Saturday, August 17, 2019

صلوٰۃ الضحیٰ ... فضائل ومسائل 31-2019


صلوٰۃ الضحیٰ ... فضائل ومسائل

تحریر: جناب مولانا عبدالولی (سعودی عرب)
صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) سنت ہے‘ کیونکہ رسول اللہe خود بھی پڑھتے تھے اور صحابہ کرام] کو بھی اس کی تلقین فرماتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہt بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل محمدe نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی 1 ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے کی 2 چاشت کی دو رکعت نماز پڑھنے کی 3 سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔ (بخاری الصوم باب صیام البیض: ۱۹۸۱‘ مسلم صلوٰۃ المسافرین باب استحباب صلوٰۃ الضحیٰ: ۷۲۱)
سیدنا ابوالدرداءt بیان کرتے ہیں کہ میرے حبیب محمدe نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی‘ میں انہیں ہرگز نہ چھوڑوں گا جب تک زندہ رہوں گا 1 ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے کی 2 چاشت کی نماز پڑھنے کی 3 اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔ (مسلم‘ صلوٰۃ المسافرین باب استحباب صلوٰۃ الضحیٰ: ۷۲۲)
امام نوویa فرماتے ہیں: ’’ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ چاشت کی نماز سنت مؤکدہ ہے۔‘‘ (شرح النووی علی صحیح مسلم: ۳/۲۳۳)
 صلوٰۃ الضحیٰ کی فضیلت:
سیدنا ابوذرt روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:
[یصبح علی کل سلامی من أحدکم صدقۃ فکل تسبیحۃ صدقۃ وکل تحمیدۃ صدقۃ وکل تہلیلۃ صدقۃ وکل تکبیرۃ صدقۃ وامر بالمعروف ونہی عن المنکر صدقۃ ویجزی من ذلک رکعتان یرکعہما من الضحے]
’’صبح ہوتے ہی تم میں سے ہر شخص کے جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے‘ پس ہر تسبیح (سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے‘ ہر تحمید (الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے‘ ہر تہلیل (لا الٰہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے‘ ہر تکبیر (اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے‘ بھلائی کا حکم دینا صدقہ ہے اور گناہ سے روکنا بھی صدقہ ہے اور ان سب چیزوں سے چاشت کی دو رکعتیں کفایت کرتی ہیں۔ (مسلم‘ صلوٰۃ المسافرین‘ باب استحباب صلوٰۃ الضحیٰ: ۷۲۰)
سیدنا بریدہt بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا:
[فی الإنسان ثلاثمائۃ وستون مفصلا فعلیہ أن یتصدق عن کل مفصل بصدقۃ قالوا: ومن یطیق ذلک یا نبی اللہ؟ قال: النخاعۃ فی المسجد تدفنہا والشیء تنحیہ عن الطریق فإن لم تجد فرکعتا الضحے تجزئک]
’’انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اسے چاہیے کہ ہر جوڑ کے عوض صدقہ کرے۔‘‘ صحابہ کرام] نے کہا: اللہ کے نبی! بھلا ایسا کون کر سکتا ہے؟ آپe نے فرمایا: ’’مسجد میں تھوک پڑا ہو تو تم اسے دفن کر دو‘ کسی تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹا دو اور اگر یہ چیزیں نہ پاؤ تو چاشت کی دو رکعت نماز تمہاری جانب سے کفایت کرتی ہے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب‘ باب فی اماطۃ الاذی عن الطریق: ۵۲۴۲‘ مسند احمد: ۵/۳۵۴ (صحیح عند الالبانی) دیکھیے: صحیح الترغیب والترہیب: ۱/۴۲۰۔ حدیث: ۶۶۶)
سیدنا انس بن مالکt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:
[’من صلی الفجر فی جماعۃ ثم قعد یذکر اللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ۔‘ وعمرۃ۔ قال: قال رسول اللہﷺ: ’تامۃ تامۃ تامۃ۔‘]
’’جو شخص باجماعت نماز فجر پڑھے‘ پھر سورج کے طلوع ہونے تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہے‘ پھر دو رکعت نماز پڑھے تو اسے حج اور عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔‘‘ آپe نے تین بار فرمایا: ’’مکمل حج وعمرہ کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ (ترمذی‘ الجمعہ‘ باب ذکر ما یستحب من الجلوس فی المسجد: ۵۸۶ (حسن عند الالبانی) دیکھیے: صحیح ترمذی: ۱/۴۷)
اور اس کا افضل وقت گرمی کے سخت ہو جانے کے بعد ہے‘ کیونکہ رسول اللہe نے فرمایا:
[صلوٰۃ الاوابین حین ترمض الفصال]
’’چاشت کی نماز کا وقت وہ ہے جب اونٹنی کے بچے کا پاؤں جلنے لگے۔‘‘ (مسلم‘ صلوٰۃ المسافرین‘ باب صلوٰۃ الاوابین حین ترمض الفصال: ۷۴۸)
امام بہوتیؒ فرماتے ہیں:
’’چاشت کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ بلند ہو جانے کے بعد سے زوال آفتاب سے تھوڑا پہلے تک ہے اور افضل وقت گرمی کے سخت ہو جانے پر ہے۔‘‘ (الروض المربع: ۱۱۲)
 رکعات کی تعداد:
سیدنا ابوہریرہt بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل محمدe نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی 1 ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے کی 2 چاشت کی دو رکعت نماز پڑھنے کی 3 سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔
سیدہ ام ہانیr فرماتی ہیں کہ رسول اللہe نے فتح مکہ کے دن میرے گھر میں غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز ضحی (چاشت) پڑھی۔ (بخاری‘ التہجد‘ باب صلوٰۃ الضحیٰ فی السفر: ۱۱۷۶۔ مسلم‘ صلوٰۃ المسافرین‘ باب استحباب صلوٰۃ الضحی وان اقلہا رکعتان: ۷۱۹)
معلوم ہوا کہ چاشت کم از کم دو رکعت ہے اور چار‘ چھ‘ آٹھ بھی درست ہے‘ راجح قول کے مطابق زیادہ کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔
سیدنا معاذt نے سیدہ عائشہr سے دریافت کیا‘ رسول اللہe چاشت کی کتنی نماز پڑھتے تھے؟ سیدہ عائشہr نے کہا: چار رکعتیں۔ اور جس قدر اللہ چاہتا ہے آپe اس سے زیادہ بھی پڑھتے۔ (مسلم‘ صلوٰۃ المسافرین‘ باب استحباب صلوٰۃ الضحیٰ وإن أقلہا رکعتان: ۷۱۹)
علامہ عبدالعزیز بن بازa فرماتے ہیں:
’’چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت ہے اور چار‘ چھ‘ آٹھ بھی جائز ہے بلکہ حسب سہولت اس سے زیادہ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ زیادہ کے لیے کوئی حد متعین نہیں۔ علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ (مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعہ: ۱۱/۳۹۹‘ الشرح الممتع: ۴/۱۱۷-۱۱۹)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو رسول اللہe کی سنتوں کو زندہ کرنے اور فرائض کی پابندی کے ساتھ نوافل کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)