شہادتِ سیدنا عمر فاروق
تحریر: جناب ملک عبدالرشید عراقی
امیر المؤمنین خلیفہ ثانی سیدنا عمر بن الخطابt قریش
کی شاخ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ مشہور روایت کے مطابق ہجرت نبوی سے ۴۰ سال قبل ان کی ولادت
مکہ مکرمہ میں ہوئی‘ جب رسول اللہe نے
اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت سیدنا عمر ۲۷ سال کے تھے۔ ابتداء
ہی سے سیدنا عمر بڑے جسیم‘ بہادر تھے اور فن کشتی میں انہیں کمال حاصل تھا۔ شہسواری
میں انہیں بہت مہارت حاصل تھی۔ جاحظ نے لکھا ہے کہ
’’وہ گھوڑے پر اچھل
کر سوار ہوتے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جِلد ہو جاتے تھے۔‘‘
سیدنا عمرt کا
شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے پڑھنا سیکھ لیا تھا اور ایسے لوگ تعداد میں بہت
تھوڑے تھے۔ سیدنا عمر t کے
قبول اسلام کے بارے میں بہت سی روایات ہیں لیکن ان میں اکثر روایات فن حدیث کے معیار
کے مطابق پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ کفار مکہ ان لوگوں کو بہت ایذائیں دیتے تھے جو
دین اسلام میں داخل ہوتے اور خاص کر جو غلام یا لونڈی حلقہ بگوش اسلام ہوتے۔ ان کے
مالک انہیں بہت ہی زیادہ مصائب وآلام میں مبتلا کرتے تھے۔
سیدنا عمرt بھی
ان افراد میں شامل تھے جو عام لوگوں کے علاوہ اپنی لونڈیوں پر جو دین اسلام میں داخل
ہوتیں بہت زیادہ تکالیف پہنچاتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
’’عینیہ نامی ان
کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا‘ آپ اس کو بے تحاشا مارتے‘
تھک جاتے تو کہتے کہ ذرہ دم لے لوں‘ تو پھر ماروں گا۔‘‘ (الفاروق: ص ۲۸)
کفار مکہ نے ایک دن اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ مدعی نبوت حضرت
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کا خاتمہ کر دیا جائے اور یہ اعلان کیا کہ کون شخص حضرت
محمد بن عبداللہ کو قتل کرے گا۔ سیدنا عمر نے کہا کہ میں یہ کام کروں گا۔
چنانچہ سیدنا عمرt سخت گرمی کے دن دوپہر کے وقت گردن میں تلوار لٹکائے
ہوئے رسول اللہe کو
قتل کرنے کے لیے گھر سے نکلے۔ راستہ میں ان کی ملاقات نعیم بن عبداللہ سے ہو گئی۔ انہوں
نے کہا ’’اے عمر! کہاں کا ارادہ ہے۔‘‘ سیدنا عمرt نے جواب دیا: ’’مدعی نبوت محمد بن عبداللہ کا خاتمہ
کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے قریش کی جمعیت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔‘‘ نعیم بن عبداللہ
نے کہا: ’’اے عمر! تم انتہاء پسندی کا شکار ہو گئے ہو‘ تمہارا کیا خیال ہے کہ تم محمد
بن عبداللہ (e) کو قتل کر دو گے
اور بنو عبدمناف تم کو زمین پر زندہ چھوڑ دیں
گے؟ پہلے اپنے گھر کی خبر لو‘ خود تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید اسلام قبول کر
چکے ہیں۔‘‘
سیدنا عمرt یہ
سن کر سخت غصہ میں آگئے اور فوراً اپنی بہن کے گھر تشریف لے گئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا‘
اندر والوں نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا ابن الخطاب۔ دروازہ کھولا گیا‘ سیدنا عمر اندر
داخل ہوئے‘ بہن اور بہنوئی سے کہا کہ ’’میں نے سنا ہے کہ آپ دونوں نے اسلام قبول کر
لیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بہنوئی سے دست وگریباں ہو گئے۔ جب بہن نے اپنے خاوند کو بچانے
کی کوشش کی تو اس کی بھی خبر لی‘ یہاں تک کہ ان کا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اسی حالت میں
ان کی زبان سے نکلا: ’’اے عمر! جو بن آئے کر لو‘ لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔
بہن کے ان الفاظ نے سیدنا عمر کے دل پر خاص اثر کیا‘ فرمایا: بہن! جو کچھ تم پڑھ رہے
تھے مجھے بھی سناؤ‘ چنانجہ انہوں نے قرآن مجید کی چند آیات پڑھ کر سنائیں تو دل پر
رقت طاری ہو گئی اور فرمایا ’’مجھے رسول اللہe کی خدمت میں لے جاؤ‘ میں دین اسلام قبول کرنا چاہتا
ہوں۔‘‘
دوسری طرف رسول اللہe نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں یہ دعا کی تھی:
’’اے اللہ ابوجہل
عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک زیادہ بہتر ہو اس کے ذریعے اسلام
کو غالب کر دے۔‘‘ (ترمذی: ۳۶۸۱)
رسول اللہe ان
دِنوں سیدنا ارقمt کے
مکان میں جو کوہ صفا کے قریب واقع تھا پناہ گزیں تھے۔ سیدنا عمرt وہاں
تشریف لے گئے‘ دروازہ کھٹکھٹایا۔ صحابہ کرام] نے دروازہ سے جھانک کر دیکھا کہ کون ہے‘ تو انہیں سیدنا
عمر بن خطاب نظر آئے اور تلوار گلے میں لٹکی ہوئی ہے۔ صحابہ کرام] کو
کچھ تردد ہوا لیکن سیدنا حمزہ بن عبدالمطلبt نے کہا کہ ’’عمر کو آنے دو‘ مخلصانہ آیا ہے تو بہتر
ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔‘‘
سیدنا عمرt نے
اندر قدم رکھا تو رسول اللہe خود
آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا کہ ’’عمر! کس ارادہ سے آیا ہے؟‘‘ سیدنا عمرt نے
بڑی لجاجت اور سماجت سے جناب رسول اللہe کی خدمت میں عرض کیا‘ ایمان لانے کے لیے۔ رسول اللہe بے
ساختہ پکار اٹھے ’’اللہ اکبر‘‘ اور ساتھ تمام صحابہ کرام] نے
اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جس سے مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا عمرؓ کے
قبول اسلام کا اسلامی دعوت پر اثر:
سیدنا عبداللہ بن مسعودt کا بیان ہے کہ
’’جب سے سیدنا عمر
بن الخطابt اسلام
لائے ہم کفار پر بھاری رہے‘ ہمیں یاد ہے کہ ہم میں خانہ کعبہ کے طواف اور اس میں نماز
پڑھنے کی طاقت نہ تھی۔ یہاں تک کہ عمرt اسلام لے آئے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو آپt نے
ان سے لڑائی کی یہاں تک کہ وہ ہمیں چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر ہم نے نماز پڑھی اور
طواف کیا۔‘‘ (فضائل الصحابہ امام احمد بن حنبل ۱/۳۴۴۔ سیدنا عمر بن خطاب از صلابی: ص ۵۷)
غزوات:
اسلام قبول کرنے کے بعد سیدنا عمرt نے مدینہ منورہ ہجرت کی‘ اس کے بعد ۲ ہجری میں معرکہ بدر ہوا‘ جو اسلام میں حق وباطل کا پہلا معرکہ
تھا۔ اس میں سیدنا عمرt نے
شرکت کی اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ اس کے بعد غزوۂ اُحد‘ غزوۂ خندق‘ صلح حدیبیہ‘
غزوۂ خیبر‘ فتح مکہ‘ غزوہ حنین اور غزوہ تبوک میں شریک ہوئے۔
فضائل ومناقب:
سیدنا عمر بن خطابt کے جناب رسول اللہe نے بہت سے فضائل ومناقب بیان فرمائے ہیں۔ سب سے پہلا
شرف آپ کو یہ حاصل ہے کہ
1 رسول اللہe نے
آپ کی صاحبزادی سیدہ حفصہr سے
نکاح کیا اور آپ رسول اللہe کے
سسر تھے۔ (بخاری: ۵۱۲۲)
2 آپ e کا
ارشاد مبارک ہے: ’’تم سے پہلی امتوں میں الہام یافتہ افراد ہوا کرتے تھے اگر میری امت
میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں۔‘‘ (بخاری: ۳۶۸۹‘ مسلم: ۲۳۹۸)
3 آنحضرتe نے
ارشاد فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔‘‘ (ترمذی: ۳۶۸۶)
4 فرمانِ نبویe ہے:
’’ابوبکرؓ جنت میں ہے‘ عمرؓ جنت میں ہے‘ عثمانؓ جنت میں ہے‘ علیؓ بن ابی طالب جنت میں
ہے‘ زبیرؓ جنت میں ہے‘ طلحہؓ جنت میں ہے‘ عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہے‘ سعدؓ بن ابی
وقاص جنت میں ہے‘ سعیدؓ بن زید جنت میں ہے اور ابو عبیدہؓ بن الجراح جنت میں ہے۔‘‘
(ترمذی وابن ماجہ)
سیدنا عمرؓ کی
خلافت:
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقt نے ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ہجری کو وفات پائی تو سیدنا عمر بن الخطابt خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ سیدنا ابوبکر صدیقt نے
انہیں اپنی زندگی میں اپنے بعد خلافت کے منصب کے لیے نامزد کر دیا تھا۔
سیدنا عمرؓ کی
شہادت:
سیدنا عمر بن خطابt پر ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو ایک مجوسی
ابولؤلؤ فیروز نے فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے۔
یکم محرم ۲۴ھ کو آپ نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی اور حجرۂ عائشہr میں
رسول اللہe اور
سیدنا ابوبکر صدیقt کے
ساتھ دفن ہوئے۔ سیدنا صہیب رومی t نے نماز جنازہ پڑھائی‘ آپ کی عمر ۶۳ سال تھی‘ مدت خلافت
دس برس چار مہینے اور کچھ دن۔
No comments:
Post a Comment