یاد رفتگان
... علامہ محمد ابراہیم طارق رحمہ اللہ
تحریر: جناب مولانا محمد یوسف انور
کچھ لوگ بہادر دلیر اور کامیاب زندگی گذارتے ہوئے بھی ہمیشہ
تاریخ میں گمنام رہتے ہیں۔ ایسے ہی پرجوش لوگوں میں سے ایک ایسا شخص بھی ہو گذرا ہے
جس کا ذکر کرنا از بس ضروری ہے۔ میری مراد اس تمہید سے گذشتہ دنوں انتقال کر جانے والے
میرے عزیز ترین دوست حکیم علامہ محمد ابراہیم طارق ہیں جن سے گذشتہ موسم سرما کی ایک
شام کسی شادی کے موقع پر خوشگوار ملاقات ہوئی تھی اور وہ بھی بڑی مدت کے بعد لیکن کیا
معلوم تھا کہ یہ ملاقات آخری ثابت ہو گی۔
کھانے کے بعد دیر تک ہم دوستوں کے جھرمٹ میں بیٹھے رہے۔ ان کی
باتیں حسب معمول بڑی پر مغز تھیں اور اتنی زیادہ تھیں کہ انہیں سمیٹنا میرے بس کی بات
نہ تھی۔ مجھے وہ پرانا دور یاد آ رہا تھا جب وہ جامعہ سلفیہ میں پڑھتے تھے اور اپنے
دور شباب کے عروج پر تھے۔ مجھے کسی پروگرام
اور میٹنگ میں دیکھتے ہی فورا آکر بات چیت اور میل ملاپ کا وقت طے کر لیتے اور پھر
ان کی چائے پارٹی پر گفتگو رہتی۔
طالب علمی کے اس زمانہ کے گذر جانے پر منڈی ڈھاباں سنگھ (صفدر
آباد) میں ان کی دعوت پر بیشتر مرتبہ آنا جانا رہا۔ ایک مرتبہ ان کے اصرار پر خطبہ
جمعہ بھی دیا اور بعض تبلیغی جلسوں میں شرکت کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی۔ حکیم محمد
حنیف a ان
کے مربی بھی تھے اور جگری دوست بھی۔ بڑی باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ فیصل آباد میں
وہ دواؤں کی خریداری کے لیے ہفتہ عشرہ کے وقفہ کے ساتھ آتے رہتے تھے۔ ممتاز شربت ہاؤس
امین پور بازار میں آکر وہ مجھے یاد فرماتے‘ ہم اس زمانے میں جامع اہل حدیث کے سامنے
گلی میں منشی محلہ میں رہائش پذیر تھے۔ ہماری رہائش گاہ گویا چند گزوں کے فاصلے پر
تھی۔ اسی طرح ان سے ملنا جلنا اور علامہ محمد ابراہیم طارق کی خیر وعافیت معلوم کرنا
ضروری ٹھہرتا۔ نہ وہ دور رہا نہ وہ محبتیں اور پیار واخلاص رہا۔
علامہ محمد ابراہیم طارق اگرچہ مجھ سے کافی چھوٹے تھے لیکن روز
اول سے ان کی دوستی اور برخورداری برابر کی رہی۔ وہ انتہائی عزت وتوقیر سے پیش آتے
مگر میں بے تکلف ہو جاتا‘ جب کبھی ساہیوال سے مولانا حافظ عبدالحق صدیقی تشریف لاتے
تو پھر تینوں کی مجلس کشت زعفراں بن جاتی۔ حافظ صاحب علیہ الرحمہ یاروں کے یار اور
لطائف وظرائف کے حسین انسان تھے۔ مگر جب مسجد رحمانیہ مندر گلی میں نماز عصر کے بعد
درس قرآن مجید ارشاد فرماتے تو ان پر خشیت ورقت طاری ہو جاتی۔ عام جلسوں میں ان کی
گھن گرج اور رعب داب دیدنی ہوتا۔
انتقال سے ایک دو روز قبل:
علامہ محمد ابراہیم طارق کی علالت کا سن کر میں نے فون پر لاہور
میو ہسپتال میں متعدد مرتبہ رابطہ اور خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن افسوس کہ ان
کی شدید بیماری حائل رہی اور لواحقین بات نہ کروا سکے جس کا ہمیشہ احساس رہے گا۔ علامہ
طارق بڑی متاثر کن شخصیت تھے۔ حکمت کے پیشہ سے تعلق رکھتے ہوئے دینی حکمت ودانش اور
علم وفہم میں بھی انہیں بڑی بصیرت حاصل تھی۔ علاقہ بھر میں ان کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ
جاری رہتا۔ پیشہ کی مصروفیات پر دینی امور اور اشاعت توحید وسنت کے پروگراموں کو ترجیح
دیتے۔ محترم فاروق الرحمن یزدانی اور ہمارے پروفیسر محمد یٰسین ظفر صاحب اور عزیز مکرم
ڈاکٹر محمد سعید احمد چنیوٹی نے ان کی زندگی کی بھر پور عکاسی کی ہے اور پورا پورا
حق ادا کیا ہے۔ جماعتی رسائل وجرائد میں علامہ صاحب پر ان کے مضامین اور رشحات قلم
تفصیل سے تحریر میں آگئے ہیں تا ہم ان سطور کے راقم نے بھی یہ چند الفاظ تعزیتی وسوگواری
کیفیات میں تحریر کیے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قحط الرجال کے دور میں علامہ محمد
ابراہیم طارق جیسے منجھے ہوئے خطیب ومقرر اور علیم وفہیم طبع سے سرشار صلاحیتیں رکھنے
والی شخصیات ناپید ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ماحول اور علاقائی خطوں میں توحید ورسالت
کے چراغ جلائے۔ امید واثق ہے کہ ان کے جلائے ہوئے یہ چراغ ان کے رفقاء وورثاء بجھنے
نہ دیں گے۔ آخر میں ایک شعر کی صورت میں ان کے لیے دعائے مغفرت اور اظہار محبت ؎
ایسے مولود ہوا کرتے ہیں کمتر پیدا
جن کی تعظیم میں ہو فتنۂ محشر پیدا
مرحوم کا ایک بڑا وصف یہ بھی تھا کہ شروع سے مرکزی جمعیۃ اہل
حدیث سے وابستگی رکھی بلکہ علاقہ میں اس کی خوب تنظیم کی۔ الغرض یہ برسوں پیشتر کی
باتیں اور یادیں ہیں ان کے بچوں سے زیادہ تعارف نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں
صبر وحوصلہ اور استقامت سے نوازے اور اپنے مرحوم والد گرامی کا صحیح جانشین بنائے۔
آمین!
No comments:
Post a Comment