احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
اذان کی فضیلت
O امام
بخاریؒ نے کتاب الاذان میں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے: [باب فضل التأذین] یعنی اذان دینے کی فضیلت‘ پھر جو حدیث پیش کی ہے اس میں ہے
کہ شیطان اذان کی آواز سن کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ اس حدیث سے اذان کی فضیلت کیسے
ثابت ہوتی ہے؟
P امام بخاریؒ کے قائم کردہ عناوین ٹھوس اور خاموش ہوتے
ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہت مضبوط اور جاندار ہوتے ہیں۔ نیز وہ خاموشی کے ساتھ
اپنی معنویت پر دلالت کرتے ہیں۔ اگرچہ تاذین کا لفظ مؤذن کے قول وفعل اور اس کی ہیئت
وغیرہ سب کو شامل ہے لیکن اس مقام پر اس سے مراد اذان کے الفاظ ہیں۔ امام بخاریؒ نے
اذان کی بجائے تاذین کے الفاظ اس لیے استعمال کیے ہیں تا کہ عنوان کی الفاظ سے مطابقت
ہو جائے کیونکہ حدیث میں تاذین کا لفظ آیا ہے۔ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی بایں الفاظ مروی ہے: ’’جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر
کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تا کہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔‘ (بخاری‘ الاذان: ۶۰۸)
اذان کی فضیلت بایں طور ثابت ہوتی ہے کہ اذان ہی ایک ایسی چیز
ہے جس کی آواز سن کر شیطان بھاگنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘ اگرچہ اذان کی فضیلت میں متعدد
احادیث کتب حدیث میں مروی ہیں لیکن امام بخاریؒ نے صرف مذکورہ حدیث کا انتخاب اس لیے
کیا ہے کہ اذان سے متعلق دیگر فضائل کو متعدد نیک اعمال سے حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ
شیطان کے بھاگنے کی خصوصیت صرف اذان سے وابستہ ہے۔
واضح رہے کہ شیطان سے ہوا کا خارج ہونا بعید اذ امکان نہیں کیونکہ
اس کا بھی ایک جسم ہے جسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہی غذا اس کا سبب بنتی ہے‘ اس کی
مذکورہ حرکت کی کئی ایک وجوہات ہیں جنہیں محدثین نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
b وہ اس نازیبا
حرکت سے اذان کے ساتھ مذاق کرتا ہے جیسا کہ غیر مہذب لوگوں کا شیوہ ہے۔
b وہ دانستہ یہ
کام کرتا ہے تا کہ اذان کی آواز اس کے کانوں میں نہ آ سکے کیونکہ جب قریب شور برپا
ہو تو دور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
b اذان کی وجہ
سے اس پر بوجھ پڑتا ہے‘ وہ اس دباؤ کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔
جیسے کسی آدمی کو انتہائی پریشان کن اور دہشت ناک معاملہ پیش
آگیا ہو تو ایسے حالات میں خوف کی وجہ سے اس کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور اسے خود
پر کنٹرول نہیں رہتا‘ اس بے بسی کے عالم میں اس کا پیشاب اور ہوا از خود خارج ہونا
شروع ہو جاتے ہیں۔ شیطان لعین جب اذان سنتا ہے تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے یعنی
وہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوتاہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ وہ مقام روحاء تک
بھاگتا چلا جاتا ہے تا کہ اذان کی آواز نہ سن سکے۔ (مسلم‘ المساجد: ۸۵۶)
مقام روحاء‘ مدینہ طیبہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر ہے۔ (فتح الباری:
ج۲‘ ص ۱۱۳) بہرحال اس حدیث
سے اذان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ وضاحت کر دی گئی ہے۔ واللہ اعلم!
دوران جماعت سنت فجر پڑھنا
O ہمارے
ہاں عام طور پر جب فجر کی نماز کھڑی ہو جاتی ہے تو کچھ لوگ جلدی جلدی مسجد کے کسی کونے
میں فجر کی دو سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے مطابق ایسا کرنا
کیا حیثیت رکھتا ہے؟ وضاحت کریں۔
P جب فجر کی نماز کھڑی ہو جائے تو نماز باجماعت کے علاوہ
ہر قسم کی نماز منع ہے خواہ سنت ہو یا نوافل‘ راتبہ ہوں یا غیر راتبہ‘ کیونکہ حدیث
میں ہے: ’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
(مسلم‘ الصلوٰۃ: ۱۶۴۴)
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں اس مسئلہ کو دلائل وبراہین کے
ساتھ ثابت کیا ہے۔ البتہ کچھ اہل علم نے نماز فجر کی تکبیر کے بعد چند شرائط کے ساتھ
فجر کی دو سنت ادا کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے۔ چنانچہ متداول درسی بخاری کے حاشیہ پر
بیہقی کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی گئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب نماز کی تکبیر
ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی‘ ہاں فجر کی دو سنتیں پڑھی
جا سکتی ہیں۔‘‘ … بلاشبہ یہ حدیث سنن بیہقی میں مروی ہے۔ (بیہقی: ج۲‘ ص ۴۸۳)
لیکن امام بیہقی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد خود وضاحت کی
ہے کہ مذکورہ اضافہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ نیز اس کی سند میں حجاج بن نصر اور
عباد بن کثیر دو راوی ضعیف ہیں۔ اس کے برعکس امام بیہقی نے سیدنا ابوہریرہt سے
ایک روایت بایں الفاظ بیان کی ہے‘ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جب نماز فجر کی تکبیر ہو جائے تو دوسری
کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ عرض کیا گیا اللہ کے رسول! ایسے حالات میں فجر کی دو سنت پڑھنا
بھی درست نہیں؟ آپe نے
فرمایا: ’’ہاں‘ تکبیر کے بعد فجر کی دو سنت پڑھنا بھی جائز نہیں۔‘‘ (بیہقی: ج۴‘ ص ۴۸۳)
اگرچہ اس کی سند میں مسلم بن خالد نامی ایک راوی متکلم فیہ ہے
تا ہم امام ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اور اپنی صحیح میں اسے قابل حجت کہا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: ’’اس روایت کو ابن عدی نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘
(فتح الباری: ج۲‘ ص ۱۹۴)
سیدنا عمرt اس
شخص کو پیٹتے تھے جو نماز کی تکبیر کے بعد کسی دوسری نماز میں مشغول
ہوتا۔ نیز سیدنا ابن عمرw ایسے
شخص کو کنکریاں مارتے تھے۔ (سنن بیہقی: ج۲‘ ص ۴۱۸۳)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر ہو جانے کے بعد فجر کی
سنتیں ادا کرنا اور فرض نماز میں شمولیت نہ کرنا شرعا درست نہیں نیز ایسا کرنا طریقہ
نبوی کے خلاف ہے۔ تکبیر کے بعد نوافل وغیرہ ترک کر کے جماعت میں شامل ہونا اور اسے
فرض نماز کے بعد ادا کرنا ہی اتباع سنت کا عین تقاضا ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد میں
ایسے وقت پہنچے کہ فجر کی نماز کھڑی ہو چکی ہو اور اس نے ابھی تک سنتیں نہ پڑھی ہوں
تو اسے چاہیے کہ وہ جماعت میں شامل ہو جائے اور فرض پڑھ کر سنتیں ادا کر لے۔ چنانچہ
ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا قیس بن فہدt نے
صبح کے فرض پڑھنے کے بعد دو رکعت (سنت) پڑھی تو رسول اللہe نے
حقیقت حال معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کچھ نہ کہا بلکہ سکوت فرمایا۔ (صحیح ابن خزیمہ:
۱۱۱۶)
ان دو سنتوں کو طلوع آفتاب کے بعد بھی پڑھا جا سکتا ہے‘ اس
کے لیے مسجد میں بیٹھ کر طلوع آفتاب کا انتظار کرنا ضروری نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو شخص فجر کی دو سنت نہ پڑھ
سکے تو اسے چاہیے کہ وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔‘‘ (ترمذی‘ الصلوٰۃ: ۴۲۳)
اگرچہ اس روایت کواہل علم نے ضعیف کہا ہے تا ہم علامہ البانیؒ
نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: ۲۳۶۱)
اس مقام پر یہ اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ سید نذیر حسین
محدث دہلویؒ نے صحیح بخاری کے حاشیہ نگار مولانا احمد علی سہارنپوری کے نام اس سلسلہ
میں ایک خط بھی لکھا تھا جس کی تفصیل ہم نے شرح بخاری میں لکھی ہے۔ یسر اللہ طبعہٗ
واضح رہے کہ اس موضوع پر علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ نے مستقل
ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’’اعلام اہل العصر فی احکام رکعتی الفجر‘‘ ہے۔ واللہ اعلم!
سلام پھیرنے کے بعد امام کا وہیں نفل ادا کرنا
O میں
ایک مسجد میں امام ہوں‘ میں نے ایک دن سلام پھیرنے کے بعد وہیں سنتیں ادا کرنا شروع
کر دیں‘ ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ ایسا کرنا درست نہیں‘ آپ کو جگہ بدل لینا چاہیے
تھی۔ اس مسئلہ کی وضاحت کر دیں۔
P امام بخاریؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
’’سلام پھیرنے کے بعد امام کا اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنا۔‘‘ (بخاری‘ الاذان‘ باب نمبر
۱۵۷)
اس عنوان سے امام بخاریؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام سلام
پھیرنے کے بعد وہیں نفل وغیرہ پڑھ سکتا ہے اسے جگہ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ امام بخاریؒ
نے اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے سیدنا عبداللہ بن عمرw کا ایک عمل پیش کیا ہے کہ وہ اسی جگہ پر نفل وغیرہ پڑھتے
جہاں انہوں نے فرض نماز ادا کی ہوتی تھی۔ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے
بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبہ: ج۲‘ ص ۲۳)
امام بخاریؒ مزید بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہt سے
مروی وہ روایت صحیح نہیں جس میں رسول اللہe فرماتے ہیں: ’’امام اسی جگہ نفل پڑھے جہاں اس نے فرض
نماز ادا کی تھی۔‘‘ امام بخاریؒ نے اس کی تفصیل اپنی مایہ ناز تصنیف تاریخ الکبیر میں
بیان کی ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق جس نماز کے بعد سنن وغیرہ ہیں‘ اس کے متعلق
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ پہلے اذکار مسنونہ پڑھے جائیں پھر نوافل پڑھنے چاہئیں۔
اگر وظائف کی بجائے جگہ بدل لی جائے تو بھی کافی ہے۔ اگر نماز کے بعد سنن وغیرہ نہیں
ہیں تو اس صورت میں امام اور مقتدی کو چاہیے کہ وہ خود کو مسنون وظائف میں مصروف رکھیں۔
وظائف کے لیے جگہ بدلنے کی چنداں ضرورت نہیں‘ وہیں بیٹھے بیٹھے انہیں پورا کر سکتا
ہے‘ وہاں نوافل بھی ادا کر سکتا ہے۔ اس سلسلہ
میں جو ممانعت آئی ہے محدثین کے ہاں ا س کی صحت محل نظر ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے
اپنی صحیح میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی ہم نے پہلے وضاحت کر دی ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment