غیر سرکاری رؤیت ہلال کمیٹیاں
تحریر: جناب الشیخ ابوعمر عبدالعزیز
النورستانی
عہد قدیم سے مسلمانوں کا طریقۂ عمل:
اسلام کی سلطنت وحکومت دنیا کے کسی خطہ پر آج سے نہیں بلکہ ایک
ہزار سال تو تک مسلمانوں نے تقریبا پوری دنیا پر حکومت کی ہے مگر یہ عید کی وحدت ویکسانیت
کا سوال کبھی کسی حکومت یا ملت کے ذہن پر سوار نہیں تھا۔ اپنی اپنی رؤیت کے مطابق
ہر جگہ عید منائی جاتی تھی‘ نہ کوئی اختلاف نہ کوئی جھگڑا نہ دوسری جگہ کی شہادتیں
حاصل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ‘ کتنا سیدھا وسچا وصاف طریقہ تھا جس کو ایک خیالی موہوم
وحدت کے خیال سے چھوڑ کر طرح طرح کے فتنوں‘ جھگڑوں اور دشواریوں کو دعوت دی جا رہی
ہے۔ (جواہر الفقہ: ص ۴۶۵‘ از مفتی شفیعؒ)
وطن عزیز اور غالباً دوسری جگہوں پر ہر سال رمضان المبارک کی
آمد اور عید کے موقع پر لوگوں میں شدید اختلاف اور کشمکش کی صورت سامنے آتی ہے کہ کچھ
لوگ تو سعودی عرب کی رؤیت کو معتبر سمجھ کر روزہ رکھتے ہیں اور کچھ لوگ معتبر نہیں
سمجھتے اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ وہ کسی شیخ پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں۔ اس شیخ
کے لیے لڑتے ہیں‘ کچھ غیر سرکاری رؤیت ہلال کمیٹیوں کے دلدادہ ہیں‘ حالانکہ یہ سب
شرعا غیر معتبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورج چاند کے ساتھ عبادات اور معاملات کو جوڑا
ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{هوَ الَّذِیْ جَعَلَ
الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَه مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ
السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ}
’’اللہ تعالیٰ وہ
ذات ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کو نور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر فرمائیں
تا کہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان سکو۔‘‘ (یونس: ۵)
اسی طرح ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ
وَالنَّهارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا اٰیَة اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا اٰیَة النَّهارِ مُبْصِرَة
لِّتَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّكمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ
وَكلَّ شَیْئٍ فَصَّلْنَاه تَفْصِیْلاً} (الاسراء: ۱۲)
’’اور ہم نے رات
اور دن کے دو نمونے بنا دیئے، پھر رات کے نمونے کو دھندلا کر دیا اور دن کا نمونہ نظر
آنے کے لیے روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم برسوں کی گنتی
اور حساب معلوم کرلو، اور ہم نے ہر چیز کی تفصیل کر دی تفصیل کرنے کیساتھ۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ
بِحُسْبَانٍ} (الرحمن: ۵)
’’سورج اور چاند
ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
{إِنَّ الصَّلاة
كانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ كتَابًا مَّوْقُوتًا} (النساء: ۱۰۳)
’’بے شک مؤمنوں پر
نماز مقرر ہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{یَسْأَلُونَك عَنِ
الاَهلَّة قُلْ هیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ} (البقرة: ۱۸۹)
’’اے پیغمبر! یہ
لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو فرما دیجئے کہ یہ لوگوں کے لیے اور حج
کے لئے وقت معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العالمین نے سورج اور چاند
کو اس لئے مقرر کیا ہے تا کہ دن اور رات معلوم ہوسکیں‘ نمازوں اور حج کے حساب اور اسی
طرح رضاعت کی مدت کا حساب اور عدت وغیرہ کا۔
مثلا: نمازوں کے او قات اور ہر نمازکے وقت کا تعین علاقے کے
سورج کے مطابق ہوتا ہے‘ مثلا پشاورمیں ایک بجے ظہر کا وقت ہوتاہے تو سعودی عرب میں
گیارہ بجے ہوتے ہیں‘ ابھی زوال بھی نہیں ہوا ہوتا ہے۔ اسی طرح پشاو ر میں نماز مغرب
سات بجے ہوتی ہے تو سعو دی عرب میں اس وقت عصرکا ٹائم ہوتا ہے ، اسی طرح سعودی عرب
میں نصف اللیل اورثلث اللیل الاخیر کے وقت نزول الرب ہوتا ہے [کما یلیق بشأنہ] اور پا کستان میں صبح کی نماز کا وقت ہوتاہے۔
مقصد یہ کہ ثلث اللیل الأخیر، لیلۃ القدر، جمعے کے دن میں افضل
وقت، اوقات مکروہ،زوال، عرفہ، محرم وغیرہ سب مقامی اوقات کے حساب سے ہو گا۔ اسی طرح
رمضان میں سحری افطاری کاوقت ہر ملک میں وہیں کے طلوع وغروب کے حساب سے ہوگا، اسی طرح
مطلقہ اورمتوفی عنہا زوجہاکی عدت وغیرہ پوری ہونا بھی مقامی طلوع وغروب کے اعتبار سے
ہوگا، اس طرح بیوع اجارات، عہودکا تعین بھی مقامی طلوع و غروب کے اعتبار سے ہوگا۔
مگر آئے روز میڈیا اورایسے علماء جو شہرت پسند اور إعجاب کل
ذی رأی برأیۃ کے مصداق ہیں ان کی وجہ سے یہ مشکلات اورجھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔
چونکہ رسول اللہe نے
مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا: [صوموا لرؤیته وأفطروا لرؤیته] تو مسلمان اپنی اپنی رؤیت کے مطابق ہر جگہ عید مناتے جاتے تھے،
اس لیے کہ اس امرکا اطلاق پوری امت میں سے ہر علاقے کے باشندوں کو انہی کی رؤیت کے
اعتبارسے تھا، کیونکہ شارع حکیمu سے
یہ بات بعید ہے کہ وہ [أمر بما لا یطاق] کرے کیونکہ اگراس
امر [صوموا] کو عموم پر محمول کیا جا ئے تو پھر مشرق ومغرب کے عام مخاطبین
جہاں کہیں بھی ہوں چاند دیکھا تو پاکستان کے مسلمانوں کے لیے اس پر عمل ممکن نہ ہوگا
کیونکہ یہ امرجب مغرب اقصیٰ کے طرف متوجہ ہوتا ہے تو پاکستان میں رات ہوتی ہے لہٰذا
اس امر پرعمل ممکن نہیں۔ اگر یہ امر پا کستان کے مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو تو امریکہ
اور مغرب اقصی کے مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں، لہٰذا [صوموا] کا امر نسبی ہے جوکہ متوجہ ہے ان لوگو ں کے لیے جن کے ہاں چاند طلوع ہو چکا ہو
کیونکہ خطاب متوجہ نہیں ہوتا مگر اس وقت جب چاند طلوع ہو جائے۔ یہ قول میرے نزدیک معتبر
اور راجح ہے دلیل نقلی عقلی فلکی کی روسے۔
عبداللہ بن عبد الرحمن البسام فرماتے ہیں:
[وذهب الإمام الشافعی
وجماعة من السلف إلی القول بالحكم بإختلاف المطالع وقالوا إن الخطاب فی الحدیث نسبی
فإن الأمر بالصوم والفطر موجه إلی من وجد عندهم الهلال، أما من لم یوجد عندهم الهلال
فإن الخطاب لا یتناولهم إلا حین یوجد عندهم، وهذا قول له اعتبار من حیث الدلیل النقلی
والنظر الفلكی۔]
امام شافعیa اور
سلف میں سے ایک جماعت اختلاف مطالع پر حکم کرنیکی طرف گئے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ خطاب
حدیث میں نسبی ہے۔ لہٰذا روزہ اور افطارکا حکم متوجہ ہیں ان لوگوں کی طرف جن کے ہاں
چاند طلوع ہوچکا ہو اور جنکے ہاں نہیں ہوا تو حکم ان کو شامل نہیں ہوتا مگر اس وقت
کہ ان کے ہاں چاند موجود ہو‘ اس قول کے لیے اعتبار ہے دلیل نقلی اور دلیل فلکی کے رو
سے۔
پھر شیخ الاسلام ابن تیمیہa اور شیخ بخیت کا قول نقل کیا اور اختلاف مطالع کو اعتبار
نہ دینامنقول کے خلاف ہے:
[فإنه مخالف لحدیث
كریب فی صحیح مسلم۔]
نیزاہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے کہ نصوص پر عمل فہم سلف کے
مطابق ہونا ضروری ہے، لہٰذا سلف میں سے سیدنا عبداللہ بن عباسw جوکہ
رسول اللہe کی
دعا کی وجہ سے [حبر الأمة] اور [فقیه الأمة] ہیں، اسی [صوموا] کے امر کو نسبی طور پر اس علاقے پرخاص کرتے ہیں جہاں چاند طلوع ہوا ہو اور اسی
خصوص کوفہم کرتے ہیں اورفرماتے ہیں کہ مدینے والوں کے لیے ان کی رؤیت معتبرہے اور شام
والوں کے لیے ان کی۔
چنانچہ روایت ہے:
[عن كریب أن أم
الفضل بنت الحارث بعثته إلی معاویة بالشام قال فقدمت الشام فقضیت حاجتها واستهل علی
رمضان وأنا بالشام فرأیت الهلال لیلة الجمعة ثم قدمت المدینة فی آخر الشهر فسألنی
عبد الله بن عباس رضی الله عنهما ثم ذكر الهلال فقال متی رأیتم الهلال فقلت رأیناه
لیلة الجمعة۔ فقال أنت رأیته فقلت نعم ورآه الناس وصاموا وصام معاویة۔ فقال لكنا
رأیناه لیلة السبت فلا نزال نصوم حتی نكمل ثلاثین أو نراه۔ فقلت أولا تكتفی برؤیة
معاویة وصیامه فقال لا هكذا أمرنا رسول الله۔] (مسلم: ۲۵۸۰)
کریب فرماتے ہیں کہ مجھے ام الفضل بنت الحارث نے معاویہw کے پاس ملک شام بھیجا ۔ کریب فرماتے ہیں کہ میں شام
گیا تو میں نے ام الفضلr کا
جو کام تھا وہ مکمل کیا، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا اور میں
نے خود چاند دیکھا تو وہ جمعہ کا دن تھا ، میں جب مدینہ واپس آیا تو عبداللہ بن عباسw نے
مجھ سے چاند کے متعلق استفسار کیا تو میں نے ان کو جواب دیا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو
چاند دیکھا تو سیدنا ابن عباسw نے
مجھ سے کہا کہ کیا آپ نے خود چاند دیکھا ؟ تو میں نے جواب دیا جی ہاں، میں نے، لوگوں
نے اور سیدنا معاویہt سب
نے چاند دیکھا اور سب نے روزہ رکھا۔ تو سیدنا ابن عباسw فرمانے
لگے کہ ہم نے تو چاند ہفتے کی رات کو دیکھا ہے لہٰذا ہم عید الفطر یا تو تیس دن پورے
کرکے پڑھیں گے یا پھر ہم خود اپنا چاند دیکھ لیں، کریب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا
کہ کیا آپ کو معاویہt کی
رؤیت کفایت نہیں کرے گی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جس طرح ہم کررہے ہیں اسی طرح رسول
اللہe نے
ہمیں حکم دیا ہے۔
اس فہم کی سیدنا عبد اللہ بن عباسw کے زمانے میں موجودہ صحابہ اور تابعین میں سے کسی نے
بھی مخالفت نہیں کی،گویا کہ صحابہ] کا اس پر اجماع ہے۔
چنانچہ علامہ ابن عبدالبرa فرماتے ہیں:
[واختلف العلماء
فی الحكم إذا رأی الهلال أهل بلد دون غیره من البلدان فروی عن ابن عباس وعكرمة والقاسم
بن محمد وسالم بن عبد الله أنهم قالوا لكل أهل بلد رؤیتهم وبه قال إسحاق بن راهویه
وحجة من قال هذا القول.]
’’اس حکم میں علماء
کا اختلاف ہے کہ ایک شہر میں چاند ہوجائے اور دیگر شہروں میں نہ ہو۔ سیدنا ابن عباسw عکرمہ
اور قاسم بن محمداورسالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ہر شہر والوں کے لیے
ان کی رؤیت ہے‘ اسی پر اسحاق بن راہویہ نے بھی قول کیا ہے ان کی دلیل یہ ہے۔‘‘
پھر کریبa کے
حدیث کو ذ کر کیا پھر دوسرا قول ذکر کیا فر مایا:
[وفیه قول آخر روی
عن اللیث بن سعد والشافعی وأحمد بن حنبل قالوا: إذا ثبت عند الناس أن أهل بلد رأوه
فعلیهم قضاء ما أفطروا وهو قول مالك فیما رواه ابن القاسم وقد روی عن مالك وهو مذهب
المدنیین من أصحابه أن الرؤیة لا تلزم غیر البلد الذی حصلت فیه إلا أن یحمل الإمام
علی ذلك وأما مع اختلاف الكلمة فلا إلا فی البلد بعینه وعمله هذا معنی قولهم وقد لخصنا
مذاهبهم فی ذلك فی الكتاب الكافی.]
اس میں ایک اور قول ہے جو کہ لیث بن سعد‘ امام شافعی اور امام احمدبن حنبل سے روایت
کیا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کے ہاں یہ ثابت ہوجائے کہ ایک شہر والوں نے دیکھا ہے تو جنہوں نے
دیکھا اور انہوں نے افطار کیا تو اس کی قضا لازم ہو گی۔ یہ امام مالک کا قول ہے‘ ابن
قاسم کی روایت کے مطابق اور تحقیق روایت کیا گیا ہے امام مالک سے اور یہ مدینہ میں
اس کے شاگردوں کا مذہب ہے کہ رؤیت لازم نہیں مگر اس شہر والوں پر جنہوں نے دیکھا ہے
ہاں اگر حاکم وقت ان پر لازم کرے تو لازم ہوگا اور اگر اختلاف ہو تو لازم نہیں ہوگامگر
اس شہر والوں پرجنہوں نے دیکھا‘ یہ ان کے قول کا معنی جو ہم نے اس خلاصہ میں بیان کیا‘
یہ بات کتاب الکافی میں موجودہے۔
پھر فرمایا:
[قال أبو عمر إلی
القول الأول أذهب لأن فیه أثراً مرفوعاً وهو حدیث حسن تلزم به الحجة وهو قول صاحب
كبیر لا مخالف له من الصحابة وقول طائفة من فقهاء التابعین ومع هذا إن النظر یدل علیه
عندی، لأن الناس لا یكلفون علم ما غاب عنهم فی غیر بلدهم ولو كلفوا ذلك لضاق علیهم
أرأیت لو رأی بمكة أو بخراسان هلال رمضان أعواماً بغیر ما كان بالأندلس ثم ثبت
ذلك بزمان عند أهل الأندلس أو عند بعضهم
أو عند رجل واحد منهم أكان یجب علیه قضاء ذلك وهو قد صام برؤیة وأفطر برؤیة أو
بكمال ثلاثین یوماً كما أمر ومن عمل بما یجب علیه مما أمر به فقد قضی الله عنه، وقول
ابن عباس عندی صحیح فی هذا الباب والله الموفق للصواب] (التمهید لما فی الموطأ من المعانی
والأسانید: ۱۴/۳۵۸)
ابو عمر ابن عبد البر فرماتے ہیں: پہلے قول(اختلاف مطالع کو معتبر کرنا)پر میں
عمل کرتا ہوں اس لیے کہ اس میں مرفوع اثر ہے اور یہ حسن حدیث ہے اوریہ ایک بہت بڑے
صحابی کا قول ہے‘ صحابہ میں سے اس کا کوئی مخالف نہیں اور اس پر فقہاء تابعین میں سے
ایک جماعت کا عمل ہے‘ اسی کے ساتھ ساتھ قیاس بھی میرے نزدیک اس پردلالت کرتا ہے،اس
لیے کہ لوگ مکلف نہیں اس چیزپر جو ان سے غائب ہے انکے شہر کے علاوہ کسی اور جگہ اگر
اس چیز کے مکلف کیے جائیں تو ان پر تنگی ہوگی‘ ذرا بتائیے اگر مکہ اور خراسان میں چاند
سال تک اس طرح چاند ہو جس طرح سے اندلس میں نہیں ہوا تھا پھر چند سال بعد اندلس والوں
کو یا اندلس کے کسی علاقے میں یا اندلس کے کسی ایک آدمی کو یہ معلوم ہوا کہ ہم غلطی
پر تھے کیا ان پر ان سالوں کا قضاء لازم ہوگا حالا نکہ انہوں نے روزہ افطار رؤیت کے
بناپر یا چاند کے تیس پورے ہونے پر کیا ہے
جیسے ان کو حکم ہوا تھا جس نے وہ عمل کیا جو اس پر واجب تھا اس طریقے سے جس کا امر
کیا گیا تھا بیشک اللہ نے اس عمل کو اس سے پورا کردیا‘ لہٰذا ابن عباسw کاقول
میرے نزدیک صحیح ہے اس باب میں ۔
اسی طرح مجموع فتاوی و مقالات متنوعہ میں رؤیت ہلال پر بحث کرتے
ہوئے کریب والی حدیث کا ذکر کر کے فرماتے ہیں:
[وهذا قول له حظ
من القوة، وقد رأی به أعضاء مجلس هیئة كبار العلماء فی مملكة العربیة السعودیة جمعاً
بین الأدلة]
’’یہ ایک قول ہے
جس کے لیے کچھ حصہ ہے قوت میں سے‘ اسی کی طرف گئے ہیں بعض کبارعلماء جو کہ سعودی عرب
کے مشہورعلماء کے کمیٹی سے ہیں دلائل میں موافقت کرنے لیے۔‘‘
اسی طرح تابعین جوکہ سلف الامہ ہیں انہوں نے بھی اس حدیث کا
یہی مفہوم لیا ہے۔
چنانچہ امام
ابوبکر ابن ابی شیبہa فر
ماتے ہیں:
[عَنْ عَبْدِ الله
بْنِ سَعِیدٍ قَالَ: ذَكرُوا بِالْمَدِینَة رُؤْیَة الْهلاَلِ وَقَالُوا: إنَّ اَهلَ
إِسْتَارَة قَدْ رَاَوْه، فَقَالَ الْقَاسِمُ، وَسَالِمٌ (رحمهم الله: مَا لَنَا وَلاَهلِ
إِسْتَارَة) یعنی لم یعتبر ذلك رؤیة ولا شهادة وهما تابعان ثقتان من فقهاء التابعین
السبعة] (مصنف ابن أبی شیبة: ۳/۷۹)
عبداللہ بن سعید سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ مدینے میں چاند دیکھنے کے بارے میں
بات ہوئی تو لوگوں نے کہا کہ استارہ کے باسیوں نے دیکھا ہے قاسم اور سالم (S) نے کہا ہمارا استارہ
سے کیا واسطہ ہے،یعنی ان دونوں نے استارہ کی رؤیت کو معتبر نہیں سمجھااور نہ اس شہادت
کو حالانکہ یہ دونوں ثقہ تابعین فقہاء سبعۃ میں سے ہیں۔قاسم اورسالم کے زمانے میں جو
تابعین موجود تھے انہوں نے سالم اور قاسم کی مخالفت نہیں کی گویا کہ تابعین کا بھی
اسی پراجماع ہے۔
جو فہم صحابہ اورتا بعین نے کیا ہے محدثین نے بھی وہی مفہوم لیا ہے لہٰذاہر محدث باب باندھتا ہے:
امام ترمذیa فرماتے
ہیں:
[باب ما جاء لكل
أهل بلد رؤیتهم]
’’باب ہے اس پر کہ
ہر ملک والوں کے لیے ان کی رؤیت ہے۔‘‘
اس باب کے تحت حدیث کریب کو لا کر فرماتے ہیں:
[حدیث حسن صحیح غریب،
والعمل علی هذا الحدیث عند أهل العلم، أن لكل أهل بلد رؤیتهم۔]
سیدنا ابن عباسw کی
حدیث حسن صحیح غریب ہے‘ اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کی
رؤیت ہے۔‘‘
امام نسائی اپنی سنن میں فرماتے ہیں:
[إختلاف أهل الآفاق
فی الرؤیة۔]
’’رؤیت میں مختلف
جگہ والوں کا اختلاف ہے۔‘‘
امام ابو داؤدa اپنی
سنن میں فرماتے ہیں:
[باب إذا رأی الهلال
فی بلد قبل الآخرین بلیلة۔]
’’جب چاند ایک شہرمیں
دوسرے شہروں سے ایک رات پہلے دیکھا جائے۔‘‘
امام ابن خزیمہa فرماتے
ہیں:
[باب الدلیل علی
أن الواجب علی أهل كل بلد صیام رمضان لرؤیتهم لا رؤیة غیرهم۔]
’’دلیل اس بات پر
کہ ہر ملک والوں پر رمضان ان کی رؤیت سے واجب ہوگا نہ کہ دوسروں کی رؤیت سے۔‘‘
امام ابن أبی شیبہa فرماتے ہیں:
[القوم یرون الهلال
ولا یرونه الآخرون۔]
’’ایک قوم چاند دیکھے
اور دوسرے نہ دیکھیں۔‘‘
صحابہ‘ تابعین اور محدثین کے طرز عمل سے معلوم ہوا کہ سعودی
عرب کی رؤیت کی بنا ء پرپاکستا ن میں روزہ رکھنا مرجوح ہے اوریہی رائے سعودی مشائخ
کی ہے۔
شیخ عبد العزیز بن بازa ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
[علی المسلم أن
یصوم مع الدولة التی هو فیها ویفطر معها لقول النبیﷺ الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون
والأضحی بوم تضحون] (مجموع فتاویٰ ومقالات المتنوعة: ۱۰۲)
مسلمان پر واجب ہے کہ وہ روزہ رکھے اس حکومت کے ساتھ جس حکومت میں یہ رہتا ہواور
انہی کے ساتھ افطار کرے اس لیے کہ نبی کریمe نے فرمایا کہ روزہ اس دن ہے جس دن اور لوگ روزہ رکھیں
اور عید اس دن ہے جس دن لوگ عید کریں۔ اور بقر عید اس دن جس دن لوگ ذبیحہ کریں۔
نیزایک اور سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
[الذی یظهر لنا من
حكم الشرع المطهر أن الواجب علیكم الصوم مع المسلمین لدیكم، لأمرین: الأمر الأول
قول النبیﷺ ’الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والأضحی یوم تضحون‘ فأنت وإخوانك
مدة وجودكم فی الباكستان ینبغی أن یكون صومكم معهم حین یصومون وإفطاركم معهم حین یفطرون
لأنكم داخلون فی هذا الخطاب، ولأن الرویة تختلف بحسب اختلاف المطالع، وقد ذهب جمع
من أهل العلم منهم ابن عباس+ إلی أن لأهل كل بلد رویتهم، والأمر الثانی: أن فی
مخالفتكم المسلمین لدیكم فی الصوم والإفطار تشویشاً ودعوة لتساول والإستنكار وإثارة
للنـزاع والخصام، والشریعة الإسلامیة الكاملة جائت بالحث علی الإتفاق والوئام والتعاون
علی البر والتقوی ولهذا قال الله تعالی: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّه جَمِیعًا وَلاَ
تَفَرَّقُوا (آل عمران) وقال النبیﷺ: لـمّا بعث معاذاً وأبا موسی إلی الیمن: ’بشّروا
ولا تنفروا وتطاوعا ولا تختلفا۔‘ (مجموع فتاویٰ ومقالات المتنوعة: ۱۵/۱۰۳)
’’جو حکم شریعت مطہرہ
سے معلوم ہوتا ہے آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے یہ ہے کہ تم پر واجب ہے کہ جہاں رہتے
ہو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ روزہ اور عید کرو۔ دو وجہوں سے۔ نمبر ایک: رسول اللہe نے
فرمایا کہ روزہ اس دن رکھو جس دن ملک کے دوسرے مسلمان رکھتے ہیں اور عید اس دن مناؤ
جس دن اورمسلمان عید منا تے ہیں۔ آپ اور آپ کے بھائی جس وقت تک پاکستان میں موجود ہیں
تو ان کے ساتھ روزہ اور افطار کرتے رہو اس لیے کہ تم اس خطاب میں داخل ہو، نیزرؤیت
مختلف ہوتی ہے مطالع کے اختلاف کی وجہ سے۔ اسی اختلاف مطالع کی طرف گئی ہے ایک جماعت
اہل علم کی‘ ان میں سے سیدنا ابن عباسw ہیں‘ وہ فرماتے ہیں کہ ہر بلد کے لیے ان کی رؤیت ہے۔
نمبر دو: وہاں کے مسلمانوں سے تمہارے روزہ اورافطار میں مخالفت اورگڑ بڑ پیدا ہوگی‘
چہ میگوئیاں اور لڑائی جھگڑے پیدا ہونگے جس کو شریعت اسلا می ناپسند کرتی ہے‘ کیونکہ
شریعت اسلامی اتفاق واتحاد اورآشتی چاہتی ہے‘ نیکی میں ایک دوسرے کا تعاون چاہتی ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی رسی کوپکڑو اتفاق کے ساتھ اور تفرقہ مت کرو، رسول
اللہe نے
معاذt اور
ابوموسیt کو
یمن بھیجا تو فرمایا: ’’خوشخبری دیا کرو‘ نفرت نہ دلاؤ‘ ایک دوسرے سے اتفاق رکھو اختلاف
مت کرو۔‘‘
بعض لوگ شیخ پرستی کی بناء پرروزہ ر کھتے ہیں اور افطار کرتے
ہیں کہ فلاں شیخ نے کہا ہے یہ قطعا غلط ہے۔
امام ابن المبارکa فرماتے ہیں:
[دعوا عند الاحتجاج
تسمیة الرجال فرب رجل فی الإسلام مناقبه كذا وكذا وعسی أن یكون منه زلة۔] (الصوارم:
۲۹۵-۲۹۶)
’’احتجاج کے وقت
لوگوں کے نام کو چھوڑو کیونکہ کسی شخص کا اسلام میں بہت اونچا مرتبہ ہوگا مگر ہوسکتاہے
کہ وہ اس مسئلے میں پھسل گیا ہو۔‘‘
بعض اوقات غیر سرکاری رؤیت ہلال کمیٹیوں کے اعلان کی وجہ سے
لوگ روزہ رکھتے ہیں‘ دوسرے دن چاند بڑا نظر آتا ہے تب بھی لوگ لڑتے ہیں دیکھو چاند
کتنا اونچااور بڑا ہے‘ کل کاروزہ حق تھااور آپ لوگ کھا گئے ہو اس کا حل بھی احادیث
میں موجود ہے۔
شیخ البانیa اپنے
سلسلہ صحیحہ میں فرماتے ہیں کہ
[من اقتراب الساعة
انفتاخ الأهلة وأن یری الهلال للیلة هو ابن لیلتین۔] (۲۲۹۲)
’’قرب قیامت کی نشانیوں
میں سے چاند کا کھل جاناہے کہ ایک رات کاچاند دو راتوں کا نظر آئیگا۔‘‘
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[عن أبی البختری
قال: خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة قال ترائینا الهلال فقال بعض القوم هو ابن
ثلاث۔ وقال بعض القوم هو ابن لیلتین قال فلقینا ابن عباس فقلنا إنا رأینا الهلال فقال
بعض القوم هو ابن ثلاث وقال بعض القوم هو ابن لیلتین، فقال: أی لیلة رأیتموه؟ قال:
فقلنا لیلة كذا وكذا۔ فقال إن رسول الله۔ قال: إن الله مده للرؤیة فهو للیلة رأیتموه۔
وفی روایة عنه قال: أهلنا رمضان ونحن بذات عرق فأرسلنا رجلا إلی ابن عباس یسأله،
فقال ابن عباس: قال رسول اللهﷺ: ’إن الله تعالی قد أمدّه لرؤیته فإن أغمی علیكم فأكملوا
العدة۔‘]
’’ابوالبختری سے
روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم عمرے کے لیے نکلے جب ہم بطن نخلہ میں اترے تو ہم نے چاند
ایک دوسرے کو دکھایا‘ بعضوں نے کہا پہلی رات کا ہے‘ بعضوں نے کہا دوسری را ت کا ہے‘
بعضوں نے تیسری رات کا کہا‘ ہم ابن عباسw سے ملے اور کیفیت بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول
اللہe نے
فرمایا: ’’اللہ نے دیکھنے کے لیے بڑا کر دیا‘ یہ اسی رات کا ہے جس رات کو تم نے دیکھا
ہے۔‘‘
دوسر ی روایت میں ہے ہم ذات عرق میں تھے کہ ہم نے چاند دیکھا‘ ہم نے ابن عباسw کے
پاس کسی کو بھیجا کہ اس سے دریافت کریں تو انہوں نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے
کے لیے بڑا کیا ہے اوراگرتم سے چھپ گیا بادل وغیرہ میں تو گنتی پوری کرو۔
معلوم ہوا کہ احادیث کے ہوتے ہوئے باتیں بنانا متبع سنت کے لیے
اچھا کام نہیں۔ …… (جاری)
No comments:
Post a Comment