خطبۂ حج 2019... اسلام کی بنیادی تعلیمات
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر محمد بن حسن آل شیخ d
ترجمہ: جناب محمد عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو۔ پرہیز گاری میں آخرت کی نجات اور دنیا
کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ اور آخرت تیرے
رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے۔‘‘ (الزخرف: ۳۵)
’’سُنو! جو اللہ
کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی
خوف اور رنج کا موقع نہیں‘ دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت
ہے‘ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (یونس: ۶۲)
پرہیزگاری کا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ توحید کو اپنایا جائے۔ توحید
اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم حکم ہے۔ توحید یہ ہے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت
کی جائے۔ انسانوں اور جنوں کو اسی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’میں نے جن اور
انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ (الذاریات:
۵۶)
ہم بھلا اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کیوں نہ کریں، جبکہ اسی
نے ہر طرح کی خیر نازل کی ہے، اسی نے ساری مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور ساری مخلوق
اسی کے سامنے پیش ہو گی اور وہی ان کے کھلے اور چھپے اعمال کا حساب لے گا۔
اسی طرح صحیح حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا، یہ تحریر اس
کے عرش پر اب بھی موجود ہے کہ میری رحمت میرے غضب سے زیادہ ہے۔
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔
جو آیت میدان عرفات میں نازل ہوئی تھی، اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’آج میں نے تمہارے
دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے۔‘‘ (المائدۃ: ۳)
یہ وہ عظیم دین ہے جو پانچ ارکان پر قائم کیا گیا ہے۔ شہادتین،
نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔
ارکان اسلام قائم کیے جائیں تو رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ کلمہ شہادت
لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ عبادت
میں توحید اپنائی جائے۔ اسی طرح کلمہ شہادت کے دوسرے حصے میں محمدe کو
اللہ کا رسول ماننے کی گواہی دی جاتی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپe کا
حکم مانا جائے، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کو حق تسلیم کیا جائے اور اللہ کی عبادت صرف
اسی طریقے سے کی جائے جو آپe نے
بتایا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم
دیا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ زکوٰۃ یہ ہے کہ اپنے مال میں سے طے شدہ
شرح کے مطابق ایک حصہ نکال کر فقراء کو دیا جائے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’نماز قائم کرو،
زکوٰۃ دو، اور رسولe کی
اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘ (النور: ۵۶)
اسی طرح رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا اور بیت اللہ کا
حج کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ حدیث میں آتا ہے:
’’جب رمضان کا مہینہ
آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
رسول اللہe نے
حج میں سر کے بال منڈانے والوں کو تین مرتبہ دعا دی۔
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایمان کو اپنی رحمت حاصل کرنے
کا اور نجات پانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا:
’’اب جو لوگ اللہ
کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و
کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔‘‘ (النساء:
۱۷۵)
اللہ کے رسولِ رحیم نے بھی بتایا ہے کہ ایمان کے ارکان چھ ہیں۔
فرمایا:
’’ایمان یہ ہے کہ
تم اللہ پر، اللہ کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور
اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھو۔‘‘
یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے انبیاء علیہم السلام کو ساری
دنیا کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدe کو
مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے محمد! ہم نے
جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ (الانبیاء: ۱۰۷)
اسی طرح فرمایا:
’’اور تم طور کے
دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰu کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت
ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جار ہی ہیں) تاکہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کر دو جن کے پاس
تم سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں۔‘‘ (القصص: ۴۶)
اسی طرح اپنے نبی کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ پر ایمان
رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم
میں سے ایماندار ہیں۔‘‘ (التوبہ: ۶۱)
آپe کا
ایک نام نبی رحمت بھی ہے۔ رحمن رحیم کا فرمان بھی سن لیجیے:
’’(اے پیغمبر!) یہ
اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں
تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے‘ اِن کے قصور معاف
کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔‘‘
(آل عمران: ۱۵۹)
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر رحم کرتے
ہوئے ایسی کتابیں نازل کی ہیں جو اس کی شریعت بیان کرتی ہیں، لوگوں کے احوال درست کرتی
ہیں۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اور کیا اِن لوگوں
کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو اِنہیں پڑھ کر سُنائی
جاتی ہے؟ در حقیقت اِس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘
(العنکبوت: ۵۱)
اسی طرح فرمایا:
’’ہم اِن لوگوں کے
پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان
لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘ (الاعراف: ۵۲)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’لوگو! تمہارے پاس
تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو
اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔‘‘ (یونس: ۵۷)
امت کے بزرگ، جن میں صحابہ کرام بھی شامل ہیں اور ان کے بعد
آنے والے نیک علما بھی شامل ہیں، وہ اس رحمت بھرے طریقے پر ہی چلتے رہے۔ اللہ تعالیٰ
نے بھی ان کی یہی صفت بیان کی۔ فرمایا:
’’اور آپس میں رحم
دل ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب
میں مشغول پاؤ گے۔‘‘ (الفتح: ۲۹)
اللہ کے نبی اور اس کے اولیائے کرام بھی اللہ کی مخلوق پر خوب
رحم کرتے تھے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اور پہلے موسیٰu کی
کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی
طرح اس سے انکار کرسکتا ہے؟)۔‘‘ (ہود: ۱۷)
اسی طرح خضرu کے
بارے میں فرمایا:
’’ہم نے اپنی رحمت
سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔‘‘ (الکہف: ۶۵)
قیامت تک مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرتے ہی رہیں گے۔ فرمان باری
تعالیٰ ہے:
’’پھر (اس کے ساتھ
یہ کہ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور
(خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے۔‘‘ (البلد: ۱۷-۱۸)
اہل علم بھی فتویٰ پوچھنے والوں کے ساتھ رحمت والا معاملہ کرتے
ہیں۔ اللہ نے بھی یہی حکم دیا ہے۔ فرمایا:
’’جب تمہارے پاس
وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو کہ تم پر سلامتی ہے تمہارے
رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے‘ یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر
تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ
کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے۔‘‘ (الانعام:
۵۴)
بلکہ سارے کے سارے مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔ حدیث میں
آتا ہے:
’’مسلمانوں کے باہمی
مودت، رحمت اور بھائی چارے کی مثال ایک جسم جیسی ہے، جس کا ایک حصہ تکلیف میں ہوتا
ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں رہتا ہے۔‘‘
ہمیں بھی ساری مخلوق کے ساتھ رحم والا معاملہ کرنے کا حکم دیا
گیا ہے۔ فرمانِ نبوی ہے:
’’زمین والوں پر
رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
’’اللہ رحم کرنے
والوں پر رحم کرتا ہے۔‘‘
یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے معاشرتی تعلقات کی بنیاد
بھی رحمت پر رکھی ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان بھی رحمت ہونی چاہیے، میاں بیوی کے
درمیان بھی رحمت ہونی چاہیے۔ والدین کے بارے میں فرمایا:
’’اور نرمی و رحم
کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح
اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (الاسراء: ۲۴)
میاں بیوی کے متعلق فرمایا:
’’اور اس کی نشانیوں
میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس
سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں
ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘ (الروم: ۲۱)
ایک شخص نے رسول اللہe سے کہا: کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے بھی ہیں؟ ہم تو نہیں
چومتے۔ آپe نے
فرمایا: ’’اگر اللہ نے آپ کے دل سے رحمت چھین لی ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
دین اسلام میں تو ماحول اور جانوروں کے ساتھ بھی رحمت والا معاملہ
کرنے کا حکم ہے۔ ایک بد کردار عورت کو جنت میں اسی لیے داخل کر دیا گیا کہ اس نے ایک
پیاسے کتے پر رحم کرتے ہوئے اسے پانی پلا دیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شخص کو جنت میں
اس لیے داخل کر دیا گیا کہ اس نے لوگوں کو اذیت دینے والی کانٹے دار ٹہنی کو راستے
سے ہٹا دیا تھا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
اس لیے ہمیں اپنے تمام تر معاملات میں رحمت کو بنیادی حیثیت
دینی چاہیے۔ نبی اکرمe کا
فرمان ہے:
’’اللہ کی سو رحمتیں
ہیں۔ جن میں سے اس نے ایک رحمت جنوں، انسانوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں نازل کی
ہے، اسی ایک حصے سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے وحشی جانور
اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے مؤخر کر رکھی
ہیں جن سے وہ اس دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘
لوگ ایک دوسرے پر رحم کرنے لگیں تو بہت سے مثبت اثرات نظر آنے
لگتے ہیں اور شاندار نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ لوگوں میں محبت پیدا ہوتی ہے، رواداری بڑھتی
ہے، الفت پھیلتی ہے اور تعاون نظر آنے لگتا ہے۔
ہماری آج کی زندگی میں بھی بہت سے موقعے ایسے ہیں جن میں ہمیں
رحمت اپنانی چاہیے۔ جن میں قانون سازی، رابطے کے ذرائع کا استعمال، جدید ٹیکنالوجی
اور میڈیا کا استعمال شامل ہے۔
رحمت کا ایک پہلو وہ بھی ہے جو ہم مشاعر مقدسہ میں کام کرنے
والے سپاہیوں میں دیکھتے ہیں، وہ کس طرح حجاج کرام کی رہنمائی کرتے ہیں، کس طرح عبادت
کی ادائیگی میں ان کی مدد کرتے ہیں، بالخصوص بوڑھوں، معذوروں اور بچوں کا خیال کرتے
ہیں۔ ان کا یہ رویہ اسی لیے نظر آتا ہے کہ انہیں اس بابرکت ملک کے حکمرانوں کی طرف
سے یہی ہدایت ملتی ہے۔ یہ ہدایات ان خدمات کی ایک کڑی ہے جو سعودی عرب کی حکومت حرمین
کی خدمت میں سرانجام دے رہی ہے۔ یہ حکومت حجاج کرام کے لیے ہر کام میں عظیم سہولیات
فراہم کرتی ہے۔
سعودی عرب کے قابل تعریف منصوبوں میں حرمین کی توسیع کا منصوبہ
بھی شامل ہے، مشاعر مقدسہ کو حج کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا بھی شامل ہے۔ ان میں تمام
طرح کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
اس ملک کے تمام بادشاہ حرمین اور حجاج کرام کی خدمت میں ایک
سے بڑھ کر ایک پیش پیش نظر آتے ہیں۔ نیک بادشاہ، شاہ عبد العزیز کو اللہ تعالیٰ اجر
عظیم عطا فرمائے، انہیں معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، انہوں نے بھی اس
معاملے میں کسر نہیں چھوڑی اور پھر ان کی نیک اولاد، شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد،
شاہ فہد اور شاہ عبد اللہ رحمہم اللہ بھی اسی راستے پر چلتے رہے، اللہ ان سب کے درجات
بلند فرمائے۔ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔
ان دنوں بھی ہمیں مشاعر مقدسہ میں دل خوش کر دینے والی خدمات
نظر آتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ہر مسلمان کا دل خوش ہو جاتا ہے۔
اے مسلمانو! اللہ کی رحمت ہی سے نفس پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اللہ کا
فرمان ہے:
’’اگر اللہ کا فضل
اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا مگر اللہ ہی
جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ (النور: ۲۱)
اسی طرح فرمایا:
’’میں کچھ اپنے نفس
کی براء َت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب
کی رحمت ہو۔‘‘ (یوسف: ۵۳)
اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اپنی رحمت ہی سے جنت میں داخل کرے
گا۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپe نے
فرمایا:
’’کوئی شخص اپنے
عمل کی بدولت جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ
بھی نہیں؟ آپe نے
فرمایا: نہیں! میں بھی نہیں داخل ہو سکوں گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کر
دے اور فضل کرم عطا فرمائے۔‘‘
اللہ کی رحمت سے لوگ مختلف قسم کی مصیبتوں اور برائیوں سے محفوظ
رہتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ تیرا رب بڑا درگزر
کرنے والا اور رحیم ہے وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج
دیتا۔‘‘ (الکہف: ۵۸)
اسی طرح فرمایا:
’’اگر تم لوگوں پر
دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے
ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا۔‘‘ (النور: ۱۴)
اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں شیطان سے بھی محفوظ رکھتا
ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’تم لوگوں پر اللہ
کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا
تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔‘‘ (النساء: ۸۳)
اے مومنو! رحمت الٰہی حاصل کرنے کے چند اسباب ہیں، جن پر عمل
کرنے سے اس کی رحمت شاملِ حال ہو سکتی ہے۔ ایک سبب پرہیزگاری ہے۔ فرمایا:
’’بچو اُس انجام
سے جو تمہارے آگے آ رہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(یٰسٓ: ۴۵)
ایک اور سبب رواداری ہے۔ فرمان نبوی ہے:
’’اللہ ایسے شخص
پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اورقرض کا تقاضا کرتے وقت نرمی کرے۔‘‘
رحمتِ الٰہی کے حصول کا سبب تلاوت قرآن بھی ہے۔ اس پر غور کرنا،
اسے سننا اور اس پر تدبر کرنا شامل ہے۔ حدیث میں آتا ہے:
’’جب بھی کچھ لوگ
اللہ کے کسی گھر میں اکٹھے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا دور کرتے ہیں
تو فرشتے ان کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں، ان پر رحمت نازل ہوتی اور سکینت ان پر چھا جاتی
ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’جب قرآن تمہارے
سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے۔‘‘
(الاعراف: ۲۰۴)
اسی طرح فرمایا:
’’اور اسی طرح یہ
کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب پس تم اِس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش
اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (الانعام: ۱۵۵)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’(کیا اِس شخص کی
روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے
کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو، کیا جاننے
والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی
قبول کرتے ہیں۔‘‘ (الزمر: ۹)
اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں پر احسان کرنا بھی
ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’یقینا اللہ کی
رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔‘‘ (الاعراف: ۵۶) … ایک اور جگہ فرمایا: ’’ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں
کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا۔‘‘ (یوسف: ۵۶)
اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں
صلح کرائی جائے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’مومن تو ایک دوسرے
کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید
ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘ (الحجرات: ۱۰)
رحمت الٰہی کے نزول کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اللہ کی اور اس
کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اور اللہ اور رسول
کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔‘‘ (آل عمران: ۱۳۲)
صبر بھی رحمت کے ذرائع میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’جو لوگ صبر کریں
اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ
کر جانا ہے انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس
کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۶-۱۵۷)
رحمت کا ایک سبب وہ بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں
فرمایا ہے:
’’مومن مرد اور مومن
عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں،
نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہ
وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی۔‘‘ (التوبہ: ۷۱)
ایک سبب وہ بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا
ہے:
’’مگر میری رحمت
ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے
پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے (پس آج یہ رحمت اُن لوگوں
کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اُنہیں اپنے ہاں
تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا
ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ
اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘
(الاعراف: ۱۵۶-۱۵۷)
رحمت الٰہی کے نزول کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کثرت سے استغفار
کیا جائے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ کیوں نہیں اللہ
سے مغفرت طلب کرتے؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے؟‘‘ (النمل: ۶۴)
اے مسلمانو! تمہارے گناہ چاہے بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، تم
اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہونا۔ کیونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا
فرمان ہے:
’’(اے نبی!) کہہ
دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ
ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘ (الزمر: ۵۳)
اسی طرح فرمایا:
’’اپنے رب کی رحمت
سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (الحجر: ۵۶)
ایک سبب یہ بھی ہے کہ رحمت نازل کرنے کی دعا کی جائے۔ موسیٰ
علیہ السلام کی دعا تھی:
’’اور ہمیں اپنی
رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔‘‘ (الاعراف: ۱۵۱)
سیدنا سلیمانu نے
بھی یہی دعا کی تھی:
’’اور اپنی رحمت
سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔‘‘ (النمل: ۱۹)
فرشتے بھی اللہ سے یہی دعا کرتے ہیں:
’’اے ہمارے رب! تو
اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ
سے بچا لے اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ اے ہمارے
رب! اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا
ہے، اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن
کے ساتھ پہنچا دے) تو بلا شبہ قادر مطلق اور حکیم ہے اور بچا دے اُن کو برائیوں سے
جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی
ہے۔‘‘ (غافر: ۷-۹)
ہمارے والدین، آدم اور حواءi نے بھی یہی دعا کی تھی:
’’اے رب! ہم نے اپنے
اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ
ہو جائیں گے۔‘‘ (الاعراف: ۲۳)
اصحاب کہف نے بھی یہی دعا کی تھی:
’’اے پروردگار! ہم
کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔‘‘ (الکہف: ۱۰)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تم وہی لوگ تو
ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کر
دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے۔‘‘ (المؤمنون: ۱۰۹)
راسخ اہل علم کی بھی یہی دعا ہے:
’’وہ اللہ سے دعا
کرتے رہتے ہیں کہ پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے
دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض
حقیقی ہے۔‘‘ (آل عمران: ۸)
اے بیت اللہ کے حاجیو! تم بڑی فضیلت والی جگہ پر ہو۔ جس میں
دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ جس میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ جس کے بارے میں رسول اللہe فرماتے
ہیں:
’’عرفات کے دن سے
بڑھ کر کسی اور دن میں اتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے آزاد نہیں کرتا جتنے
لوگوں کو عرفات کے دن جہنم سے آزاد کرتا ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ قریب آ جاتا ہے اور
فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے۔‘‘ (مسلم)
رسول اللہe نے
جب حج کیا تو مسلمانوں پر رحم کرتے ہوئے روزہ نہ رکھا، تاکہ وہ اس دن کثرت سے ذکر کر
سکیں اور دعائیں مانگ سکیں۔ تو اللہ تعالیٰ کو بھلے بن کر دکھاؤ۔ اس سے اپنے لیے، اپنے
پیاروں کے لیے اور جن کے حقوق آپ کے ذمے ہیں اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت اور خیر
کا سوال کرتے رہو۔ اللہ سے سوال کرو کہ ان کے احوال درست فرمائے اور ان کے معاملات
سنبھال لے۔
اے بیت اللہ کے حاجیو! رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رسول اللہe نے
حج کے احکام بیان کر دیے۔ عرفات کے میدان میں آپe نے خطبہ دیا، اذان دی گئی اور پھر اقامت کہی گئی، پھر
ظہر کی نماز کو قصر کرتے ہوئے اس کی دو رکعتیں ادا کیں، پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور
عصر کی نماز کو بھی قصر کرتے ہوئے اس کی بھی دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر آپe عرفات
کے میدان میں اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے رہے، دعا کرتے رہے۔ جب آفتاب
غروب ہو گیا تو آپe یہ
کہتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہوئے کہ لوگو! سکون اور وقار کا خیال رکھو کیونکہ نیکی جلد
بازی میں نہیں۔ اس حکم میں بھی حاجیوں کے ساتھ رحمت کا پہلو جھلکتا ہے۔ انہیں تلقین
کی گئی کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کریں۔ جب آپe مزدلفہ پہنچے تو اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی، پھر
آپe نے
مغرب کی تین رکعتیں ادا کیں، پھر اقامت کہی گئی اور آپe نے
جمع اور قصر کرتے ہوئے عشاء کی دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر رات مزدلفہ میں ہی ٹھہر گئے۔
وہیں پر فجر کی نماز اول وقت میں ادا کی۔ بہت روشنی پھیل جانے تک اللہ سے دعا کرتے
رہے۔ پھر منیٰ کا رخ کیا، وہاں طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں۔
پھر قربانی کی اور اپنے بال منڈوائے۔ پھر بیت اللہ کا طواف، طوافِ افاضہ کیا۔ آپe نے
ایام تشریق منیٰ ہی میں گزارے اور وہاں اللہ کا ذکر کرتے رہے۔ تینوں جمروں پر زوال
آفتاب کے بعد کنکریاں مارتے رہے۔ چھوٹے اور درمیانی جمرے پر کنکریاں مارنے کے بعد دعا
بھی کرتے رہے۔
اہل عذر کو آپe نے
اجازت دی کہ وہ ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں نہ گزاریں۔ یاد رہے کہ آپe کی
سنت یہی ہے کہ منیٰ میں تیرہ ذو الحجہ تک ٹھہرا جائے، یہی افضل بھی ہے، اگرچہ بارہ
ذو الحجہ کو چلے جانے کی اجازت بھی آپe نے دی ہے۔
جب آپe حج
سے فارغ ہوئے تو قبل از سفر آپ نے پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ اللہ کی رحمتیں اور سلامتی
ہو آپe پر۔
اے اللہ! حاجیوں پر رحم فرما! ان سے حج قبول فرما! ان کے معاملات
آسان فرما۔ بد خواہوں کے شر سے انہیں محفوظ فرما! اے اللہ! انہیں اپنے ملکوں تک امن
وسلامتی کے ساتھ اس حال میں پہنچا کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوں، ان کی حاجتیں پوری
ہو گئی ہوں۔ اے اللہ! مسلمان مردوں اور عورتوں، مؤمن مردوں اور عورتوں پر رحم فرما!
ان کیاختلافات دور فرما! ان کے دلوں کی اصلاح فرما! ان کے معاملات سنبھال لے۔ انہیں
ایک دوسرے پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرما!
No comments:
Post a Comment