Saturday, August 03, 2019

مولانا سید محمد داؤد غزنوی سے چند یاد گار ملاقاتیں 30-2019


مولانا سید محمد داؤد غزنوی سے چند یادگار ملاقاتیں

تحریر: جناب فرید اللہ صافی
مولانا سید داؤد غزنویa ایک ایسی بے مثال تاریخ تھی جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا ، ایک ایسی بلند ہستی تھی جو اپنی نظیر دکھانے میں بخل کرتی ہو۔ ایک منفرد دینی کرشمہ تھا جس سے زمانہ محروم ہوا ، ایک تحریک تھی جو برصغیر پر اثر انداز ہوئی، ایک مردانہ حسن تھا جس سے خاک نے وفا نہ کی۔ علم کا ایک باب تھا جو موت کی نذر ہوا، انقلابی خوابوں کی ایک تعیبر تھی جسے زمانے نے پورا ہوتے ہوئے دیکھا، ایک مجدد تھے جنہوں نے اپنے احاطے میں دین کی  اعلی طریقے سے تجدید کی۔
یہ مقام حضرت العلامہ غزنویa کے اوصاف کے بیان کا نہیں بلکہ چمنستان اہل حدیث کے ایک بزرگ عالم دین عبد السلام ہزارویd کی سید داؤد غزنویa سے کچھ یاد گار ملاقاتوں کے بیان کے تذکرے کا ہے۔ اس لیے قلم کے سرپر موضوع سے خروج کے ڈر کی بے نیام تلوار لٹک رہی ہے وگرنہ دل تو کرتا تھا کہ میرے محبوب  سید داؤو غزنویa (اللہ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے) جیسے عالی ظرف انسان کی عالی سیرت لطف لے لے کربیان کی جائے جو کہ شاید ہم سے بیان بھی نہ ہوسکے لیکن اس قرض کو اللہ کی توفیق سے آئندہ اداکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ!
چنانچہ عبد السلام ہزارویd فرماتے ہیں کہ
\          مولانا داؤد غزنویa کی پہلی زیارت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ نومبر ۱۹۵۴ء میں پنجاب میں سیلاب آیا۔ مولانا سید داؤد غزنویa کے کہنے پر ہمیں اپنے مدرسے تدریس القرآن والحدیث راولپنڈی (موجودہ جامعہ سلفیہ اسلام آباد )کے مہتمم حافظ محمد اسماعیل ذبیحa نے ہمیں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے لاہور بھیجاـ۔ اس موقع پر میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اور پھر ان کی ہدایت پر ہم شرق پور گئے اورمولانا یحییٰ شرق پوریa (والد محترم حافظ مسعود عالم) کی نگرانی میں ہم وہاں خدمات انجام دیتے رہے۔
\          دوسری مرتبہ ان کی زیارت راولپنڈی میں حافظ محمد اسماعیل ذبیحa کی بیٹی کے نکاح کے موقع پر ہوئی، مولانا غزنویa اپنی وسعت ظرفی کی وجہ سے نکاح پڑھانے کے لیے لاہور سے ٹرین پر تشریف لائے تھے، مجھے ان کا پر مغز خطبہ نکاح آج بھی یاد ہے، مزید اس موقع پر انہوں نے راولپنڈی میں اپنے عمومی موضوع تزکیہ نفس پر جمعہ بھی پڑھایا تھا۔
\          تیسری مرتبہ ان کی زیارت کا موقع اس طرح ملا کہ سید داؤد غزنویa گرمیوں میں ہزارہ تشریف لاتے تھے، اس سلسلے میں ایک بار ایبٹ آباد آئے‘ مولانا عبد اللہ ہری پور نے انہیں جمعہ کی دعوت دی تھی۔ اس موقع پر بھی ان کا موضوع {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ َتزَکّٰی} ہی تھا اور یہ ۱۹۶۰/۱۹۶۵ء کی بات ہے میں اس وقت مولانا عبد اللہ مرحوم کے پاس زیر تعلیم تھا۔
\          چوتھی مرتبہ ان کی معمولی سی خدمت کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا، گرمیوں کا موسم تھا وہ ایبٹ آباد کے علاقے نتھیاگلی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے قیام کے دوران کالاباغ (ضلع ایبٹ آباد )میں پہلے سالوں کی طرح سالانہ جلسہ تھا اور اس کااہتمام حافظ محمد اسماعیل ذبیح مقامی لوگوں کے تعاون سے کروایا کرتے تھے جس میں بڑا کردار عبد اللہ ہری پور کا ہواکرتا تھا۔ اس جلسے میں پنجاب بھر کے اکابر علماء مدعو کیے جاتے تھے جن میں چند ایک قابل ذکر یہ ہیں: شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد اسحق رحمانی، مولانا یحییٰ حافظ آبادی، مولانا عبد اللہ گورداس پوری، مولانا یوسف گکھڑوی، مولانا خالد گرجاکھی، میاں فضل حق، حافظ یحییٰ عزیز میر محمدی، مولانا یحییٰ شرق پوری، مولانا ابراہیم کمیر پوری، مولانا علی محمد صمصام (المعروف بابا صمصام)، مولانا ابراہیم تاندلیانوالہ، شیخ سعید الفت، مولانا عبدالرشید صدیقی ملتانS اور ان جیسے دیگرکبار علماء شرکت کیا کرتے تھے۔
\          سید داؤد غزنویa نے نتھیا گلی سے جلسہ میں شرکت کے لیے تشریف لانا تھا، اس زمانے میں دھمتوڑ (ایبٹ آباد) سے کالاباغ تک ون وے ٹریفک ہوا کرتی تھی (ایک دن مری سے دھمتوڑ جانے والی گاڑیاں سڑک استعمال کرتی تھی اور دوسرے وقت دھمتوڑ سے کالاباغ جانے والی گاڑیاں استعمال کرتی تھی)اتفاقا جس دن غزنویa نے کالاباغ آنا تھا اس دن مخالف ٹریفک تھی‘ اس لیے مولانا محمد اسماعیل ذییحa نے انہیں جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے گھوڑے کا انتظام کیا اور گھوڑے کی مہارپکڑنے کی میری ڈیوٹی لگاکر مجھے سعادت بخشی، چار سے پانچ میل کے اس فاصلے کے دوران سید غزنویa نے کو ئی دنیاوی بات نہ کی اور حسب معمول ذکر واذکار میں مشغول رہے ، اور مجھے بے پناہ دعاؤں سے نوازتے رہے۔ (رحمہ اللہ علیہ رحمۃا واسعۃ)
\          پانچویں مرتبہ ۱۹۶۲ء میں حصول تعلیم کے سلسلے میں میں جھوک دادو (فیصل آباد)میں ٹھہرا‘ یہ سوچ رہا تھا کہ درس نظامی کے لیے جامعہ سلفیہ اور اوڈانوالہ فیصل آباد کے ان دوجامعات میں سے کس میں داخلہ لیا جائے۔ اس دوران مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے کسی جماعتی تنازع کے فیصلے کے لیے فیصل آباد آنے کی خبر ہوئی۔ میں ان کی زیارت کے لیے تاندلیانوالہ مسجد اہل حدیث پہنچا اجلاس جاری تھا‘ مولانا مرحوم کی جب مجھ پر نظر پڑی فورا پہچان لیا اور حیرانگی کا اظہار کیا کہ تم یہاں کیسے آئے؟ میں نے اجلاس کے بعد اپنا مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے مجھے جامعہ سلفیہ فیصل آباد کامشورہ دیا، پھر انہی کے مشورے سے میں ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۵ء تک وہاں تعلیم حاصل کرتا رہا۔
\          افسوس کہ (آخری دفعہ کی ملاقات میں ان کا جسم اطہر تو تھا لیکن روح اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی، زبا ن تو تھی لیکن قوت گویائی سے محروم، آنکھیں لوگوں کے دیدار کا شوق کھوچکی تھی، حسین چہرہ تھا لیکن کفن نامی سفید کپڑا اپنی ذاتی محبت کی بنا پر ہمیں ان کے دیدار سے منع کررہا تھا، کتاب موجود تھی لیکن اس سے الفاظ مٹ چکے تھے ،مجلس تو تھی لیکن وہ شرکاء محفل نہ تھے جن سے مجلسیں مزین ہوا کرتی تھیں، محبین کاٹھاٹھیں مارتا سمندرناراض محبوب کو منانے آیا تھا لیکن محبوب کے فراق کو وصال سے نہ بدل سکا، سب کچھ تھا لیکن محبوب کی کمی تھی، اسی غمگین منظر پر صدیوں پہلے ایک عربی شاعر نے کچھ اس طرح اپنے دل میں موجود درد کا اظہار کیا تھا کہ (ترجمہ)
’’میں اپنے محبوب کے فراق پر اس کے علاقے آیا تو زمانے میں کچھ تبدیلی محسوس نہ ہوئی بلکہ حسب عادت لہرارہاتھا اگر کمی تھی تو صرف محبوب کی۔‘‘
یا جیسا عبد الملک نے امیر معاویہt کی قبر پر کھڑے ہوکر کہا تھا:
وما الدہر والأیام إلّا کما تری
رزیئة مال أو فراق حبیب
چنانچہ اسی سلسلے میں ان کے جنازے کے لیے جامعہ سلفیہ سے ایک بس روانہ ہوئی جس میں میں بھی شامل تھا، جنازہ مولانا اسماعیل سلفیa نے یونیورسٹی گراونڈ لاہور میں پڑھایا۔ جنازے کامنظر اور اس کا انوکھا ہجوم مجھے آج بھی یاد ہے ۔
اس طرح سے کائنات کو روشن کرنے والا یہ ستارہ ۱۹۶۳ء کو غروب ہوا۔ اللہ رب العلمین ان کی قبرکو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ بنائے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)