تخلیق آدم کے مختلف مراحل
تحریر: جناب میاں محمد جمیل
اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل کو مٹی سے پیدا کیا پھر مٹی کو مختلف
مراحل سے گزار کر حضرت آدم u کا
ڈھانچہ تیار کیا‘ اس لیے جب حضرت آدمu اور ان کی تخلیق کاذکر ہوتا ہے تو کبھی ایک مرحلہ سے
اس کا آغاز کیا جاتا ہے اورکبھی دوسرے مرحلہ سے ابتداء کی جاتی ہے۔ ایک جگہ فرمایا
کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، دوسری جگہ کھڑکھڑاتی ہوئی مٹی کا ذکر کیا ہے، پھر
فرمایا: ’’ہم نے انسان کو بدبودار مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ کبھی فرمایا کہ ’’ہم نے انسان
کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔‘‘ گویا کہ بیان کی مناسبت سے اس کے مختلف تخلیقی مراحل
کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ انسان اپنی تخلیق کو یاد کرکے اپنے مالک اور خالق کو پہچاننے
کی کوشش کرے اور اس کی بندگی کا حق ادا کرتا رہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ
فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ
وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۳۰﴾ (البقرہ)
’’اور جب آپ کے
رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کی کہ کیا
آپ زمین میں اُسے بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گااور خون بہائے گا۔ ہم حمد و ثناء
کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس بیا ن کرتے ہیں، فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
‘‘
ربِ کائنات نے زمین و آسمان کو بنانے اور سجانے کے بعد کائنات
کی اعلیٰ ترین مخلوق ملائکہ کے باوقار اور پر شکوہ اجتماع میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ
سیدنا آدمu کی
تخلیق اور خلافت کا اعلان فرمایا۔اللہ، اللہ۔ کیا احترام ومقام ہے جناب آدمu کا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ انہیں بہترین سانچے میں استوار فرمایا۔اپنی
طرف سے روح کو اس میں القاء کیا اور پھر خلافت کے منصب پر فائزفرماکراعلیٰ ترین مخلوق
سے سجدہ کروایا۔ آدمu کی
خلافت کا اعلان سنتے ہی ملائکہ نے اللہ کے حضور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ تو ایسی
مخلوق ہے کہ جو زمین میں قتل و غارت اور دنگا فساد کرے گی جب کہ ہم آپ کے لائق تیری
حمد وستائش کرتے ہیں۔ خلافت سے مراد سیدنا آدمu کی حکمرانی ہے یا پھر آدمu جنات
کے خلیفہ ہیں کیونکہ آدمu سے
پہلے زمین کا نظام جنات کے سپرد تھا ۔
﴿اِذْ قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ۰۰۷۱ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ
وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ۰۰۷۲﴾ (صٓ: ۷۱، ۷۲)
’’جب آپ کے رب نے
فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پوری طرح بنا
دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں، تواس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔ ‘‘
۱۔ تراب:
خالقِ کائنات نے انسان اوّل کے وجود کو غیر متحرک اور بے جان
مادے سے تخلیق کیا۔ جو بذاتِ خود اس کی قدرت کا عظیم معجزہ ہے۔
﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ
مِّنْ تُرَابٍ ﴾ (المومن: ۶۷)
’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی
سے پیدا فرمایا۔‘‘
۲۔ ماء:
خالقِ کل کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر جاندار چیز کی ابتداء پانی
سے کی ہے:
﴿وَ جَعَلْنَا مِنَ
الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ١ؕ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۰۰۳۰﴾ (الانبیاء: ۳۰)
’’اور ہم نے ہر زندہ
چیز کی نمو پانی سے کی ہے تو کیا وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟‘‘
انسان کی تخلیق میں بطور خاص پانی کا ذکر کیا ہے:
﴿وَ هُوَ الَّذِيْ
خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا ﴾
’’اور وہی ذات ہے
جس نے آدمی کو پانی سے پیدا کیا۔‘‘ (الفرقان: ۵۴)
۳۔ طین:
انسان کی تخلیق میں ’’مٹی‘‘ اور ’’پانی‘‘ بنیادی اجزاء
ہیں۔ ان کے ملاپ سے ’’طین‘‘ یعنی گارا بنا،
انسان کی تخلیق کے حوالے سے ربِ کائنات نے اس کا یوں ذکر فرمایاہے:
﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ
مِّنْ طِيْنٍ ﴾ (الانعام: ۲)
’’اسی ذات نے تمہیں مٹی
کے گارے سے پیدا فرمایا۔‘‘
یاد رہے کہ قارئین کی سہولت کے لئے طین کا معنٰی گارا کیا جاتا
ہے جبکہ تراب خشک مٹی کو کہتے ہیں۔ امام راغب اصفہانیa فرماتے ہیں:
[التراب الارض نفسہا.]
’’تراب سے مراد زمین
ہے۔‘‘ (المفردات)
طین اس مٹی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ پانی ملا ہوا ہو۔
۴۔ طین لازب:
انسانِ اوّل کی تخلیق کا چوتھا مرحلہ یوں ذکر ہواہے:
﴿اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ
مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ۰۰۱۱﴾ (الصافات: ۱۱)
’’بے شک ہم نے انہیں
چپکتے گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘
جب گارا گاڑھا ہو جائے اور اس میں پانی کی مقدار نہ ہونے
کے برابر رہ جائے تو اسے عربی میں ’’طین لازب‘‘ کہا جاتا ہے۔
۵۔ صلصال من حماء مسنون:
مٹی اور پانی سے مل کر بنا ہوا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس
سے بو پیدا ہو گئی۔ اس بودار مادے کو اللہ رب العزت نے ’’صلصال من حماء مسنون‘‘ کا
نام دیاہے۔
﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنَا
الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ۰۰۲۶﴾ (الحجر: ۲۶)
’’اور بے شک ہم نے
انسان کی تخلیق بجنے والے گارے سے کی ہے۔‘‘
المنجد کے مؤلف لکھتے ہیں:
[اَلْصَلْصَالُ:
اَلطِّیْنُ الیَابِسُ اَلذِّی یَصِلُ مَنْ یَسْبُہ أَیْ یَصُوْتُ]
’’صلصال سے مراد
وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی اور سختی کی وجہ سے بجتی ہے یعنی آواز دیتی ہے۔‘‘
صلصال کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد آتی ہے کیونکہ عام مٹی
جسے تراب کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
لہٰذا صلصال کا مرحلہ ’’طین لازب‘‘ یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ پانچواں مرحلہ
جس کی وضاحت ﴿مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ۰۰۲۶﴾ کے الفاظ سے ہو تی ہے۔
’’حمی‘‘ حرارت اور
بخار کو کہتے ہیں۔ ’’حمی‘‘ میں اس سیاہ گارے کا ذکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرارت
کی وجہ سے وجود میں آئی ہو، گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشان دہی کر تاہے۔
’’مسنون‘‘ سے مراد متغیر اور بدبودار ہے۔ یہ لفظ ’’سن‘‘ سے نکلا ہے
جس کے معنی صاف کرنے، چمکانے کے بھی ہیں، لیکن یہاں اس سے مراد تبدیل ہونا ہے۔ جس کے
نتیجے میں کسی شے میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔
جب گارے ’’طین لازب‘‘ پر طویل زمانہ گزرا اور اُس نے جلنے سڑنے
کے مرحلے عبور کر لیے تو ا سکا رنگ بدل کر سیاہ ہو گیا اور جلنے کے اثر سے اُس میں بو
بھی پیدا ہو گئی۔ اِسی کیفیت کا ذکر ﴿حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ۰۰۲۶﴾ میں کیا جا رہا ہے۔
لفظِ ’’صلصال‘‘ واضح کر رہا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے
مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اس کی کثافت بھی کافی حد تک ختم
ہو چکی تھی۔
۶۔ صلصال کالفخار
انسان کی تخلیق کا چھٹا اور آخری مرحلہ ’’صلصال کالفخار‘‘ ہے
جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ
مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ۰۰۱۴﴾
’’اس نے انسان کو
ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ (الرحمن: ۱۴)
جب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا،
اُس حالت کو ﴿كَالْفَخَّارِ﴾ کہا گیا ہے اس میں دو اشارے ہیں:
1 ٹھیکرے کی طرح پک
کر خشک ہو جانا۔
2 کثافتوں سے
پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آجانا۔
لفظ ’’فخار‘‘ کا مادّہ فخر ہے، جس کے معنٰی بہتر اور فضیلت کے
ہیں۔ یہ فاخر سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت فخر کرنے والا۔ ’’فخار‘‘ گھڑے کو بھی
کہا جاتا ہے اور بعض اہل علم نے اس کا مطلب ٹھیکرا اور گھڑا لیا ہے۔ کیونکہ گھڑا پک
کر بجتا اور آواز دیتا ہے، وہ اپنی گونج سے اپنے پکنے اور پختہ ہونے کی ترجمانی کرتا
ہے اس لیے اسے فخر کرنے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے:
[یُعَبّر عَنْ کُلِّ
نَفِیْسِ بِالْفَاخِرِ، یُقَالُ ثُوْبٌ فَاخِرَة وَ نَاقَة فَخُوْرٌ]
’’ہر نفیس اور عمدہ
چیز کو فاخر کہتے ہیں، اس لیے نفیس کپڑے کو ثوبِ فاخر اور عمدہ اونٹنی کو ناقة فخور
کہا جاتا ہے۔‘‘ (المفردات: ۳۷۴)
’’فَخَّار‘‘ اسی سے مبالغے کا صیغہ ہے ، صاحب القاموس المحیط بیان کرتے
ہیں:
[الفاخِر: اِسم فاعلِ
والجید من کل شیء]
’’الفاخر اسم فاعل
ہے اور ہر شے کا عمدہ حصہ ہے۔‘‘
گویا کہ انسانی تخلیق کا اصل میٹریل کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت
لطیف اور عمدہ مادّے کی حالت اختیار کر چکا تھا۔ تاکہ اُس سےبشریت کا خمیر بنایا جا
سکے۔ انسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ ’’جِنّ‘‘ کی خلقت ہی آگ سے ہوئی
مگر انسان کی خلقت میں ’’صلصال‘‘ کی پاکیزگی، طہارت اور لطافت کے حصول کے لئے تپش کو
محض استعمال کیا گیا، اسے تخلیقِ انسانی کا اصل مادہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿خَلَقَ الْاِنْسَانَ
مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ۰۰۱۴ وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍۚ۰۰۱۵﴾
(الرحمان: ۱۴،۱۵)
’’اُسی نے انسان
کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا
کیا۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ
مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ۰۰۲۷﴾ (الحجر: ۲۷)
’’اور اُس سے پہلے
ہم نے جنوں کو شدید جلانے والی آگ سے پیدا کیا، جس میں دُھواں نہیں تھا۔‘‘
لہٰذا خلقت ِ انسانی کی تخلیق میں آگ کو ایک حد تک دخل ہے، مگر وہ جنات کی طرح انسان
کا مادہ تخلیق نہیں۔
[عَنْ عَائِشَة قَالَتْ
قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ خُلِقَتِ الْمَلاَ ئِکَة مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ
مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ ] (رواہ مسلم: باب فِی أَحَادِیثَ
مُتَفَرِّقَة)
’’سیدہ عائشہr بیان
کرتی ہیں کہ اللہ کے رسولe نے
فرمایا: ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم
کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔‘‘
۷۔ سلالۃ من طین:
انسان کی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے
بارے میں ارشاد ربانی ہے:
﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنَا
الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍۚ۰۰۱۲﴾ (المؤمنون: ۱۲)
’’اور بے شک ہم نے
انسان کی تخلیق کی ابتداء مٹی کے جوہر سے فرمائی۔‘‘
اس آیت کریمہ میں گارے کے مصفّٰی اور خالص ہونے کی طرف
اشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے، یہاں انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقاء
’’طین لازب‘‘ کے تزکیہ و تصفیہ کا بیان ہے۔ ’’سلالة‘‘ کے معنی ہیں نکالنا، چننا
اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا ۔
گویا کہ ’’سلالة‘‘ کا لفظ کسی چیز کی اس لطیف ترین شکل
پر دلالت کرتا ہے جو اُس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔اس طرح صاف، شفاف اور
پاکیزہ جوہر سے سیدنا آدمu کا
ڈھانچہ تیار کیا گیا۔
﴿فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ
وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ۰۰۷۲﴾ (صٓ: ۷۲)
’’جب میں اسے پوری
طرح بنا دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں، تواس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔
‘‘
[عَنْ اَنَسٍ اَنَّ
رَسُوْلَ اللّٰہﷺ قَالَ لَمَّاصَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِیْ الْجَنَّة تَرَکَہ مَا شَاءَاللّٰہُ
اَنْ یَتْرُکَہ فَجَعَلَ اِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَا ھُوَفَلَمَّارَاٰہُ
اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ.] (رواہ مسلم: باب خُلِقَ الإِنْسَانُ
خَلْقًا لاَ یَتَمَالَک)
سیدنا انس t بیان
کرتے ہیں کہ رسول اکرمe نے
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جب سیدنا آدم u کی جنت میں شکل و صورت بنائی تواس کے پیکر کو جب تک
چاہا جنت میں اسی طرح رہنے دیا ۔ ابلیس نے اس کے گرد گھومنا شروع کیا وہ غور کرتا رہا
کہ یہ کیا چیز پیدا کی جا رہی ہے؟ جب اس نے پیکر آدم کو دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا
ہے ‘ تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق تخلیق کی جارہی ہے، جو مستقل مزاج نہیں ہو گی۔
‘‘
[عَنْ أَبِی ہُرَیْرَة
أَنَّ رَسُولَ اللہِﷺ قَالَ قَدْ أَذْہَبَ
اللہُ عَنْکُمْ عُبِّیَّة الْجَاہِلِیَّة وَفَخْرَہَا بِالآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ
وَفَاجِرٌ شَقِیٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ] (رواہ الترمذی
:باب فی فضل الشام والیمن[حسن])
’’سیدنا ابوہریرہ
t بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے فخروغرور کو مٹا دیا ہے جو تم اپنے آباء اجداد
کے نام پر کیا کرتے تھے۔ مومن پرہیز گار ہوتا ہے اورفاجر بدبخت ہوتا ہے ،تمام لوگ آدم
کی اولاد ہیںاور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔‘‘
[عَن أَبِیْ مُوسَی
الْأَشْعَرِیِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِﷺ إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَة
قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَمِنْہُمْ
الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ
وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ.] (رواہ ابوداود: کتاب السنہ [صحیح])
’’سیدنا ابو موسیٰ
اشعری t بیان
کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے
فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا کیا جو پوری زمین سے
لی گئی لہٰذا آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہے ،ان میں سرخ ، سفید ، سیاہ اور درمیانی
رنگت کے لوگ ہیں۔ کچھ سخت اورکچھ نرم طبیعت ہیں‘ اسی طرح کچھ نیک اور کچھ بد ہیں۔
‘‘
سیدنا ابن مسعودt سیدنا
آدم uکا واقعہ بیان کرتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے جبریلu کو
زمین پر بھیجا کہ وہ مٹی لے کر آئے۔ زمین نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی
ہوں کہ آپ مجھ میں کچھ سے لیں یا مجھ میں کمی واقع کریں۔ جبریلu نے
مٹی نہ لی اور واپس گئے ۔ عرض کی اے رب! زمین نے آپ کی پناہ چاہی تو میں نے اسے
چھوڑ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میکائیل کو بھیجا، زمین نے اس سے بھی پناہ چاہی‘
اُنہوں نے بھی اُسے رہنے دیا اور واپس چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی عرض کی جو
جبریلuنے کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو بھیجا زمین نے اُن سے
بھی پناہ مانگی اس نے کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم
نافذ کیے بغیر واپس جائوں۔ اُس نے زمین سے کچھ مٹی اُٹھائی اور اُسے آپس میں ملایا‘
اس نے ایک جگہ سے مٹی نہیں لی بلکہ سرخ، سفید، سیاہ مٹی لی۔ اسی وجہ سے ابن آدم
مختلف رنگوں کے ہیں اور آدمuکا نام اسی لیے رکھا گیا کیونکہ اُن کی مٹی سطح زمین سے لی گئی‘
عزرائیلuمٹی لے کر چلے گئے پھر مٹی کو تر کیا گیا یہاں تک کہ وہ
چپکتا ہوا گارا بن گیا۔‘‘ (بیہقی)
اس کے بعد آدمu کے
جسم میں روح پھونکی جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے:
﴿فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ
وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ۰۰۷۲فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ
كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ۰۰۷۳ اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ١ؕ اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۰۰۷۴قَالَ
يٰۤاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ١ؕ اَسْتَكْبَرْتَ
اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ۰۰۷۵﴾
’’جب میں اسے پوری
طرح بنا دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔
سب کے سب فرشتے سجدے میں گر گئے۔ مگر ابلیس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس چیز نے اسے سجدہ کرنے سے روکاہے جسے میں
نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے توتکبر کرتا ہے یا تو اپنے آپ کو بڑوں میں سمجھتا ہے۔‘‘
(ص: ۷۲تا ۷۵)
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ’’کُن‘‘ کہہ کر پیدا
فرمایا ہے لیکن انسانِ اوّل کو اپنے مبارک ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
’’ کیا جس نے آسمانوں
اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟کیوں نہیں! وہ تو سب
کچھ جاننے والا اور خلّاق ہے۔جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
(یٰسین)
علمی
برتری، ملائکہ کو سجدہ کا حکم:
﴿وَ عَلَّمَ اٰدَمَ
الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِيْ
بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۳۱ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ
لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۰۰۳۲ قَالَ
يٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ١ۙ
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۙ
وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۰۰۳۳ وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١ٞۗ وَ
كَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۰۰۳۴ وَ قُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ
وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۳۵ فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا
مِمَّا كَانَا فِيْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ
فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۰۰۳۶ فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ
كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۰۰۳۷﴾ (البقرہ:
۳۱ تا ۳۸)
’’اور اللہ تعالیٰ
نے آدم کو تمام چیزوں کے نام بتلائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا
اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ؟ انہوں نے عرض کی اے اللہ! تیری ذات پاک
ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے ۔یقیناً تو علم و حکمت والا
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم! تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب آدم نے انہیں
ان چیزوں کے نام بتا دیے تو اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں فرمایا
تھا کہ زمین اور آسمانوں کے غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر
کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو
ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔
ہم نے فرمایا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاںسے چاہو وافر کھاؤ
اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے۔لیکن شیطان نے ان کو پھسلا
کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے فرمایا کہ اتر جاؤ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور اب
ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔ سیدنا آدمu نے
اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی بے شک وہ توبہ
قبول کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
آدمu کو
پیدا کرنے کے بعد اسے علمی برتری کے ذریعے فرشتوں پر مزید مرتبت عطا فرمائی۔
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِﷺ بِيَدِي فَقَالَ: خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ
يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ
يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ
يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ
عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِي آخِرِ الْخَلْقِ،
فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ.]
(رواہ مسلم: بَابُ ابْتِدَاءِ الْخَلْقِ وَخَلْقِ آدَمَ)
سیدنا ابو ہریرہ t بیان
کرتے ہیں کہ رسولِ اکرمe نے
میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن زمین کو پیدا کیا۔ اتوار کے
دن پہاڑ بنائے‘ پیر کے روز درخت اگائے، منگل کے دن ناپسندیدہ چیزیں پیدا کیں‘بدھ کے
روز روشنی بنائی‘ جمعرات کے روز زمین پر چارپایوں کو پھیلایا اور جمعہ کے دن عصر کے
بعد سب سے آخر میں آدمu کو
پیدا‘ کیا یہ آخری تخلیق دن کے آخری حصے میں عصر اور مغرب کے درمیان عمل میں لائی
گئی۔ ‘‘
[عَنْ أَبِی ہُرَیْرَة
عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ خَلَقَ اللہُ آدَمَ عَلَی صُورَتِہِ، طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا،
فَلَمَّا خَلَقَہُ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَئِکَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَئِکَة
جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا یُحَیُّونَکَ، فَإِنَّہَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّة ذُرِّیَّتِکَ
فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَة اللہِ فَزَادُوہُ
وَرَحْمَة اللہِ، فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّة عَلَی صُورَة آدَمَ، فَلَمْ یَزَلِ
الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الآنَ.] (رواہ البخاری:باب بَدْءِ السَّلاَمِ)
سیدنا ابو ہریرہ t نبی
eسے بیان کرتے ہیں آپe نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے آدمu کواپنی
صورت کے مطابق بنایااور اس کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ آدم کی تخلیق ہوچکی تو اللہ تعالیٰ نے
آدمu کو
حکم دیاکہ فرشتوںکی جماعت کے پاس جائو اور انہیں سلام کہواور وہ جو جواب دیں اسے سنووہی
تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہوگا۔آدمu نے فرشتوںکو سلام کہا ۔ فرشتوں نے سلام کا جواب دیتے
ہوئے رحمةاللہ کااضافہ کیا۔ نبیe نے
فرمایا: ہر انسان کی جنت میں آدم کی شکل و صورت ہو گی۔اس وقت سے لے کر اب تک آدم
کی اولاد کے قد، قامت میں کمی واقع ہوتی رہی
یہاں تک کہ اب اس کا قد ٹھہر گیا ہے۔‘‘
﴿وَ اِذْ اَخَذَ
رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى ١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَۙ۰۰۱۷۲﴾
’’اورجب آپ کے رب
نے آدم کی اولاد سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی
جانوں پر گواہ بنایا کیا میں واقعی تمہارار ب نہیںہوں؟ انہوں نے کہاکیوں نہیں ہم شہادت
دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔‘‘ (الاعراف: ۱۷۲)
خالق کائنات نے آدم uکو پیدا فرماکر اس کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھا جس سے قیامت
تک نسل در نسل پیدا ہونے والے بنی نوع انسان حاضر ہو گئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سب سے
استفسار فرمایا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں؟ سیدنا آدم uاور اس کی ساری اولاد نے اپنے رب کے حضور شہادت دی کیوں نہیں
! آپ ہی ہمارے خالق ، مالک ، اور معبود ہیں ارشاد ہوا کہ اس پر قائم رہنا کہیں قیامت
کے دن یہ بہانہ نہ بنانا کہ ہمیں تو اس عہد اور شہادت کا علم ہی نہیں تھا یا تم یہ
کہو کہ ہم اس لیے شرک کے مرتکب ہوئے کہ ہمارے آباء و اجداد شرک کرتے تھے اور ہم تو
ان کے بعد آنے والے، ان کی اولاد تھے لہٰذا ہمارا کوئی گناہ نہیں جو کچھ کیا ہم سے
پہلے لوگوں نے کیا اس لیے ہمیں کسی قسم کی سزا نہیں ہونی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس
وقت بنی نوع انسان کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اس عہد کو بھول جانا یا اپنے سے پہلے لوگوں
کے طریقے کا بہانہ بنانا قیامت کے دن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
[عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ
عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ
یَعْنِی عَرَفَة فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّة ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ
بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قُبُلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ
قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَة إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا
غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّة
مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ.] (رواہ احمد:باب مسند
ابن عباس] (صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباسw نبی
اکرمe سے
بیان کرتے ہیں آپe نے
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشت سے تمام اولاد نکالی پھر ان سے نعمان یعنی عرفہ
کے مقام پر عہد لیا اور ان کو اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ
تعالیٰ نے فرمایا: کہیں قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم اس عہدسے غافل تھے یا تم کہو
کہ شرک تو ہمارے آبائو اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے‘ کیا تو ہمیں باطل
پرستوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment