درسِ قرآن
تحفظِ ذات
ارشادِ باری ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيْكُمْ نَارًا
وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ﴾ (التحريم)
’’اے ایمان والو!
اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔(وہ آگ کہ)جس کا ایندھن(برے)
لوگ اور پتھر ہوں گے۔‘‘
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے سامنے ہدایت
کی راہیں واضح کردی ہیں‘ پھر حضرت محمدe اور
اصحاب النبی] کے روزوشب اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ عملاً انہی راہوں پر چل کر
کامیابی وکامرانی کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گویا قرآنی تعلیمات ہی انسان کی
کامیابی اور کامرانی کی ضامن ہیں۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے باربار بنی نوع انسان کو عموما
اور ایمان والوں کو خصوصا اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی ذات کا تحفظ بطریق شریعت محمدی
e کرنے
کا کہا ہے‘ عذاب آخرت سے بچنے اور بچانے کی تلقین اور نصیحت بار بار فرمائی ہے۔
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ
اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ﴾ (المآئدة)
’’ اے ایمان والو!
تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ
مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِيْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ﴾
(المائدة)
’’ پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور سنتے چلے جائو اور اطاعت اختیار
کرو اور اپنی جانوں کے لیے خیر کو خرچ کرو۔‘‘
حضرات انبیاءo کے
لیے بھی کامیابی اور نصرت اللہ تعالیٰ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں مضمر تھی‘ اسی
لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدe کو
فرمایا کہ آپ اُمت کو آگاہ کردیجیے کہ:
﴿قُلْ اِنِّيْۤ اَخَافُ
اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ﴾ (الزمر)
’’آپ کہہ دیجیے
کہ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو(اپنے لیے)ایک عظیم الشان دن کے عذا ب
کا اندیشہ رکھتا ہوں۔‘‘
دنیا میں رہتے ہوئے انسان ہر وہ حربہ اختیار کرتا ہے جو اسے
نقصان ‘ تکلیف اور مصیبت سے بچانے کاسبب بن سکتا ہو۔لیکن حقیقی نقصان اور اذیت جو کہ
ابدی اور نہ ختم ہونے والی ہے اس سے بچنے کا کوئی سامان نہیں کررہا۔جس کا نتیجہ کل
قیامت کے دن سوائے پچھتاوے اور حسرت کے اور کچھ نہ ہوگا۔اس لیے اس دن کے پچھتاوے سے
بچنے کے لیے اور اپنی جان کے تحفظ کے لیے اللہ کی اطاعت وبندگی والی زندگی گزارنی چاہیے۔
درسِ حدیث
غاصبانہ قبضے کا انجام
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ اُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "اَخَذَ عَلَيْنَا
النَّبِيُّﷺ عِنْدَ البَيْعَةِ أَنْ لاَ نَنُوحَ". ] (بخاری)
سیدہ ام عطیہr سے
روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہe نے بیعت کے وقت ہم سے عہد لیا کہ ہم (بین) نوحہ نہیں
کریں گی۔ (بخاری)
اسلام سے قبل مرنے والے پر عورتیں نوحہ (بین) کرتی تھیں، اسلام
نے نوحہ کو ناجائز قرار دیا لہٰذا جب عورتیں رسول اللہe پر ایمان لانے کا اعلان کرتیں اور آپؐ ان سے بیعت لیتے
تو ان سے وعدہ لیتے کہ آج کے بعد بین نہیں کریں گی۔ عورتوں سے اس قسم کا عہد لینے
کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کہ دور جاہلیت میں رواج تھا کہ مرنے والے پر عورتیں اکٹھی
ہو کر بین کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے مرنے والوں پر اجتماعی بین کرتیں حتیٰ کہ نوحہ
نہ کرنے والیوں کو طعن کیا جاتا کہ ہم اس کے عزیز کے لئے نوحہ کرنے گئی تھیں وہ جواباً
ہمارے ہاں کیوں نہیں آئی۔ میت کے اوصاف بیان کر کے رونا اور زبان سے ایسے الفاظ بولنا
جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے نوحہ کہلاتا ہے، اسے رسول اللہe نے
حرام قرار دیا ہے۔ اسی بنا پر خصوصاً عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان سے عہد لیتے کہ بین
نہیں کرو گی۔ جس طرح عورتوں کے لئے بین منع ہے اسی طرح مردوں کے لئے بھی منع ہے۔ عورتیں
نرم دل اور نرم مزاج ہوتی ہیں لہٰذا چھوٹی سی پریشانی یا تکلیف پر رونے لگ جاتی ہیں
اور زبان سے بے سوچے سمجھے غلط کلمات کہنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے آپe عورتوں
سے وعدہ لیتے تھے۔ حضورe نے
فرمایا کہ میت پر رونے اور بین کرنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا ہے، یہ عذاب اس شخص
کے لئے جو وصیت کر کے مرا ہو کہ میرے مرنے پر بین کرنا۔ اجتماعی یا انفرادی نوحہ جائز
نہیں، غم کا اظہار اس انداز میں کرنا کہ اپنے بال نوچے جائیں، اپنی رخساروں کو پیٹا
جائے، زبان سے جاہلیت کے الفاظ نکالے جائیں اور اپنا گریبان پھاڑا جائے درست نہیں،
ایسا کرنے والوں کو رسول اللہe نے
اپنی امت سے خارج قرار دیا ہے۔ غم کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں، دل پریشان
ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن زبان سے ایسی باتیں کرنا جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے، گناہ
ہے۔ مرثیہ خوانی، نوحہ اور ماتمی جلوس اسلام کا حصہ نہیں بلکہ اللہ کی ناراضگی کا سبب
بنتے ہیں۔ اللہ کی رضا پر راضی ہونا اور مشکل و پریشانی پر صبر کرنا اور زبان سے انا
للہ وانا الیہ راجعون، پڑھنا عمدہ صفات ہیں، جنہیں اللہ پسند کرتا ہے۔ بلند آواز میں
رونا، زبان سے اللہ کی نافرمانی کے الفاظ ادا کرنا اور غم کے اظہار کے لئے غیر شرعی
انداز اختیار کرنا نوحہ کہلاتا ہے جو کہ حرام ہے۔
No comments:
Post a Comment