مقبوضہ کشمیر ... اِک قید خانہ
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ مودی کی دہشت گردانہ سوچ کا عکاس ہے۔ موذی
بڑے فخر سے کہتا ہے کہ جو کام ان سے پہلی حکومتیں ستر سال میں نہ کر سکیں وہ میں نے
الیکشن جیت کر ستر دنوں میں کر دیا ہے۔ اس پر فخر نہیں بلکہ ندامت ہونی چاہیے۔ موذی
کا فاشسٹ ہونا مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ بھی ہٹلر اور مسولینی کی طرح اکثریت سے الیکشن جیت
کر اقتدار میں آیا اور غرور وتکبر کا شکار ہو کر خود کو بدترین آمر ہونے کا ثبوت دیا۔
تعصب‘ نفرت‘ نسل پرستی اور شدت پسندی اس کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے جب وہ گجرات
کا وزیر اعلیٰ تھا تو اس نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کروایا۔ اس درندہ صفت شخص کے حکم
پر انسانوں کو زندہ جلایا گیا اور اب کشمیری مسلمانوں کے درپے ہے۔
اگرچہ مودی سرکار کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں
ہو رہا۔ بلکہ بڑی ڈھٹائی سے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ کشمیر کے حالات اس وقت نہایت
خراب اور ناگفتہ بہ ہیں۔ پوری کشمیری قوم کو قید کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر
کو جیل بنا دیا گیا ہے۔ کشمیریوں کو اس بار عید بھی نہیں منانے دی گئی‘ قربانیاں نہیں
کرنے دی گئیں۔ کشمیر کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اسے بھارتی میڈیا نہیں دکھا رہا بلکہ
بیرونی میڈیا کو کشمیر میں جانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ذرائع مواصلات بند ہیں‘
ٹیلیفون‘ انٹرنیٹ کی سروس مکمل بند ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں
ٹھونس دیا گیا ہے۔ حریت پسند قیادت کو نظر بند کیا ہوا ہے۔ سید علی گیلانی‘ یٰسین ملک‘
میر واعظ فاروق‘ آسیہ اندرابی جیسے رہنما شدید بیماری کے باوجود انہیں پابند سلاسل
کیا ہوا ہے۔ علاج معالجہ کی سہولیات چھین لی گئی ہیں۔
کئی ہفتوں سے سخت ترین کرفیو نافذ ہے‘ پکڑ دھکڑ جاری ہے‘ کشمیر کے تمام پولیس اسٹیشنز
کا انتظام بھارتی رائفلز بٹالین نے سنبھال رکھا ہے۔ کرفیو اور نقل وحمل پر پابندی کی
وجہ سے جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے‘ بے چارے کشمیری عوام پر عرصۂ
حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ یہ کرفیو اور پابندیاں ایسے ہی جاری رہیں تو کشمیری بوڑھے‘
بچے‘ عورتیں اور مریض امداد نہ ملنے پر جسم اور روح کا رشتہ برقرار نہیں رکھ پائیں
گے۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق اس ظلم وجبر کے خلاف صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ کشمیریوں
کے جذبات ڈر اور خوف کی بجائے غصے میں تبدیل ہو رہے ہیں اور اس میں بتدریج اضافہ ہو
رہا ہے۔ ایسی ہی صورت حال اس سے قبل فرانس میں بھی انقلاب کے وقت پیدا ہوئی تھی جہاں
اشرافیہ کے ہزاروں لوگوں کو ستائے ہوئے عوام نے کچل ڈالا تھا۔ آج مقبوضہ جموں وکشمیر
میں بھی کرفیو کی پابندیوں کو روندنے والے کشمیری خوف کی بجائے دلیرانہ انداز میں بھارتی
ظلم وستم کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ستر سال پر محیط ایک تاریخ
ہے کہ انہوں نے کبھی اپنا سر جھکایا نہیں بلکہ ظلم سہہ کر بھی استقامت کا عملی مظاہرہ
کیا اور اپنی نسلوں کی قربانی دی۔ ان کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ کشمیر
کی آزادی کا سورج ضرور طلوع ہو گا۔
بھارتی بد ترین جارحیت سے کشمیر ہی نہیں اس سے ملتے جلتے حالات بھارت کی شمال مشرقی
ریاستوں (اروناچل پردیش‘ آسام‘ منی پور‘ میگھالہ‘ مزو رام‘ ناگا لینڈ اور تری پورہ)
میں پیدا ہو چکے ہیں جہاں ۱۹۴۷ء میں اٹھنے والی علیحدگی کی تحریکیں ریاستی جبر‘ فوجی کارروائیوں اور انسانی حقوق
کی ہولناک خلاف ورزیوں کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ خالصتان بھارت
کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے جو کبھی بھی آگ پکڑ سکتا ہے۔ بھارت ظلم وزیادتی سے ان ریاستوں
کو ان کے حقوق دیئے بغیر قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی بھارت کے ٹکڑے
ہونے کی نوید ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ!
پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی‘ سفارتی ہر قسم کی حمایت جاری رکھے ہوئے
ہے اور انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس بار بھی پاکستان نے بھر پور آواز بلند کی
اور اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو عالمی تنازعہ تسلیم کر لیا ہے۔ سلامتی کونسل نے
کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور قرار دادوں کے مطابق ہی پر امن طریقے
سے حل ہو گا۔ کشمیر بین الاقوامی امن اور سکیورٹی کا مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کے دائرہ
اختیار کے اندر ۱۹۶۵ء کے بعد پہلی بار زیر بحث آیا ہے۔
بھارتی حکومت‘ پاکستان کی ان کوششوں پر سیخ پا ہے۔ جواب میں بھارت ایل او سی پر
سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آگ برسا رہا ہے۔ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اس کے وزیر
دفاع ایٹمی جنگ میں پہل کرنے کی دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ ہم جنگ کی تمنا نہیں کرتے‘
اللہ نہ کرے کہ جنگ ہو‘ لیکن اگر گائے کا پیشاب پینے والے غلیظ ہندو کشمیریوں پر ظلم
ڈھانے سے باز نہیں آتے تو پھر جہادی راستے کھلے ہیں اور غزوۂ ہند کی خوشبو سے دنیا
مہک اٹھے گی کیونکہ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو حق کے نام پر اپنی جانیں قربان کر دینا
جانتی ہوں۔
No comments:
Post a Comment