غیر سرکاری رؤیت ہلال کمیٹیاں
(قسط دوسری) تحریر: جناب الشیخ عبدالعزیز نورستانی﷾
رؤیت ہلال کمیٹی:
مفتی محمد شفیعa فرماتے
ہیں کہ ہر ضلع میں ایک رؤیت ہلال کمیٹی بنانی چاہیے اور یہاں اس کمیٹی کے علاوہ کسی
اعلی افسرکو صدر مملکت کی طرف سے ہلال کے فیصلے کا اعلان کرنے کا مجازبنا کراختیاردیا
جائے کہ وہ ہلال کا فیصلہ نشر کرنے میں صدر مملکت کا قائم مقام متصور ہوکیونکہ صدر
مملکت کے سوا کسی عالم یا افسر کا فیصلہ پورے ملک کے لیے واجب عمل نہیں ہوسکتا۔
فتح الباری شرح بخاری کی کتاب الصوم میں ہے:
[وقال ابن الماجشون
لا یلزمہم بالشہادۃ إلا لأہل البلد الذی ثبتت فیہ الشہادۃ إلا أن یثبت عند الإمام
الأعظم فیلزم الناس کلہم لأن البلاد فی حقہ کالبلد الواحد إذ حکمۃ نافذ فی الجمیع۔]
(فتح الباری: ۴/۱۲۳، تحفۃ الأحوذی: ۲/۲۳۱، المفہم لما أشک من تلخیص کتاب مسلم، ومرعاۃ
المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، وعون المعبود شرح سنن أبی داؤد ’مراجع‘)
ابن ماجشون فرماتے ہیں کہ لوگوں پر لازم نہیں مگراس بلد کے لیے جس میں یہ چاند
ثابت ہو‘ ہاں اگر یہ چاندامام اعظم کے ہاں وہ سب لوگوں پرلازم کرے کیونکہ اس کے لیے
پورے ملک ایک بلد جیسا ہے اس لیے انکا حکم پورے ملک پر نافذہوتاہے۔
اس طرح صدر مملکت کی طرف سے اعلان ہوتو وہ پورے ملک کے لیے معتبر
ہو سکتا ہے۔ مرکزی کمیٹی کے نزدیک اگران علماء کا فیصلہ شرعی قواعد کے مطابق ہے تو
اب یہ کمیٹی پورے ملک میں مرکزی حکومت کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت اعلان کر سکتی
ہے، اور یہ اعلان (ملک کے)سب مسلمانوں کے لیے واجب القبول ہوگا، وہ بھی اس شرط کیساتھ
کہ یہ اعلان عام خبروں کی طرح نہ کیا جائے بلکہ مرکزی ہلال کمیٹی کے سر کردہ کوئی عالم
خود ریڈیو پراس امر کا اعلان کریں کہ ہمارے پاس شہاد ت علی الرؤیۃ یا شہادت علی شہادت
الرؤیۃ یا شہادت علی القضاء کی تین صورتوں میں سے فلاں صورت پیش ہوئی ہے‘ ہم نے تحقیقات
ہونے کے بعداس پرچاند ہونے کا فیصلہ کیا اورمرکزی حکومت کے دئیے ہوئے اختیارات کی بناء
پرہم یہ اعلان پورے پاکستان کے لئے کررہے ہیں۔ (جواہر الفقہ: ۴۹۵)
مفتی شفیعa کے
اس بیان سے معلوم ہوا کہ غیر سرکاری رؤیت ہلال کمیٹیوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور
سرکاری صوبائی اورذیلی کمیٹیاں بھی رؤیت ہلال کی شہادتیں تولے سکتی ہیں مگر اعلان نہیں
کر سکتیں۔
رؤیت ہلال کے اعلان کا حق صرف اور صرف مرکزی (وفاقی) کمیٹی کو
ہے۔ لہٰذا مفتی صاحب کے بیان کے مطابق جو نجی غیر سر کاری رؤیت ہلال کمیٹیاں ہیں انکو
رؤیت ہلال کے اعلان کا شرعا حق حاصل نہیں اگرچہ ان کو رؤیت معتبر ثقہ شاہدوں کی شہادت
سے ثابت ہوئی ہو۔ اگر مرکزی (وفاقی) کمیٹی ان ذیلی غیر سرکاری اور صوبائی کمیٹیوں کے
فراہم کردہ شہادتوں کورد کرے تو انکو رد کرنے کا حق حاصل ہے۔
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہa کا فتوی ہے:
[وَسُئِلَ شَیْخُ
الإِسْلامِ رَحِمَہُ اللَّہُ عَنْ اَہْلِ مَدِینَۃٍ رَاَی بَعْضُہُمْ ہِلاَلَ ذِی الْحِجَّۃِ
وَلَمْ یَثْبُتْ عِنْدَ حَاکِمِ الْمَدِینَۃِ، فَہَلْ لَہُمْ اَنْ یَصُومُوا اَلْیَوْمَ
الَّذِیْ فِیْ الظَّاہِرِ التَّاسِعُ وَإِنْ کَانَ فِی الْبَاطِنِ اَلْعَاشِرَ؟ فَاَجَابَ:
نَعَمْ، یَصُومُونَ التَّاسِعَ فِی الظَّاہِرِ الْمَعْرُوفِ عِنْدَ الْجَمَاعَۃِ وَإِنْ
کَانَ فِی نَفْسِ الاَمْرِ یَکُونُ عَاشِرًا۔] (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ:
۲۵/۲۰۲)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کسی شہر والوں نے ذوالحجہ
کا چاند دیکھا اور حاکم وقت اس کا انکار کر رہا ہے،کیا ان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس
کی نو تاریخ کا روزہ رکھیں جو ظاہرمیں محسوس ہو رہی ہے،لیکن وہ حقیقت میں دس ہو؟ تو
آپ نے جواب دیا: ہاں! وہ نو کا روزہ رکھیں گے اس لیے کہ نو وہی ہے جو پوری جماعت کے
ہاں نو ہو، اگرچہ یہ شخص اس کو دس سمجھ رہا ہو اپنی رؤیت کی وجہ سے۔
ہاں جنہوں نے بچشم خود چاند دیکھاہو انکے لیے جائز ہے کہ وہ
روزہ رکھیں یا افطار کریں مگر اعلان نہ کریں۔غیر سر کاری رؤیت ہلال کمیٹیاں اسلامی
حکو مت میں صرف اور صرف تفرقہ کی بنیاد ہیں‘ اس سے زیا دہ ان کی شرعا کوئی حیثیت نہیں۔
امام شعبیa (یہ وہ شخصیت ہیں
کہ انہوں نے پانچ سو صحابہ] سے ملاقات کی ہے)
فرماتے ہیں:
[عَنْ عَامِرٍ فِی
الْیَوْمِ الَّذِی یَقُولُ النَّاسُ إِنَّہُ مِنْ رَمَضَانَ، قَالَ: فَقَالَ: لاَ تَصُومَنَّ
إِلاَّ مَعَ الإِمَامِ، فَإِنَّمَا کَانَتْ اَوَّلُ الْفُرْقَۃِ فِیْ مِثْلِ ہَذَا۔]
(مصنف ابن أبی شیبۃ: ۳/۷۲)
عامر سے روایت ہے اس دن کے بارے میں کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ رمضان کا دن ہے‘ امام
شعبیa نے
فرمایا: خبردار! روزہ نہ رکھنا مگر حکومت کیسا تھ کیونکہ حکومت کیساتھ نہ رکھنا یہ
سب سے پہلے تفرقہ کا سبب ہے۔
امام عبد الرزاق الصنعانی اپنی مصنف میں محمد بن سیرینa کا
ایک واقعہ درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[قال أسماء بن عبید:
أتینا محمد بن سیرین فی الیوم الذی یشک فیہ فقلنا: کیف نصنع؟ فقال لغلامہ إذہب فانظر
أصام الأمیر أم لا، قال: والأمیر یومئذ عدی بن أرطاۃ، فرجع إلیہ، فقال: وجدتہ
مفطراً، قال: فدعا محمد بغدائہ فتغدی فتغدینا معہ۔] (مصنف عبدالرزاق، أثر رقم:
۷۳۲۹)
اسماء بن عبید فرماتے ہیں: ایک مرتبہ محمد ابن سیرینa کے پاس گئے، اس دن جس دن ہمیں شک تھا کہ آج روزہ ہے
یا نہیں، سو ہم نے کہا کیا کیا جائے؟ چنانچہ ابن سیرینa نے
اپنے غلام کو بھیجا کہ وہ دیکھے کہ امیر نے روزہ رکھا ہوا ہے یا نہیں، راوی کہتے ہیں
کہ اس وقت عدی بن ارطاۃ امیر تھے۔ غلام واپس آیااور بتایا کہ امیر نے روزہ نہیں رکھا۔
راوی کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی محمد بن سیرینa نے اپنا کھانا منگوایا اور ان کے ساتھ مل کر ہم نے بھی
کھانا کھایا۔
ہمارے اسلاف روزہ رکھنے اور عید منانے میں حکومت کو کتنی وقعت
اور اہمیت دیتے تھے۔سبحان اللہ۔خود فیصلہ کریں۔
تنبیہ: اختلاف مطالع کے
بارے میں سلف صالحین میں اختلاف تھا کہ اختلاف مطالع معتبر ہے یا نہیں جیسا کہ کتب
فقہ میں موجود ہے لیکن اس پر سب متفق تھے کہ عید حکام کیساتھ ضروری ہے۔جیسا کہ شیخ
البانی رحمہ اللہ اختلاف مطالع کے قائل نہیں تھے لیکن عید اور روزہ اپنے حکمران کیساتھ
کرنے کی وصیت کرتے تھے۔
وہ فرماتے ہیں:
[فإنی أری علی شعب
کل دولۃ أن یصوم مع دولتہ ولا ینقسم علی نفسہ فیصوم بعضہم معہا وبعضہم مع غیرہا ممن
تقدمت فی صیامہا أو تأخرت لما فی ذلک من توسیع دائرۃ الخلاف فی الشعب الواحد کما
وقع فی بعض الدول العربیۃ منذ بضع سنین، واللہ المستعان۔] (مجموع الفتاویٰ:
۲۵/۲۰۲)
میں بہترسمجھتاہوں ہر حکومت کے عوام کے لیے کہ وہ اپنی حکومت کیساتھ روزہ رکھیں
آپس میں نہ بٹیں‘ اس طرح کہ بعض حکومت کیساتھ روزہ و عید کرتے ہیں بعض اوروں کیساتھ
جنکا روزہ آگے پیچھے ہو کیونکہ اس سے خلاف کا دائرہ ایک ہی حکومت میں اور وسیع ہوجاتاہے
جیسے کہ عربی حکومتوں میں کئی سالوں سے واقع ہواہے۔
امام صنعانیa فرماتے
ہیں کہ
[فیہ دلیل علی أنہ
یعتبر فی ثبوت العید الموافقۃ للناس، وأن المتفرد بمعرفۃ یوم العید بالرؤیۃ یجب علیہ
موافقۃ غیرہ، ویلزمہ حکمہم فی الصلاۃ والإفطار والأضحیۃ۔] (سبل السلام: ۲/۷۲)
اس میں دلیل ہے اس بات پرکہ عید کے ثبوت کے لیے لوگوں کی موافقت معتبر ہے اکیلے
شخص کی رؤیت کیساتھ عید کے دن کو پہچاننے والے کے لیے واجب ہے کہ اور لوگوں کی موافقت
کرے‘ اس پر انکا حکم لازم ہو تاہے نماز‘ افطار اور قربانی میں۔
امام ابن القیمa اس
حدیث کے معنی میں فرماتے ہیں کہ
[قال: وقیل: فیہ
الرد علی من یقول إن من عرف طلوع القمر بتقدیر حساب المنازل جاز لہ أن یصوم ویفطر،
دون من لم یعلم، وقیل: إن الشاہد الواحد إذا رأی الہلال ولم یحکم القاضی بشہادتہ أنہ
لا یکون ہذا لہ صوما، کما لم یکن للناس۔] (تہذیب السنن: ۳/۲۱۴)
اسی کا ہم معنی ابن قیمa نے
تہذ یب السنن میں ذکر کیاہے اور فرمایا کہ کہا گیا ہے کہ اس میں رد ہے ان لوگوں پر
جو کہتے ہیں کہ جنہوں نے چاند نکلنے کو منازل کے اندازے سے پہچانا ان کے لیے روزہ رکھنااور
افطار کرنا جائز ہے بغیر ان لوگوں کے جن کوعلم نہیں۔ اور کہا گیاہے کہ جب ایک گواہ
چاند دیکھ لیتاہے اور قاضی نے اس کی شہادت نہیں لی تو اس کا روزہ نہیں جیسے اور لوگوں
کا روزہ نہیں۔ یعنی وہ روزہ نہ رکھے۔
ابوالحسن سندی نے ابن ماجہ کے حاشیہ میں فرمایا: (ابوہریرہt کی
حدیث جو ترمذی میں ہے کو ذکر کرنے کے بعد) فرماتے ہیں:
[والظاہر أن معناہ
أن ہذہ الأمور لیس للآحاد فیہا دخل، ولیس لہم التفرد فیہا، بل الأمر فیہا إلی الإمام
والجماعۃ، ویجب علی الآحاد اتباعہم للإمام والجماعۃ، وعلی ہذا، فإذا رأی أحد الہلال،
ورد الإمام شہادتہ ینبغی أن لا یثبت فی حقہ شیء من ہذہ الأمور، ویجب علیہ أن یتبع
الجماعۃ فی ذلک۔] (حاشیۃ ابن ماجہ السندی: ۲/۴۳۱)
[قلت: وہذا المعنی
ہو المتبادر من الحدیث، ویؤیدہ احتجاج عائشۃ بہ علی مسروق حین امتنع من صیام یوم عرفۃ
خشیۃ أن یکون یوم النحر، فبینت لہ أنہ لا عبرۃ برأیہ وأن علیہ اتباع الجماعۃ فقالت:
النحر یوم ینحر الناس، والفطر یوم یفطر الناس۔
قلت: وہذا ہو اللائق بالشریعۃ السمحۃ التی من غایاتہا تجمیع الناس وتوحید صفوفہم
وإبعادہم عن کل ما یفرق جمعہم من الآراء الفردیۃ، فلا تعتبر الشریعۃ رأی الفرد -ولو
کان صوابا فی وجہۃ نظرہ- فی عبادۃ جماعیۃ کالصوم والتعیید وصلاۃ الجماعۃ، ألا تری
أن الصحابۃ رضی اللہ عنہم کان یصلی بعضہم وراء بعض وفیہم من یری أن مس المرأۃ والعضو
وخروج الدم من نواقض الوضوء، ومنہم من لا یری ذلک، ومنہم من یتم فی السفر، ومنہم من
یقصر، فلم یکن اختلافہم ہذا وغیرہ لیمنعہم من الاجتماع فی الصلاۃ وراء الإمام الواحد،
والاعتداد بہا، وذلک لعلمہم بأن التفرق فی الدین شر من الاختلاف فی بعض الآراء، ولقد
بلغ الأمر ببعضہم فی عدم الإعتداد بالرأی المخالف لرأی الإمام الأعظم فی المجتمع
الأکبر کمنی، إلی حد ترک العمل برأیہ إطلاقا فی ذلک المجتمع فرارا مما قد ینتج من
الشر بسبب العمل برأیہ۔
فروی أبو داود: أن عثمان+ صلی بمنی أربعا، فقال عبد اللہ بن مسعود منکراً علیہ:
صلیت مع النبیﷺ رکعتین، ومع أبی بکر+ رکعتین، ومع عمر+ رکعتین، ومع عثمان+ صدرا من
إمارتہ ثم أتمہا، ثم تفرقت بکم الطرق فلوددت أن لی من أربع رکعات رکعتین متقبلتین،
ثم إن ابن مسعود+ صلی أربعا، فقیل لہ: عبت علی عثمان+ ثم صلیت أربعا؟ قال: الخلاف
شر، وسندہ صحیح۔ وروی أحمد (مسند أحمد: ۵/۱۵۵) نحو ہذا عن أبی ذر رضی اللہ عنہم أجمعین۔]
(أبوداؤد: ۱/۳۰۷)
[فلیتأمل فی ہذا
الحدیث وفی الأثر المذکور أولئک الذین لا یزالون یتفرقون فی صلواتہم، ولا یقتدون
ببعض أئمۃ المساجد، وخاصۃ فی صلاۃ الوتر فی رمضان، بحجۃ کونہم علی خلاف مذہبہم، وبعض
أولئک الذین یدعون العلم بالفلک، ممن یصوم ویفطر وحدہ متقدما أو متأخرا عن جماعۃ
المسلمین، معتدا برأیہ وعلمہ، غیر مبال بالخروج عنہم، فلیتأمل ہؤلاء جمیعا فیما ذکرناہ
من العلم، لعلہم یجدون شفاء لما فی نفوسہم من جہل وغرور، فیکونوا صفا واحدا مع إخوانہم
المسلمین فإن ید اللہ مع الجماعۃ۔] (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۲۲۲)
ظاہر ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان معاملات(رؤیت )میں ایک ایک فرد کا کام نہیں
بلکہ یہ معاملہ حاکم اوراکثریت پر ہے اور حاکم اور جماعت کی تابعداری واجب ہے اس بنا
پر جب ایک شخص نے چاند دیکھا اور حاکم نے اسکی شہادت کو رد کیا تو اسکے لیے ان امور
میں کچھ بھی ثابت نہیں ہو نا چاہیے اس پر لازم ہے کہ ان معا ملات میں جماعت کی تابعداری
کرے۔
میں کہتا ہوں کہ حدیث سے یہی معنی متبادر ہے، اس کی تائید سیدہ عائشہr کے
مسروق پر استدلال سے ہوتا ہے جبکہ انہوں نے عرفہ کا روزہ رکھنے سے روکا اس ڈرسے کہ
کہیں عید کا دن نہ ہو تو سیدہ عائشہr نے ان کو واضح کیا کہ اس کی رائے کا اعتبار نہیں اس
پر جماعت کی تابعداری واجب ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ بڑی عید اس دن ہے جب لوگ عید منائیں
اورچھوٹی عید اس دن ہے جس دن لوگ عید منائیں۔
میں کہتاہوں کہ کھلی شریعت کیساتھ یہی مناسب معلوم ہوتا ہے جس کا مقصودلوگوں کو
اکٹھا کرنا اور ان کی صفوں کو ایک کرنا ہے اور لوگوں کو ہراس فردی رائے سے دور رکھناہے
جو ان میں تفرقہ پیدا کرے۔ شریعت فردی رائے کواعتبار نہیں دیتی اگرچہ یہ فردی رائے
درست کیوں نہ ہو۔ اجتماعی عبادات میں مثلا روزہ رکھنا‘ عید منانا‘ نماز جمعہ ادا کرنے
میں، کیا صحابہ] ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے حالانکہ ان میں سے بعض عورت
کو چھونے اورخون نکلنے کو ناقض وضوء سمجھتے تھے بعض نہیں سمجھتے تھے‘ بعض سفر میں پوری
نماز پڑھتے تھے بعض نہ پڑھتے تو ان کا یہ اختلاف ان کو نماز میں اجتماعیت سے نہیں روکتا
تھا ایک امام کے پیچھے جائز سمجھنے سے۔ یہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ دین میں تفرقہ
بعض آراء میں تفرقہ سے بدتر ہے، منیٰ جیسے بڑے اجتماع میں حاکم کی رائے کے خلاف اپنی
رائے کو اہمیت نہ دینے میں معاملہ یہاں تک پہنچا کہ انہوں نے اپنی رائے کو اس مجتمع
میں بالکل چھوڑا دیا اپنی رائے پر عمل کرنے کے برے نتیجے کے شر سے بچنے کے لیے۔
ابو داؤد نے روایت کیاہے کہ عثمانt نے
منیٰ میں نماز چار رکعت پڑھی‘ ابن مسعودt نے اس پر انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں رسول اللہe اورابو
بکرو عمرw کے
پیچھے خود عثمانt کے
ساتھ ان کی امارت میں دو رکعت پڑ ھ چکا ہوں پھر انہوں نے پورا کیا، پھر تمہارے راستے
جداجدا ہو گئے کاش ان چار کی جگہ دو رکعتیں قبول شدہ ہوتیں، پھر ابن مسعودt نے
عثمانt کے
پیچھے دو رکعتیں پڑھیں‘ کسی نے کہا اب تو آپ نے عثمانt پر عیب گیری کی پھر آپ نے چار پڑھیں‘ انہوں نے فرمایا
کہ اختلاف شر ہے۔ اس جیسی روایت ابوذرt سے مسند احمد میں بھی ہے۔
اس حدیث اورمذکورہ اثر میں سوچیں وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں ہر وقت تفرقہ کرتے
رہتے ہیں ائمہ مساجد بعض بعض کے پیچھے نماز یں نہیں پڑھتے خاص کر وتر کی نماز اس بہانے
سے کہ یہ طریقہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو علم فلکیات کے دعویدار
ہیں عید وروزہ الگ رکھتے ہیں‘ مسلمانوں کی جما عت سے نکلنے کی پروا کئے بغیر ہماری
علمی بحث پر سب غورو فکر کریں ہو سکتاہے کہ ان کے نفس میں جو غرور وجہل ہے وہ نکل جائے‘
اس سے شفا حاصل کر کے ایک صف میں کھڑے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ
ہے۔
لہٰذا خود ساختہ رؤیت ہلال کمیٹیوں سے بچتے رہنا کیونکہ انکی
شرعا کوئی حیثیت نہیں سوا اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے لیے
نفرت ڈالیں اور لوگوں کو گالی گلوچ پر اکسائیں ۔الامان والحفیظ۔
ہاں اگر مسلمان غیر اسلامی ملکوں میں رہتے ہوں تو ان نجی غیر
سرکاری کمیٹیوں کی شرعی حیثیت بنتی ہے۔
علامہ عبد الحیa فرماتے
ہیں:
[والعالم الثقۃ ببلدۃ
لا حاکم فیہا قائم مقامہ یعنی القاضی وہومأخوذ من الفتح حیث قال فی أمثال ہذہ البلاد
علی المسلمین أن یتفقوا علی واحد منہم۔] (ذکرہ الشامی فی باب القضاء: ۵/۳۱۳)
اس شہرکاثقہ عالم جس شہر میں حا کم قائم مقام ہے اس حاکم اور قاضی کی یہ بات لی
گئی ہے فتح الباری سے اس میں ہے کہ اس جیسے شہروں کے بارے میں مسلمانوں پر لازم ہے
کہ وہ ایک عالم پر اتفاق کریں ان میں سے(روزہ اور افطار کے حکم جاری کرنے کے لیے)۔
جن ملکوں میں اسلامی حکومت نہیں یا ہے مگر باقاعدہ شرعی قاضی
مقرر نہیں(سرکاری رؤیت ہلال کمیٹی موجود نہیں) وہاں شہر کے عالم دیندار مسلمان جس عالم
یا جماعت پر مسائل دینیہ میں اعتمادکرتے ہوں اس شخص یاجماعت کو(سرکاری کمیٹی) قاضی
کا قائم مقام سمجھا جائے اور رؤیت ہلال میں اس کا فیصلہ واجب العمل ہوگا۔
حدیث [الصَّوْمُ یَوْمَ تَصُومُونَ] کی وضاحت:
غیر سرکاری کمیٹیوں کے اعلان کی وجہ سے جو لوگ روزہ رکھتے ہیں
وہ ان کو جنہوں نے روزہ نہیں رکھا کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے:
[عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ+
اَنَّ النَّبِیَّﷺ قَالَ: ’الصَّوْمُ یَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُونَ
وَالاَضْحَی یَوْمَ تُضَحُّونَ‘، قَالَ اَبُوعِیسَی: ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ۔]
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا: ’’روزہ اس دن جس دن اور لوگ روزہ رکھتے ہیں‘ افطار (عید) اس دن جس دن اور لوگ
عید مناتے ہیں اور بڑی عید اس دن جس دن اور لوگ عید الاضحی مناتے ہیں۔‘‘ امام ترمذیa فرماتے
ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
خلاصہ: تم جمہور مسلمانوں
کے خلاف کرتے ہو حالانکہ تم صوبے میں چند لوگ پورا صوبہ نہیں ہوتا۔ تو اس حدیث کی تشریح
محدثین نے اس طرح کی ہے۔
امام ترمذیa فرماتے
ہیں:
[وَفَسَّرَ بَعْضُ
اَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِیثَ فَقَالَ إِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا اَنَّ الصَّوْمَ
وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَۃِ وَعِظَمِ النَّاسِ (بِکَسْرِ الْعَیْنِ وَفَتْحِ الظَّائِ)
اَی: کَثرَۃِ النَّاسِ۔]
اس کی بعض اہل علم نے تفسیربیان کی ہے کہ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ روزہ اور عید
جماعت اور اکثرلوگوں کیساتھ ہوگی۔
آدھا صوبہ کیسے [عِظَمِ النَّاسِ] اور [کَثرَۃِ النَّاسِ] ہے جبکہ باقی ساڑھے
تین صو بے ایک طرف اور آدھا صو بہ ایک طرف؟۔
امام خطابی اس حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ
[إِنَّ الْخَطَأَ
مَرْفُوعٌ عَنْ النَّاسِ فِیمَا کَانَ سَبِیلُہُ الاجْتِہَادَ، فَلَوْ اَنَّ قَوْمًا
اِجْتَہَدُوا فَلَمْ یَرَوْا الْہِلالَ إِلاَّ بَعْدَ ثَلاثِینَ فَلَمْ یُفْطِرُوا
حَتَّی اِسْتَوْفَوْا الْعَدَدَ ثُمَّ ثَبَتَ عِنْدَہُمْ اَنَّ الشَّہْرَ کَانَ تِسْعًا
وَعِشْرِینَ فَإِنَّ صَوْمَہُمْ وَفِطْرَہُمْ مَاضٍ لاَ شَیْئَ عَلَیْہِمْ مِنْ وِزْرِ
اَوْ عَیْبٍ۔] (تحفۃ الأحوذی: ۲/۲۳۵، ہذا حدیث غریب حسن، سنن الترمذی: ۳ت/۱۸۸)
لوگوں سے ان چیزوں کے بارے میں مؤاخذہ اٹھایا گیا ہے جس میں
اجتہاد کی گنجا ئش ہو،اگر کسی قوم نے کوشش کی چاند دیکھنے کے بارے میں اور نہ دیکھ
سکے مگر تیس دن کے بعد۔ پھر انہوں نے عید نہیں منائی مگرتیس دن کی گنتی پوری کرنے کے
بعد۔ پھر ثابت ہوا کہ مہینہ انتیس کا تھا تو انکا روزہ اور افطار درست ہے‘ ان پرکوئی
گناہ اور عیب نہیں۔
امام ترمذیa نے
خود وضاحت کی ہے،جماعت اور اکثر لوگوں کیساتھ۔
اب غیرسرکاری کمیٹیوں کے اعلان کی وجہ سے روزہ رکھنے والے صرف
صوبہ خیبرپختون خواہ کے علاقے پشاور اور اسکے مضافات کے لوگ ہوتے ہیں باقی تین صوبے
اور صوبہ خیبرپختون خواہ کے اکثریت لوگوں کا روزہ نہیں ہوتا‘ کیا یہ عِظَمِ النّاس
ہیں؟
اس سلسلے میں اور بھی اقوال ہیں:
[وَقِیلَ فِی مَعْنَی
الْحَدِیثِ إِنَّہُ إِخْبَارٌ بِاَنَّ النَّاسَ یَتَحَزَّبُونَ اَحْزَابًا وَیُخَالِفُونَ
الْہَدْیَ النَّبَوِیَّ، فَطَائِفَۃٌ تَعْمَلُ بِالْحِسَابِ وَعَلَیْہِ اُمَّۃٌ مِنْ
النَّاسِ، وَطَائِفَۃٌ یُقَدِّمُونَ الصَّوْمَ وَالْوُقُوفَ بِعَرَفَۃَ وَجَعَلُوا
ذَلِکَ شِعَارًا وَہُمْ الْبَاطِنِیَّۃُ، وَبَقِیَ عَلَی الْہَدْیِ النَّبَوِیِّ الْفِرْقَۃُ
الَّتِی لا تَزَالُ ظَاہِرَۃً عَلَی الْحَقِّ فَہِیَ الْمُرَادَۃُ بِلَفْظِ النَّاسِ
فِی الْحَدِیثِ وَہِیَ السَّوَادُ الاَعْظَمُ وَلَوْ کَانَتْ قَلِیلَۃَ الْعَدَدِ،
کَذَا فِی النَّیْل۔] (تحفۃ الأحوذی: ۲/۲۳۵)
اس حدیث کے معنی میں کہا گیا ہے کہ یہ اخبار (خبر) ہے ان لوگوں کے بارے میں جو
پار ٹیاں بناتے ہیں‘ تفرقہ ڈالتے ہیں،نبوی ہدایت کے خلاف کرتے ہیں تو ایک جماعت حساب
(جنتری) کے موافق عمل کرتے ہیں‘ اکثر لوگ ایساکرتے ہیں، اور ایک جماعت روزہ اورعرفہ
پر خود ساختہ موقف اپنا کر اس کو اپنا جماعتی شعار بناتے ہیں یہ باطنیہ فرقہ ہے۔ نبوی
ہدایت پر صرف وہ جماعت ہے جس کے بارے میں رسول اللہe نے فرمایا تھا کہ حق پر ہمیشہ غالب رہے گی، اس سے یہی
جماعت مراد ہے اور یہی سواد اعظم ہے، اگرچہ عدد کے لحاظ سے کم ہو۔
غیر شرعی غیر سرکاری کمیٹیوں کے اعلان کیوجہ سے روزہ رکھنے والے
نہ عِظَمِ النّاس ہیں اور نہ سواد اعظم:
[الصَّوْمُ یَوْمَ
تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالأَضْحَی یَوْمَ تُضَحُّونَ]
کی مخالفت یہی لوگ کرتے ہیں جو غیر شرعی غیر سرکاری اعلان کی وجہ سے روزہ اور عید
مناتے ہیں۔ واللہ المستعان۔
مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی شرعا معتبر ہے‘ اسکا خلاف شرعا جائز نہیں،کیونکہ
اہل السنہ کا عقیدہ ہے کہ عیدین میں اسلامی حکومت کا خلاف کرنا جائزنہیں۔
عبدالعزیز بن حکیم ؒ فرماتے ہیں:
[سألوا ابن عمر،
قالوا: نسبق قبل رمضان حتی لا یفوتنا منہ شیء؟ فقال: أف، أف، صوموا مع الجماعۃ۔]
(روے حنبل فی مسألۃ کما فی زاد المعاد: ۲/۴۹۹، وإسنادہ حسن)
میں نے عبداللہ بن عمرw سے
سوال کیا کہ ہم رمضان سے پہلے روزے رکھتے ہیں تاکہ اس سے کچھ فوت نہ ہو جائے تو آپ
فرمانے لگے: افسوس،افسوس تم پر، مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ روزہ رکھو۔
عمرو بن مہاجرؒ فرماتے ہیں کہ
[عمر بن عبد العزیز
رحمہ اللہ أنکر علی محمد بن سوید الفہری لـمّا أفطر أو ضحّی قبل الناس بیوم۔]
عمر بن عبدالعزیزa نے
انکار کر دیامحمد بن سوید فہری کے اس عمل کا جب انہوں نے روزہ یا قربانی لوگوں سے ایک
دن پہلے کی تھی۔
امام ابن ابی شیبہa اس دن کے روزے کے بارے میں جس میں شک ہو:
[عن إبراہیم والشعبی
أنہما قالا: لا تصم إلاّ مع جماعۃ الناس۔] (روے ابن أبی شیبۃ فی کتاب الصوم: ۳/۶۹،
وإسنادہ حسن)
ابراہیم اور شعبیa نے
فرمایا: تم ہر گز روزہ نہ رکھو مگر لوگوں(جماعت)کے ساتھ۔
اسی عقیدے کو ہمارے اسلاف نے اتنی اہمیت دی ہے کہ باقاعدہ عقیدے
کی کتابوں میں ذکرکیا ہے۔ یہاں سلف کے عقائد بیان کرنے سے پہلے اسلام میں حکومت کی
اہمیت امام ابن تیمیہa سے
ذکر کرتاہوں۔
[فصل: یجب أن یعرف
أن ولایۃ أمر النَّاسِ مِنْ اَعْظَمِ وَاجِبَاتِ الدِّینِ بَلْ لا قیام للدین ولا
للدنیا إلاّ بِہَا، فَإِنَّ بَنِیْ آدَمَ لاَ تَتِمُّ مَصْلَحَتُہُمْ إلاّ بِالاجْتِمَاعِ
لِحَاجَۃِ بَعْضِہِمْ إلَی بَعْضٍ، وَلا بُدَّ لَہُمْ عِنْدَ الاجْتِمَاعِ مِنْ رَاْسٍ
حَتَّی قَالَ النَّبِیُّﷺ: ’إذَا خَرَجَ ثَلاثَۃٌ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوا اَحَدَہُمْ‘۔
رَوَاہُ اَبُو دَاوُد، مِنْ حَدِیثِ اَبِی سَعِیدٍ، وَاَبِی ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہم۔]
اس بات کو جاننا لازمی ہے کہ لوگوں پر حکمرانی دین کے واجبات میں سے اہم واجب ہے
بلکہ دین ودنیا کا قیام اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا، اس لیے کہ انسانوں کی مصلحتیں اجتماعیت
کے بغیر نہیں ہوتیں، کیونکہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، اور کسی بھی مجتمع
کے لیے سربراہ سے خلاصی نہیں حتی کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی تین آدمی سفر کے لیے
نکلیں تو ایک کو ضرور امیر بنا لو۔‘‘ (اس کو
ابوداودنے ابوسعیدو ابو ہریرۃt سے
روایت کیاہے۔)
مسند احمد میں عبد اللہ بن عمرw سے روایت ہے کہ
[اَنَّ النَّبِیَّﷺ
قال: امَّرُوا عَلَیْہِمْ اَحَدَہُمْ -فَاَوْجَبَ- تَاْمِیرَ الْوَاحِدِ فِی الاجْتِمَاعِ
القلیل العارض فی السفر تنبیہا بذلک عَلَی سَائِرِ اَنْوَاعِ الاجْتِمَاعِ، وَلاَنَّ
اللَّہَ تَعَالَی اَوْجَبَ الاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیَ عَنْ الْمُنْکَرِ،
وَلا یَتِمُّ ذَلِکَ إلاّ بِقُوَّۃٍ وَإِمَارَۃٍ، وَکَذَلِکَ سَائِرُ مَا اَوْجَبَہُ
مِنْ الْجِہَادِ وَالْعَدْلِ وَإِقَامَۃِ الْحَجِّ وَالْجُمَعِ وَالاَعْیَادِ وَنَصْرِ
الْمَظْلُومِ، وَإِقَامَۃِ الْحُدُودِ لاَ تَتِمُّ إلاّ بِالْقُوَّۃِ وَالإِمَارَۃِ،
وَلِہَذَا رُوِیَ: اَنَّ السُّلْطَانَ ظِلُّ اللَّہِ فِیْ الاَرْضِ۔ (مسند البزار:
۱۸، مجلد کاملا: ۱۲/۱۷) وَیُقَالُ: سِتُّونَ سَنَۃً مِنْ إمَامٍ جَائِرٍ اَصْلَحُ مِنْ
لَیْلَۃٍ واحدۃ بِلا سُلْطَانٍ (اعتقاد أہل السنۃ للإمام أبی بکر بن قاسم الرحبسی:
۱/۱۹)، وَالتَّجْرِبَۃُ تُبَیِّنُ ذَلِکَ۔] (السیاسیۃ الشرعیۃ: ۱/۱۶۸)
رسول اللہe نے
فرمایا کہ ان پر ایک کو امیربناؤ اورواجب کیا ہے رسول اللہe نے
ایک امیرچھوٹے سے سفر میں پیش آنے والی جماعت پر تنبیہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ تمام اقسام
اجتماع کے لیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کیاہے یہ
پورا نہیں ہوتا مگر قوت کیساتھ۔ اسی طرح ساری وہ چیزیں جو اللہ نے واجب کی ہیں۔ مثلاجہاد،انصاف
کرنا،حج،جمعہ، عیدین، مظلوم کی مدد کرنا، حدود قائم کرنا یہ سب چیزیں پوری نہیں ہوتیں
مگر قوت اور حکومت کیساتھ۔ اس لیے روایت کیا گیا ہے کہ بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ
ہے، اور کہا گیا ہے کہ ساٹھ سال ظالم بادشاہ کی حکمرانی بہتر ہے ایک رات بغیر حکومت
کے گذارنے سے، اس بات کو تجربے نے بھی ثابت کیاہے۔
إمام الحرمین فرماتے ہیں کہ
[فَإِنْ قِیلَ: مَا
وَجْہُ ارْتِبَاطِ الْعِبَادَاتِ بِنَظَرِ الإِمَامِ؟ قُلْنَا: مَا کَانَ مِنْہَا شِعَارًا
ظَاہِرًا فِی الإِسْلَامِ، تَعَلَّقَ بِہِ نَظَرُ الإِمَامِ، وَذَلِکَ یَنْقَسِمُ إِلَی
مَا یَرْتَبِطُ بِاجْتِمَاعِ عَدَدٍ کَبِیرٍ، وَجَمٍّ غَفِیرٍ، کَالْجُمَعِ وَالاَعْیَادِ
وَمَجَامِعِ الْحَجِیجِ۔] (الغیاثی غیاث الأمم فی التیاث الظلم)
اگر کہا جائے کہ عبادات کیساتھ حکومت کی نگرانی کی کیا وجہ ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ
وہ عبادات جو ظاہرااسلام کے شعائر ہیں ان کا تعلق حکومت کی نگرا نی کے ساتھ ہے، اور
یہ دو قسم پر ہے ایک جس کا تعلق عام بڑے اجتماعات کے ساتھ ہے، مثلا جمعہ، عیدیں اور
حج کے اجتماعات وغیرہ۔
No comments:
Post a Comment