Saturday, August 17, 2019

محبت ونفرت میں بے اعتدالیاں 31-2019


محبت ونفرت میں بے اعتدالیاں

تحریر: جناب الشیخ عبدالغفار حسن رحمہ اللہ
اس وقت انسانیت کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ محبت اور نفرت کے متعلق میانہ روی کی بجائے غلو اور افراط کو اپنا لیا گیا ہے۔ اگر کوئی چیز نگاہ میں پسندیدہ ٹھہر جاتی ہے تو اس کی حمد وثناء میں ایسا مبالغہ کیا جاتا ہے گویا کہ وہ ایسی مٹھاس ہے جو کڑواہٹ سے بالکل خالی ہے۔ اسی طرح جب نفرت کی جاتی ہے تو بھی معاملہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ گویا اس چیز میں اب کڑواہٹ ہی کڑواہٹ ہے‘ مٹھاس کا نام ونشان تک نہیں پایا جاتا۔
 فکر ونظر کا اختلاف:
اسی طرح انسانی فکر ونظر کا معاملہ ہے‘ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ جن میں رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہاں بھی یہی صورت حال پائی جاتی ہے۔ بس جو کچھ ہم سوچتے ہیں یہی عین حق اور ثواب ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سراسر باطل ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حقیقت گم ہو جاتی ہے اور صحیح اور غلط کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا‘ یہی وہ متعصبانہ ذہنیت ہے جس نے بہت سی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ تعلقات اور رشتوں کو کاٹ دیا ہے اور دلوں میں دشمنی اور عداوت کی گرہیں پڑ گئی ہیں۔
 سیاسی اختلاف:
اگر ہم اپنی سیاسی‘ ادبی اور علمی تاریخ کا مطالعہ کریں تو صاف نظر آئے گا کہ محبت کے اسی غلو نے ہمیں اصل مقصد زندگی سے غافل کر دیا ہے اور عداوتوں اور دشمنیوں کا ایک لا متناہی چکر چل پڑا۔ ہاں! اسی غلط انداز فکر نے ہماری قوتوں اور توانائیوں کو کمزور کر ڈالا۔ ہماری وہ توانائیاں جو دنیا جہان کو ہلا سکتی تھیں آپس کے جھگڑوں کا شکار ہو گئیں اور ہمارے اس طرز عمل نے خوش بختی کی طرف آنے والوں کا راستہ بھی روک دیا۔ اب مؤرخین بھی بہت تگ ودو کے بعد ہی اصل حقیقت کا کھوج لگا سکتے ہیں۔
 سیدنا علی ؓ اور سیدہ عائشہؓ:
اسلامی تاریخ کا سب سے پہلا اور اہم اختلاف سیدنا علیt‘ سیدہ عائشہr اور سیدنا معاویہt کے مابین رونما ہوا تھا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس جھگڑے میں اس بات کی گنجائش تھی کہ اس نزاع کو بھی اسی قسم کا اختلاف قرار دیا جاتا جس میں فکر ونظر کے لحاظ سے دو آرا ہو سکتی ہیں۔ سیدنا علی t سے محبت اور نفرت کے غلو نے اسلام میں کئی فرقے پیدا کر دیے جن کی باہمی افسوس ناک آویزشوں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ نہ معلوم کتنی معصوم جانیں اس فتنے کا شکار ہوئیں اور نہ معلوم کتنی عصمتوں اور عزتوں کو اس راہ پر قربانی دینا پڑی۔ اس قسم کی شدت اور غلط عصبیت کے ہولناک نتائج ظاہر ہونے کے باوجود اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ لوگ اس کی تباہ کاری اور خوفناکی کا احساس کر سکیں۔
 بنو امیہ:
اسی قسم کا معاملہ بنو امیہ سے محبت ونفرت کے معاملہ میں ظہور میں آیا اور یہاں بھی مسلمان ایک سے زائد گروہوں میں بٹ گئے۔ یہ تو سیاسی اختلاف کا نقشہ جو آپ کے سامنے رکھا گیا ہے علمی اور فقہی اختلافات میں بھی اس قسم کی ذہنیت کار فرما رہی ہے۔
 ابوحنیفہ رحمہ اللہ:
ابوحنیفہa کا معاملہ لے لیجیے آپ کی اسلامی خدمات کا کون انکار کر سکتا ہے؟ ان کے بارے میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ان کی محبت وعقیدت میں انتہا کو پہنچ گئی‘ انہیں امام صاحب کے مناقب وفضائل میں حدیثیں گڑھنے سے بھی کوئی تأمل نہ ہوا‘ اسی طرح جو لوگ ان کی مخالفت میں غلو کرتے ہیں ان کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ ان کی زبانوں سے سنا گیا کہ امام ابوحنیفہ a حدیث کے منکر تھے۔
 گروہی اور فقہی اختلاف:
حنفیہ‘ شافعیہ‘ اہل حدیث اور اہل رائے کے اختلافات کو بھی لوگوں نے بہت زیادہ ہوا دی‘ ان کے درمیان طعن وتشنیع پر مشتمل سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں صفحات مل سکتے ہیں‘ اگر ان تصانیف کا دسواں حصہ بھی ان مسائل پر لکھا جاتا جو مسلمانوں کے لیے مفید ہو سکتے ہیں تو آج مسلمانوں کی تاریخ کا رنگ ہی اور ہوتا۔
 علمی اور ادبی اختلاف:
یہی حال کوفی اور بصری نحویوں کے ما بین اختلاف میں پایا گیا ہے۔ اسی طرح ادب کے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شاعر کی محبت میں بری طرح فنا ہوا جا رہا ہے اور کوئی اس کی مذمت میں غلو کر رہا ہے۔
 امام ابن تیمیہؒ اور استاد محمد عبدہٗؒ:
وقت کے مجاہد اور عالم امام ابن تیمیہa کی محبت اور عداوت میں بھی یہی رنگ نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں نے ان پر کفر اور زندیقیّت کے فتوے لگا دیئے۔ حالانکہ ائمہ مجتہدین کے بعد کوئی ایسا صاحب علم نہیں گذرا جو دقت نظر اور فہم دین میں ان کے ہم پلہ ہو۔ ماضی قریب میں اسی قسم کی صورت حال محمد عبدہٗ کے معاملہ میں پیش آئی۔
 لا مرکزیت کی بنیادی وجہ:
یہ تو وہ تاریخی شواہد ہیں جن سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ محبت وعداوت کے اظہار میں بے اعتدالی نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ ہماری موجودہ زندگی بھی اس خرابی سے پاک نہیں۔ ہمارے ہاں مرکزیت کے فقدان اور اضطراب وانتشار کی بڑی وجہ یہی غلو ہے۔ کوئی کسی رہنما کی عقیدت میں اتنا غلو کرتا ہے کہ اسے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے اور دوسرے اس کی مذمت میں دوسری انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں اور اسے ہر قسم کی فضیلت قربانی اور اخلاص سے تہی دامن بنا دیتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ امت اس طرح مختلف گروہوں اور پارٹیوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔
 صحافت کا طرزِ عمل:
آپ اپنے ہاں اخبارات کو دیکھیے کہ وہ سیاسی رہنماؤں کی محبت یا نفرت میں کس طرح کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کوئی اپنے پسندیدہ لیڈر کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا رہا ہے اور کوئی نفرت وعداوت میں اس درجہ کو پہنچ گیا ہے کہ اس کے نزدیک اس لیڈر کا مقام اسفل السافلین سے کم نہیں۔ اس کا اندازہ آج کل سوشل میڈیا سے کیا جا سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ اس قسم کی غالی ذہنیت نے ہماری قوتوں کو غلط راستے پر ڈال دیا اور ہم کوئی مفید کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔
 انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلق غلو:
قرآن مجید نے واضح الفاظ میں اس بات سے روکا ہے کہ رسولوں کے معاملہ میں غلو سے کام لیں اور ان کی طرف وہ صفات منسوب کریں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ} (آل عمران: ۱۴۴)
’’اور محمد (e) ایک رسول ہیں‘ آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔‘‘
 نفلی عبادت میں غلو:
غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان نفلی عبادت میں اس طرح منہمک ہو جائے کہ اسے دوسروں کے حقوق کا بھی خیال نہ رہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاصw کی بیوی رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ دن بھر روزے سے رہتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں‘ گھر کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ آپe نے فوراً عبداللہt کو بلا بھیجا اور فرمایا:
[لا تفعل ولکن صم وافطر، وقم ونم، وأت اہلک] (بخاری: ۱۹۷۵)
’’تم ایسا نہ کیا کرو‘ روزہ بھی رکھو افطار بھی کرو‘ رات کو عبادت بھی کرو اور آرام بھی کرو اور اپنے گھر والوں کا حق ادا کرو۔‘‘
[فان لنفسک علیک حقا، وان لجسدک علیک حقا وان لاہلک علیک حقا]
’’اس لیے کہ تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے۔‘‘
 دشمنی کی بنا پر نا انصافی:
معاملات میں بھی نفسانیت کی پیروی سے روکا گیا ہے‘ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ دوستی اور محبت کی بنا پر راہ انصاف سے ہٹ جائے یا دشمن کی دشمنی سے متاثر ہو کر حق کا دامن چھوڑ بیٹھے۔ قرآن حکیم نے صاف ہدایت کی ہے کہ
{وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنْاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوٓا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی} (المائدہ: ۸)
’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کر دے‘ انصاف کرو وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
 دوستی کی بنا پر انصاف سے برگشتگی:
سورۂ نساء میں ارشاد ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ} (النساء: ۱۳۵)
’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے انصاف کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ‘ خواہ اس انصاف کی بنا پر خود تمہیں یا والدین اور رشتے داروں کو نقصان اٹھانا پڑے۔‘‘
 جاہلی عصبیت:
اسی طرح اسلام میں ایسی عصبیت سے بھی روکا گیا ہے جس کی بنا پر انسان عدل وانصاف کے تمام تقاضے پامال کر دے‘ رسول اللہe کا ارشاد ہے:
[لیس منا من دعا الی عصبیۃ]
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی طرف لوگوں کو بلائے۔‘‘
 محبت ونفرت میں غلو کا علاج:
محبت کی حالت ہو یا نفرت کی ہر شکل میں میانہ روی اختیار کرنا اسی حکمت کے مطابق ہے جس سے محبت کے رشتے پائیدار ہو سکتے ہیں اور بغض وعداوت کے نشانات کو مٹایا جا سکتا ہے اور ان سوراخوں کو بند کیا جا سکتا ہے جن سے شیطانی جراثیم داخل ہو کر دوستیوں اور محبتوں کو دشمنیوں اور نفرتوں میں بدل دیتے ہیں۔ کسی حکیم نے کیا خوب کہا ہے:
اذا احببت ففکر فی البغض لعلہ یکون
واذا کرہت ففکر فی الحب لعلہ یکون
’’جب تم کسی سے دوستی کرو تو نفرت کا پہلو بھی سامنے رکھو ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ صورت بھی پیش آ جائے اور جب کسی کی نفرت دل میں بیٹھ جائے تو دوستی کا معاملہ بھی پیش نظر رہے ممکن ہے کہ کبھی نفرت کو محبت سے بدلنا پڑے۔‘‘
بارہا ایسا ہوا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں دشمنوں کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ اس لیے ہمیں دشمنی اور نفرت میں اس حد کو نہیں پہنچنا چاہیے کہ پھر بعد میں دوستی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
 سبق آموز واقعہ:
مجھے اپنی طالب علمی کے زمانے کا واقعہ یاد آیا کہ ہمارے ایک استاد اپنے علم وفضل کے لحاظ سے بڑے ممتاز تھے مگر ان کا انداز درس وتدریس ہمیں پسند نہ تھا‘ ہم سب طلبہ نے طے کیا کہ انہیں درس گاہ سے نکلوا دیا جائے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا استاد لایا جائے‘ ہم نے ہڑتال کر دی اور پروپیگنڈے کے ذریعے استاد موصوف کے علم وفضل کے بارے میں طلبہ کے دلوں میں شبہات پیدا کر دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ استاد موصوف کو وہاں سے نکل جانا پڑا‘ اس پرانے واقعہ کی یاد اب جب کبھی تازہ ہوتی ہے تو انتہائی ندامت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب ندامت سے کیا فائدہ؟ زندگی میں اس قسم کے بہت سے مواقع آتے ہیں جہاں انسان کسی فرد یا گروہ کی دشمنی کی بنا پر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتا ہے۔
 بدگمانی کے نتائج:
دعوت واصلاح کی کتنی ایسی کوششیں ہمارے معاشرے میں برپا ہوئیں جن کی مخالفت میں انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور بے بنیاد خبروں اور افواہوں کی بنا پر ان کی مخالفت شروع کر دی گئی‘ بدگمانی کی اس بیماری نے معلوم نہیں کتنے اچھے اچھے لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیا۔ حالانکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
{وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰپکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا} (بنی اسرائیل: ۳۶)
’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کا علم تمہیں نہیں۔ بے شک کان‘ آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال ہو گا۔‘‘
 حاصل کلام:
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں محبت ونفرت میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیے اور جس بات کو بھی ہم قبول کریں یا چھوڑیں اس کے متعلق پوری طرح چھان بین کر لینی ضروری ہے۔ اسی طرح دوستی اور دشمنی میں بھی بردباری اور دور اندیشی کا پہلو ملحوظ رہنا چاہیے۔ ایک شریف اور مدبر انسان کا یہی طرۂ امتیاز ہے۔ اسی طرح ایک سمجھ دار قوم بھی اسی طرز عمل کو اپنے لیے مشعل راہ بناتی ہے۔
 غلو کا انجام:
اگر ہمارا یہی انداز فکر رہا کہ قوم کے ممتاز افراد کے محاسن کے بارے میں غلو سے کام لیتے رہے اور مخلص کارکنوں کی راہ میں شکوک وشبہات کے کانٹے بچھاتے رہے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکل سکتا ہے کہ ہماری توانائیاں بناؤ کی بجائے بگاڑ میں صرف ہوں اور ہماری مثال اس بڑھیا کی سی ہو جس نے خود ہی سوت کاتا اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسے تار تار کر دیا۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے امت کے ہر فرد کی تعمیری کوشش پوری قوم کا سرمایہ ہے‘ اس لیے ہمیں کسی ادنیٰ فرد کی بھی معمولی کوشش کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
 قرآنی ہدایات:
ہمارے اخلاق کی درستگی اور ہماری اجتماعی زندگی کی بہتری اسی میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۱ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۱ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی۱ وَ بِعَہْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا۱ ذٰلِکُمْ وَصّٰٹکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ٭ وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۱ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ۱ ذٰلِکُمْ وَصّٰیکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ٭} (الانعام: ۱۵۲-۱۵۳)
’’اور ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو‘ ہم انسان کو اس کی طاقت کے مطابق ہی مکلف بناتے ہیں۔ جب تم بات کرو تو انصاف سے کام لو خواہ تمہارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو اس کے ساتھ تمہیں نصیحت کی ہے‘ امید ہے کہ تم نصیحت قبول کرو گے اور بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو‘ مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ تم صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ تمہیں وصیت کی اور تاکید کی ہے‘ امید ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو گے۔‘‘


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)