملاحظہ
ہوں:
نبی اکرمe نے
دنبے کی قربانی کی اور فرمایا:
[بسم اللہ، اللھم
تقبل من محمد وآل محمد ومن امۃ محمد] (مسلم)
’’اللہ کے نام کے
ساتھ (ذبح کرتا ہوں) اے اللہ! (یہ قربانی) محمد (e)، آل محمد اور امتِ محمد کی طرف سے
قبول فرما۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایک دنبہ تمام اہل خانہ کی طرف
سے ذبح کیا جا سکتا ہے، سب کی طرف سے قربانی ادا ہو جائے گی، جیسا کہ آپe نے
ایک دنبہ اپنی طرف سے، اپنی آل کی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے ذبح کیا۔ واضح رہے
کہ جب حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جانے والے حجاج کرام منیٰ میں قربانی کریں گے تو
ان کے گھر کے بقیہ افراد اس میں شریک نہیں ہوں گے۔
فائدہ: امت کی طرف سے
قربانی کرنا نبی اکرمe کا
خاصہ ہے۔
عطاء بن یسارa کہتے
ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ایوب انصاریt سے سوال کیا:
کیف کانت الضحایا فیکم علٰی عہد رسول اللہ ﷺ؟
’’رسول اللہe کے
زمانہ اقدس میں تمہاری قربانیاں کیسی ہوتی تھیں؟‘‘ تو آپt نے
فرمایا:
[کان الرجل فی عھد
النبی ﷺ یضحی بالشاۃ عنہ وعن اھل بیتہ فیاکلون ویطعمون، ثم تباھی الناس فصار کما ترٰی]
’’آدمی عہد نبوی
میں ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے کرتا تھا، وہ خود
بھی گوشت کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، بعد ازاں لوگ (قربانی کرنے میں) باہم فخر
و مباہات کرنے لگ گئے، جن کی (ناگفتہ بہ) حالت آپ کے سامنے ہے۔‘‘ (موطا امام مالک
بروایۃ یحییٰ: ۲/۴۸۶، جامع ترمذی: ۱۵۰۵، سنن ابن ماجہ:
۳۱۴۷ واللفظ لہ، السنن
الکبریٰ للبیہقی: ۹/۲۶۸، وسندہ صحیح) امام ترمذیa نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
عبداللہ بن ہشامt بیان
کرتے ہیں:
[کان رسول اللہ ﷺ
یضحی بالشاۃ الواحدۃ عن جمیع اھلہ]
’’رسول اللہe اپنی
اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتے تھے۔ ‘‘ (المستدرک للحاکم: ۳/۴۵۶، ۴/۲۲۹، واللفظ لہ، السنن الکبریٰ للبیہقی: ۹/۲۶۸، الآحاد والمثانی لاحمد بن عمرو:۶۷۹، وسندہ صحیح)
امام حاکمؒ نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے، حافظ ذہبیؒ نے ان
کی موافقت کی ہے۔
ابو سریحہ الغفاری، حذیفہ بن اسیدt کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے زیادتی پر اکسایا،
بعد اس کے کہ میں نے سنت کو جان لیا تھا کہ اہلِ خانہ ایک یا دو بکریاں قربانی کے لیے
ذبح کرتے تھے، (اب ہم ایسا کریں) تو ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوس کہتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ:
۳۱۴۸ واللفظ لہ، المستدرک
للحاکم: ۴/۲۲۸، السنن الکبریٰ للبیہقی: ۹/۲۶۹، شرح معانی الآثار للطحاوی:۴/۱۷۴، المعجم الکبیر
للطبرانی: ۳۰۵۶،۳۰۵۷، وسندہ صحیح)
اس حدیث کی سند کو امامِ حاکمؒ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، حافظ ذہبیؒ
نے ان کی موافقت کی ہے، علامہ سندی حنفی لکھتے ہیں: [اسنادہ صحیح ورجالہ موثقون]
’’اس کی سند صحیح
ہے اور اس کے راویوں کی توثیق بیان کی گئی ہے۔‘‘ (حاشیہ السندی علی ابن ماجہ)
اونٹ میں شراکت:
ایک اونٹ میں دس حصہ دار شریک ہو سکتے ہیں، جیسا کہ سیدنا ابن
عباسw سے
روایت ہے کہ ہم نبی اکرمe کے
ساتھ ایک سفر میں عیدالاضحی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس اور ایک گائے میں سات آدمی
شریک ہوئے۔ (مسند الامام احمد: ۲۴۸۸)
اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے ’’حسن غریب‘‘ امام ابن حبانؒ (۴۰۰۷) نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکمؒ نے ’’صحیح علیٰ شرط البخاری‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبیؒ نے
ان کی موافقت کی ہے۔ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں دس آدمی حصہ ڈال سکتے ہیں،
اس کے تعارض میں ایک روایت ہے، سیدنا جابر بن عبداللہw کہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال نبی اکرمe کے
ساتھ قربانی کی، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا اور ایک گائے بھی سات آدمیوں
کی طرف سے ذبح کی گئی۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث کو ’’ھدی‘‘ (منیٰ میں جانے والی قربانی) پر محمول کریں
تو ابن عباسw کی
حدیث سے مخالفت ختم ہو جاتی ہے، یعنی منیٰ میں حجاجِ کرام ایک اونٹ میں سات آدمی شریک
ہوں گے، جب کہ دیگر لوگ ایک اونٹ کو دس آدمیوں کی طرف سے ذبح کر سکتے ہیں۔
جانور کے عیوب:
قربانی کا جانور درج ذیل عیوب و نقائص سے سالم ہونا چاہیے: سیدنا
براء بن عازبt کہتے
ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[اربع لا تجوز فی
الاضاحی: بین عورھا، والمریضۃ بین مرضھا، والعرجاء بین ظلعھا، والکبیر التی لا تنقی]
’’چار قسم کے جانوروں
کی قربانی کرنا جائز نہیں: 1کانا جانور، جس کا کانا پن ظاہرہو، 2بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر ہو، 3لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور 4 شکستہ
و لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ (مسند احمد ۴/۸۴، سنن ابی دائود:۲۸۰۲، سنن النسائی: ۴۳۷۴، جامع ترمذی:۱۴۹۷)
اس حدیث کو امام ترمذیؒ، امام ابن خزیمہؒ (۲۹۱۲)، امام ابن حبانؒ (۵۹۱۹، ۵۹۲۲) امام ابن الجارود
(۴۸۱) اور امام حاکمؒ (۱/۴۶۷-۴۶۸) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، حافظ ذہبیؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔ جانورخریدنے کے بعد ان
عیوب میں سے کوئی عیب پیدا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن الزبیرw فرماتے ہیں:
[ان کان اصابھا بعد
ما اشتریتموھا فامضوھا وان کان اصابھا قبل أن تشتروھا فأبدلوھا] (السنن الکبری للبیہقی،
وسندہ صحیح)
’’اگر خریدنے کے
بعد عیب پیدا ہو تو قربانی کر دو، لیکن اگر عیب پہلے سے موجود ہو تو اسے بدل لو۔‘‘
امام زہری a فرماتے
ہیں:
[اذا اشتری رجل اضحیۃ
فمرضت عندہ او عرض لھا مرض فھی جائزۃ] (مصنف عبدالرزاق: ۸۱۶۱ وسندہ صحیح)
’’جب آدمی قربانی
کا جانور خرید لے، پھر بعد میں وہ بیمار ہو جائے تو اس کی قربانی جائز ہے۔‘‘
سیدنا علیt بیان
کرتے ہیں کہ رسول کریمe نے
(قربانی کے) جانور کی آنکھیں اور کان بغور دیکھنے کا حکم دیا۔ (مسند الامام احمد:
۱/۱۰۵، سنن النسائی: ۷/۳۱۲)
اس کو امام ترمذیؒ نے ’’حسن صحیح‘‘ اور امام ابن خزیمہؒ (۲۹۱۴) اور امام حاکمؒ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ یہ حکم واجبی نہیں بلکہ ندب و ارشاد پر محمول
ہے۔ نیز سیدنا علیt کہتے
ہیں کہ نبی اکرمe نے
کان کٹے ہوئے اور سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا۔ (سنن ابی دائود: ۲۸۰۵، سنن نسائی: ۴۳۸۲، سنن ترمذی:۱۵۰۳)
امام ترمذیؒ نے اس کو ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے، نسائی وغیرہ میں
شعبہ نے قتادہ سے بیان کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ نہی تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے، کان
اور سینگوں میں تھوڑا بہت نقص مضر نہیں۔
تنبیہہ: قربانی کے جانور
کا خصی ہونا عیب نہیں ہے، نبی اکرمe نے
خود دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی ہے۔ (مسند الامام احمد: ۳/۳۷۵، سنن ابی دائود: ۲۷۹۵)
امام ابن خزیمہؒ نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے، ابن اسحاق نے
سماع کی تصریح کر رکھی ہے اور ابن خزیمہ نے راوی ابو عیاش کی توثیق کی ہے، ایک جماعت
نے اس سے روایت کی ہے۔ پیدائشی طور پر سینگوں کا نہ اگنا قطعی طور پر عیب نہیں۔
متفرق احکام:
قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو نبی اکرمe نے
حکم دیا کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ اپنے بال کاٹے اور
نہ ناخن تراشے۔ (صحیح مسلم)
یاد رہے کہ جس آدمی کو قربانی کرنے کی استطاعت نہ ہو، لیکن
وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے سر کے بال اور مونچھیں کاٹ لیتا ہے، ناخن تراش
لیتا ہے اور دوسری ضروری صفائی کر لیتا ہے پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرتا ہے تو اسے
قربانی کا پورا اجر و ثواب ملے گا۔ (مسند الامام احمد: ۲/۱۶۹، سنن ابی دائود: ۲۷۸۹، سنن نسائی: ۴۳۶۵، وسندہ حسن)
امام ابن حبان (۵۹۱۴)، امام حاکم (۴/۲۲۳) اور حافظ ذہبی نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
قربانی کی استطاعت کے لیے زکوٰۃ کے نصاب کی شرط لگانا بے بنیاد
ہے، ہر مسلمان اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی صورتِ حال کو سامنے رکھ کر قربانی کی
استطاعت کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ بیک وقت ایک آدمی ایک سے زائد قربانیاں
کر سکتا ہے۔ قربانی کرتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے: [بسم اللہ، واللہ اکبر، اللھم تقبل
منی ومن اھلی] (مسلم)
اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ (ذبح کرتا ہوں) اور اللہ سب سے بڑا
ہے، اے اللہ! (یہ قربانی) میری طرف سے اور میرے اہل کی طرف سے قبول فرما۔
عورت اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے خواہ ایامِ
مخصوصہ میں ہی کیوں نہ ہو۔ قربانی کے جانور کا گوشت، سری پائے اور کھال یا چمڑا وغیرہ
قصاب کو بطورِ اجرت دینا ممنوع ہے، قصاب کو اپنی جیب سے اجرت دی جائے۔ قربانی کے گوشت
میں مساکین و فقراء کا حق ہے جو انہیں ملنا چاہیے اس حق کی مقدار مقرر نہیں، بقیہ گوشت
ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۵۶۹) قربانی کی کھال
کا وہی مصرف ہے جو اس کے گوشت کا ہے، لہٰذا وہ کھال کسی حق دار (مسکین و محتاج) کو
دی جا سکتی ہے۔ یا اپنے ذاتی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ (صحیح مسلم: ۱۹۷۱)
یاد رہے کہ قربانی کے جانور کا کوئی حصہ نہ فروخت کیا جا سکتا
ہے اور نہ اپنی ذاتی خدمت کے عوض کسی کو دیا جا سکتا ہے اور اگر کھال فروخت کرنا پڑے
تو اس کی قیمت مساکین و فقراء کو دے دی جائے۔ ایک آدمی نے قربانی کی نیت سے جانور
پالا ہوا تھا، وہ وقت سے پہلے مر گیا، گم ہو گیا یا وہ وقت پر دوندا نہیں ہوا تو اس
صورت میں اگر اس کو دوسرا جانور قربانی کرنے کی استطاعت ہے تو ٹھیک، ورنہ وہ قربانی
نہ کرنے کی وجہ سے گناہگارنہیں۔ ذبح کے وقت بہنے والا خون حرام ہے، اس کے علاوہ حلال
جانور کے تمام اعضاء حلال ہیں جب کہ حنفیوںکے نزدیک حلال جانور میں سات چیزیں حرام
ہیں جس روایت کو دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ انقطاع کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ اور ناقابل
حجت ہے۔ میت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت نہیں، اگر کوئی ایسا عمل کرتا ہے تو وہ صدقہ
ہو گا نہ کہ قربانی، نیز اس کا سارا گوشت تقسیم کر دیا جائے گا۔ اونٹ کا گوشت کھانے
سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (صحیح مسلم: ۳۶۰)
No comments:
Post a Comment