اسلامی سالِ نو
محرم الحرام کا مہینہ جہاں نئے اسلامی سال کی نوید لاتا ہے وہاں اس کی آمد سے
بہت سی المناک یادیں بھی تازہ ہو جاتی ہیں۔ اس لئے کہ اس مہینہ میں اسلام کی دو جلیل
القدر شخصیتوں (سیدنا عمر فاروقt اور سیدنا حسینt) نے نہایت مظلومیت اور کسمپرسی کے عالم میں جام شہادت نوش فرمایا۔
بلاشبہ یہ مہینہ انتہائی عظمت و احترام کا حامل ہے اور ان چار مہینوں میں شمار
ہوتا ہے جنہیں ’’اشھر حرم‘‘ یعنی حرمت کے مہینے جیسے لقب سے نوازا گیا ہے۔ وہ چار مہینے
ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں۔ اگرچہ علماء سلف اور محققین کی تحقیق کے مطابق
اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی برگزیدہ انبیاء کرامؑ کو اپنے لطف و کرم اور
فضل و احسان سے نوازا ہے مگر یہ مسلمہ امر ہے کہ واقعہ کربلا کو اس مہینہ کی عظمت و
رفعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس مہینہ کو ابتدائے آفرینش سے ہی فضیلت حاصل ہے۔ بایں
ہمہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی تاریخ کو جس چیز نے سب سے زیادہ
مؤثر بنایا ہے اس کے وہ ان گنت واقعات ہیں جو عزم واستقلال، استبداد شکنی، صبر و ثبات،
حق گوئی و بیباکی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور ایثار و جانثاری کی اعلیٰ ترین
مثالیں پیش کرتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ سیدنا حسینt کی شہادت تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک سانحہ ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان کربناک
لمحات میں سیدنا حسینt نے کیا کردار پیش کیا اور شریعت اپنے ماننے والوں سے کیا تقاضا کرتی ہے؟ سیدنا
حسینt نے آغازِ جنگ سے قبل سیدہ زینبr کو تلقین کی تھی کہ میں جس وقت دشمن کے ہاتھوں قتل کر دیا جائوں تو میرے غم
میں اپنا گریبان چاک نہ کرنا، نہ ہی اپنا چہرہ نوچنا اور نہ ہی رخساروں کو پیٹنا۔ حقیقی
بات یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے‘ وہ
ہر شعبہ میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور مصائب کے وقت صبر کی تلقین کرتا ہے اور آہ
وزاری سے منع کرتا ہے۔
کتاب وسنت میں محرم الحرام کی عظمت وفضیلت اور احترام کا تذکرہ موجود ہے۔ نبی اکرمe نے رمضان المبارک کے فرضی روزوں کے بعد محرم کے روزوں کا بہت زیادہ اجر وثواب
بتایا ہے۔ آپe ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ تشریف لائے تویہود ماہِ محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے
تھے۔ آپe نے پوچھا کہ ’’تم لوگ اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟‘‘ یہود نے جواب دیا کہ
یہ دن بڑی فضیلت کا حامل ہے‘ اس دن اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰu اور ان کی قوم کو نجات اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ سیدنا موسیٰu نے اس دن شکر کے طور پر روزہ رکھا‘ اس لیے ان کی اتباع میں ہم بھی روزہ رکھتے
ہیں۔ آنحضرتe نے فرمایا کہ ’’ہم سیدنا موسیٰu کے تم سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔‘‘ پھر آپe نے دس محرم کا خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام] کو بھی حکم دیا۔ آپe نے زندگی کے آخری دور میں فرمایا کہ ’’میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو دس محرم
کے ساتھ نو یا گیارہ محرم کو روزہ رکھوں گا۔‘‘ صحابہ کرام] سے بھی یہی فرمایا کہ ’’یہود کی مخالفت کرو اور عاشورہ سے قبل یا بعد ایک مزید
روزہ رکھو۔‘‘ اس کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ ’’اس سے سال گذشتہ کے گناہ معاف کر
دیئے جاتے ہیں۔‘‘
آئیے ذرا تاریخ پر نظر ڈالیں کہ ہجرت مدینہ سے سن ہجری کا آغاز کیوں ہوا؟ اس
کا فلسفہ کیا ہے؟ مؤرخین نے اپنے اپنے انداز اور تحقیق کے مطابق اس پر روشنی ڈالی
ہے کہ اسلام جہاں ہمارے اعمال و عقائد میں ایک طرح کا نظم و ضبط پیدا کرنا چاہتا ہے
وہاں وہ ہمارے ماہ و سال اور سن و تقویم کے تعین میں بھی چند خصوصیات کو اہمیت دیتا
ہے جو دوسروں سے مختلف ہیں۔ ممتاز عالم دین اور اہل قلم مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ رقم طراز ہیں کہ دنیا بھر کے مروجہ سنین کی ابتدا
پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ کوئی سن کسی بڑے آدمی یا بادشاہ کی پیدائش، وفات یا
تاجپوشی سے شروع ہوتا ہے یا پھر کسی ارضی یا سماوی حادثہ مثلاً زلزلہ، سیلاب یا طوفان
کی تاریخ ہے۔ سن ہجری کو ہی یہ اعزاز و شرف حاصل ہے کہ اس کا آغاز دین اسلام کی سربلندی
کی خاطر اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر چلے جانے سے ہوا ہے۔ اپنے وطن کو ہمیشہ کے لیے خیر
باد کہنا ایک بڑی قربانی ہے اور ایسے اوقات میں ہر شخص کا دل بھر آتا ہے۔ نبی اکرمe نے بھی ہجرت کے وقت مکہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ
ہے اور مجھے پیارا لگتا ہے‘ اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کہیں نہ رہتا۔‘‘
ظاہر ہے کہ ترکِ وطن پر انسان صرف اسی صورت میں آمادہ ہو سکتا ہے جب وہ انتہائی مجبور
ہو یا کوئی عظیم مقصد اس کے پیش نظر ہو اور مسلمانوں کے لئے یہ مقصد دین اسلام کی سربلندی
تھا۔ ہجرت کے واقعہ کو سنہ ہجری کی بنیاد قرار دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں
کو ہر نئے سال کے آغاز پر یہ پیغام یاد رہے کہ انہیں اسلام کی سربلندی کے لئے بڑی
سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
یہ بات ظاہر ہے کہ ہجرتِ مدینہ تاریخ اسلام کا بڑا اہم واقعہ ہے۔ سن ہجری کی ترویج
سیدنا عمر فاروقt کی فراست کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے واقعہ ہجرت سے اسلامی سن کا آغاز
کر کے کتنی بڑی بصیرت کا ثبوت دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کا احساس بیدار ہوتا
ہے، جب زندگی کا ایک خاص نقطہ نظر اس پر واضح ہوتا ہے اور وہ اسے اس حد تک مجبور کرتا
ہے کہ وہ اس کی کامیابی اور بقا کے لئے اپنی زندگی کی پوری ترتیب کو بدل دینے پر آمادہ
ہو جائے تو سمجھ لیجئے کہ اب اس فوز و فلاح میں کوئی شبہ نہیں رہا۔ لہٰذا مسلمانوں
نے اگر ہجرت پر اپنے سن کی بنیاد رکھی ہے اور محرم الحرام کو اس کا پہلا مہینہ قرار
دیا ہے تو گویا اس میں یہ پیغام مضمر ہے کہ اجتماعی زندگی کے لئے یہ اقدام بڑی اہمیت
کا حامل ہے۔ آخر میں ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے اسلامی سال کو پاکستان، اسلامیان
پاکستان، اسلام اور عالم اسلام کے لئے استحکام، کامیابی اور کامرانی کا موجب بنا دے۔
آمین!
No comments:
Post a Comment