بیت اللہ کے تین اساسی قواعد‘ اہداف اور مقاصد
تحریر: جناب ڈاکٹر عبدالغفور راشد
دنیا میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے دل ونگاہ کا مرکز‘ جہاں
پہنچنے کے بعد انسان امن والا بن جاتا ہے‘ ہر قسم کے فکر وغم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ جہاں
بھوک مٹ جاتی ہے اور پیاس ختم ہو جاتی ہے۔ اس مقام کو دیکھ کر یا وہاں چند روز قیام
کر کے اگر کوئی صاحب ایمان واپس پلٹتا ہے تو بے قرار ہو جاتا ہے اور وہاں بار بار حاضری
کے لیے دل مچلتا رہتا ہے۔ کیونکہ وہاں امن اور سکون ہی سکون ہے اور وہ ہے حرم پاک جسے
بیت اللہ کہتے ہیں۔ جو اللہ کا گھر ہے اور صرف وہ گھر ہی امن والا نہیں بلکہ وہ سارا
شہر اور اس کا گرد ونواح بھی امن والا ہے۔ اس کے امن وسلامتی کی قسمیں خود اللہ تعالیٰ
نے کھائی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس گھر اور مقام کی بنیاد ہی امن وسلامتی پر رکھی
گئی اور اس کی بنیادوں اور قواعد کو امن وسلامتی اور سکون وقرار کی بنا پر استوار کیا
گیا۔ بلکہ اس کے مالک نے کہا کہ ’’میں نے اسے اجر وثواب کی جگہ‘ بار بار پلٹنے کا محور‘
امن کا گہوارہ اور وحدت کا مرکز بنا دیا ہے۔‘‘
قارئین کرام! یہ کیسا حسین امتزاج ہے کہ جن آیات ربانی میں اللہ
تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کے تین قواعد بار بار پلٹنے کی جگہ‘ مقام امن اور مرکز
وحدت کا تذکرہ کیا ان ہی آیات کریمہ میں تین اہداف: امن کا گہوارہ‘ خوشحال معیشت اور
عمدہ نظام تعلیم دینے والا عظیم راہ نما کا ذکر سیدنا ابراہیم خلیل اللہu کی
دعا کی صورت میں کیا اور عمدہ نظام تعلیم کے تین بنیادی عناصر: کلام الٰہی‘ کتاب وحکمت
اور تزکیہ نفس کی درخواست بھی سیدنا ابراہیمu نے کر ڈالی اور سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ان ہی
آیات کریمہ میں کامیاب انسان کے تین اوصاف: فرمانبرداری‘ آداب بندگی اور شرف قبولیت
بھی بیان کر دیئے۔ اسی مکالمے کے دوران خالق کون ومکاں نے کامیابی کی منازل طے کرتے
انسانوں کی تین اقسام: طائفین وعاکفین اور راکعین وساجدین کا ذکر بھی لازم سمجھا۔ اسی
تفکر وتدبر کے د وران اہل ایمان کے دل ودماغ میں ختم نبوت کے وہ تین دلائل بھی آشکارا
ہو جاتے ہیں جو پیغمبر آخر الزمانe نے اپنی زبان اطہر سے بیان کیے تھے۔ مثلاً سیدنا ابراہیمu کی
دعاء‘ سیدنا عیسیٰu کی
بشارت اور والدہ ماجدہ کا خواب۔
یہ سارے قواعد وضوابط‘ اہداف ومقاصد‘ اوصاف ومناقب‘ عناصر واقسام
اور دلائل وبراہین ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اب دنیا بھر کے انسانوں
کو چاہیے کہ ان اہداف جلیلہ اور اوصاف حمیدہ کو سامنے رکھ کر شخصیتوں‘ گھروں‘ اداروں
اور ریاستوں کی تعمیر کریں اور یہ بھی یاد رہے کہ ان تمام آیات بینات سے اگر کوئی شخص
انکار کرے تو اس کے لیے بھی اسی مقام پر اللہ تعالیٰ نے تین عواقب: قلیل فائدہ‘ آگ
کا عذاب اور بھیانک انجام کی وعید بھی سنا دی۔
اس عظیم ووقیع مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۂ البقرہ
کی آیات ۱۲۵ تا ۱۲۹ میں بڑے خوبصورت‘
دلربا اور منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کا مطالعہ از حد ضروری اور نفع بخش ہے۔
بیت اللہ کے تین قواعد
مثابہ‘ امن کا گہوارہ اور مرکز وحدت
اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کے متعلق ارشاد فرمایا:
{وَاِذْ جَعَلْنَا
الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا وَّاتَّخِذُوْا مِن مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ
مُصَلًّی} (البقرہ: ۱۲۵)
’’اور (یاد کرو)
جس وقت ہم نے بیت اللہ کو بنایا لوگوں کے لیے ثواب اور امن کی جگہ اور تم مقام ابراہیم
کو جائے نماز بنا لو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کریمہ میں بیت اللہ کی تعمیر کے تین
قواعد‘ اہداف اور مقاصد بیان کیے ہیں۔ یعنی: مثابہ‘ امن اور مرکز وحدت۔
’’مثابہ‘‘ کا معنی ہے ثواب کی جگہ‘ جبکہ دوسرا معنی ہے کہ بار بار پلٹنے
کی جگہ اور یہ بھی ہے کہ جو شخص ایک بار اس گھر کی برکتوں سے بہرہ ور ہو جاتا ہے وہ
اتنا بے قرار ہو جاتا ہے کہ اس کا دل بار بار حاضری کے لیے مچلتا رہتا ہے اور بار بار
وہیں آتا ہے۔ جہاں امن وراحت اور سکون وقرار نصیب ہوتا ہے اور امن بھی ایسا کہ جہاں
انسان ہر قسم کے رنج والم اور خوف وخطرہ سے بے نیاز اور مأمون ہو جائے۔
مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ساری انسانیت
اسے مرکز وحدت اور اپنی پیشانیوں کا جھومر بنا لے۔
تین اہداف
قیامِ امن‘ خوشحال معیشت اور عمدہ نظام تعلیم
اس عظیم اور مثالی مرکز ومحور کی تعمیر کے وقت سیدنا ابراہیم
خلیل اللہu کے
دل ودماغ اور نگاہ وخرد میں ان کا اظہار انہوں نے دعا کی صورت میں کیا۔ اللہ تعالیٰ
سے تین چیزیں عوام الناس کے لیے اور تین چیزیں اپنے لیے طلب کیں۔ عوام الناس اور مخلوق
خدا کے لیے جن تین چیزوں کی درخواست کی وہ ہیں: امن وامان‘ خوشحال معیشت اور ایسا عظیم
راہبر جو عمدہ نظام تعلیم رائج کرے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد گرامی
کے ذریعے اپنے خلیل پیغمبر کی درخواست کا ذکر کیا ہے:
{رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا
بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَہْلَہ مِنَ الثَّمَرٰتِ … رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْہِمْ
رَسُوْلًا مِّنْہُمْ…} (البقرہ: ۱۲۶-۱۲۹)
’’اے پروردگار! اس
شہر کو امن والا بنا دے اور اس کے اہالیان کو پھلوں سے رزق دے … اور ان میں رسول بھیج
انہی میں سے۔‘‘
سیدنا ابراہیمu نے
پہلی دعا ہی اتنی اہم کر ڈالی کہ اے اللہ! تو نے امن والا گھر بنانے کا کہا ہے مگر
میری تو درخواست ہے کہ صرف اس گھر کو ہی نہیں بلکہ اس مقام‘ شہر اور علاقے کو امن کا
گہوارہ بنا دے۔ کیونکہ اس کے بغیر اس گھر کا طواف‘ زیارت‘ اعتکاف‘ صوم وصلوٰۃ کی پابندی
اور تیرے احکام کی بجا آوری ممکن نہیں۔ معیشت وتجارت بہتر نہیں ہو سکتی‘ تعلیم وتربیت
کا نظام نہیں چل سکتا۔ موجود ومیسر مسائل سے بہتر طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا
اور نہ ہی داخلی وخارجی امور بہتر کیے جا سکتے ہیں۔ ان تمام تر انفرادی واجتماعی‘ ملی
ومذہبی‘ دینی وعصری اور سرکاری وعوامی امور کی انجام دہی کے لیے ریاست میں امن وامان
کا قیام ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ہے۔
دوسری دعا رزق کے لیے کی اور وہ بھی صرف روٹی روزی کے لیے نہیں
بلکہ رزق طلب کیا کیونکہ رزق میں پھلوں کا ذکر طعام اور کھانے کے بعد آتا ہے اور یہ
خوشحالی کی علامت ہے۔ گویا کہ اس وطن کی معیشت اتنی خوشحال اور آسودہ ہو جائے کہ کسی
فرد یا خاندان کا فاقہ کشی اختیار کرنا تو درکنار قرض لینے پر بھی مجبور نہ ہوں کیونکہ
مقروض قومیں اور فاقوں پر مجبور افراد دنیا میں سر اٹھا کر زندہ نہیں رہ سکتے۔
سیدنا خلیل اللہu نے
تیسری دعا بارگاہِ کریمی میں یہ کی: ’’اے اللہ! اس قوم میں ایسا عظیم رسول اور راہنما
بھیج جو اسی قوم میں سے ہو‘ جو ان کے مزاج کو سمجھنے والا اور دکھ درد بانٹنے والا
ہو اور ان کے لیے ایسا عمدہ نظام تعلیم لے آئے جو انسانوں کو پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں
سے ہمکنار کرنے والا ہو۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی وبندگی سے نجات دلا کر اس خالق
حقیقی کا غلام وبندہ بنانے والا ہو اور انہیں مقصد حیات دینے کے ساتھ ساتھ عارضی زندگی
کی بے بضاعتی اور دائمی زندگی کی پاسداری سے شناسا کرے۔ یہ ہ خواہشات ہیں جو سیدنا
ابراہیمu کے
دل میں پیدا ہوئیں۔ اہداف بن کر نگاہوں میں سج گئیں اور پھر دعا کی صورت میں ان کی
زبان پر آگئیں اور پھر نا قابل تردید بات یہ ہے کہ ساری دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول
بھی فرما لیں۔
نظام تعلیم کے تین بنیادی عناصر
کلام الٰہی‘ کتاب وحکمت اور تزکیہ نفس:
دنیا کے تمام ادیان ومذاہب میں سے اسلام ایک فطری‘ ابدی اور
ممتاز مذہب ہے۔ یہ وہ دین ہے جس کی قبولیت وپسندیدگی کا اعلان‘ خالق کون ومکاں نے خود
اپنی آخری کتاب میں کیا ہے اور یہ بھی بتا دیا کہ اس دین کو مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔
اس علیم وخبیر نے اس امر سے بھی خبردار کر دیا کہ اگر تم نے ایسا نظام تعلیم مرتب کرنا
ہے کہ اس سے انسانیت کی تعمیر کی جائے تو اس کی بنیاد میں تین عناصر ضرور شامل کرنا
اور وہ ہیں کلام الٰہی کا لازمی پڑھا جانا‘ کتاب وحکمت کی تعلیم دینا اور لوگوں کی
قلبی وروحانی تربیت کرنا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
{رَبَّنَا وَ ابْعَثْ
فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ
وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْہِمْ}
’’اے ہمارے رب! ان
میں انہی میں سے رسول بھیج جو ان پر تیری آیات پڑھے‘ انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں
پاک کرے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۲۹)
سیدنا ابراہیمu نے
درخواست کی کہ ایسا راہبر ورہنما اور نبی ورسول بھیج جو کتاب کا بہترین نظام تعلیم
لے کر آئے اور نظام تعلیم کی عمارت کے تین بنیادی عناصر پر استوار کرے۔ ان کو تیسری
آیات پڑھ کر سنائے‘ کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کی قلبی وروحانی تطہیر کرے۔
اس روشنی میں کسی بھی مثالی اسلامی فلاحی ریاست کا نظام تعلیم
ترتیب دیتے وقت تین عناصر کو بنیاد بنانا انتہائی ضروری ہے۔
اولاً: وہ قرآن
مجید جو کلام الٰہی اور آخری آسمانی کتاب ہے۔ جس کے اندر گھر کی دہلیز سے لے کر جہانگیری
اور جہاں بانی تک اور زمین کی نچلی سطح سے لے کر آسمانوں کی بلندیوں تک تمام علوم وفنون
کی راہ نمائی موجود ہے جس کتاب مجید کے ساتھ تعلق کامیابی کی ضمانت اور اس سے بے رغبتی
ناکامیابی کا سبب ہے جس کو پڑھنے اور پڑھانے والا حقیقی معنوں میں سب سے معزز اور معتبر
بن جاتا ہے‘ اس کی تعلیم وتعلم کا اہتمام لازمی ہونا چاہیے۔
ثانیا: کتاب وحکمت
کی تعلیم بھی عمدہ نظام تعلیم کا لازمی اور بنیادی حصہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ نظام
ہی کیا جو حکمت سے نا بلد اور خالی ہو اور وہ تعلیم ہی کیا جسے حکمت کے بغیر عام کیا
جائے اور نصاب ہی کیا کہ جسے پڑھنے کے بعد انسان حکمت ودانش سے ہی شناسا نہ ہو سکے۔
تیسرا رکن ہے تزکیہ نفس اور یہ بہت اہم ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ
جس طرح پودوں کی کاشت سے پہلے پنیری تیار ہوتی ہے اور پھر اس کے لیے زمین کی بھی خاص
قسم کی تیاری ہوتی ہے جو پودے کے بیج یا پنیری کو اپنے اندر سنبھال سکے اور موسم کی
گرم وسرد شدت کو برداشت کر کے کونپل کو پھوٹنے دے اور پھر وہ کونپل نشو ونما پا کر
ایک سایہ دار اور ثمر بار پودا بن سکے۔ اسی طرح کتاب وحکمت کے پودے کاشت کرنے کا انسان
کے دل کی زمین کا تیار وہموار ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشی
ومعاشرتی اور سماجی واخلاقی آلودگیوں سے پاک وصاف ہو اور یہ ہمارا کام ایک عمدہ نظام
تعلیم ہی کر سکتا ہے۔
کامیاب انسان کے تین اوصاف
فرماں برداری‘ آداب بندگی‘ شرف قبولیت:
سیدنا ابراہیم خلیل اللہu اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور ایک کامیاب انسان
تھے۔ انہوں نے زندگی میں بہت قربانیاں دیں اور زندگی بھر مشکل سے مشکل آزمائشوں کا
سامنا کیا اور حقیقت یہ ہے کہ ہر آزمائش میں کامیاب ہوئے۔ حتی کہ جب اللہ تعالیٰ نے
کہا کہ اس بے آب وگیاہ جنگل میں میرا گھر بنا دو تو وہ بھی بنا دیا اور پھر اسی تعمیر
کے دوران اپنی کامیابی کے لیے تین اوصاف سے متصف ہونے کی دعا کی اور وہ یہ ہیں: فرماں
برداری‘ آداب بندگی اور شرف قبولیت۔ جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے:
{رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا
مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۱ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا
وَ تُبْ عَلَیْنَا}
’’اے رب ہمارے! ہم
دونوں (ابراہیم واسماعیلi) کو اور ہماری اولاد
کو اپنا فرماں بردار بنا لے‘ ہمیں آداب بندگی سکھلا دے اور ہماری توبہ قبول فرما۔‘‘
(البقرہ: ۱۲۸)
اتنا بڑا کام کہ مرجع خلائق اور مرکز وحدت تعمیر کر دیا جس کی
دنیا میں د وسری کوئی مثال ہی نہیں۔ اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی اپنی کوئی خوبی‘ صفت
یا بڑائی بیان نہیں کی بلکہ خالق ارض وسماء کی فرماں برداری طلب کی اور پھر فرماں برداری
اور بندگی کے آداب ومناسک کس طرح ادا کرنے ہیں یہ بھی اللہ سے دعا کی۔ آخر میں یہ کلمہ
بھی ادا کیا کہ کوئی انسان جتنی بھی بندگی کر لے کڑی سے کڑی آزمائش سے گزر جائے اور
بلند پرواز کرتا ہوا آسمان کی بلندیوں تک کیوں نہ پہنچ جائے وہ کامیاب تب کہلائے گا
جب اسے مالک بحر وبر کی قبولیت اور انابت نصیب ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذاتِ عظیم
ہے جو اپنے بندوں کی بندگیوں‘ قربانیوں اور وفاؤں کو قبول کرنے والا اور عظیم انعامات
سے نوازنے والا ہے۔
ختم نبوت کے تین دلائل
سیدنا ابراہیمؑ کی دعا‘ سیدنا عیسیٰؑ کی بشارت‘ والدہ کا خواب:
بیت اللہ کی تعمیر پر سیدنا ابراہیم خلیل اللہu نے
جو دعائیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیں ان سب کو بارگاہِ رحیمی میں شرف قبولیت عطا
ہوا۔ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر بن گیا‘ ایسا امن کا گہوارہ بن گیا کہ ساری
کائنات میں اس کی دوسری کوئی نظیر نہیں۔ اس کی زیارت وطواف رکوع وسجود کرنے والوں کی
تعداد لاکھوں میں ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے ہر رنگ اور ہر نسل کا مسلمان جس کی زبان
پر صرف لبیک کا ترانہ ہے اور یہ تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ مگر کوئی بدنظمی اور
بد امنی نہیں اور ہر ایک کے لیے کھلا رزق‘ کسی زبان پر کوئی گلا نہیں۔
سیدنا ابراہیمu کی
وہ دعا بھی قبول ہوئی جس میں عظیم راہ نما اور آخری پیغمبر کی درخواست کی پھر اللہ
کے آخری رسولe آئے
جنہوں نے آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک ماحول میں ایسا نظام تعلیم دیا جس میں سب انسان
برابر ہوں‘ سب کے حقوق برابر ہوں‘ کوئی قانون سے بالا تر نہ ہو۔ کوئی انسان کسی انسان
کا غلام نہ ہو بلکہ سبھی اسی ایک ذات واحد کے غلام ہوں جس کی غلامی کی دعوت تمام انبیاءo نے
دی۔
وہ عظیم معلم‘ راہبر‘ قائد اور رسول مقبولe آئے
کہ جن کے بعد کسی دوسرے راہبر ورہنما کی تشنگی نہ رہی۔ آپe نے
فرمایا کہ میں اپنے باپ ابراہیمu کی
دعا ہوں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
’’میں اپنے باپ ابراہیم
کی دعا‘ عیسیٰ کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں۔‘‘
منکرین کے تین انجام
قلیل فائدہ‘ آگ کا عذاب‘ بھیانک انجام:
قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے گھر بیت اللہ کے
اوصاف‘ مقاصد اور اہداف کا ذکر کیا ہے وہاں اپنے خلیل پیغمبرu کی اولوالعزمی وبلند حوصلگی اور قربانی وایثار کا ذکر
کیا۔ کامیاب انسان کا اعلیٰ کردار بیان کیا اور پھر اپنے پیغمبر آخر الزماں کا تذکرہ
کیا جو انسانیت کے لیے امن وسلامتی کا پیغام لے کر آئے۔ جنہوں نے غلامی کی زنجیریں
توڑ ڈالیں۔ امیر وغریب کو ایک صف میں کھڑا کر دیا۔ ظالم وجابر کو جوابدہ بنا دیا۔ قانون
کی بالا دستی قائم کر دی اور ملکی وسائل تک ہر بے کس وناتواں کی پہنچ آسان کر دی۔ وہاں
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے انجام سے بھی باخبر کر دیا جو حقائق کو دیکھ کر بھی تسلیم
نہیں کرتے۔ وہ جہالت‘ ضد اور کم عقلی کی بنا پر چشم پوشی اور انکار کرتے ہیں ان کے
لیے تین سزائیں اور وعیدیں بیان کر دیں: قلیل فائدہ‘ آسمانی عذاب اور بھیانک انجام۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَ مَنْ کَفَرَ
فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّہٗ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ۱ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ٭}(البقرہ:
۱۲۶)
’’اور جس نے کفر
کیا‘ پس میں اسے قلیل فائدہ دوں گا پھر اسے آگ کے عذاب کی طرف بے بس کر دوں گا اور
وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘
منکرین اور کفار کے لیے قلیل فائدہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے جو وسائل عطا کیے ہیں ان سے فائدہ مومن وکافر سبھی اٹھاتے ہیں۔ رزق تو سب کے لیے
ہے کہ سب اللہ کی مخلوق ہیں مگر جو لوگ انکار کرتے ہوئے صرف دنیا کو ترجیح دیتے ہیں
ان کو دنیا کتنی بھی مل جائے ان کے گھر چاندی کے بن جائیں بلکہ سیڑھیاں‘ دیواریں اور
چھتیں بھی چاندی کی یا سونے کی بن جائیں یہ سب عارضی‘ بہت عارضی بلکہ حقیر ترین ہے۔
اصل زندگی تو یہ ہے کہ دنیا وآخرت دونوں بہتر ہوں۔ دنیا میں اگر کمی آبھی جائے مگر
جو عذاب ہے وہ بہت ہی برا اور بھیانک انجام وٹھکانہ ہے۔
No comments:
Post a Comment