ماہِ محرم اور اس کے تقاضے
تحریر: جناب مولانا حافظ عبدالغفار
ریحان
بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ماہِ محرم کی اہمیت شاید واقعہ
کربلا کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ واقعہ کربلا آنحضرتe کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد پیش آیا۔ جبکہ ماہ
محرم کی حرمت و عظمت اور عاشوراء محرم کی فضیلت و اہمیت اسلام نے اس سے قبل بیان کردی
جس کا تذکرہ قرآن مجید اور حدیث مبارک میں تفصیل سے مذکور ہے اور دین رسالت مآبe کی
زندگی میں مکمل ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ
لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ
دِیْناً} (المائدة)
’’آج میں نے تمہارے
لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام
کو دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔‘‘
ماہ محرم کی حرمت و عظمت
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ
عِندَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَات
وَالاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ} (التوبة)
’’یقینا مہینوں کی
تعداد اللہ کے ہاں بارہ ہے۔ اللہ کی کتاب میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو
پیدا کیا ہے‘ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔‘‘
حرمت والے مہینے: ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب۔ ان مہینوں
کے دوران لڑائی جھگڑا، قتل و غارت، لوٹ مار اور فتنہ و فساد حرام ہیں۔ ویسے تو عموماً
یہ کام منع ہیں مگر ان مہینوں میں ان کاموں کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح زمان ومکان
کے اعتبار سے نیکی اور گناہ کی اہمیت اور شدت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً عام دنوں میں نیکی
کرے تو وہ نیکی ہے مگر رمضان المبارک اور عشرۃ ذوالحج میں نیکی کا اجر بڑھ جاتا ہے۔
برائی بھی اسی طرح ہے، عام کسی جگہ برائی کرے تو وہ برائی ہے مگر مسجد میں اس کی سنگینی
بڑھ جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں تو گناہ کی شدت اور بڑھ جاتی ہے، نیکی بھی اسی طرح ہے۔
اسلام سے پہلے عرب لوگ بھی ان مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے
تھے مگر مسلسل تین ماہ (ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم) میں احتراماً لوٹ مار اور قتل غارت
سے رکے رہنا ان کے لیے دشوار ہوتا تھا جس کیلئے انہوں نے نسیٔی کا طریقہ اپنا رکھا
تھا یعنی حرمت والے جس مہینے میں انہوں نے لوٹ مار کرنا ہوتی کر لیتے اور اس کی بجائے
کسی اور مہینے کو حرمت والا قرار دے کر اس کا احترام کرتے ہوئے اس میں لوٹ مار نہ کرتے
تا کہ اپنا مطلب بھی نکل جائے اور چار مہینوں کی تعداد بھی پوری ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ
نے ان کی اس تقدیم و تاخیر والے حربے کی مذمت فرمائی۔
عاشوراء محرم کی اہمیت و فضیلت
جب نبی کریمe ہجرت
کر کے مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، آپ نے پوچھا
تم اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ
اور ان کی قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تو سیدنا موسیٰu نے
شکرانے کیلئے اس دن روزہ رکھا تھا تو آپe نے ارشاد فرمایا: [نَحْنُ اَحَقُّ وَاَوْلٰی بِمُوْسیٰ مِنْکُمْ] تم سے بڑھ کر ہم موسیٰu سے زیادہ تعلق والے ہیں۔ پھر آپ نے خود بھی عاشوراء
کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ بلکہ اہتمام کے
ساتھ آپe اس
دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری حدیث ۲۰۰۶، مسلم حدیث: ۱۱۳۲)
رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے دس محرم کا روزہ فرض تھا۔ (صحیح
بخاری حدیث: ۱۵۹۲، ۲۰۰۲، مسلم حدیث: ۱۱۲۵) رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد دس محرم کے روزے کی فرضیت تو ختم ہو گئی مگر اس
کی فضیلت باقی رہی۔ رسول اکرمe نے
ارشاد فرمایا:
[اَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِیْ قَبْلَہٗ] (صحیح مسلم حدیث: ۱۱۶۲، صحیح ابی داؤد للالبانی حدیث: ۲۰۹۶)
’’مجھے اللہ سے امید
ہے کہ وہ گزشتہ ایک سال کے گناہ مٹا دے گا۔‘‘
پھر آپe نے
اہل کتاب کی مخالفت کے پیش نظر ارشاد فرمایا: [لَئِنْ بَقِیْتُ اِلٰی قَابِلٍ لَاَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ] (صحیح مسلم حدیث: ۱۱۳۴) ’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو ضرور نویں کا روزہ رکھوں گا۔‘‘
ماہ محرم کے بارے میں بالعموم اور دس محرم کے بارے میں بالخصوص
یہ چند حقائق ہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں۔ اسلامی تاریخ کا المناک اور دردناک واقعہ کربلا
بھی دس محرم کو ہی پیش آیا‘ دین اسلام اس واقعہ کے پیش آنے سے قبل مکمل ہو چکا تھا
اور رسول اکرمe سے
روزے کے سوا کچھ بھی اس مہینے میں ثابت نہیں۔ اگر کوئی روزہ رکھے گا تو اجر پا لے گا،
نہیں رکھے گا تو وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ بعض لوگ واقعہ کربلا کی آڑ میں صحابہ کرام] پر
کیچڑ اچھالتے ہیں اور بعض لوگوں نے اس ماہِ محرم کے پہلے دس دنوں کو سوگ بنا لیا ہے
اور ان دنوں میں وہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کو اچھا خیال نہیں کرتے بلکہ حالت سوگ
میں رہتے ہیں اور بعض لوگ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں کہ:
1 جو دس محرم
کو اپنے اہل و عیال پر فراخی کرے گا سال بھر اسے تنگی نہیں آئے گی۔
2 جو دس محرم
کو آنکھوں میں سرمہ ڈالے گا سال بھر اس کی آنکھیں نہیں دکھیں گی۔
3 دس محرم کے
دن پانی کی ٹونٹیوں سے زمزم برآمد ہوتا ہے۔
4 بعض لوگ دس
محرم کو قبروں پر نئی مٹی ڈالتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت کچھ… یہ سب بے ثبوت باتیں
ہیں جن کا کوئی اصل دین میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment